اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو انسانی زندگی کے ہرگوشہ اور ہرموڑ پر انسان کی رہنمائی کرتا ہے۔ دنیا کے معاملات ہوں یا آخرت کے احوال، اسلام نے سب کی تفصیلات اور زندگی کی ہرمشکل کا قابلِ عمل حل پیش کیا ہے۔ اسلام دینِ فطرت ہے، اس لیے اس کا ہر حکم عقلِ سلیم اور فطرتِ صحیحہ کے موافق ہے۔ اگر کسی شخص کو اسلامی عقائد واعمال میں سے کوئی چیز خلافِ عقل نظر آتی ہے تو یہ دراصل اس کی عقل کا قصور ہے۔ عقل بھی تو ایک قوتِ شاعرہ ہی ہے۔ ہر حس وشعور کا دائرۂ عمل محدود ہوتا ہے۔ قوتِ باصرہ (آنکھ) ایک خاص حد تک کام کرتی ہے، اس سے آگے عاجز ہے۔ قوتِ سامعہ (کان) سے بھی ایک مخصوص حد تک استفادہ کیا جاتاہے، لیکن اگر متکلم مخاطب سے بعید اور اس کی نگاہ سے اوجھل ہو تو نہ اس کی آواز سنی جاسکتی ہے اور نہ اس کی شکل وصورت دکھائی دیتی ہے۔ اسی بنا پر کوئی شخص اس کا دعویٰ نہیں کرتا کہ جو چیز میری نگاہ کے احاطہ میں نہیں ہے، وہ دراصل موجود نہیں ہے۔ اسی طرح عقل کا دائرۂ ادراک وشعور بھی محدود ہے، ہر چیز کو میزانِ عقل پر وزن نہیں کیا جاسکتا، عقل کی ترازو میں امورِ آخرت، حقیقت وآثارِ نبوت‘ ذات وصفاتِ الٰہی کی تفصیلات کو نہیں تو لاجاسکتا۔ اس کی مثال ایسی ہوگی کہ کوئی شخص سونا تولنے کی ترازو (کانٹے) میں پہاڑوں کو تولنے لگے، تولنے والے کی حماقت ہے۔ علاوہ ازیں جس طرح آنکھ میں بصارت کا مادہ اور بینائی کی قوت موجود تو ہے، لیکن وہ تاریکی میں قوتِ باصرہ سے کام لینے کے لیے خارجی روشنی کی محتاج ہے، اسی طرح عقلِ انسانی بھی ماوراء العقل اُمور کے ادراک میں وحیِ الٰہی کی محتاج ہے۔ لہٰذا اگر عقل کے ساتھ وحیِ الٰہی کا لطیف ونور آفریں تعلق باقی رہے تو اسلام کا کوئی حکم خلافِ فطرت اور خلافِ حقیقت نظر نہیں آسکتا، لیکن اگر وحیِ سماوی اور تعلق مع اللہ کا کنکشن منقطع ہوجائے تو قدم قدم پر انسانی عقل اسی طرح ٹھوکریں کھاتی ہے، جیسے اندھیرے میں بینائی کی قوت، حتیٰ کہ پیشِ پا اُفتادہ حقائق اور بدیہیات بھی اس کے لیے نظریات بن جاتے ہیں، اسی لیے شریعتِ اسلامیہ نے عقل کو علم ومعرفت کے باب میں مختار کل نہیںبنایا، بلکہ وحیِ ربانی کے تابع رکھ کر اس سے استفادہ کرنے کا حکم دیا ہے۔
موجودہ دور میں ملحدینِ یورپ کی کورانہ تقلید یا جدید تعلیم وتہذیب کے مسموم اثرات کی وجہ سے مسلمانوں میں ایک ایسا طبقہ پیدا ہوگیا جو اسلام کے معتقدات اور مسلمہ حقائق کو خلافِ فطرت کہہ کر ان کا مذاق اُڑاتا ہے، بلکہ سنجیدگی کے ساتھ ان پر غور کرنے اور سمجھنے کی کوشش کرنے کے بجائے اس تمسخر واستہزاء کو اپنے لیے سامانِ تفریح اور اپنی مجالس کو اس سے پُر رونق بناتاہے۔ نہ صرف یہ بلکہ یہ لوگ انتہائی وقاحت اور بے شرمی کے ساتھ اعلان کرتے ہیں کہ چونکہ یہ مسائل ہماری روشن عقل کے خلاف ہیں، اس لیے ہم ان کو تسلیم نہیں کرسکتے، ستم ظریفی ملاحظہ ہو:
جنوں کا نام خِرد رکھ لیا خِرد کا جنوں
کاش! ان دشمنانِ عقل و دین سے کوئی دریافت کرے کہ تمہیں پتہ ہے کہ عقل کی حقیقت کیا ہے؟ اہلِ عقل کہلانے کے مستحق کون لوگ ہیں؟ اور کس نے تمہیں عقلاء کی فہرست میں شامل کیا ہے؟
