معجزے کی سائنسی تشریح

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
جب سے انسانوں کی ایک بڑی آبادی نے اس مادی دنیا کو سمجھنے پر زور دیا اور اس کو اپنے فوائد کے لئے استعمال کرنا شروع کیا تو مذاہب پر بہت سارے نئے اعتراضات کچھ زیادہ ہی خود اعتمادی لے کر حاضر ہوا۔ اس کے نتیجے میں کچھ مسلمانوں کو جوابات دینے میں کچھ زیادہ ہی دقتیں پیش آئیں اور کچھ مخلص مسلمانوں نے تو جواب دینے میں ناکامی کی وجہ سے دین کی بنیادوں پر ہی انتہائی قسم کے سمجھوتے کر لئے۔ اس کی اصل وجہ مسلمانوں کا ان جدید علوم کی حقیقت سے نابلد ہونا اور خود اعتمادی کی شدید کمی تھی جبکہ سائنسی علوم کو پیش کرنے والے اپنی علمیت پر بہت پر اعتماد تھے۔ اگرچہ بعد کے ادوار میں شکوک و شبہات کا بخوبی جواب دے دیا گیا لیکن ہمارا ایک طبقہ ابھی بھی شکوک و شبہات میں ہی جی رہا ہے۔
چونکہ باطل ایک ہی حالت میں نہیں رہتا، بھیس بدل بدل کر اور مختلف وسائل کو استعمال کر کے آتا ہے، اس لئے ضرورت محسوس ہوئی کہ جو پرانے سوالات نئی نسل کے سامنے بالکل نئے انداز میں سوشیل میڈیا کے ذریعے سے سامنے آرہے ہیں ان کا اسی طرح جواب دیا جائے۔
تو سوال یہ ہے کہ آیا معجزات کا صادر ہونا سائنس سے مطابقت رکھتا ہے؟
اس بارے میں پہلے تو معجزات و کرامات اور سائنس کی حقیقت کو پوری طرح سمجھنا ضروری ہے۔
کلام پاک میں انبیاء کے معجزات کے جو واقعات پیش کئے گئے ہیں ان کو وسیع تر معنوں میں دو اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
اول یہ کہ جب رسول اپنی نبوت کا دعوی پیش کرتے تھے تو یہ ایک بہت بڑا دعوی ہوتا تھا۔ ایک انسان جب یہ دعوی کرے کہ میں رب العالمین کا نمائندہ ہوں اور اس کی طرف سے اس کے احکامات سنانے جارہا ہوں تو یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ رسول کے اس دعوے کی دلیل کیا ہے۔ اس کے لئے اگرچہ رسول کی سیرت، اخلاق، طبعی سلامت روی اور رسول کا سنایا ہوا پیغام خود سے دلیل ہوتا تھا لیکن ہر ذہن اس دلیل سے مطمئن نہیں ہوتا تھا اس لئے رسول کے ذریعے کوئی ایسا خرق عادت واقعہ پیش کیا جاتا جو کہ معلوم فطری قوانین کے مطابق ناممکن ہوتا۔ لیکن اس بات کا فیصلہ کہ آیا ایسا کوئی خرق عادت واقعہ پیش کرنا ضروری ہے یا نہیں اس کا فیصلہ رب العالمین خود کرتا تھا۔ اور اس واقعہ کا اصل فاعل اللہ ہی ہوتا تھا۔ مثلاً عیسی، صالح اور موسی علیہم السلام سے متعلق قرآن پاک میں ایسے واقعات کا ذکر ہے، لیکن نوح، ہود، لوط علیہم السلام کے معاملے میں ایسے کسی واقعے کا ذکر نہیں ہے۔ اس ضمن میں ایک اور بات سمجھنے کی ہے کہ یہ خرق عادت واقعات خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لئے پیش نہیں کئے گئے، بلکہ اصلاً رسول کو رسول ہونے کی دلیل کے طور پر اور ضمناً رسول کی تعلیمات کے حق ہونے کی دلیل کے طور پر پیش کئے گئے۔ یہاں پر یہ واضح ہو کہ کسی نبی نے یہ دعوی نہیں کیا کہ وہ جب چاہے اپنی مرضی سے خرق عادت کام کر کے دکھا سکتا ہے۔
