سنو!سنو!!
موبائل کی وجہ سے رشتوں کی مٹھاس کھٹاس میں بدل گئی
ناصرالدین مظاہری
وہ بھی کیادن تھے کہ مہینہ مہینہ کے بعدجب ایک آدھ پوسٹ کارڈ، انتردیشی یا رجسٹری پہنچتی تھی تو پورے گھرکے لوگ ایک جگہ جمع ہوجاتے تھے ،ایک بندہ خط پڑھتا تھا،گھرکے تمام افرادپرسکون اندازمیں خط سنتے تھے،جہاں بات کچھ اہم ہوتی تھی دوبارہ پڑھنے کاحکم ہوتا تھا،جب خط آتاتھاتواس کاجواب دینے کی بھی ذمہ داری ہوتی تھی اس کے لئے پہلے ایک بندہ پوسٹ آفس جاتاتھا،خط خریدتاتھا،خط لایا جاتا،کسی مولوی صاحب،کسی ماسٹرجی یااورکسی پڑھے لکھے ماہرفردکے پاس پہنچ کرپوری بات بتائی جاتی،خط لکھنے والاپوری بات بغورسنتااورپھرقلم اٹھاکرخط کامضمون مرتب کرتا،بالکل اخیرمیں کچھ ہدایات ہوتیں،نصیحتیں ہوتیں،گھرکے ننھے بچوں کی طرف سے پیارے جملے اورخیرخیریت لکھی جاتی اورتاکید ہوتی کہ خط ملتے ہی جواب ضرور دینا۔اس پورے معاملہ میں پیارکی جوپھواردونوں طرف پھوٹتی تھی اس کولفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتاہے ،یہ خطوط بہت اہتمام سے سنبھال کررکھے جاتے تھے،کبھی کبھی انھیں نکال کرنظرڈالی جاتی تھی، پرانی تادیں اورباتیں دہرائی جاتیں تھیں اورگھریلو ماحول میں ناقابل بیان محبت کی فضاقائم رہتی تھی۔ان خطوط میں بسااوقات کسی خاص واقعہ کی پوری تاریخ درج ہوتی تھی ،وہ تاریخ بعدمیں مستقل تاریخ بنتی تھی -غالب کے خطوط،اقبال کے خطوط، مکتوبات امام ربانی،مکتوبات شاہ ولی اللہ،غبارخاطر،مکتوبات مرزامظہرجان جاناں،مکتوبات نانوتوی و تھانوی وغیرہ یہ سب خطوط بلکہ خطوط کی لائربریاں اسی محبت اوراسی تعلق کاخوبصورت نمونہ ہیں ۔کتنے ہی علوم اورمعارف ان خطوط میں موجودہیں جن پرمقالے نہیں پی ایچ ڈی کی جاسکتی ہے،ایسے ایسے باریک اوراہم ترین نکات اورجواہرموجودہیں جوکتابوں میں بھی ڈھونڈے سے نہ ملیں گے۔اب حضرت موبائل کی آمد اورانٹری ہوتی ہے یہ ایک چھوٹا ساآلہ مثل ہالہ کیالکھا کیابولا،نہ لکھنے کی ٹینشن نہ محفوظ کرنے کی توفیق، بول کرپیغام بھیج دیجئے ،میموری بھرجائے توتمام کوبیک جنبش بٹن ڈیلیٹ ماردیجئے ،لیجئے سالہاسال کی کال ریکارڈنگ ،گھنٹوں گھنٹوں کی چیٹنگ منٹوں میں غائب،پہلے ایک ایک خط کے لئے سفرہوتے تھے اب ان سب کی اہمیت ختم ہوگئی، پہلے مکتوبات میں علوم اورمعارف چھپے ہوتے تھے،ان مکتوبات کوکتابی شکل میں شائع کرکے بعدکی نسلوں کے