ذکرمظاہرعلوم کے دربانوں کا
سلسلہ وار (۸)
ناصرالدین مظاہری
۲۳؍ذوالقعدہ ۱۴۴۳ھ
بھائی محمدعبداللہ مرحوم
(گزشتہ سے پیوستہ)
قصۂ کوتاہ ’’ذکرمظاہرعلوم کے دربانوں کا‘‘میں نے چھیڑ تودیاہے لیکن حالات اچھے نہیں ہیں ،مجھ غریب اورکم عمرکا دماغ کہاں تک ساتھ دے،سچی بات یہ ہے کہ دربانوں کے جوقصے اورواقعات اپنے اساتذہ اور احباب سے سنتارہا اور ذہن میں محفوظ رہ گئے ان ہی کومیں نے گروپ میں پیش کردیا،بظاہرحالات ایسے محسوس ہورہے ہیں کہ یہ سلسلہ دیرتک چلے گانہیں کیونکہ نہ تو میرے پاس ایساجھولا ہےجس کو اٹھا کر چل پڑوں،نہ ایساریلاہے کہ خس وخاشاک کوبہاکرلے چلوں۔بہت سے بڑے بوڑھوں کوکھودکریدکرکچھ واقعات حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن بمشکل دوچارواقعات ہی کام کے مل سکے ،اس طرح کہاں کام چلے گا۔
اِسی ادھیڑبن میں تھا کہ یادآیا ابھی دوسال پہلے مولانا محمد عبداللہ طارق دہلوی مدظلہ کی کتاب’’مظاہرعلوم کادور طالب علمی چندیادیں‘‘شائع ہوئی تھی ،اس میں بھی مولانا نے مظاہرعلوم کے دربان بھائی محمدعبداللہ کاذکرکیاہے ۔بھلے ہی اس ذکرکا انداز دوسرا ہے لیکن بہرحال دسترخوان پرجہاں بہت سی مرغن،ملین،ملون،مفرح اورلذیذ غذائیں ہوتی ہیں وہیں کسی نہ کسی کونے کھدرے میں چھوٹی سی کپ اورپیالی میں چٹنی بھی موجودرہتی ہے، ہر لذیذ غذا پر زبان چٹخارے مارتی ہے لیکن جب چٹنی کانمبرآتاہے تواس بار چٹخارے کی آوازمیں تبدیلی آجاتی ہے ۔خوب دیکھاغورکیااورخودتجربہ بھی کیاکہ اتنی انواع اوراقسام کے درمیان چٹنی کاوجودبہرحال ہوتاہے ،جواپنی حاضری مکمل طورپردرج کراتی ہے ،ایک بارنہیں بارباردرج کراتی ہے ،بلکہ چٹنی کادرجہ دُرج سے کم نہیں جس کے بغیرحقہ کی نے،چلم،توی سب کچھ بے معنی ہوکررہ جاتی ہے ،بہت سے افرادتوصرف چٹنی اورروٹی پرگزارا کرلیتے ہیں ۔اس لئے میں مولانامحمدعبداللہ طارق دہلوی مدظلہ کی اس کتاب سے دوواقعات پیش کرناچاہتاہوں ۔پہلے واقعہ میں بھائی عبداللہ کاذکرضمناًآیاہے لیکن ذکربہرحال ذکرہے ضمناًآئے چاہے مستقلاً آئے ۔کم ازکم میرے لئے نعمت غیرمترقبہ سے کم نہیں کیونکہ دونوں واقعات کے سلسلہ میں مجھے نہ تومحنت کرنی پڑی،نہ زحمت اٹھانی پڑی،بالکل خلاف توقع حاصل ہونے والی یہ دولت ’’نعمت غیرمترقبہ‘‘کاحقیقی مصداق ہے۔
حضرت مولاناعبداللہ طارق اپنے دور طالب علمی کاذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’دورے کے سال یا شاید اپنے دوسرے دورمیں مدرسۂ قدیم (یعنی احاطۂ دفتر) کے اپنے کمرے میں ہمیں بجلی کاکوئی کام کرناتھا اس کیلئے کچھ دیر تو مَین لائن بند کرنے کی ضرورت تھی لیکن وہاں لکڑی کا بکس بناہواتھا اوراس پر تالا رہتاتھا، دربان مُلاَّ عبد اللہ ذراعجیب مزاج کے آدمی تھے، کسی بھی بات کیلئے آسانی سے تیارنہیں ہوتے تھے، ہربات کیلئے پہلے انکے یہاں انکار ہوتاتھا،ہم نے سوچا کہ چالُو لائن میں کام بجلی والے تو کرلیتے ہیں ہم اناڑیوں کیلئے خلاف احتیاط ہے۔