دوسری قسم کے معجزات وہ ہیں جو کہ اللہ کی طرف سے کسی نبی کی مدد و نصرت کے لئے پیش آئے۔ اس مدد میں نبی کو تعلیم دینا، نبی کے دل میں اطمینان و سکینت کا پیدا کرنا، نبی کو دشمنوں کی دشمنی سے بچانا یا نبی کی کسی خاص ضرورت کو خرق عادت طریقے سے پورا کرنا وغیرہ بھی شامل ہیں(مثلا واقعہ معراج ، بدر و ثور میں نصرت)۔ اس قسم کا معجزہ بھی کسی انسان کی مرضی پر منحصر نہیں ہے کہ وہ جب چاہے اس کو پبلک مقامات پر یا لیباریٹری میں اس کا مظاہرہ کر کے دکھائے۔
کچھ معجزات ان دونوں قسموں پر محیط ہیں جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر آگ کا ٹھنڈا ہونا۔
کرامات ان خرق عادت چیزوں کو کہا جاتا ہے جو کہ کسی غیر نبی کے ذریعے سے پیش آئے۔ چونکہ کسی غیر نبی کےلئے پہلی قسم کی خرق عادت چیز کی ضرورت نہیں ہوتی اس لئے کرامات کی شکل میں صرف دوسری قسم باقی رہ جاتی ہے۔
جدید سائنس علمیت کی ایک شاخ ہے جو کہ مشاہدات اور تجربات پر مبنی ہے۔ کسی چیز کے سائنس ہونے کے لئے ضروری ہے کہ علم کی بنیاد مشاہدات اور تجربات پر ہو۔ اور ان مشاہدات اور تجربات کا صرف ایک بار ہونا کافی نہیں ہے بلکہ بقدر ضرورت اس کو دہرانا بھی ضروری ہے۔ اور مزید یہ کہ ان مشاہدات اور تجربات سے جو علمی نتائج اخذ کئے جاتے ہیں اس کی بنیاد پر آگے کی پیشن گوئی بھی ممکن ہو۔ علم و تحقیق میں سہولت کے لئے سائنس کچھ بنیادی اصول بھی طئے کرتا ہے۔ مثلاً یہ دعوی کہ مادہ اور قوت نہ پیدا کی جاسکتی ہے اور ختم کی جاسکتی ہے۔ اس کائنات کے اندر جو بھی مادہ اور قوت ہے وہی چیز اپنی شکلیں تبدیل کرتی رہتی ہے۔ سائنس کا یہ بھی دعوی ہے کہ کائنات ایک بند نظام (Closed system)ہے۔ یعنی سائنس کا دعوی ہے کہ اس کائنات کے اندر جو بھی ہوتا ہے اس کی علت اسی کائنات کے اندر موجود ہے۔ واضح ہو کہ یہ دونوں نکات یعنی مادہ اور قوت کا کائنات کے اندر محدود ہونا اور کائنات کا ایک بند نظام ہونا، وہ بنیادی مفروضات ہیں جن پر سائنسی کی پوری عمارت کھڑی ہے۔
سائنس کے یہ دونوں اصول سائنسی تحقیق کیلئے بہت بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ اگر سائنسی تحقیق کے لئے پہلے ہی سے یہ اصول نہ گھڑے ہوتے تو اتنی سائنسی ترقی ممکن نہ ہوتی۔ اگر انسان ہر واقعے کو کائنات سے باہر کی کسی با ارادہ ہستی سے منسوب کرتا تو پھر وہ قواعد اور قوانین جن کے تحت کائنات چلتی ہے کا دریافت کیا جانا انتہائی مشکل ہوتا۔ پھر انسان کسی قانون کی دریافت کے بجائے اس بیرونی قوت کے ارادے کو معلوم کرنے کی طرف متوجہ ہوجاتا۔
جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا کہ سائنسی تحقیق میں تجربہ و مشاہدہ بنیادی اہمیت رکھتا ہے اس لئے سائنس کا بہت بڑا حصہ استقرائی منطق پر مبنی ہے۔ یعنی سائنسدان ایک نتیجے کو اخذ کرنے کیلئے مختلف تجربات کر کے اس کو دہراتے ہیں اور جب تمام تجربات اس نتیجے کی تائید کرتے ہیں تو اس نتیجے کی توثیق کردیتے ہیں کہ ہمیشہ اس تجربے کا لازمی طور پر یہی نتیجہ نکلے گا۔
اس طرز تحقیق میں مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ محدود تجربے کو بنیاد بنا کر لا محدود نتائج اخذ کئے جاتے ہیں۔