’’برعکس نامِ زنگی نہند کافور‘‘ اسلام کا مذاق اُڑانے والے خداوندانِ مغرب کے نزدیک بے شک اہلِ عقل ہوسکتے ہیں، لیکن قرآن وسنت کی اصطلاح میں ان کا شمار مجانین وسفہاء بلکہ ’’أُولٰئِکَ کَالْأَنْعَامِ‘‘ کے زمرہ میں ہوتا ہے، لیکن انہی مدعیانِ عقل ودانش کے سامنے اگر کوئی تاریخی واقعہ پیش کیا جائے تو اس کو تسلیم کرنے میں ان کو کوئی تامل نہیں ہوتا، چاہے وہ کتنا ہی بعید از عقل کیوں نہ ہو، خصوصاً اگر کسی انگریز مؤرخ یا مستشرق نے اس کو قلمبند کیا ہو تو اس کا درجہ تو اُن کے نزدیک ایمان ویقین کے لحاظ سے وحیِ ربانی سے بھی زائد ہوگا۔ ذیل میں دو تاریخی واقعات درج کیے جاتے ہیں، جن سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ ان مدعیانِ عقل وخِرد کو اُن کے تسلیم کرنے میں تو کوئی کلام نہیں، لیکن اگر ا س قسم کا واقعہ شریعت نے بیان کیا ہوتا تو اس میں ان دشمنانِ عقل ودین کو صدہا کیڑے نظر آتے اور صاف کہہ دیتے کہ خلافِ عقل ہے، ہم نہیں مانتے:
۱:- ’’ہنگری میں دولڑکیاں پیدا ہوئیں، دونوں کے تمام اعضاء مستقل اور الگ الگ تھے، لیکن دونوں کے سرین (پچھلا حصہ) اس طرح ایک کا دوسرے سے جڑا ہوا تھا کہ دونوں کا مخرجِ براز (فضلہ نکلنے کی جگہ) ایک ہی تھی، اسی ایک راستہ سے دونوں قضاء حاجت کرتی تھیں، پیشاب گاہ الگ الگ تھی، جب ایک کو پیشاب کی حاجت ہوتی تو دوسری منقبض ہوجاتی۔ عمر کے چھٹے سال میں ایک کے اعضاء کسی مرض سے شل ہوگئے، اسی حالت میں وہ عمر بھر پھرتی رہی، لیکن دوسری کے اعضاء صحیح سالم تھے۔ بلوغ کی علامات بیک وقت دونوں میں ظاہر ہوئیں۔ جب بائیس سال کی عمر ہوئی تو ایک کو شدید بخار ہوا اور اسی مرض میں اس کا انتقال ہوگیا، تین گھنٹہ کے بعد دوسری بھی مرگئی اور ساتھ ہی دونوں کو دفن کیا گیا۔‘‘
۲:- ایک چینی لڑکا جس کی عمر بارہ برس کی تھی اپنے سینہ پر دوسرا بچہ اُٹھائے ہوئے تھا، اس دوسرے بچے کا سر اُس کے سینہ کے اندر چھپا ہوا تھا، باقی دھڑ اس کے سینہ سے گھٹنوں تک لٹکا رہتا تھا، اس بچہ میں کافی شعور تھا، ذرا سے چھونے سے وہ متاثر ہوتا اور اس سے وہ اُٹھا نے والا بھی متاثر ہوتا۔‘‘
اس قسم کے متعدد واقعات انسائیکلوپیڈیا میں موجود ہیں، یہ مدعیانِ عقل وخِرد ان کو تو بلا کسی تردد کے تسلیم کرلیتے ہیں، لیکن اگر خرقِ عادت کے طور پر انبیاء ؑواولیاء ؒسے کوئی اسی قسم کی خلافِ عادت چیز ظہور میں آئے تو اس میں شکوک وشبہات پیدا ہوجاتے ہیں اور نہیں مانتے۔
یہ مرض دراصل وحیِ الٰہی کی عظمت کے شعور سے محروم ہونے اور ایمان کی کمزوری کا نتیجہ ہے۔ اگر خلاّقِ عالم کی قدرت پر یقین کامل ہو تو تمام ’’خوارق‘‘ (معجزات وکرامات) پر ایمان لانے میں کسی قسم کا کوئی مانع پیش نہیں آسکتا۔ یہی وجہ تھی کہ جب معراج کا ایمان افروز واقعہ کفار نے صدیقِ اکبرq کے سامنے پیش کیا، تاکہ ان سے حضور a کی تکذیب کرائیں تو صدیق اکبرqنے فرمایا: اس میںکونسی تعجب کی چیز ہے؟! ’’ملأِ اعلیٰ‘‘ سے ’’وحی‘‘ آنے پر جب میں ایمان لاچکا ہوں تو اس واقعۂ صادقہ کے تسلیم کرنے میں مجھے کیا تامل ہوسکتا ہے؟!
موجودہ پُر فتن دور میں مادہ پرستی اور خدا و رسول کی تعلیمات سے بے گانگی حد سے زیادہ بڑھ جانے کی وجہ سے معجزات وکرامات کو یہ کہہ کر رد کردیا جاتا ہے کہ ’’یہ چیزیں قانونِ قدرت کے خلاف ہیں اور انسانی عقل کی رسائی سے باہر ہیں، اس لیے ہم نہیں مانتے۔‘‘
معجزہ کو خلافِ قانونِ قدرت کہنا درحقیقت جہل کی دلیل ہے، ہاں! اس کی صحیح تعبیر یہ ہے کہ معجزہ یا کرامت عام قانونِ قدرت کے خلاف ہوتا ہے، اس لیے کہ اگر معجزہ عام انسانی دسترس سے باہر نہ ہو تو پھر وہ معجزہ ہی نہیں ہوسکتا۔
تاریخ کے اوراق میں بے شمار ایسے خوارق موجود ہیں جن کی صداقت پر کسی کو تردد نہیں ہوتا، اگرایسے ہی خوارق کسی صاحبِ نبوت وولایت ہستی سے صادر ہوںتو اس میں کیا استحالہ ہے اور ان کے قبول کرنے میں کیوں تامل ہے؟!
