سنوسنو!!
تھوکنے کاسلیقہ بھی ضروری ہے
ناصرالدین مظاہری
ایک شادی میں شرکت کے لئے سہارنپورسے سیتاپورجارہاتھا،سلیپرکلاس تھا،مولاناجمیل احمدسیتاپوری بھی ہمراہ تھے،ٹرین رواں دواں تھی کہ اچانک مجھ سے اگلے والے کیبن میں سے کسی نے پڑیاکی پچکاری باہرپھینکی جوپوری کی پوری مجھ پرآگری اورمیرے واحدکپڑوں کوگل وگلزارکرگئی۔
اگرآپ انڈیامیں ہیں توسڑکوں ،چوک وچوراہوں،بس اڈوں،ریلوے اسٹیشنوں ہرجگہ ایسے نمونے آپ کودکھائی دیں گے جوپان،پڑیا،کھینی یاگل وغیرہ کرکے تھوکتے ،دیواروں کورنگین اور فرش کونقشین کرتے مل جائیں گے یہ قوم شوق تواپنے پورے کرتی ہے لیکن تکلیف ہمیشہ دوسروںکودیتی ہے۔
بی بی سی لندن نے دوہزاردس میں ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں بتایاگیاتھاکہ پوری دنیامیں سڑکوں،پارکوں،عوامی جگہوں میں تھوکنے والے سب سے زیادہ انڈیامیں پائے جاتے ہیں۔وہ تواچھاہواکہ کوروناوائرس کے خوف اورحکومتی وعوامی شدت نے لوگوں کے تھوکنے پرکافی حدتک قدغن لگائی ہے ورنہ ہمارے وزیراعظم تک نے اپنی قوم سے خطاب میں اس تھوکنے کارونارویاہے اورمحض اپیل کرتے ہی نظرآئے ہیں۔
اصل میں یہ عمل بے سلیقہ ،اوباش طبع اورگندگی پسندطبیعتوں کاکام ہے،میں نے فقیہ الاسلام حضرت مفتی مظفرحسینؒ کوپان کھاکراگالدان میں تھوکتے اس طورپردیکھاہے کہ وہ اپنے منہ کواگالدان کے بالکل قریب لے جاتے تھے ،جس طرف لوگ بیٹھے ہوتے تھے ادھرہاتھ سے رکاوٹ کرلیتے تھے تاکہ پان کی پیک بھی لوگوں کودکھائی نہ دے ۔
مفتی صاحبؒ ایک بزرگ کاواقعہ بتایاکرتے تھے کہ کوئی شخص ان سے ملنے گیاتودیکھاکہ بزرگ نے قبلہ کی جانب بے تکلف تھوک دیاہے تووہ عقیدت مندوہیں سے الٹے پیرواپس ہوگیااورکہاکہ وہ بزرگ بزرگ ہی نہیں ہے جوقبلہ کااحترام نہ کرتاہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک صاحب کوقبلہ کی طرف تھوکتے دیکھ لیاتوناگواری کااظہارفرمایااوراس کونمازپڑھانے سے منع فرمادیا۔ان صحابی نے پھرکبھی نمازپڑھانی چاہی توصحابہ نے روک دیااور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادسنایا،وہ صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ’’تو نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچائی ہے ‘‘۔
ابوداؤدشریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے قبلہ رخ تھوک دیا وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا تھوک اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان (پیشانی پر) ہوگا ۔
بہت سے لوگ مسجدمیں آکرہی وضوکرتے ہیں اوراتنے بے سلیقہ پن کامظاہرہ کرتے ہیں کہ مسجدمیں سنتیں پڑھنے یاموجودلوگوں کواس کے وضوسے تکدرہوجاتاہے،بعض توپورے دن کاتھوک اوربلغم آکرمسجدکے وضوخانے میں ہی نکالنے کوکارثواب سمجھتے ہیں۔ایسی ایسی آوازیں نکالتے ہیں کہ الامان والحفیظ۔