چنانچہ تجویز یہ ہوئی کہ فیوز اُڑا دیا جائے، اوراسکا طریقہ یہ طے کیا گیا کہ بلب کے اوپر ایک چونّی یا پیسہ رکھ کر اسے ہولڈرمیں لگادیاجائے اور دورکھڑےہوکرسوئچ کھول دیاجائے ایک لڑکا باہرجاکرمین سوئچ اورمیٹر کے پاس کھڑا ہوگیا کہ دیکھیں محنت کامیاب بھی ہوتی ہے یا نہیں؟
چنانچہ سوئچ کھول دیا گیا اورحسب توقع جھٹکے سے فیوز اُڑگیا اورہم نے آرام سے اپنا کام کرلیا شام کوجب لائٹ جلنے کا وقت آیا اورلائٹ نہیں جلی تو میٹرکابکس کھولاگیا اورفیوز درست کردیاگیا کسی کو کیا خبر کہ یہ اتفاقی واقعہ ہے یاکسی کی شرارت کا شاخسانہ ۔(مظاہرعلوم کادورطالب علمی چندیادیں)
لنگی کالطیفہ:
ملاعبد اللہؒ بہت ہی سیدھے اورساتھ ہی ذرا اَڑیل مزاج کے آدمی تھے دفترمیں چپراسی بھی تھے اور مدرسہ قدیم اورمسجد کی صفائی دیکھ بھال بھی ان کے ذمے تھی، کاندھلہ کے رہنے والے تھے ،ان سے پہلے انکے والد اللہ بندہ بھی اسی کام میں تھے ، وہ بہت بوڑھے ہوگئے تو ان کولگایا گیا،دونوں ہی کام کرتے تھے زیادہ کام بعد میں انکے ہی سپرد رہتے تھے۔
چونکہ اسی احاطے (مدرسہ قدیم اوردفتر) میں مہمان خانہ تھا، مدرسے کے مہمان یاحضرت شیخ الحدیث صاحبؒ کے مہمان رات کو(ٹرینوں کے اوقات کے مطابق) کسی بھی وقت آجاتے تھے اس لئے ان کو مسجد کے صحن میں یا اسکے آس پاس ہی سونا پڑتاتھا۔
ایک بار گرمی کا موسم تھا، رات کوایک مدرس کسی مہمان کو لیکرآئے رات کے شاید دوبجے کا وقت تھا، یہ مُلا عبد اللہ مسجدکے صحن میں کرتابنیان اُتارکر لنگی میں سوئے ہوئے تھے،دروازے پر کھٹکاہوا تو بہت دیرکے بعد ان کی آنکھ کھلی صحن کی بتّی جلی ہوئی تھی یا انہوں نے اُٹھ کر جلائی بہرحال یہ اُٹھے اور نیندکی غفلت میں سیدھے جاکردروازہ کھول دیا، اب جووہ مدرس اورمہمان اندر داخل ہوئے توانہوں نے دیکھا کہ ملاعبد اللہ بالکل مادرزاد برہنہ سامنے بے تکلف اوربغیر کسی جھجک کے کھڑاہے۔
ان استاذ نے کہا’’عبداللہ! تجھے کیا ہوگیا؟‘‘ وہ بولا کچھ نہیں جی آئو! انہوں نے پھرکہا:’’تیری طبیعت تو ٹھیک ہے؟‘‘ اس نے کہا ہاں ٹھیک ہے آئو! انہوں نے پھر کہا:’’ ارے تیری لنگی کہاں ہے؟‘‘ اب جواس نے اپنی ٹانگوں کی طرف دیکھا تو دوڑا اوربسترسے جاکرلنگی اُٹھائی اورباندھی۔
بہت دن تک یہ واقعہ مجلسوں میں تفریح کا موضوع بنا رہا اورجب کوئی اسے اس بات کولیکر چھیڑتا تو وہ چپ ہو جاتا ،کبھی کہتا کہ ہاں نیند میں مجھے پتہ ہی نہیں چلاتھا۔
(مظاہرعلوم کادورطالب علمی چندیادیں)
دوآنے کی سبزی پانچ آنے میں خریدی:
معلم الحجاج کے مصنف ،مظاہرعلوم کے صدرمفتی حضرت مولانامفتی سعیداحمداجراڑوی کے دوصاحب زادے تھے،ایک کانام حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒ اوردوسرے کانام حضرت مولانااطہرحسینؒ۔ دونوں صاحب زادگان علم وروحانیت کے مقام بلندپرفائز ۔شروع شروع کی بات ہے جب مولانا اطہرحسین زیادہ ہوشیارنہیں تھے ،ایک دن حضرت مفتی سعیداحمدؒنے بھائی عبداللہ سے فرمایاکہ گھرمیں سبزی کی ضرورت ہے ،عبداللہ تم ہوشیارہو، بازارسے سبزی لے آؤ اورخیال رکھنا،اچھی طرح مول بھاؤ کرلینا،اطہرکوبھی اپنے ساتھ لے جاؤ،یہ بھی کچھ سیکھ لے گا۔حسب الحکم عبداللہ بھائی بازارگئے ،اپنے ساتھ مولانااطہرحسین کوبھی لے گئے ،ایک دکان دارسے مول بھاؤ کیا،دکاندارنے سبزی کاریٹ دوآنے بتایا،بھائی عبداللہ کہنے لگے کہ دیکھ بھائی یہ سبزی بڑے مفتی صاحب کے لئے لے کرجاؤں گا،صحیح ریٹ لگالےاورپانچ آنے میں دے دے،دکاندارراضی ہوگیا۔سبزی آگئی ،حضرت مفتی صاحب نے تفصیل پوچھی تومولانااطہرحسین بولے :کہ
’’ اجی ابا!سبزی والے نے دوآنے میں بتایاتھا،انہوں نے کہاکہ اگرپانچ آنے میں دے تولوں ،چنانچہ اس نے پانچ آنے کی دی ہے‘‘۔
مفتی صاحب نے اپناسرتھام لیافرمایاعبداللہ میں تو تجھے ہوشیارسمجھ رہاتھا ۔
خودحضرت مفتی سعید احمد جب بازارجاتے تو صاحب زادگان کوبھی ساتھ لے جاتے تھے تاکہ تجربات میں اضافہ ہو،ویسے بھی مفتی کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ حالات سے پورے طورپرواقف بھی ہو،یہ بھی فرماتے کہ امام محمد صواغین کے پاس جاتے اوراشیا کی قیمتیں معلوم فرمایا کرتے تھے، مفتی سعید احمد کامزاج تھاکہ کئی دکانداروں سے ایک چیز کاریٹ معلوم کرتے ،اس سے چیزکی اصل قیمت کے تعین میں آسانی ہوتی ہے اورانسان کم سے کم نقصان میں صحیح سامان خریدلیتاہے۔
سلسلہ وار (۸)
ناصرالدین مظاہری
۲۳؍ذوالقعدہ ۱۴۴۳ھ
بھائی محمدعبداللہ مرحوم
(گزشتہ سے پیوستہ)
قصۂ کوتاہ ’’ذکرمظاہرعلوم کے دربانوں کا‘‘میں نے چھیڑ تودیاہے لیکن حالات اچھے نہیں ہیں ،مجھ غریب اورکم عمرکا دماغ کہاں تک ساتھ دے،سچی بات یہ ہے کہ دربانوں کے جوقصے اورواقعات اپنے اساتذہ اور احباب سے سنتارہا اور ذہن میں محفوظ رہ گئے ان ہی کومیں نے گروپ میں پیش کردیا،بظاہرحالات ایسے محسوس ہورہے ہیں کہ یہ سلسلہ دیرتک چلے گانہیں کیونکہ نہ تو میرے پاس ایساجھولا ہےجس کو اٹھا کر چل پڑوں،نہ ایساریلاہے کہ خس وخاشاک کوبہاکرلے چلوں۔بہت سے بڑے بوڑھوں کوکھودکریدکرکچھ واقعات حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن بمشکل دوچارواقعات ہی کام کے مل سکے ،اس طرح کہاں کام چلے گا۔
اِسی ادھیڑبن میں تھا کہ یادآیا ابھی دوسال پہلے مولانا محمد عبداللہ طارق دہلوی مدظلہ کی کتاب’’مظاہرعلوم کادور طالب علمی چندیادیں‘‘شائع ہوئی تھی ،اس میں بھی مولانا نے مظاہرعلوم کے دربان بھائی محمدعبداللہ کاذکرکیاہے ۔بھلے ہی اس ذکرکا انداز دوسرا ہے لیکن بہرحال دسترخوان پرجہاں بہت سی مرغن،ملین،ملون،مفرح اورلذیذ غذائیں ہوتی ہیں وہیں کسی نہ کسی کونے کھدرے میں چھوٹی سی کپ اورپیالی میں چٹنی بھی موجودرہتی ہے، ہر لذیذ غذا پر زبان چٹخارے مارتی ہے لیکن جب چٹنی کانمبرآتاہے تواس بار چٹخارے کی آوازمیں تبدیلی آجاتی ہے ۔