فرانس کے مشہور فیلسوف کامل ’’فلاریوں‘‘ نے اپنی کتاب ’’المجہول والمسائل الروحیۃ‘‘ میں لکھا ہے:
’’۱:-ایک عورت کا پستان بائیں ران پر تھا، وہ اس سے بچہ کو دودھ پلاتی تھی۔
۲:-جاپان میں تباہ کن زلزلہ آیا تھا جس سے کئی بستیاں تہ وبالا ہوگئیں۔
۳:-ضلع ہردوئی میں ایک بگولا اُٹھا تھا جس سے ایک جھیل کا پانی خشک ہوگیا اور دوسری جگہ جھیل بن گئی۔‘‘
اس قسم کے خوارق کو کوئی غلط نہیں کہتا، لیکن اگر یہ کہا جائے کہ حضور a کی ولادت باسعادت کے موقع پر ایوانِ کسریٰ میں زلزلہ آیا، اس کے چودہ کنگرے گر گئے یا فارس کے آتش کدہ کی ہزار سالہ آگ بجھ گئی تو ان واقعات کے تسلیم کرنے میں پس وپیش ہونے لگتاہے۔
سائنس کی محیر العقول ایجادات سے قبل تو معجزات وخوارق وغیرہ کو سمجھنے اور سمجھانے میں دقت پیش آسکتی تھی، لیکن اس سائنسی دور میں تو خوارق ومعجزات پر ایمان لانے میں کوئی اشکال پیداہی نہیں ہوسکتا۔ درحقیقت سائنس کے اکتشافات نے تسلیمِ خوارق کے لیے راہ ہموار کردی۔ امام العصر حجۃ اللہ فی الأرض حضرت مولانا سید انور شاہ قدس سرہٗ کا ارشاد ہے:
’’اللہ تعالیٰ نے انبیاء o کو جو معجزات عطا فرمائے ہیں وہ دراصل اس بات کی طرف اشارہ ہیں کہ مستقبل میں (سلسلۂ نبوت ختم ہونے کے بعد) لوگ مادی وسائل واسباب کے ذریعہ ان جیسے خوارق تک رسائی حاصل کیا کریںگے جن کا ظہور انبیاء ورسل سے بغیر اسباب ووسائل کے ہوا تھا، تاکہ اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ وقاہرہ کا ظہور ہوتا رہے۔ ‘‘
حضرت سلیمان m کا تخت ہوا پر اُڑ کر صبح سے شام تک دو ماہ کی مسافت طے کرتا تھا، آج فضا میں ہزاروں میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ہوائی جہاز پرواز کرتے ہیں، جو کام الیکٹرک سے ہوسکتا ہے کیا اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی تصدیق کے لیے وہی کام بغیر الیکٹرک کے ظاہر نہیں کرسکتے؟!
حضرت سلیمان m پرندوں کی بولیاں بخوبی سمجھتے تھے، جبکہ عام انسان طیور کی چہچہاہٹ کو مہمل اور بے معنی چیز سمجھتے ہیں، اس معجزہ کی نظیر بھی سائنس نے پیش کردی۔ آپ کسی پوسٹ آفس میں چلے جائیں، وہاں تارکی کٹ کٹ گھنٹوں سنتے رہیں، آپ کے نزدیک اس کی حیثیت بے معنی حرکات واصوات (حرکتوں اور آوازوں) کی ہوگی، لیکن پوسٹ ماسٹر فوراً آپ کو بتا دے گا کہ فلاں جگہ سے فلاں شخص یہ کہہ رہا ہے، علیٰ ہذا القیاس۔ پھر کیوں کر انکار کیاجاتاہے اس سے کہ صانعِ حقیقی نے نغماتِ طیور کو بھی مختلف معانی ومطالب کے اظہار کے لیے وضع کیا ہے اور اپنی قدرتِ کاملہ کے اظہار کے لیے بطور پیغمبرانہ اعجاز کے اپنے ایک اولو العزم نبی کو اس کا علم عطا فرمادیا ہے۔ شبِ معراج میں حضور اکرمa کا آسمانوں کا سفر کرنا اور عجائباتِ قدرت کو دیکھ کر واپس آنا، اس سرعتِ رفتار کو جٹ ہوائی جہاز اور بجلی کی رفتار یا راکٹ کی سبک رفتاری سے بخوبی سمجھا اور باور کیا جاسکتا ہے۔ موجودہ دور کے حیرت انگیز آپریشنوں نے شقِ صدر کے معجزہ کو باور کرادیا۔ معراج سے واپسی کے بعد مکہ معظمہ میں حضورa کا بیت المقدس کو بلا حجاب دیکھ کر کفار کے سوالات کا جواب دینا اس کی نظیر بھی ہمارے سامنے موجود ہے۔ دوربین یا خوردبین کے ذریعہ ایک شخص جو چیزیں دیکھتا ہے، دوسرے کو وہ اشیاء نظر نہیں آتیں، لیکن ا س نظر نہ آنے کی بنا پر کوئی شخص بھی ان کے وجود سے انکار نہیں کرسکتا، تو اگر پیغمبر اپنی خداداد دوربین نگاہ سے بیت المقدس کا نقشہ دیکھ کر جوابات دے رہے ہوں تو اس میں کیا تعجب ہے اور کیوں ا س کا انکار کیا جاتاہے؟!
حضرت عیسیٰ m مٹی سے پرندہ بناکر ’’نفخ‘‘ کے ذریعہ (پھونک مارکر) اس کو ہوا میں اُڑادیا کرتے تھے، اس معجزہ کو بھی سائنس کی ایجاد نے حل کردیا۔ معدنیات کے چند مادے اور ٹکڑے ملاکر برقی طاقت کے ذریعہ ان کو راکٹ کی صورت میں بغیر پائلٹ کے ہوا میں اُڑادینا اس معجزہ کو باور کراتا ہے۔ اگر برقی طاقت کے ذریعہ جہاز یا راکٹ کو فضا میں چلایا اور کنٹرول کیاجاسکتا ہے تو کیا اللہ تعالیٰ اپنی قدرتِ کاملہ وقاہرہ سے بتوسطِ نفخِ عیسیٰ m مٹی کے پرندہ کو ہوا میں نہیں اُڑا سکتے؟!