لئے محفوظ کردیاجاتاتھااب کوئی کتناہی بڑی طغرم خان ہو،کیاحضرت مولاناسیدمحمدرابع اورکیاحضرت مولانا قمرالزماں،کیاحضرت مولاناسیدمکرم حسین اورکیاحضرت مولانامفتی محمدتقی عثمانی،سب کے پاس موبائل آگئے ہیں،کسی کے پاس وقت نہیں ہے خط کے لکھنے کانہ لکھانے کا،اہم کال آگئی بات کرلی،اہم بات ہوئی موبائل اٹھایابات کرلی،سچ کہتاہوں آنے والی نسلوں کویقین دلاناپڑے گاکہ پہلے زمانے میںموبائل نہیں ہوتے تھے اورمہینوں میں خطوط کے جوابات موصول ہواکرتے تھے۔پہلے لوگ اکابرکی تحریرات اوران کے عکس کوفریم کراتے تھے اب حضرت کمپیوٹرنے ان کی جگہ لے لی ،میں خودجب کچھ لکھناہوتاہے یالکھواناہوتاہے توصرف اپنے آپریٹرکے پاس بیٹھ جاتا ہوں، بولتارہتاہوں وہ لکھتارہتاہے ،کہاں قلم کاانتخاب،کہاں دوات کاتکلف، کہاں کاغذکی جستجو،کہاں خلوت کی تلاش اورکہاں میزوتپائی اور دیگر لوازمات ۔
دل کے آئینے میں ہے تصویریار
جب ذراگردن جھکائی دیکھ لی
جب تک موبائل نہیں تھاگھرکے تمام افرادایک جگہ جمع ہوجاتے تھے ،گفتگوہوتی تھی،تبادلہ خیال ہوتاتھا،تجربات کاتبادلہ ہوتا تھا، خیالات کاتبادلہ ہوتاتھا،ان تبادلوں کوسن سن کرنسلیں سنورتی اورسدھرتی تھیں ،اب حال یہ ہوگیاکہ باپ تھکاہاراگھرپہنچا،بیگ کواُدھر پھینکا، خود بیڈپرجالیٹا،جیب سے موبائل نکالا اور دنیابھرکی رنگینیوں،دلچسپیوں میں کھوگیا،نہ پانی کافکر،نہ کھانے کافکر،نہ بچوں کافکر،صوفے پربیٹابیٹھاہواہے ؟مکمل سکوت ہے،کامل سکون ہے، ٹی وی کوبھی کباڑخانے پہنچادیاگیاہے کیونکہ اب ہرجیب میں ٹی وی آگیا ہے،بیٹی اسکول سے آئی اورموبائل پرجھپٹی،بچے نرسری سے گھرپہنچے اورموبائل لے کرپڑگئے ،کوئی گیم کھیل رہاہے ،کوئی یوٹیوب چلاکر مست ہے،کوئی یارانہ گانٹھ رہاہے کوئی کسی اورمشغلہ میں مست اور بدمست ہے۔جب جی بھرگیامن پسند موادکوڈیلیٹ ماردیا،چیٹنگ پوری ہوگئی ڈیلیٹ ماردی،فلمیں پوری ہوگئیں ڈیلیٹ ماردی گئی۔ایک ہی چھت کے نیچے باپ بھی ہے،بیوی بھی ہے،بیٹے بھی ہیں،بیٹیاں بھی ہیں کوئی کسی سے بات چیت نہیں کرتا، کوئی کسی سے خیرخیریت نہیں پوچھتا سب اپنے اپنے مشغلہ میں مست ومگن ہیں۔ہمارے رشتوں کی قدریں کھونے کے لئے اب پڑوس کی بھابھی،محلہ کی چچی،سامنے والی آنٹی، رشتے کی خالہ،اباجی کی بہن،بڑے بھیاکی بیوی کسی کی ضرورت نہیں ہے صرف ایک موبائل نے گھرمیں کیادستک دی ہے کہ رشتوں کی مٹھاس کھٹاس میں بدل گئی ہے۔
