اسباب یقینیہ

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
اسباب یقینیہ اور ان کا حکم:
اسباب یقینیہ وہ ہیں جن پر نتائج کا ترتب یقینی ہو، یاان اسباب کے بغیر نتائج وجود میں نہ آئیں ، اس کے خلاف ہونا خرقِ عادت سمجھا جاتا ہو۔ مطلب یہ ہے کہ ان اسباب کے اختیار واستعمال کے بعد ان کے نتائج کا ظہور لازم ہو، یا یہ کہ ان کے نتائج کا ظہور ان اسباب کے بغیر نہ ہوتا ہو، اور اگر کبھی اس کے خلاف ہو ، مثلاً یہ کہ سبب عمل میں لایاگیا ، اور کوئی مانع بھی نہیں ہے ، مگر اس کا نتیجہ ظاہر نہیں ہوا ، یا وہ نتیجہ بغیر اس کے متعلقہ سبب کے ظاہر ہو گیا ، تو اسے خرقِ عادت سمجھا جائے گا۔
اس کی مثال ، جیسے زندگی کی بقاء کے لئے کھانا، آدمی بھوکا ہو اور کھانا نہ کھائے تو مرجائے گا ، اور کھانا کھالے تواس کی جان بچ جائے گی ، کھانا زندگی کے تحفظ کے لئے سبب یقینی ہے ، اور اگر کسی کی حیات کھانا کھائے بغیر باقی رہ جائے تو یہ خرقِ عادت ہے۔
اولاد حاصل کرنے کے لئے نکاح کرنا سبب یقینی ہے ، بغیر نکاح کے اگر کوئی اولاد حاصل کرنا چاہے تو یہ محال ہے۔ جنت میں داخل ہونے کے لئے ایمان سبب یقینی ہے ، ایمان کے بغیر جنت میں داخلہ نہیں ہوسکتا ، اور ایمان دل میں موجود ہواس کے باوجود جنت سے محروم رہ جائے ،ممکن نہیں۔
اسباب یقینیہ کا حکم یہ ہے کہ ضرورت کے وقت ان کا اختیار کرنا واجب ہے ، اگر کوئی شخص بھوک سے مررہا ہے ، اور اس کے پاس کھانے کی کوئی چیز موجود ہو اور نہ کھائے اور مرجائے تو وہ گنہگارہوگا ، حتیٰ کہ اگر اس کے پاس حرام غذا ہے،مثلاً مردار یا خنزیر کا گوشت ہے ، تو اسے جان بچانے کے بقدر کھانا واجب ہے۔

اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَۃٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لإِثمٍْ فَإِنَّ اﷲَ غَفُوْرٌرَّحِیْمٌ۔
جو شخص بھوک کی شدت سے مجبور ہوجائے بشرطیکہ اس کامیلان ارتکابِ گناہ کی جانب نہ ہو تو اﷲ تعالیٰ بخشنے والے ہیں۔
دوسری جگہ ارشاد ہے:
حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ وَالْدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَمَآ أُھِلَّ لِغَیْرِ اﷲِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّلَاعَادٍ فَلَاإِثْمَ عَلَیْہِ إِنَّ اﷲَ غَفُوْرٌرَّحِیْمٌ۔
تمہارے اوپر مردار، خون اورخنزیر کا گوشت حرام کیاگیا ، اور وہ جانور بھی جس پرغیر اﷲ کانام لیا گیا ہو، پھر جو کوئی مجبور ہوجائے بشرطیکہ طالب لذت نہ ہو ، اور نہ حد سے تجاوز کرنے والا ہو، تو اس پر کوئی گناہ نہیں ،بیشک اﷲ تعالیٰ مغفرت کرنے والے ، رحم فرمانے والے ہیں۔
ان دونوں آیات کریمہ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حالت اضطرار یعنی مجبوری میں مذکورہ بالا حرام چیزوں کے بقدر ضرورت کھالینے میں کوئی گناہ نہیں ہوتا ، اور نہ کھانے والے پر کوئی تاوان یا جرمانہ عائد ہوتا، اس کا حاصل یہ نکلا کہ وہ چیز اتنی مقدار میں اس کے لئے حلال ہوگئی ، اگر اس کے باوجود وہ نہ کھائے اور جان دیدے تو گنہ گار ہوگا۔
ہاں اگر ایسی چیز ہو ،جس کے استعمال کے بعد اس پر کوئی تاوان عائد ہوتا ہو ، تو اس کے کھانے کی حرمت موجود رہتی ہے ، تاہم اگر وہ اس چیز کو کھاکر جان بچانا چاہے تو شریعت اس کی رُخصت دیتی ہے ، البتہ حرمت چونکہ موجود ہے ، اس لئے اگر عزیمت اختیار کرے اور اسے نہ کھائے تو گنہ گار نہ ہوگا۔
مثلاً دوسرے کا مال اس کے پاس موجود ہے ، اور اسے صراحۃً یا دلالۃً اس کے استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے ، تو حالت اضطرار میں اسے کھاکر جان بچالے تو اس کی رخصت ہے ، مگر تاوان ادا کرنا ہوگا ، اور اگر نہ کھائے ، اور مرجائے تو گنہ گار نہ ہوگا۔ بہرحال ضرورت کے وقت…بشرطیکہ کوئی مانع شرعی نہ ہو… اسبابِ یقینیہ کا استعمال ضروری ہے اور استعمال نہ کرنے کی صورت میں ہلاکت یا ضرر سے دوچار ہوجائے تو خطاکار شمار کیاجائے گا۔
 
Top