نبی کریم a کا معجزہ آپ نے سنا ہوگا کہ آپa پشت کے پیچھے کی چیزیں اسی طرح دیکھتے تھے جس طرح سامنے کی اشیاء کو ملاحظہ فرماتے تھے۔ اس معجزۂ حقہ کی حقیقت بھی اہلِ سائنس کی کاوشوں نے واضح کردی۔ ایک انگریز ماہرِ ’’علمِ بصارت‘‘ لکھتا ہے کہ انسان کے بدن کی جلد کے نیچے چھوٹے خلّیے پائے جاتے ہیں جو سارے جسم میں پھیلے ہوئے ہیں، یہ خلّیے دراصل ننھی ننھی آنکھیں ہیں، ان میں اسی طرح سامنے کی چیزوں کا عکس پڑتا ہے اور تصویر اُتر آتی ہے جس طرح آنکھ کی پتلی میں۔ وہ کہتا ہے کہ انسان کی پیشانی کی جلد میں بھی قوتِ باصرہ موجود ہے، یہی قوت دماغ کو پیغام پہنچاتی ہے۔
حضور a کے سامنے درخت جھک جاتے اور آپa کو سلام کرتے تھے۔ ملحدین نے اس معجزہ کا بھی مذاق اُڑایا، لیکن آج ماہرینِ علمِ نباتات نے درختوں اور پودوں کے متعلق جو حیرت انگیز انکشافات کیے ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ پودوں میں دیکھنے سننے کی بھی قدرت ہے، آپس میں بات چیت بھی کرتے ہیں، ان پر عشق ومحبت اور رنج وغم کی کیفیات بھی وارد ہوتی ہیں، ان میں سے بعض میں ’’ذکاوتِ حس‘‘ کا مادہ بھی موجود ہے، بعض پودے محض چھوٹے ہی سے سکڑ جاتے ہیں اور ادنیٰ اشارے سے بند ہوجاتے ہیں، اسی ذکاوتِ حس کی وجہ سے ایک پودے کو اردو میں ’’چھوئی موئی‘‘ کہتے ہیں۔ ہندوستان کے مشہور ماہر سائنس سرجگدیش چندربوس نے طویل تجربہ وتحقیق کے بعد ایک کتاب ’’پلانٹس آٹو گرافس اینڈ ویر ریویلیشن‘‘ کے نام سے شائع کی ہے، جس میں اس نے پودوں کے متعلق نہایت حیرت انگیز معلومات جمع کی ہیں جن کو سننے یا پڑھنے کے بعد کوئی عقل ودانش کا مالک انسان مذکورہ معجزہ سے انکار نہیں کرسکتا۔
تاریخِ اسلام کا مشہور واقعہ ہے کہ فاروق اعظمq نے مدینہ میں مسجد نبوی کے منبر پر کھڑے ہوکر مجاہدین کے سپہ سالار ساریہ کو پکار کر کہا: ’’ یا ساریۃ الجبل!‘‘ اسی وقت یہ آواز ساریہ کے کانوں تک پہنچ گئی، حالانکہ وہ مدینہ منورہ سے صدہا میل دور تھے۔ یہ آواز ان تک کس طرح پہنچی؟! ا س کرامتِ حقہ کو وائرلیس کی ایجاد نے حل کردیا، آج آپ وائرلیس ٹیلیفون کے ذریعہ ایک ملک سے دوسرے ملک تک اپنی آواز پہنچا سکتے ہیں، اسی طرح فاروق اعظمq نے روحانی وائرلیس کے ذریعہ ساریہ تک اپنی آواز پہنچادی۔
عالمگیر جنگ کے زمانہ میں ایک لاسلکی پیغام میٹروگریڈ سے لندن چلا، راستہ میں بعض جرمن ماہرین اُسے جذب کرنے لگے، اوپر سے ایک فرانسیسی طیارہ نے ان پر بم پھینکا اور ان کی اس کوشش کو ناکام بنادیا۔ اس واقعہ سے وحیِ آسمانی کی شہاب کے ذریعہ حفاظت کا مسئلہ بھی بآسانی ذہن نشین ہوجاتاہے کہ عرش سے جو لاسلکی پیغام ارضِ حجاز کو جا رہا ہے، شیاطین اس کو درمیان سے اُچکنا چاہتے ہیں، اوپر سے شہابِ ثاقب کا بم ان کا کام تمام کردیتا ہے۔
قرآنِ مجید میں ارشادِ ربانی ہے کہ:’’ شیطان اور اس کا لشکر تم کو دیکھتا ہے، لیکن تم ان کو نہیں دیکھتے۔‘‘ آج ٹیلی ویژن سے اس مسئلہ کو بھی بآسانی سمجھا جاسکتا ہے۔ ٹیلی ویژن پر تقریر کرنے والے کو وہ سب لوگ دیکھتے ہیں جو اس کے سامنے ہیں، لیکن وہ ان میں سے کسی ایک کو بھی نہیں دیکھ سکتا، اس کی تقریر اور اس کی نقل وحرکت کو دوسرے دیکھتے ہیں، وہ خود اس سے عاجز ہے کہ اپنے دیکھنے والوں کو دیکھ سکے۔
نبی کریم a نے’’ مستقبل بعید ‘‘ اور ’’مابعد الموت‘‘ کے احوال تفصیل سے بیان فرمائے اور قبر اور اس کے بعد جہنم کے مہیب عذاب اور خوفناک کیفیات سے اُمت کو ڈرایا ہے، اس مسئلہ کو سمجھنے کے لیے ’’راڈر‘‘ سے مدد لی جاسکتی ہے، ’’راڈر‘‘ ایک آلہ ہے جس کی مدد سے جہازوں کا نظام چل رہا ہے۔
یہی آلہ آپ کو بتاتا ہے کہ آگے کونسی چیز آرہی ہے جس سے جہاز کو نقصان لاحق ہوسکتا ہے، تقریباً سومیل سے ہی یہ آلہ بتلادیتا ہے کہ سامنے غلیظ بادل یا بلند پہاڑ آرہا ہے۔ اگر ایک بے جان آلہ مسافتِ بعیدہ کے حالات سے آپ کو مطلع کرسکتا ہے تو کیا پیغمبر کی بصیرتِ قلبی وفراستِ ایمانی مستقبل کے حالات کا ادراک نہیں کرسکتی؟!