اس طرز تحقیق کے ساتھ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ایک نتیجے کی وجہ معلوم ہوئے بغیر صرف تجربے کی بنیاد پر اس نتیجے کو قبول کر لیا جاتا ہے۔
مثلا جب نیوٹن نے یہ دیکھا کہ درخت سے سیب ہمیشہ نیچے گرتا ہے، اونچائی پر چڑھنے کے لئے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔ سیارے سورج کے گرد گھومتے ہوئے اپنے مدار سے باہر نہیں نکل پاتے اگرچہ عام طور پر چیزیں خط مستقیم میں ہی سفر کرتی ہیں تو یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مادہ اپنی کمیت کے مطابق دوسرے مادے کو کھینچتا ہے۔ اس کھینچنے کی خصوصیت کو کشش ثقل کہتے ہیں۔ اور اسی بنیاد پر ہم علم ریاضی کے فارمولے کو استعمال کرتے ہوئے کسی جسم کی حرکت کے بارے میں پہلے ہی سے بتا سکتے ہیں اس کی حرکت کیسی ہوگی۔ لیکن اس تحقیق سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ مادہ کیوں دوسرے مادے کو کھینچتا ہے۔
بہت سارے معاملات ایسے ہیں جو کہ ہمارے شعور سے گہرا تعلق رکھتے ہیں، لیکن ہم اوپر بیان کئے گئے سائنسی علوم کے دائرے میں اس کی تشریح نہیں کرپاتے۔ مثلاً یہ سوال کہ کائنات ہمیشہ سے وجود رکھتی ہے یا کسی محدود وقت سے پہلے بنی، کائنات کا کوئی خالق ہے یا نہیں، انسانی شعور کی کیا حقیقت ہے؟ آیا یہ ہمارے حیاتیاتی دماغ کا ہی حصہ ہے یا اس سے خارج میں کوئی چیز۔ اس طرح کے معاملے میں اپنی عقل کو استعمال کر کے غور و فکر کیا جاتا ہے اور استخراجی منطق کو استعمال کر کے نتائج اخذ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کی وجہ ہمارے مشاہدے اور تجربے کا بہت محدود ہونا ہے۔ اس کو معقولات کہتے ہیں۔
علم فلسفہ کی ایک بنیادی بحث یہ ہے کہ علم کا منبع تجربات ہیں یا معقولات۔ ہم فی الحال اس بحث میں نہیں پڑتے، لیکن یہاں پر اس بات کی وضاحت کرنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ سائنسی علوم کی کچھ حدود ہیں۔ سائنس فی نفسہ تمام علوم کا احاطہ نہیں کرتی۔
چونکہ سائنس اوپر بیان کردہ کچھ بنیادی مفروضات رکھتا ہے اس لئے ہم کبھی یقینی طور پر نہیں کہہ سکتے کہ سائنسی دریافت سے جو علم حاصل ہوا وہ حتمی ہے۔
چونکہ سائنس محدود تجربات سے لاحدود نتائج اخذ کرتی ہے اس کی وجہ سے ہم کبھی نہیں کہہ سکتے کہ اگر حالات یا دئیے گئے پیرامیٹر میں کوئی جوہری تبدیلی آگئی تو نتیجہ ہمارے علم کے مطابق ہی نکلے گا یا نہیں۔
چونکہ سائنس کسی نتیجہ کی وجہ بتانے سے قاصر ہے اس لئے ہم کبھی نہیں کہہ سکتے کہ جو چیز سائنس کے نزدیک آج حتمی کل بھی حتمی ہی رہے گی۔ سائنس کسی ظاہرے کی وجہ بتاتی ہے تو پھر اس کے جواب میں ایک اور “کیوں” چھپا ہوا ہوتا ہے۔ جب اس نئے کیوں کا جواب ملتا ہے تو اس کے پیچھے ایک اور کیوں ضرور ہوتا ہے۔
سائنس کی غیر یقینیت کی ایک مثال ملاحظہ فرمائیں۔
جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا کہ نیوٹین نے اپنے تجربات کی بناء پر کشش ثقل (Newton’s law of gravitation)دریافت کیا۔ اسی طرح نیوٹن نے حرکیات کے تین مشہور کلیے (Newton’s laws of motion)دریافت کئے۔ جس کی وجہ سے نیوٹن کو دنیا کا سب سے عظیم تر سائنسدان مانا جاتا ہے۔
لیکن جب تکنالوجی میں زیادہ ترقی ہونے کی وجہ سے درست ترین پیمائش کے نئے طریقے ایجاد ہوئے تو پتہ چلا کہ نیوٹن کے کلیات سے اخذ ہونے والے نتائج میں واضح طور پر غلطی موجود ہے جو کہ نئے پیمائش کے طریقوں سے دیکھی جاسکتی ہے۔ بیسویں صدی کے اوائل میں آئن سٹاین نے دو نظریات پیش کئے جنہیں Special theory of relativity اور General theory of relativity کا نام دیا جاتا ہے۔ عام نظریہ اضافت یا General theory of relativity کے مطابق جہاں پر بھی مادہ ہوتا ہے وہاں پر خلا مادے کی طرف ٹیڑھا ہو جاتا ہے۔ اس طرح ویسے تو ایک جسم body خلا میں سیدھ میں ہی جارہا ہوتا ہے لیکن چونکہ خلا ہی ٹیڑھا ہوگیا ہے اس لئے وہ مادے کی طرف جھک جاتا ہے۔
اسی طرح حرکیاتی تحقیق کرتے ہوئے پتہ چلا کہ جب کوئی جسم body بہت زیادہ رفتار سے حرکت کرتی ہے تو نیوٹن کا دیا گیا فارمولا فیل ہوجاتا ہے۔ آئن سٹائن نے تحقیق کر کے بتایا کہ body کی رفتار روشنی کی رفتار سے جتنی زیادہ قریب ہوگی نیوٹن کے فارمولے میں اتنی زیادہ غلطی ہوجائے گی۔ اس کے حل کےلئے آئن سٹائن نےنئی تحقیق پیش کی جسے خاص نظریہ اضافت کہا جاتا ہے ۔ اس نظریے کے مطابق کسی جسم کی رفتار کی بنیاد پر فاصلہ اور وقت سکڑ کر چھوٹے ہوجاتے ہیں۔اسی نظریے کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ وقت بھی خلا کا ایک بعد (Dimension) ہے۔ یعنی جس طرح لمبائی چوڑائی اور اونچائی خلا کے ابعاد ہیں اسی طرح وقت بھی خلا کا ہی ایک حصہ ہے۔ اسی نظریے کا ایک دوسرا نتیجہ یہ بھی نکلا کہ مادہ اور قوت ایک ہی چیز کی دو مختلف شکلیں ہیں۔ مادے کو قوت میں تبدیل کیا جاسکتا ہے اور قوت کو مادے میں۔ اسی نظریے کو بنیاد بنا کر ایٹمی تحقیق کی گئی اور یورینیم نامی مادے کو جزوی طور پر قوت میں تبدیل کردیا گیا۔ جس کو ایٹم بم اور نیوکلیر ریکٹر میں استعال کیا جاتا ہے۔
ان دونوں نظریات نے سائنسی دنیا میں ایک بڑا انقلاب برپا کردیا جس کی وجہ سے انسان وجود، وقت، خلا اور مادے کو بالکل ہی دوسرے انداز میں دیکھنے کے قابل بن گیا۔
آگے بڑھنے سے پہلے یہ بھی جان لیں کہ آئنسٹائن کے ہی دور میں نظریہ اضافت سے آگے بڑھ کر ایک تھیوری ایجاد ہوئی جسے کونٹم تھیوری Quantum Theory کہتے ہیں۔ اس نے مزید کچھ گتھیاں سلجھائیں تو مزید کچھ الجھنیں پیدا کیں۔قوانٹم فزکس دراصل مادے اور قوت کے بنیادی ذرات سے متعلق نئی تحقیق تھی۔ اب تک سائنس کا نظریہ تھا کہ کائنات میں موجود ہر چیز ایک لگے بندھے قاعدے کے مطابق چلتی ہےاور اگر ہمیں ان قواعد کا علم ہو تو ہر ہر ذرے کی حرکت یا رویے کے بارے میں بالکل صحیح پیشن گوئی کی جاسکتی ہے۔ لیکن کوانٹم فزکس نے ثابت کیا کہ انتہائی بنیادی ذرات کی سطح پر مادے کا رویہ بے ترتیب اور غیر متعین (Random) ہوتا ہے۔ ہاں ان ذرات کے مجموعی رویے یا حرکت کے اوسط کا تعین کیا جاسکتا ہے۔