موبائل کی وجہ سے رشتوں کی مٹھاس کھٹاس میں بدل گئی
ناصرالدین مظاہری
وہ بھی کیادن تھے کہ مہینہ مہینہ کے بعدجب ایک آدھ پوسٹ کارڈ، انتردیشی یا رجسٹری پہنچتی تھی تو پورے گھرکے لوگ ایک جگہ جمع ہوجاتے تھے ،ایک بندہ خط پڑھتا تھا،گھرکے تمام افرادپرسکون اندازمیں خط سنتے تھے،جہاں بات کچھ اہم ہوتی تھی دوبارہ پڑھنے کاحکم ہوتا تھا،جب خط آتاتھاتواس کاجواب دینے کی بھی ذمہ داری ہوتی تھی اس کے لئے پہلے ایک بندہ پوسٹ آفس جاتاتھا،خط خریدتاتھا،خط لایا جاتا،کسی مولوی صاحب،کسی ماسٹرجی یااورکسی پڑھے لکھے ماہرفردکے پاس پہنچ کرپوری بات بتائی جاتی،خط لکھنے والاپوری بات بغورسنتااورپھرقلم اٹھاکرخط کامضمون مرتب کرتا،بالکل اخیرمیں کچھ ہدایات ہوتیں،نصیحتیں ہوتیں،گھرکے ننھے بچوں کی طرف سے پیارے جملے اورخیرخیریت لکھی جاتی اورتاکید ہوتی کہ خط ملتے ہی جواب ضرور دینا۔اس پورے معاملہ میں پیارکی جوپھواردونوں طرف پھوٹتی تھی اس کولفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتاہے ،یہ خطوط بہت اہتمام سے سنبھال کررکھے جاتے تھے،کبھی کبھی انھیں نکال کرنظرڈالی جاتی تھی، پرانی تادیں اورباتیں دہرائی جاتیں تھیں اورگھریلو ماحول میں ناقابل بیان محبت کی فضاقائم رہتی تھی۔ان خطوط میں بسااوقات کسی خاص واقعہ کی پوری تاریخ درج ہوتی تھی ،وہ تاریخ بعدمیں مستقل تاریخ بنتی تھی -غالب کے خطوط،اقبال کے خطوط، مکتوبات امام ربانی،مکتوبات شاہ ولی اللہ،غبارخاطر،مکتوبات مرزامظہرجان جاناں،مکتوبات نانوتوی و تھانوی وغیرہ یہ سب خطوط بلکہ خطوط کی لائربریاں اسی محبت اوراسی تعلق کاخوبصورت نمونہ ہیں ۔کتنے ہی علوم اورمعارف ان خطوط میں موجودہیں جن پرمقالے نہیں پی ایچ ڈی کی جاسکتی ہے،ایسے ایسے باریک اوراہم ترین نکات اورجواہرموجودہیں جوکتابوں میں بھی ڈھونڈے سے نہ ملیں گے۔اب حضرت موبائل کی آمد اورانٹری ہوتی ہے یہ ایک چھوٹا ساآلہ مثل ہالہ کیالکھا کیابولا،نہ لکھنے کی ٹینشن نہ محفوظ کرنے کی توفیق، بول کرپیغام بھیج دیجئے ،میموری بھرجائے توتمام کوبیک جنبش بٹن ڈیلیٹ ماردیجئے ،لیجئے سالہاسال کی کال ریکارڈنگ ،گھنٹوں گھنٹوں کی چیٹنگ منٹوں میں غائب،پہلے ایک ایک خط کے لئے سفرہوتے تھے اب ان سب کی اہمیت ختم ہوگئی، پہلے مکتوبات میں علوم اورمعارف چھپے ہوتے تھے،ان مکتوبات کوکتابی شکل میں شائع کرکے بعدکی نسلوں کے لئے