بعض اولیاء اللہ کے متعلق مشہور ہے کہ ہوا میں اُڑنے لگے، اس پر زائغین کو ہنسی آتی تھی کہ انسان کس طرح ہوا میں اُڑسکتا ہے، لیکن تدریجی طور پر سائنس ان تمام ناقابل فہم مشکلات کا حل پیش کررہی ہے، چند ماہ قبل اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ ’’امریکہ‘‘ میں ایک انسان کو خلائی جہاز میں سوار کرکے دنیا کے سفر پر روانہ کیاگیا، مدار پر پہنچ کر وہ سوار جہاز سے باہر نکل آیا، کئی منٹ تک فضا میں پرواز کرتا رہا، بعد میں خود ہی جہاز کے اندر چلاگیا۔ اس خبر کا توکسی نے انکار نہیں کیا، لیکن اگر ایسا واقعہ کسی خدا رسیدہ بزرگ کا بیان کیا جائے، اس میں شکوک وشبہات پیدا ہوجاتے ہیں۔
الغرض سائنس کی ترقی اور محیر العقول سائنسی ایجادات کا بغور مطالعہ کرنے سے اسلام کے بہت سے پیچیدہ مسائل اقرب الی الفہم اور قابلِ قبول ہوجاتے ہیں، اب جبکہ ہر طرف سے ایمان کی متاعِ گراں مایہ کو لوٹنے کے لیے نئے سے نئے فتنے رونما ہورہے ہیں تو اللہ تعالیٰ بھی اسی سرکش انسان کے ہاتھوں نوبنوخارق العادۃ ایجادات ظاہر فرمارہے ہیں، تاکہ اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ وقاہرہ کو تسلیم نہ کرنے والوں پر اتمامِ حجت ہوجائے اور یہ عذر باقی نہ رہے کہ :’’إِنَّا کُنَّا عَنْ ہٰذَا غَافِلِیْنَ ‘‘ وباللّٰہ التوفیق۔
موجودہ دور میں ملحدینِ یورپ کی کورانہ تقلید یا جدید تعلیم وتہذیب کے مسموم اثرات کی وجہ سے مسلمانوں میں ایک ایسا طبقہ پیدا ہوگیا جو اسلام کے معتقدات اور مسلمہ حقائق کو خلافِ فطرت کہہ کر ان کا مذاق اُڑاتا ہے، بلکہ سنجیدگی کے ساتھ ان پر غور کرنے اور سمجھنے کی کوشش کرنے کے بجائے اس تمسخر واستہزاء کو اپنے لیے سامانِ تفریح اور اپنی مجالس کو اس سے پُر رونق بناتاہے۔ نہ صرف یہ بلکہ یہ لوگ انتہائی وقاحت اور بے شرمی کے ساتھ اعلان کرتے ہیں کہ چونکہ یہ مسائل ہماری روشن عقل کے خلاف ہیں، اس لیے ہم ان کو تسلیم نہیں کرسکتے، ستم ظریفی ملاحظہ ہو:
جنوں کا نام خِرد رکھ لیا خِرد کا جنوں
کاش! ان دشمنانِ عقل و دین سے کوئی دریافت کرے کہ تمہیں پتہ ہے کہ عقل کی حقیقت کیا ہے؟ اہلِ عقل کہلانے کے مستحق کون لوگ ہیں؟ اور کس نے تمہیں عقلاء کی فہرست میں شامل کیا ہے؟
’’برعکس نامِ زنگی نہند کافور‘‘ اسلام کا مذاق اُڑانے والے خداوندانِ مغرب کے نزدیک بے شک اہلِ عقل ہوسکتے ہیں، لیکن قرآن وسنت کی اصطلاح میں ان کا شمار مجانین وسفہاء بلکہ ’’أُولٰئِکَ کَالْأَنْعَامِ‘‘ کے زمرہ میں ہوتا ہے، لیکن انہی مدعیانِ عقل ودانش کے سامنے اگر کوئی تاریخی واقعہ پیش کیا جائے تو اس کو تسلیم کرنے میں ان کو کوئی تامل نہیں ہوتا، چاہے وہ کتنا ہی بعید از عقل کیوں نہ ہو، خصوصاً اگر کسی انگریز مؤرخ یا مستشرق نے اس کو قلمبند کیا ہو تو اس کا درجہ تو اُن کے نزدیک ایمان ویقین کے لحاظ سے وحیِ ربانی سے بھی زائد ہوگا۔ ذیل میں دو تاریخی واقعات درج کیے جاتے ہیں، جن سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ ان مدعیانِ عقل وخِرد کو اُن کے تسلیم کرنے میں تو کوئی کلام نہیں، لیکن اگر ا س قسم کا واقعہ شریعت نے بیان کیا ہوتا تو اس میں ان دشمنانِ عقل ودین کو صدہا کیڑے نظر آتے اور صاف کہہ دیتے کہ خلافِ عقل ہے، ہم نہیں مانتے:
۱:- ’’ہنگری میں دولڑکیاں پیدا ہوئیں، دونوں کے تمام اعضاء مستقل اور الگ الگ تھے، لیکن دونوں کے سرین (پچھلا حصہ) اس طرح ایک کا دوسرے سے جڑا ہوا تھا کہ دونوں کا مخرجِ براز (فضلہ نکلنے کی جگہ) ایک ہی تھی، اسی ایک راستہ سے دونوں قضاء حاجت کرتی تھیں، پیشاب گاہ الگ الگ تھی، جب ایک کو پیشاب کی حاجت ہوتی تو دوسری منقبض ہوجاتی۔ عمر کے چھٹے سال میں ایک کے اعضاء کسی مرض سے شل ہوگئے، اسی حالت میں وہ عمر بھر پھرتی رہی، لیکن دوسری کے اعضاء صحیح سالم تھے۔ بلوغ کی علامات بیک وقت دونوں میں ظاہر ہوئیں۔ جب بائیس سال کی عمر ہوئی تو ایک کو شدید بخار ہوا اور اسی مرض میں اس کا انتقال ہوگیا، تین گھنٹہ کے بعد دوسری بھی مرگئی اور ساتھ ہی دونوں کو دفن کیا گیا۔‘‘