خوب دیکھاغورکیااورخودتجربہ بھی کیاکہ اتنی انواع اوراقسام کے درمیان چٹنی کاوجودبہرحال ہوتاہے ،جواپنی حاضری مکمل طورپردرج کراتی ہے ،ایک بارنہیں بارباردرج کراتی ہے ،بلکہ چٹنی کادرجہ دُرج سے کم نہیں جس کے بغیرحقہ کی نے،چلم،توی سب کچھ بے معنی ہوکررہ جاتی ہے ،بہت سے افرادتوصرف چٹنی اورروٹی پرگزارا کرلیتے ہیں ۔اس لئے میں مولانامحمدعبداللہ طارق دہلوی مدظلہ کی اس کتاب سے دوواقعات پیش کرناچاہتاہوں ۔پہلے واقعہ میں بھائی عبداللہ کاذکرضمناًآیاہے لیکن ذکربہرحال ذکرہے ضمناًآئے چاہے مستقلاً آئے ۔کم ازکم میرے لئے نعمت غیرمترقبہ سے کم نہیں کیونکہ دونوں واقعات کے سلسلہ میں مجھے نہ تومحنت کرنی پڑی،نہ زحمت اٹھانی پڑی،بالکل خلاف توقع حاصل ہونے والی یہ دولت ’’نعمت غیرمترقبہ‘‘کاحقیقی مصداق ہے۔
حضرت مولاناعبداللہ طارق اپنے دور طالب علمی کاذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’دورے کے سال یا شاید اپنے دوسرے دورمیں مدرسۂ قدیم (یعنی احاطۂ دفتر) کے اپنے کمرے میں ہمیں بجلی کاکوئی کام کرناتھا اس کیلئے کچھ دیر تو مَین لائن بند کرنے کی ضرورت تھی لیکن وہاں لکڑی کا بکس بناہواتھا اوراس پر تالا رہتاتھا، دربان مُلاَّ عبد اللہ ذراعجیب مزاج کے آدمی تھے، کسی بھی بات کیلئے آسانی سے تیارنہیں ہوتے تھے، ہربات کیلئے پہلے انکے یہاں انکار ہوتاتھا،ہم نے سوچا کہ چالُو لائن میں کام بجلی والے تو کرلیتے ہیں ہم اناڑیوں کیلئے خلاف احتیاط ہے۔
چنانچہ تجویز یہ ہوئی کہ فیوز اُڑا دیا جائے، اوراسکا طریقہ یہ طے کیا گیا کہ بلب کے اوپر ایک چونّی یا پیسہ رکھ کر اسے ہولڈرمیں لگادیاجائے اور دورکھڑےہوکرسوئچ کھول دیاجائے ایک لڑکا باہرجاکرمین سوئچ اورمیٹر کے پاس کھڑا ہوگیا کہ دیکھیں محنت کامیاب بھی ہوتی ہے یا نہیں؟
چنانچہ سوئچ کھول دیا گیا اورحسب توقع جھٹکے سے فیوز اُڑگیا اورہم نے آرام سے اپنا کام کرلیا شام کوجب لائٹ جلنے کا وقت آیا اورلائٹ نہیں جلی تو میٹرکابکس کھولاگیا اورفیوز درست کردیاگیا کسی کو کیا خبر کہ یہ اتفاقی واقعہ ہے یاکسی کی شرارت کا شاخسانہ ۔(مظاہرعلوم کادورطالب علمی چندیادیں)
لنگی کالطیفہ:
ملاعبد اللہؒ بہت ہی سیدھے اورساتھ ہی ذرا اَڑیل مزاج کے آدمی تھے دفترمیں چپراسی بھی تھے اور مدرسہ قدیم اورمسجد کی صفائی دیکھ بھال بھی ان کے ذمے تھی، کاندھلہ کے رہنے والے تھے ،ان سے پہلے انکے والد اللہ بندہ بھی اسی کام میں تھے ، وہ بہت بوڑھے ہوگئے تو ان کولگایا گیا،دونوں ہی کام کرتے تھے زیادہ کام بعد میں انکے ہی سپرد رہتے تھے۔
چونکہ اسی احاطے (مدرسہ قدیم اوردفتر) میں مہمان خانہ تھا، مدرسے کے مہمان یاحضرت شیخ الحدیث صاحبؒ کے مہمان رات کو(ٹرینوں کے اوقات کے مطابق) کسی بھی وقت آجاتے تھے اس لئے ان کو مسجد کے صحن میں یا اسکے آس پاس ہی سونا پڑتاتھا۔