آئن سٹائن کے عام نظریہ اضافت اور قوانٹم تھیوری میں تناقض ہے اور اب تک اس تناقض کو دور کرنے کی راہ نہیں نکل سکی۔ اس تناقض کو دور کرنے کے لئے سائنسدانوں کی تجویز یہ ہے کہ خلا کے چار ابعاد(Dimensions) کو ماننے کے بجائے مزید ابعاد کو مانا جائے جن کا ادراک انسان کا شعور نہیں کرسکتا۔
اوپر بیان کردہ کشش ثقل کی مثال سے کچھ باتیں واضح ہوتی ہے۔
چیزوں کا نیچے گرنا عام مشاہدے کی چیز ہے جس سے ہر کوئی واقف ہے۔ جب اشیاء اورقوانین فطرت کے بارے میں انسان متجسس ہوا تو اس وقت کی معلومات کے پیش نظر کشش ثقل کا نظریہ تیا ر ہوا اور تقریباً تین صدیوں تک اس کو قابل قبول سمجھا گیا۔
لیکن جب نئی معلومات اور پیمائش کے آلے تیار ہوئےتو جو نظریہ تین صدیوں تک قابل قبول تھا اس کی غلطی واضح ہوگئی۔
اس کے بعد نئے نظریے کی تدوین ہوئی جو کہ ریاضیاتی حساب سے تو بالکل صحیح ہے لیکن کونٹم فزکس کا نظریہ اس نظریہ کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا۔ ان دونوں نظریات کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کے لئے یہ نظریہ پیش کا گیا کہ خلا کے چار سے زیادہ ابعاد (Dimensions) ہیں۔
اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرنے میں بالکل ہی صحیح ہیں کہ سائنس کی کوئی بھی تحقیق حتمی نہیں ہے۔ جب تک نئی دریافتیں اور نئی معلمومات حاصل ہوتی رہیں گی سائنس اپنے نظریات بدلتی رہے گی۔ ہم کبھی بھی اس پوزیشن میں نہیں ہوں گے کہ ہم یہ دعوی کر سکیں کہ سائنس نے کسی بھی قانون کی مکمل حقیقت دریافت کرلی۔
سائنس کی دریافتوں میں تضاد اور خلا موجود ہوتے ہیں اور سائنس دان ان تضادات میں مطابقت پیدا کرنے کی تگ و دو میں مصروف رہتے ہیں۔
چونکہ موجودہ دور کی محیر العقول دریافتوں کی نظیریں تاریخ انسانی میں نہیں ملتی اس لئے کچھ سائنس گرد اس سائنسی ترقی سے شدید متاثر ہوکر یہ نتیجہ اخذ کر لیتے ہیں کہ اس دور میں معقولات غیر ضروری چیز ہیں اور سائنسی طریقہ ہر قسم کی علمی ضرورت کو کفایت کر سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان محیر العقول دریافتوں کے باوجود یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ سائنس کی ہر نئی دریافت قانون فطرت کی ایک پرت کو کھول دیتی ہے اور اس کے نیچے ایک اور پرت ہوتی ہے جو اس بھی زیادہ دبیز ہوتی ہے۔ اس لئے انسانی علوم سے معقولات کو ختم کر کے سائنس کو معقولات کی جگہ دینا ایک بے کار کی کوشش ہے۔ سائنس نے چاہے جتنی ترقی کر لی ہو، ابھی معقولات کا متبادل بننے کا دعوی بہت جلد ہے۔ اس لئے سائنس کا دائرہ اپنی حدود میں ہی رہے گا۔ ہاں اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سائنسی ترقی نے ہمارے رہن سہن اور انداز فکر میں بہت زیادہ اثر ڈالا ہے۔ لیکن یہ دعوی کہ سائنس کسی بھی چیز کی مکمل حقیقت معلوم کرسکتی ہے ایک بے بنیاد دعوی ہے۔ سائنس آگہی کا ایک آلہ (Tool) ہے جس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں۔
