حضراتِ صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین انبیائے کرام علیہم السلام کے بعد روئے زمین کی سب سے برگزیدہ جماعت ہیں، قرآن کریم میں ان کی ایمانی صداقت، ان کے فضائل وکمالات وضاحت کے ساتھ موجود ہیں، ان سے رضائے الٰہی کی شہادت کی بھی بار بار صراحت ہے؛ ان سب کے باوجود صحابہٴ کرام انبیائے کرام علیہم السلام کی طرح معصوم نہیں؛ ہاں محفوظ ضرور ہیں؛ ان کی خصوصیت یہ ہے کہ انھوں نے کسی غلطی پر اصرار نہیں کیا، غلطی ہوتے ہی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں معافی مانگ لی، توبہ واستغفار کرلیے؛ اس لیے پوری امت کا عقیدہ ہے کہ گناہ کے صادر ہونے کی وجہ سے ان کے ایمان میں کوئی فرق نہیں آیا، رضائے الٰہی اور رحمتِ خداوندی کے مینارئہ نور پر وہ بہ دستور فائز ہیں، ان سے ان کی عدالت ہرگز مجروح نہیں ہوئی، پوری اُمت نے بڑے ہی احترام کے ساتھ ان کو ”الصحابةُ کلُّھم عَدُول“ کا سہرا پہنایا ہے۔
قیامت تک وہی فرقہ اہلِ حق کہلائے گا جو صحابہٴ کرام کے مطابق دین کی تشریح کرے گا، جو فرقہ صحابہٴ کرام کی روِش سے جتنا دور ہوگا، وہ حق سے اتنا ہی دور ہوگا، اور جو جتنا قریب ہوگا وہ حق سے اتنا ہی قریب ہوگا، اہل السنة والجماعة کا کوئی فرد ایسا نہیں جو صحابہٴ کرام پر لعن طعن کو جائز سمجھتا ہو، صحابہٴ کرام کی عدالت پر امتِ مسلمہ میں سلف وخلف کا اجماع ہے، محدثین نے روایتِ حدیث کی تحقیق میں جرح و تعدیل کے اصول مرتب کیے؛ مگر صحابہٴ کرام کی چوکھٹ پر آکر سب کے سب رُک گئے، کسی نے ایک قدم آگے نہیں بڑھایا۔ ہر ایک نے سارے صحابہٴ کرام کو عادل وصادق قرار دیا، کسی کو نقد وجرح کا نشانہ نہیں بنایا۔
قیامت تک وہی فرقہ اہلِ حق کہلائے گا جو صحابہٴ کرام کے مطابق دین کی تشریح کرے گا، جو فرقہ صحابہٴ کرام کی روِش سے جتنا دور ہوگا، وہ حق سے اتنا ہی دور ہوگا، اور جو جتنا قریب ہوگا وہ حق سے اتنا ہی قریب ہوگا، اہل السنة والجماعة کا کوئی فرد ایسا نہیں جو صحابہٴ کرام پر لعن طعن کو جائز سمجھتا ہو، صحابہٴ کرام کی عدالت پر امتِ مسلمہ میں سلف وخلف کا اجماع ہے، محدثین نے روایتِ حدیث کی تحقیق میں جرح و تعدیل کے اصول مرتب کیے؛ مگر صحابہٴ کرام کی چوکھٹ پر آکر سب کے سب رُک گئے، کسی نے ایک قدم آگے نہیں بڑھایا۔ ہر ایک نے سارے صحابہٴ کرام کو عادل وصادق قرار دیا، کسی کو نقد وجرح کا نشانہ نہیں بنایا۔