بہت سے لوگ چلتے چلتے اچانک اپنے دائیں یابائیں تھوک دیتے ہیں،کچھ احمق توگاڑی کاشیشہ کھول کرایساتھوکتے ہیں کہ باہرگزرنے والے لوگ بھی گل وگلزارہوجاتے ہیں،بعض بے ادب ایسے بھی ہیں جوعوامی جگہوں پر تھوکنے،دانتوں میں خلال کرنے،ناک میں انگلی ڈالنے اورکانوں کامیل نکالنے میں کوئی قباحت نہیں سمجھتے،یہ سب چیزیں انسان کے بے سلقیہ پن کوظاہرکرتی ہیں،ہمارے حضرت مولانااطہرحسینؒ نے اگرکسی طالب علم کودوران سبق ناک،کان یاآنکھ کے گوشے کوصاف کرتے دیکھ لیاتواس کی خیرنہیں تھی وہیں سزادیتے تھے جس کانتیجہ یہ ہوتاتھاکہ پھروہ طالب علم ہمیشہ یادرکھتاتھا۔اب روک ٹوک کی عادت ختم ہوتی جارہی ہے،نہ طلبہ میں شوق رہا،نہ اساتذہ میں دلچسپی رہی،سبق پڑھایااوردرسگاہ سے باہر۔
حضرت ابوہریرہ اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کی دیوار پر رینٹ دیکھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کنکری لے کر اسے کھرچ ڈالا، پھر فرمایا: ”جب کوئی شخص تھوکنا چاہے تو اپنے سامنے اور اپنے دائیں ہرگز نہ تھوکے، بلکہ اپنے بائیں جانب یا بائیں پاؤں کے نیچے تھوکے“ (صحیح بخاری)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں قبلہ کی سمت بلغم دیکھا، تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے، اور فرمایا: ”لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے آگے بلغم تھوکتے ہیں؟ کیا تم میں کا کوئی یہ پسند کرے گا کہ دوسرا شخص اس کی طرف منہ کر کے اس کے منہ پر تھوکے؟۔(صحیح مسلم)
اب توماشاءاللہ کافی سدھارآگیاہے ورنہ بعض مدارس میں عمارتوں کے گوشے بھی پان اورپڑیاکی وجہ سے گل وگلزارہوتے تھے،جگہ جگہ دیواروں پرلکھناپڑتاتھاکہ ’’پان کھاکرگوشوں اوردیواروں پرنہ تھوکیں‘‘۔
امریکہ میں مقیم ایک بھارتی فیملی نے اپنے خرچہ سے ایک تحریک بھارت میں شروع کی،پورے ملک کے دورے کئےاوریہ بیداری پیداکرنی چاہی کہ لوگ دیواروں پرنہ تھوکیں ،اسی فیملی کی رپورٹ ہے کہ ایک اسٹیشن کی دیوارکاتوبہت براحال تھا،ہم نے اس دیوارکواپنے صرفہ سے دوبارہ رنگوایالیکن تیسرے دن دیکھاتوویوارواپس اپنی حالت میں پہنچ چکی تھی،میں نے ایک صاحب کوتھوکتے دیکھاتومنع کیا،اس نے کندھے اچھکائے اورکہاکہ کیایہ دیوارتمہارے باپ کی ہے۔
بعض لوگ بیت الخلاء ،غسل خانہ وغیرہ میں بھی بے تکلف تھوکتے رہتے ہیں ،حالانکہ حکماء کہتے ہیں کہ ان جگہوں پرتھوکنے سے ذہن کم زورہوتاہے ۔مشہورعالم حضرت مولانامفتی شبیراحمدقاسمی نے ایک استفتاء کے جواب میں لکھاکہ بیت الخلااورغسل خانے میں بلا وجہ تھوکنا مکروہ ہے۔
اسلام کی خوبی اورامتیازیہ ہے کہ ہرجمعہ کوتمام قوم اپنے اماموں اورخطیبوں کے بیانات سنتی ہے ،اگرائمہ حضرات وقفہ وقفہ سے اس پہلوپربھی لوگوں کومتوجہ کریں توکم ازکم عوامی جگہوں پرتھوکنے والی تعدادمیں تقریباً۳۰؍کروڑافرادکم پڑجائیں گے اوریہ۳۰؍کروڑافراداگرٹھان لیں توتین چاردنوں میں ہی پورے ملک میں ایک بیداری پیداکرسکتے ہیں۔
