سیاہ برف

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
برف کانام سنتے ہی ذہن میں ٹھنڈی چیز کا خیال آتا ہے ۔لیکن اس جدید دور میں امریکی سائنس دانوں نے زبردست دباؤ اور بلند درجۂ حرارت پر پانی کو سیاہ رنگت والی برف میں تبدیل کیا ہے۔ تیکنیکی زبان میں یہ’ ’سپرآیونک آئس‘‘ کہلاتی ہے جسے عام زبان میں ’’گرم سیاہ برف‘‘ کہا جاتا ہے۔

اس بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ شاید برف کی یہی قسم یورینس اور نیپچون سیاروں کی گہرائی میں بھی موجود ہے، جس کی وجہ سے ان دونوں سیاروں کا عجیب و غریب مقناطیسی میدان بھی وجود میں آتا ہے۔گرم سیاہ برف کی پیش گوئی 1990 کے عشرے میں کی گئی تھی جب کہ اسے پہلی بار 2019 میں بنایا گیا، لیکن وہ ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت تک اپنی حالت برقرار نہیں رکھ پائی تھی۔

آرگون نیشنل لیبارٹری میں کیے گئے نئے تجربات میں سپر آیونک آئس کئی سیکنڈ تک اپنی حالت میں رہی اور یوں سائنسدانوں کو اس کی کچھ اہم خصوصیات معلوم کرنے کا موقع بھی مل گیا۔ واضح رہے کہ شدید دباؤ اور زبردست درجۂ حرارت پر یہ پراسرار برف اس وقت بنتی ہے کہ جب پانی کے سالموں (مالیکیولز) میں موجود ہائیڈروجن اور آکسیجن ایک دوسرے سے الگ ہوکر آئنز کی شکل اختیار کرلیتی ہیں۔

اس کے بعد آکسیجن آئن خود کو مکعب (کیوب) جیسی ایک جالی کی شکل میں ترتیب دیتے ہیں جب کہ ہائیڈروجن آئن اس جالی میں آزادی سے اِدھر اُدھر حرکت کر رہے ہوتے ہیں۔ اسی بناء پرسپر آیونک آئس کی کثافت بہت کم رہ جاتی ہے، اس کی رنگت سیاہ ہوجاتی ہے جب کہ اس میں سے بجلی بھی قدرے آسانی سے گزر سکتی ہے۔ لیبارٹری میں یہ گرم سیاہ برف انتہائی خصوصی حالات کے تحت تیار کی گئی، جس کےلیے پانی پر 20 گیگا پاسکل دباؤ ڈالا گیا (جو زمین پر ہوا کے دباؤ سے تقریباً دو لاکھ گنا زیادہ تھا)۔اس کے ساتھ ہی پانی کو لیزر سے گرم کیا جاتا رہا۔

سائنسدانوں کو معلوم ہوا کہ یہ برف 627 ڈگری سینٹی گریڈ پر بننا شروع ہوئی اور 1,627 ڈگری سینٹی گریڈ تک برقرار رہی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جس دباؤ پر سپرآیونک آئس بننے کی پیش گوئی کی گئی تھی، یہ اس کے مقابلے میں بہت کم دباؤ پر وجود میں آگئی۔ اس عجیب و غریب اور پراسرار برف کے بارے میں مزید جاننے کےلیے اسے بہت دیر تک اسی حالت میں برقرار رکھنا ہوگا۔

اگلے تجربات میں ماہرین اسے چند گھنٹوں تک اسی حالت میں رکھنے کی کوشش کریں گے، البتہ گرم سیاہ برف کے بارے میں مزید جان کر ہمیں نہ صرف غیر معمولی حالات میں مادّے کا طرزِ عمل سمجھنے میں مدد ملے گی بلکہ ہم یہ اندازہ بھی لگا سکیں گے کہ یورینس اور نیپچون جیسے بھاری بھر کم سیاروں میں شدید دباؤ کے تحت پانی پر کیا گزرتی ہے۔
 
Top