ایک بار گرمی کا موسم تھا، رات کوایک مدرس کسی مہمان کو لیکرآئے رات کے شاید دوبجے کا وقت تھا، یہ مُلا عبد اللہ مسجدکے صحن میں کرتابنیان اُتارکر لنگی میں سوئے ہوئے تھے،دروازے پر کھٹکاہوا تو بہت دیرکے بعد ان کی آنکھ کھلی صحن کی بتّی جلی ہوئی تھی یا انہوں نے اُٹھ کر جلائی بہرحال یہ اُٹھے اور نیندکی غفلت میں سیدھے جاکردروازہ کھول دیا، اب جووہ مدرس اورمہمان اندر داخل ہوئے توانہوں نے دیکھا کہ ملاعبد اللہ بالکل مادرزاد برہنہ سامنے بے تکلف اوربغیر کسی جھجک کے کھڑاہے۔
ان استاذ نے کہا’’عبداللہ! تجھے کیا ہوگیا؟‘‘ وہ بولا کچھ نہیں جی آئو! انہوں نے پھرکہا:’’تیری طبیعت تو ٹھیک ہے؟‘‘ اس نے کہا ہاں ٹھیک ہے آئو! انہوں نے پھر کہا:’’ ارے تیری لنگی کہاں ہے؟‘‘ اب جواس نے اپنی ٹانگوں کی طرف دیکھا تو دوڑا اوربسترسے جاکرلنگی اُٹھائی اورباندھی۔
بہت دن تک یہ واقعہ مجلسوں میں تفریح کا موضوع بنا رہا اورجب کوئی اسے اس بات کولیکر چھیڑتا تو وہ چپ ہو جاتا ،کبھی کہتا کہ ہاں نیند میں مجھے پتہ ہی نہیں چلاتھا۔
(مظاہرعلوم کادورطالب علمی چندیادیں)
دوآنے کی سبزی پانچ آنے میں خریدی:
معلم الحجاج کے مصنف ،مظاہرعلوم کے صدرمفتی حضرت مولانامفتی سعیداحمداجراڑوی کے دوصاحب زادے تھے،ایک کانام حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒ اوردوسرے کانام حضرت مولانااطہرحسینؒ۔ دونوں صاحب زادگان علم وروحانیت کے مقام بلندپرفائز ۔شروع شروع کی بات ہے جب مولانا اطہرحسین زیادہ ہوشیارنہیں تھے ،ایک دن حضرت مفتی سعیداحمدؒنے بھائی عبداللہ سے فرمایاکہ گھرمیں سبزی کی ضرورت ہے ،عبداللہ تم ہوشیارہو، بازارسے سبزی لے آؤ اورخیال رکھنا،اچھی طرح مول بھاؤ کرلینا،اطہرکوبھی اپنے ساتھ لے جاؤ،یہ بھی کچھ سیکھ لے گا۔حسب الحکم عبداللہ بھائی بازارگئے ،اپنے ساتھ مولانااطہرحسین کوبھی لے گئے ،ایک دکان دارسے مول بھاؤ کیا،دکاندارنے سبزی کاریٹ دوآنے بتایا،بھائی عبداللہ کہنے لگے کہ دیکھ بھائی یہ سبزی بڑے مفتی صاحب کے لئے لے کرجاؤں گا،صحیح ریٹ لگالےاورپانچ آنے میں دے دے،دکاندارراضی ہوگیا۔سبزی آگئی ،حضرت مفتی صاحب نے تفصیل پوچھی تومولانااطہرحسین بولے :کہ
’’ اجی ابا!سبزی والے نے دوآنے میں بتایاتھا،انہوں نے کہاکہ اگرپانچ آنے میں دے تولوں ،چنانچہ اس نے پانچ آنے کی دی ہے‘‘۔
مفتی صاحب نے اپناسرتھام لیافرمایاعبداللہ میں تو تجھے ہوشیارسمجھ رہاتھا ۔
خودحضرت مفتی سعید احمد جب بازارجاتے تو صاحب زادگان کوبھی ساتھ لے جاتے تھے تاکہ تجربات میں اضافہ ہو،ویسے بھی مفتی کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ حالات سے پورے طورپرواقف بھی ہو،یہ بھی فرماتے کہ امام محمد صواغین کے پاس جاتے اوراشیا کی قیمتیں معلوم فرمایا کرتے تھے، مفتی سعید احمد کامزاج تھاکہ کئی دکانداروں سے ایک چیز کاریٹ معلوم کرتے ،اس سے چیزکی اصل قیمت کے تعین میں آسانی ہوتی ہے اورانسان کم سے کم نقصان میں صحیح سامان خریدلیتاہے۔