تھوکنے کاسلیقہ بھی ضروری ہے
ناصرالدین مظاہری
ایک شادی میں شرکت کے لئے سہارنپورسے سیتاپورجارہاتھا،سلیپرکلاس تھا،مولاناجمیل احمدسیتاپوری بھی ہمراہ تھے،ٹرین رواں دواں تھی کہ اچانک مجھ سے اگلے والے کیبن میں سے کسی نے پڑیاکی پچکاری باہرپھینکی جوپوری کی پوری مجھ پرآگری اورمیرے واحدکپڑوں کوگل وگلزارکرگئی۔
اگرآپ انڈیامیں ہیں توسڑکوں ،چوک وچوراہوں،بس اڈوں،ریلوے اسٹیشنوں ہرجگہ ایسے نمونے آپ کودکھائی دیں گے جوپان،پڑیا،کھینی یاگل وغیرہ کرکے تھوکتے ،دیواروں کورنگین اور فرش کونقشین کرتے مل جائیں گے یہ قوم شوق تواپنے پورے کرتی ہے لیکن تکلیف ہمیشہ دوسروںکودیتی ہے۔
بی بی سی لندن نے دوہزاردس میں ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں بتایاگیاتھاکہ پوری دنیامیں سڑکوں،پارکوں،عوامی جگہوں میں تھوکنے والے سب سے زیادہ انڈیامیں پائے جاتے ہیں۔وہ تواچھاہواکہ کوروناوائرس کے خوف اورحکومتی وعوامی شدت نے لوگوں کے تھوکنے پرکافی حدتک قدغن لگائی ہے ورنہ ہمارے وزیراعظم تک نے اپنی قوم سے خطاب میں اس تھوکنے کارونارویاہے اورمحض اپیل کرتے ہی نظرآئے ہیں۔
اصل میں یہ عمل بے سلیقہ ،اوباش طبع اورگندگی پسندطبیعتوں کاکام ہے،میں نے فقیہ الاسلام حضرت مفتی مظفرحسینؒ کوپان کھاکراگالدان میں تھوکتے اس طورپردیکھاہے کہ وہ اپنے منہ کواگالدان کے بالکل قریب لے جاتے تھے ،جس طرف لوگ بیٹھے ہوتے تھے ادھرہاتھ سے رکاوٹ کرلیتے تھے تاکہ پان کی پیک بھی لوگوں کودکھائی نہ دے ۔
مفتی صاحبؒ ایک بزرگ کاواقعہ بتایاکرتے تھے کہ کوئی شخص ان سے ملنے گیاتودیکھاکہ بزرگ نے قبلہ کی جانب بے تکلف تھوک دیاہے تووہ عقیدت مندوہیں سے الٹے پیرواپس ہوگیااورکہاکہ وہ بزرگ بزرگ ہی نہیں ہے جوقبلہ کااحترام نہ کرتاہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک صاحب کوقبلہ کی طرف تھوکتے دیکھ لیاتوناگواری کااظہارفرمایااوراس کونمازپڑھانے سے منع فرمادیا۔ان صحابی نے پھرکبھی نمازپڑھانی چاہی توصحابہ نے روک دیااور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادسنایا،وہ صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ’’تو نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچائی ہے ‘‘۔
ابوداؤدشریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے قبلہ رخ تھوک دیا وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا تھوک اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان (پیشانی پر) ہوگا ۔
بہت سے لوگ مسجدمیں آکرہی وضوکرتے ہیں اوراتنے بے سلیقہ پن کامظاہرہ کرتے ہیں کہ مسجدمیں سنتیں پڑھنے یاموجودلوگوں کواس کے وضوسے تکدرہوجاتاہے،بعض توپورے دن کاتھوک اوربلغم آکرمسجدکے وضوخانے میں ہی نکالنے کوکارثواب سمجھتے ہیں۔ایسی ایسی آوازیں نکالتے ہیں کہ الامان والحفیظ۔