۲:- ایک چینی لڑکا جس کی عمر بارہ برس کی تھی اپنے سینہ پر دوسرا بچہ اُٹھائے ہوئے تھا، اس دوسرے بچے کا سر اُس کے سینہ کے اندر چھپا ہوا تھا، باقی دھڑ اس کے سینہ سے گھٹنوں تک لٹکا رہتا تھا، اس بچہ میں کافی شعور تھا، ذرا سے چھونے سے وہ متاثر ہوتا اور اس سے وہ اُٹھا نے والا بھی متاثر ہوتا۔‘‘
اس قسم کے متعدد واقعات انسائیکلوپیڈیا میں موجود ہیں، یہ مدعیانِ عقل وخِرد ان کو تو بلا کسی تردد کے تسلیم کرلیتے ہیں، لیکن اگر خرقِ عادت کے طور پر انبیاء ؑواولیاء ؒسے کوئی اسی قسم کی خلافِ عادت چیز ظہور میں آئے تو اس میں شکوک وشبہات پیدا ہوجاتے ہیں اور نہیں مانتے۔
یہ مرض دراصل وحیِ الٰہی کی عظمت کے شعور سے محروم ہونے اور ایمان کی کمزوری کا نتیجہ ہے۔ اگر خلاّقِ عالم کی قدرت پر یقین کامل ہو تو تمام ’’خوارق‘‘ (معجزات وکرامات) پر ایمان لانے میں کسی قسم کا کوئی مانع پیش نہیں آسکتا۔ یہی وجہ تھی کہ جب معراج کا ایمان افروز واقعہ کفار نے صدیقِ اکبرq کے سامنے پیش کیا، تاکہ ان سے حضور a کی تکذیب کرائیں تو صدیق اکبرqنے فرمایا: اس میںکونسی تعجب کی چیز ہے؟! ’’ملأِ اعلیٰ‘‘ سے ’’وحی‘‘ آنے پر جب میں ایمان لاچکا ہوں تو اس واقعۂ صادقہ کے تسلیم کرنے میں مجھے کیا تامل ہوسکتا ہے؟!
موجودہ پُر فتن دور میں مادہ پرستی اور خدا و رسول کی تعلیمات سے بے گانگی حد سے زیادہ بڑھ جانے کی وجہ سے معجزات وکرامات کو یہ کہہ کر رد کردیا جاتا ہے کہ ’’یہ چیزیں قانونِ قدرت کے خلاف ہیں اور انسانی عقل کی رسائی سے باہر ہیں، اس لیے ہم نہیں مانتے۔‘‘
معجزہ کو خلافِ قانونِ قدرت کہنا درحقیقت جہل کی دلیل ہے، ہاں! اس کی صحیح تعبیر یہ ہے کہ معجزہ یا کرامت عام قانونِ قدرت کے خلاف ہوتا ہے، اس لیے کہ اگر معجزہ عام انسانی دسترس سے باہر نہ ہو تو پھر وہ معجزہ ہی نہیں ہوسکتا۔
تاریخ کے اوراق میں بے شمار ایسے خوارق موجود ہیں جن کی صداقت پر کسی کو تردد نہیں ہوتا، اگرایسے ہی خوارق کسی صاحبِ نبوت وولایت ہستی سے صادر ہوںتو اس میں کیا استحالہ ہے اور ان کے قبول کرنے میں کیوں تامل ہے؟!
فرانس کے مشہور فیلسوف کامل ’’فلاریوں‘‘ نے اپنی کتاب ’’المجہول والمسائل الروحیۃ‘‘ میں لکھا ہے:
’’۱:-ایک عورت کا پستان بائیں ران پر تھا، وہ اس سے بچہ کو دودھ پلاتی تھی۔
۲:-جاپان میں تباہ کن زلزلہ آیا تھا جس سے کئی بستیاں تہ وبالا ہوگئیں۔
۳:-ضلع ہردوئی میں ایک بگولا اُٹھا تھا جس سے ایک جھیل کا پانی خشک ہوگیا اور دوسری جگہ جھیل بن گئی۔‘‘
اس قسم کے خوارق کو کوئی غلط نہیں کہتا، لیکن اگر یہ کہا جائے کہ حضور a کی ولادت باسعادت کے موقع پر ایوانِ کسریٰ میں زلزلہ آیا، اس کے چودہ کنگرے گر گئے یا فارس کے آتش کدہ کی ہزار سالہ آگ بجھ گئی تو ان واقعات کے تسلیم کرنے میں پس وپیش ہونے لگتاہے۔
سائنس کی محیر العقول ایجادات سے قبل تو معجزات وخوارق وغیرہ کو سمجھنے اور سمجھانے میں دقت پیش آسکتی تھی، لیکن اس سائنسی دور میں تو خوارق ومعجزات پر ایمان لانے میں کوئی اشکال پیداہی نہیں ہوسکتا۔ درحقیقت سائنس کے اکتشافات نے تسلیمِ خوارق کے لیے راہ ہموار کردی۔ امام العصر حجۃ اللہ فی الأرض حضرت مولانا سید انور شاہ قدس سرہٗ کا ارشاد ہے:
’’اللہ تعالیٰ نے انبیاء o کو جو معجزات عطا فرمائے ہیں وہ دراصل اس بات کی طرف اشارہ ہیں کہ مستقبل میں (سلسلۂ نبوت ختم ہونے کے بعد) لوگ مادی وسائل واسباب کے ذریعہ ان جیسے خوارق تک رسائی حاصل کیا کریںگے جن کا ظہور انبیاء ورسل سے بغیر اسباب ووسائل کے ہوا تھا، تاکہ اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ وقاہرہ کا ظہور ہوتا رہے۔ ‘‘
حضرت سلیمان m کا تخت ہوا پر اُڑ کر صبح سے شام تک دو ماہ کی مسافت طے کرتا تھا، آج فضا میں ہزاروں میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ہوائی جہاز پرواز کرتے ہیں، جو کام الیکٹرک سے ہوسکتا ہے کیا اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی تصدیق کے لیے وہی کام بغیر الیکٹرک کے ظاہر نہیں کرسکتے؟!