محفوظ کردیاجاتاتھااب کوئی کتناہی بڑی طغرم خان ہو،کیاحضرت مولاناسیدمحمدرابع اورکیاحضرت مولانا قمرالزماں،کیاحضرت مولاناسیدمکرم حسین اورکیاحضرت مولانامفتی محمدتقی عثمانی،سب کے پاس موبائل آگئے ہیں،کسی کے پاس وقت نہیں ہے خط کے لکھنے کانہ لکھانے کا،اہم کال آگئی بات کرلی،اہم بات ہوئی موبائل اٹھایابات کرلی،سچ کہتاہوں آنے والی نسلوں کویقین دلاناپڑے گاکہ پہلے زمانے میںموبائل نہیں ہوتے تھے اورمہینوں میں خطوط کے جوابات موصول ہواکرتے تھے۔پہلے لوگ اکابرکی تحریرات اوران کے عکس کوفریم کراتے تھے اب حضرت کمپیوٹرنے ان کی جگہ لے لی ،میں خودجب کچھ لکھناہوتاہے یالکھواناہوتاہے توصرف اپنے آپریٹرکے پاس بیٹھ جاتا ہوں، بولتارہتاہوں وہ لکھتارہتاہے ،کہاں قلم کاانتخاب،کہاں دوات کاتکلف، کہاں کاغذکی جستجو،کہاں خلوت کی تلاش اورکہاں میزوتپائی اور دیگر لوازمات ۔
دل کے آئینے میں ہے تصویریار
جب ذراگردن جھکائی دیکھ لی
جب تک موبائل نہیں تھاگھرکے تمام افرادایک جگہ جمع ہوجاتے تھے ،گفتگوہوتی تھی،تبادلہ خیال ہوتاتھا،تجربات کاتبادلہ ہوتا تھا، خیالات کاتبادلہ ہوتاتھا،ان تبادلوں کوسن سن کرنسلیں سنورتی اورسدھرتی تھیں ،اب حال یہ ہوگیاکہ باپ تھکاہاراگھرپہنچا،بیگ کواُدھر پھینکا، خود بیڈپرجالیٹا،جیب سے موبائل نکالا اور دنیابھرکی رنگینیوں،دلچسپیوں میں کھوگیا،نہ پانی کافکر،نہ کھانے کافکر،نہ بچوں کافکر،صوفے پربیٹابیٹھاہواہے ؟مکمل سکوت ہے،کامل سکون ہے، ٹی وی کوبھی کباڑخانے پہنچادیاگیاہے کیونکہ اب ہرجیب میں ٹی وی آگیا ہے،بیٹی اسکول سے آئی اورموبائل پرجھپٹی،بچے نرسری سے گھرپہنچے اورموبائل لے کرپڑگئے ،کوئی گیم کھیل رہاہے ،کوئی یوٹیوب چلاکر مست ہے،کوئی یارانہ گانٹھ رہاہے کوئی کسی اورمشغلہ میں مست اور بدمست ہے۔جب جی بھرگیامن پسند موادکوڈیلیٹ ماردیا،چیٹنگ پوری ہوگئی ڈیلیٹ ماردی،فلمیں پوری ہوگئیں ڈیلیٹ ماردی گئی۔ایک ہی چھت کے نیچے باپ بھی ہے،بیوی بھی ہے،بیٹے بھی ہیں،بیٹیاں بھی ہیں کوئی کسی سے بات چیت نہیں کرتا، کوئی کسی سے خیرخیریت نہیں پوچھتا سب اپنے اپنے مشغلہ میں مست ومگن ہیں۔ہمارے رشتوں کی قدریں کھونے کے لئے اب پڑوس کی بھابھی،محلہ کی چچی،سامنے والی آنٹی، رشتے کی خالہ،اباجی کی بہن،بڑے بھیاکی بیوی کسی کی ضرورت نہیں ہے صرف ایک موبائل نے گھرمیں کیادستک دی ہے کہ رشتوں کی مٹھاس کھٹاس میں بدل گئی ہے۔