بہت سے لوگ چلتے چلتے اچانک اپنے دائیں یابائیں تھوک دیتے ہیں،کچھ احمق توگاڑی کاشیشہ کھول کرایساتھوکتے ہیں کہ باہرگزرنے والے لوگ بھی گل وگلزارہوجاتے ہیں،بعض بے ادب ایسے بھی ہیں جوعوامی جگہوں پر تھوکنے،دانتوں میں خلال کرنے،ناک میں انگلی ڈالنے اورکانوں کامیل نکالنے میں کوئی قباحت نہیں سمجھتے،یہ سب چیزیں انسان کے بے سلقیہ پن کوظاہرکرتی ہیں،ہمارے حضرت مولانااطہرحسینؒ نے اگرکسی طالب علم کودوران سبق ناک،کان یاآنکھ کے گوشے کوصاف کرتے دیکھ لیاتواس کی خیرنہیں تھی وہیں سزادیتے تھے جس کانتیجہ یہ ہوتاتھاکہ پھروہ طالب علم ہمیشہ یادرکھتاتھا۔اب روک ٹوک کی عادت ختم ہوتی جارہی ہے،نہ طلبہ میں شوق رہا،نہ اساتذہ میں دلچسپی رہی،سبق پڑھایااوردرسگاہ سے باہر۔
حضرت ابوہریرہ اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کی دیوار پر رینٹ دیکھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کنکری لے کر اسے کھرچ ڈالا، پھر فرمایا: ”جب کوئی شخص تھوکنا چاہے تو اپنے سامنے اور اپنے دائیں ہرگز نہ تھوکے، بلکہ اپنے بائیں جانب یا بائیں پاؤں کے نیچے تھوکے“ (صحیح بخاری)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں قبلہ کی سمت بلغم دیکھا، تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے، اور فرمایا: ”لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے آگے بلغم تھوکتے ہیں؟ کیا تم میں کا کوئی یہ پسند کرے گا کہ دوسرا شخص اس کی طرف منہ کر کے اس کے منہ پر تھوکے؟۔(صحیح مسلم)
اب توماشاءاللہ کافی سدھارآگیاہے ورنہ بعض مدارس میں عمارتوں کے گوشے بھی پان اورپڑیاکی وجہ سے گل وگلزارہوتے تھے،جگہ جگہ دیواروں پرلکھناپڑتاتھاکہ ’’پان کھاکرگوشوں اوردیواروں پرنہ تھوکیں‘‘۔
امریکہ میں مقیم ایک بھارتی فیملی نے اپنے خرچہ سے ایک تحریک بھارت میں شروع کی،پورے ملک کے دورے کئےاوریہ بیداری پیداکرنی چاہی کہ لوگ دیواروں پرنہ تھوکیں ،اسی فیملی کی رپورٹ ہے کہ ایک اسٹیشن کی دیوارکاتوبہت براحال تھا،ہم نے اس دیوارکواپنے صرفہ سے دوبارہ رنگوایالیکن تیسرے دن دیکھاتوویوارواپس اپنی حالت میں پہنچ چکی تھی،میں نے ایک صاحب کوتھوکتے دیکھاتومنع کیا،اس نے کندھے اچھکائے اورکہاکہ کیایہ دیوارتمہارے باپ کی ہے۔
بعض لوگ بیت الخلاء ،غسل خانہ وغیرہ میں بھی بے تکلف تھوکتے رہتے ہیں ،حالانکہ حکماء کہتے ہیں کہ ان جگہوں پرتھوکنے سے ذہن کم زورہوتاہے ۔مشہورعالم حضرت مولانامفتی شبیراحمدقاسمی نے ایک استفتاء کے جواب میں لکھاکہ بیت الخلااورغسل خانے میں بلا وجہ تھوکنا مکروہ ہے۔
اسلام کی خوبی اورامتیازیہ ہے کہ ہرجمعہ کوتمام قوم اپنے اماموں اورخطیبوں کے بیانات سنتی ہے ،اگرائمہ حضرات وقفہ وقفہ سے اس پہلوپربھی لوگوں کومتوجہ کریں توکم ازکم عوامی جگہوں پرتھوکنے والی تعدادمیں تقریباً۳۰؍کروڑافرادکم پڑجائیں گے اوریہ۳۰؍کروڑافراداگرٹھان لیں توتین چاردنوں میں ہی پورے ملک میں ایک بیداری پیداکرسکتے ہیں۔