حضرت سلیمان m پرندوں کی بولیاں بخوبی سمجھتے تھے، جبکہ عام انسان طیور کی چہچہاہٹ کو مہمل اور بے معنی چیز سمجھتے ہیں، اس معجزہ کی نظیر بھی سائنس نے پیش کردی۔ آپ کسی پوسٹ آفس میں چلے جائیں، وہاں تارکی کٹ کٹ گھنٹوں سنتے رہیں، آپ کے نزدیک اس کی حیثیت بے معنی حرکات واصوات (حرکتوں اور آوازوں) کی ہوگی، لیکن پوسٹ ماسٹر فوراً آپ کو بتا دے گا کہ فلاں جگہ سے فلاں شخص یہ کہہ رہا ہے، علیٰ ہذا القیاس۔ پھر کیوں کر انکار کیاجاتاہے اس سے کہ صانعِ حقیقی نے نغماتِ طیور کو بھی مختلف معانی ومطالب کے اظہار کے لیے وضع کیا ہے اور اپنی قدرتِ کاملہ کے اظہار کے لیے بطور پیغمبرانہ اعجاز کے اپنے ایک اولو العزم نبی کو اس کا علم عطا فرمادیا ہے۔ شبِ معراج میں حضور اکرمa کا آسمانوں کا سفر کرنا اور عجائباتِ قدرت کو دیکھ کر واپس آنا، اس سرعتِ رفتار کو جٹ ہوائی جہاز اور بجلی کی رفتار یا راکٹ کی سبک رفتاری سے بخوبی سمجھا اور باور کیا جاسکتا ہے۔ موجودہ دور کے حیرت انگیز آپریشنوں نے شقِ صدر کے معجزہ کو باور کرادیا۔ معراج سے واپسی کے بعد مکہ معظمہ میں حضورa کا بیت المقدس کو بلا حجاب دیکھ کر کفار کے سوالات کا جواب دینا اس کی نظیر بھی ہمارے سامنے موجود ہے۔ دوربین یا خوردبین کے ذریعہ ایک شخص جو چیزیں دیکھتا ہے، دوسرے کو وہ اشیاء نظر نہیں آتیں، لیکن ا س نظر نہ آنے کی بنا پر کوئی شخص بھی ان کے وجود سے انکار نہیں کرسکتا، تو اگر پیغمبر اپنی خداداد دوربین نگاہ سے بیت المقدس کا نقشہ دیکھ کر جوابات دے رہے ہوں تو اس میں کیا تعجب ہے اور کیوں ا س کا انکار کیا جاتاہے؟!
حضرت عیسیٰ m مٹی سے پرندہ بناکر ’’نفخ‘‘ کے ذریعہ (پھونک مارکر) اس کو ہوا میں اُڑادیا کرتے تھے، اس معجزہ کو بھی سائنس کی ایجاد نے حل کردیا۔ معدنیات کے چند مادے اور ٹکڑے ملاکر برقی طاقت کے ذریعہ ان کو راکٹ کی صورت میں بغیر پائلٹ کے ہوا میں اُڑادینا اس معجزہ کو باور کراتا ہے۔ اگر برقی طاقت کے ذریعہ جہاز یا راکٹ کو فضا میں چلایا اور کنٹرول کیاجاسکتا ہے تو کیا اللہ تعالیٰ اپنی قدرتِ کاملہ وقاہرہ سے بتوسطِ نفخِ عیسیٰ m مٹی کے پرندہ کو ہوا میں نہیں اُڑا سکتے؟!
نبی کریم a کا معجزہ آپ نے سنا ہوگا کہ آپa پشت کے پیچھے کی چیزیں اسی طرح دیکھتے تھے جس طرح سامنے کی اشیاء کو ملاحظہ فرماتے تھے۔ اس معجزۂ حقہ کی حقیقت بھی اہلِ سائنس کی کاوشوں نے واضح کردی۔ ایک انگریز ماہرِ ’’علمِ بصارت‘‘ لکھتا ہے کہ انسان کے بدن کی جلد کے نیچے چھوٹے خلّیے پائے جاتے ہیں جو سارے جسم میں پھیلے ہوئے ہیں، یہ خلّیے دراصل ننھی ننھی آنکھیں ہیں، ان میں اسی طرح سامنے کی چیزوں کا عکس پڑتا ہے اور تصویر اُتر آتی ہے جس طرح آنکھ کی پتلی میں۔ وہ کہتا ہے کہ انسان کی پیشانی کی جلد میں بھی قوتِ باصرہ موجود ہے، یہی قوت دماغ کو پیغام پہنچاتی ہے۔
حضور a کے سامنے درخت جھک جاتے اور آپa کو سلام کرتے تھے۔ ملحدین نے اس معجزہ کا بھی مذاق اُڑایا، لیکن آج ماہرینِ علمِ نباتات نے درختوں اور پودوں کے متعلق جو حیرت انگیز انکشافات کیے ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ پودوں میں دیکھنے سننے کی بھی قدرت ہے، آپس میں بات چیت بھی کرتے ہیں، ان پر عشق ومحبت اور رنج وغم کی کیفیات بھی وارد ہوتی ہیں، ان میں سے بعض میں ’’ذکاوتِ حس‘‘ کا مادہ بھی موجود ہے، بعض پودے محض چھوٹے ہی سے سکڑ جاتے ہیں اور ادنیٰ اشارے سے بند ہوجاتے ہیں، اسی ذکاوتِ حس کی وجہ سے ایک پودے کو اردو میں ’’چھوئی موئی‘‘ کہتے ہیں۔ ہندوستان کے مشہور ماہر سائنس سرجگدیش چندربوس نے طویل تجربہ وتحقیق کے بعد ایک کتاب ’’پلانٹس آٹو گرافس اینڈ ویر ریویلیشن‘‘ کے نام سے شائع کی ہے، جس میں اس نے پودوں کے متعلق نہایت حیرت انگیز معلومات جمع کی ہیں جن کو سننے یا پڑھنے کے بعد کوئی عقل ودانش کا مالک انسان مذکورہ معجزہ سے انکار نہیں کرسکتا۔