اب آتے ہیں معجزے کی سائنسی توجیہہ پر۔ اس بارے میں دو ممکنہ مؤقف ہوسکتے ہیں۔
ایک یہ کہ جو بھی معجزے ہوئے وہ قانون فطرت کے مطابق ہی ہوئے۔ لیکن چونکہ ہم ابھی قانون فطرت سے مکمل واقفیت نہیں رکھتے اور نہ ہی اس کا دعوی کرتے ہیں اس لئے ان معجزات اور معلوم قوانین فطرت کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ یہاں پر یہ واضح ہوکہ معجزات کے قوانین فطرت کے مطابق ہونے سے معجزے کی اصل حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑھتا۔ مثلاً اگر کوئی کل کو یہ ثابت کرے کہ موسی علیہ السلام کے لئے دریا میں راستہ بنانے کی سائنسی توجیہہ ممکن ہے پھر بھی ان راستوں کے بننے اور عین موسی علیہ السلام کا اپنی قوم کے ساتھ عین اسی وقت دریا کے پاس پہونچنے کی ٹائمنگ کی توجیہہ صرف ارادہ خداوندی کے ذریعے ہی ہوسکتا ہے۔ یہ حسن اتفاق بہرحال اخلاقی ہی ہے نہ کہ سائنسی۔
اس بارے میں دوسرا مؤقف یہ ہوسکتا ہے کہ اگرچہ اللہ کے حکم سے کائنات کا ذرہ ذرہ ایک لگے بندھے سائنسی قانون کے مطابق چل رہا ہے، اس کا قطعی مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ کی مخلوقات اللہ کے حکم سے ان قوانین سے انحراف نہیں کرسکتی۔ یہ ماننا کہ تمام مخلوقات قوانین فطرت کے مطابق ہی چلتی ہے اور اس سے انحراف نہیں کرتی، سائنس کا ایک مفروضہ ہے جس کے بغیر سائنس ایک قدم بھی آگے نہیں چل سکتی۔ لیکن یہ دعوی کے یہ کلی و بدیہی حقیقت ہے ایک لغو ترین دعوی ہے۔
اس لئے معجزات کی سائنسی توجیہہ دینے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ جب سائنس یہ دعوی کرنے کے قابل ہو جائے کہ اس نے کائنات کی تمام حقیقتوں کو دریافت کے لیا تب سامنے آئے۔ ہم پھر بات کر لیتے ہیں۔
اوپر یہ واضح ہوچکا ہے کہ دونوں قسم کے معجزات میں صاحب معجزہ یہ دعوی نہیں کرسکتا کہ وہ جب چاہے اپنی مرضی سے معجزے دہرا سکتا ہے۔ اس لئے معجزے تجرباتی سائنس کے دائرے میں نہیں آتے۔
اس تناظر میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سائنس کی بنیاد پر معجزے پر اعتراض کرنے والے بنیادی طور پر دو غلطیوں پر اصرار کرتے ہیں۔
اول یہ کہ وہ سائنسی دریافتوں کو حتمی سمجھتے ہیں اور دوم یہ کہ وہ تمام علوم کو نیچرل سائنس کے دائرے کے اندر سمجھتے ہیں۔
اوپر بیان کردہ پہلے مؤقف کو ماننے کی صورت میں یہ بات غیر ثابت شدہ ہوجاتی ہے کہ سائنس اور معجزے میں تناقض موجود ہے۔ اور دوسرے مؤقف کو ماننے کی صورت میں اس بات کی ضرورت ہی نہیں رہتی کہ معجزے اور سائنس میں مطابقت پیدا کی جائے۔کسی چیز میں اندرونی تضاد ہونا ایک علیحدہ بات ہے اور کسی چیز کا سائنس کے مطابق نہ ہونا ایک الگ بات۔
اس سطح پر جاکر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر معجزے کو دوبارہ تجربہ کر کے دہرایا نہ جائے تو پھر معجزے کے ماننے کے کیا معنی ہیں۔ اول تو یہ بات واضح ہونی چاہئے کہ معجزے کو ماننا کوئی اسلام کی بنیادی دعوت نہیں ہے۔ جن لوگوں نے معجزے کا مشاہدہ کیا ان کے لئے معجزہ نبی کی نبوت کی دلیل ہے۔ لیکن خاتم الانبیاء کے اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد ہم یہ دعوت نہیں دیتے کہ چونکہ نبی نے شق القمر کا معجزہ کیا ہے یا نبیﷺ نےمعراج کا سفر کیا ہے اس لئے انہیں نبی مانا جائے۔ آج کے دور میں معجزے پر ایمان کی حیثیت ایک عقیدے کی بحث ہے نہ کہ نبوت کی دلیل۔ ہم معجزے کو اس لئے مانتے ہیں کیوں کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ فطری قوانین جن کی تگ و دو سائنس کرتا ہے وہ اللہ کے ہی بنائے ہوئے ہیں اور اللہ چاہے تو جب چاہیں انہیں تبدیل کردے۔ یہاں پر واضح ہو کہ کچھ لوگ سائنسی قانون کو سنت اللہ قرار دے کر یہ دعوی کرتے ہیں کہ اللہ کی سنت کبھی تبدیل نہیں ہوسکتی۔ کلام پاک میں سنت اللہ کسی اور ہی چیز کو کہا گیا ہے اس لئے اس بارے میں کسی قسم کی الجھن کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔ سنت اللہ وہی کچھ ہے جس کو اللہ اپنی سنت قرار دے۔
آج کے دور میں ہم اسلام کی دعوت قرآن کی بنیاد پر دیتے ہیں جو کہ خود نبی کا ایک زندہ معجزہ ہے اور آج بھی قابل مشاہدہ ہے۔ یہ قرآن انسان کی منطقی، جمالیاتی، اخلاقی اور کلامی حس سے اپیل کرتا ہے۔ جو لوگ ہدایت کے لئے حسی معجزات کا تقاضا کرتے ہیں تو دراصل ایمان بالغیب کا انکار کرتے ہیں۔ یعنی ان کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ جس چیز پر ایمان لانا ہے اس کے لئے معقول دلیل نہیں بالکل مشاہدہ ضروری ہے۔ قرآن کےبالکل ہی ابتداء میں یہ واضح کردیا گیا ہے کہ ہدایت کےلئے شرط ایمان بالغیب ہے۔ معجزے کے ذریعے مشاہدے کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ اس کے بعد مہلت ختم ہوجاتی ہے۔ اس لئے اللہ کی حکمت یہی رہی کہ اب انسان اپنے شعور، جمالیاتی اور اخلاقی حس کی بنیاد پر ایمان لے آئے۔
ہماری اس بحث سے کچھ نتائج واضح ہو جاتے ہیں۔
۱۔ فی زمانہ ہماری دعوت کی بنیاد حسی معجزات نہیں بلکہ انسانی شعور سے اپیل کی بنیاد پر ہے۔ آج کے دور میں معجزات کی حقیقت ایک عقیدے کے طور پر ہے نہ کی دعوت کی بنیاد کے طور پر۔ معجزے صرف وقتی طور پر غیب کے پردے کو ہٹانے کے لئے تھے۔ ہدایت کے لئے ایمان بالغیب ہی شرط ہے۔
۲۔ کسی چیز کا مشاہدہ یا تجربہ نہ ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ چیز خلاف عقل ہے۔علوم کی بہت ساری جہتیں صرف معقولات پر انحصار کرتی ہیں۔
۲۔ سائنسی اعتبار سے یہ دعوی کرنا درست نہیں ہے کہ سائنس حقیقت کے تمام جوانب سے واقف ہوچکی ہے اس لئے معجزے کے صحیح ہونے کے لئے معلوم سائنسی اصولوں کے مطابق ہونا کوئی ضروری نہیں۔ موجودہ سائنسی علوم میں خود اس کے اندرونی تضادات موجود ہیں۔
۳۔ سائنس انسانی علوم کی صرف ایک جہت ہے۔ انسانی علوم کے کچھ پہلو سائنس کے دائرے میں نہیں آتے۔ اس لئے معجزات کی سائنسی تشریح غیر ضروری ہے۔
۴۔ اسلامی عقیدے کے مطابق معجزات اور کرامات کو کوئی انسان اپنی مرضی سے تجربہ کر کےاس کا مظاہرہ نہیں کرسکتا۔ اس لئے معجزے کو سائنسی تجربہ کر کے ثابت کرنے کوشش عبث ہے۔ جب دعوی ہی موجود نہیں تو ثبوت کی طلب بے معنی ہے۔
 
Top