تاریخِ اسلام کا مشہور واقعہ ہے کہ فاروق اعظمq نے مدینہ میں مسجد نبوی کے منبر پر کھڑے ہوکر مجاہدین کے سپہ سالار ساریہ کو پکار کر کہا: ’’ یا ساریۃ الجبل!‘‘ اسی وقت یہ آواز ساریہ کے کانوں تک پہنچ گئی، حالانکہ وہ مدینہ منورہ سے صدہا میل دور تھے۔ یہ آواز ان تک کس طرح پہنچی؟! ا س کرامتِ حقہ کو وائرلیس کی ایجاد نے حل کردیا، آج آپ وائرلیس ٹیلیفون کے ذریعہ ایک ملک سے دوسرے ملک تک اپنی آواز پہنچا سکتے ہیں، اسی طرح فاروق اعظمq نے روحانی وائرلیس کے ذریعہ ساریہ تک اپنی آواز پہنچادی۔
عالمگیر جنگ کے زمانہ میں ایک لاسلکی پیغام میٹروگریڈ سے لندن چلا، راستہ میں بعض جرمن ماہرین اُسے جذب کرنے لگے، اوپر سے ایک فرانسیسی طیارہ نے ان پر بم پھینکا اور ان کی اس کوشش کو ناکام بنادیا۔ اس واقعہ سے وحیِ آسمانی کی شہاب کے ذریعہ حفاظت کا مسئلہ بھی بآسانی ذہن نشین ہوجاتاہے کہ عرش سے جو لاسلکی پیغام ارضِ حجاز کو جا رہا ہے، شیاطین اس کو درمیان سے اُچکنا چاہتے ہیں، اوپر سے شہابِ ثاقب کا بم ان کا کام تمام کردیتا ہے۔
قرآنِ مجید میں ارشادِ ربانی ہے کہ:’’ شیطان اور اس کا لشکر تم کو دیکھتا ہے، لیکن تم ان کو نہیں دیکھتے۔‘‘ آج ٹیلی ویژن سے اس مسئلہ کو بھی بآسانی سمجھا جاسکتا ہے۔ ٹیلی ویژن پر تقریر کرنے والے کو وہ سب لوگ دیکھتے ہیں جو اس کے سامنے ہیں، لیکن وہ ان میں سے کسی ایک کو بھی نہیں دیکھ سکتا، اس کی تقریر اور اس کی نقل وحرکت کو دوسرے دیکھتے ہیں، وہ خود اس سے عاجز ہے کہ اپنے دیکھنے والوں کو دیکھ سکے۔
نبی کریم a نے’’ مستقبل بعید ‘‘ اور ’’مابعد الموت‘‘ کے احوال تفصیل سے بیان فرمائے اور قبر اور اس کے بعد جہنم کے مہیب عذاب اور خوفناک کیفیات سے اُمت کو ڈرایا ہے، اس مسئلہ کو سمجھنے کے لیے ’’راڈر‘‘ سے مدد لی جاسکتی ہے، ’’راڈر‘‘ ایک آلہ ہے جس کی مدد سے جہازوں کا نظام چل رہا ہے۔
یہی آلہ آپ کو بتاتا ہے کہ آگے کونسی چیز آرہی ہے جس سے جہاز کو نقصان لاحق ہوسکتا ہے، تقریباً سومیل سے ہی یہ آلہ بتلادیتا ہے کہ سامنے غلیظ بادل یا بلند پہاڑ آرہا ہے۔ اگر ایک بے جان آلہ مسافتِ بعیدہ کے حالات سے آپ کو مطلع کرسکتا ہے تو کیا پیغمبر کی بصیرتِ قلبی وفراستِ ایمانی مستقبل کے حالات کا ادراک نہیں کرسکتی؟!
بعض اولیاء اللہ کے متعلق مشہور ہے کہ ہوا میں اُڑنے لگے، اس پر زائغین کو ہنسی آتی تھی کہ انسان کس طرح ہوا میں اُڑسکتا ہے، لیکن تدریجی طور پر سائنس ان تمام ناقابل فہم مشکلات کا حل پیش کررہی ہے، چند ماہ قبل اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ ’’امریکہ‘‘ میں ایک انسان کو خلائی جہاز میں سوار کرکے دنیا کے سفر پر روانہ کیاگیا، مدار پر پہنچ کر وہ سوار جہاز سے باہر نکل آیا، کئی منٹ تک فضا میں پرواز کرتا رہا، بعد میں خود ہی جہاز کے اندر چلاگیا۔ اس خبر کا توکسی نے انکار نہیں کیا، لیکن اگر ایسا واقعہ کسی خدا رسیدہ بزرگ کا بیان کیا جائے، اس میں شکوک وشبہات پیدا ہوجاتے ہیں۔
الغرض سائنس کی ترقی اور محیر العقول سائنسی ایجادات کا بغور مطالعہ کرنے سے اسلام کے بہت سے پیچیدہ مسائل اقرب الی الفہم اور قابلِ قبول ہوجاتے ہیں، اب جبکہ ہر طرف سے ایمان کی متاعِ گراں مایہ کو لوٹنے کے لیے نئے سے نئے فتنے رونما ہورہے ہیں تو اللہ تعالیٰ بھی اسی سرکش انسان کے ہاتھوں نوبنوخارق العادۃ ایجادات ظاہر فرمارہے ہیں، تاکہ اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ وقاہرہ کو تسلیم نہ کرنے والوں پر اتمامِ حجت ہوجائے اور یہ عذر باقی نہ رہے کہ :’’إِنَّا کُنَّا عَنْ ہٰذَا غَافِلِیْنَ ‘‘ وباللّٰہ التوفیق۔