اکابرکی تصویریں
ناصرالدین مظاہری
۲۲؍ذی الحجہ کوبعدنمازجمعہ عارف باللہ حضرت مولاناحکیم سیدمکرم حسین سنسارپوریؒ کاانتقال پرملال کیاہواکہ سوشل میڈیاپر خبروں کے ساتھ حضرت کی تصاویراس قدروائرل ہوئیں کہ مجھے یہ کہنے میں بالکل باک اورتکلف نہیں ہے کہ کسی بھی اہم بزرگ کی رحلت پرشایدسب سے زیادہ تصاویر حضرت ہی وائرل ہوئی ہیں۔مجھے تکلیف نہ ہوتی اگرحضرت کی شخصیت اتنی بھاری بھرکم نہ ہوتی،مجھے احساس نہ ہوتااگرحضرت اپنی حیات میں تصویرسازی کوپسندفرماتے،مجھے قطعی رنج نہ ہوتااگرحضرت کے منشاومزاج اورتعلیمات کے خلاف یہ چیزنہ ہوتی ۔چاہئے تویہ تھاکہ حضرت کی تعلیمات عام کی جاتیں،حضرت کے اقوال اورملفوظات سے لوگوں کوفیضیاب کیاجاتا،حضرت کے حالات اورسوانح پراچھے اچھے مضامین لکھے جاتے ،حضرت کی شخصیت کے اُن گوشوں اورمتقیانہ پہلوؤں پرروشنی ڈالی جاتی جواب تک مخفی ومستورتھے تاکہ ہم جیسوں کوحضرت کے طریق اورنقش قدم پرعمل کی توفیق ہوتی۔
حضرت رحمہ اللہ ہمیشہ تصویرکے مخالف رہے ،حضرت ہی کیاحضرت کے پورے سلسلہ کے اکابر،حضرت کے تمام تراساتذہ اورحضرت کے تمام ترمعاصربزرگان دین بھی تصویرسازی کے سخت مخالف رہے۔اگرفقہانے شدیدضرورت پربدرجہ مجبوری جوازکافتویٰ دے ہی دیاہے تواس کایہ مطلب ہرگزنہیں ہے کہ اپنے بزرگوں کی تصاویرکویوں وائرل کرناشروع کردیں۔
مجھے یادآیا خطیب اسلام حضرت مولانامحمدسالم قاسمی مہتمم دارالعلوم وقف دیوبندؒزندگی کے بالکل اخیرمرحلہ میں تھے ،میں دولت کدہ پرحاضرہوا،صرف دوتین لوگ ہی لوگ اس وقت موجودتھے ،میں نے پوچھاکہ حضرت تھانویؒ کی جوتصویروائرل ہورہی ہے اس کے بارے میں بتائیں کیایہ تصویرحضرت ہی کی ہے یالوگوں نے خواہ مخواہ حضرت کی طرف منسوب کردیاہے؟ فرمایاکہ ہاں یہ تصویرحضرت ہی کی ہے اورپھرفرمایاکہ حضرت کوپتہ چل گیاتھاکہ تصویرکھینچی گئی ہے ،فوراً فوٹوگرافرکوپکڑاگیا،لیکن فوٹوگرافرنے بڑی ہوشیاری کے ساتھ اتنی دیرمیں کیمرہ سے ریل نکال کراپنے منہ میں رکھ لی تھی۔
فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مطفرحسینؒبھی تصویرکے سخت مخالف تھے ،ایک دفعہ دارالحدیث میں ترمذی شریف کاسبق ہورہاتھا،اچانک دارالحدیث کے باہرنظراٹھ گئی تودیکھا کہ کسی ٹی وی چینل کے نمائندگان اسٹینڈوغیرہ نصب کررہے تھے تاکہ ویڈیوگرافی کی جاسکے۔یہ منظردیکھناتھاکہ حضرت مفتی مظفرحسینؒ سبق چھوڑکرتیرکے مانندچینل والوں کی طرف گرجتے ہوئے لپکے،ٹی وی والوں نے جب منظردیکھا تواپناسامان سمیٹ کربھاگ کھڑے ہوئے۔
حضرت مولاناحکیم سیدمکرم حسین سنسارپوریؒ کی پوری زندگی سنت نبوی کی ترویج اورسلوک واحسان کی اشاعت میں گزری ہے ،کم ازکم بزرگوں سے محبت رکھنے والوں کوچاہئے کہ ان کے بعدبھی کوئی ایساعمل نہ کریں جس کوزندگی میں بھی پسندنہیں فرمایاہے۔لیکن اب حالت یہ ہے کہ لوگ منع کرنے کے باوجودچھپ چھپ کرتصاویرلینے لگے ہیں،وائرل کرنے لگے ہیں،عقیدت مندافراداپنے بزرگوں کی تصویروں کواحترام کے ساتھ اپنے پاس محفوظ کرنے لگے ہیں۔یہ سب چیزیں روح شریعت اورمزاج شریعت کے خلاف ہیں۔
اگرتصویرکھینچنی ہی ہے توان کے ’’کردار‘‘کی تصویرکھینچئے۔اگرتصویرکھینچنی ہی ہے توان کے’’ افکار‘‘کی تصویرکھینچئے۔اگرتصویرکھینچنی ہی ہے توان کی’’ تعلیمات ‘‘کی تصویرکھینچئے۔اگرتصویرکھینچنی ہی ہے توسیرت وسنت سے محبت اور شریعت وطریقت کی خدمات کی تصویرکھینچئے۔ان ’’تصویروں‘‘ پرخودعمل کیجئے اوردوسروں کوبھی عمل کی تبلیغ کیجئے۔جوکام کرنے کے ہیں وہ ہم سے ہوتے نہیں اورجن سے منع کیاگیاہے ان میں ہم پیش پیش رہتے ہیں۔افسوس صدافسوس
ناصرالدین مظاہری
۲۲؍ذی الحجہ کوبعدنمازجمعہ عارف باللہ حضرت مولاناحکیم سیدمکرم حسین سنسارپوریؒ کاانتقال پرملال کیاہواکہ سوشل میڈیاپر خبروں کے ساتھ حضرت کی تصاویراس قدروائرل ہوئیں کہ مجھے یہ کہنے میں بالکل باک اورتکلف نہیں ہے کہ کسی بھی اہم بزرگ کی رحلت پرشایدسب سے زیادہ تصاویر حضرت ہی وائرل ہوئی ہیں۔مجھے تکلیف نہ ہوتی اگرحضرت کی شخصیت اتنی بھاری بھرکم نہ ہوتی،مجھے احساس نہ ہوتااگرحضرت اپنی حیات میں تصویرسازی کوپسندفرماتے،مجھے قطعی رنج نہ ہوتااگرحضرت کے منشاومزاج اورتعلیمات کے خلاف یہ چیزنہ ہوتی ۔چاہئے تویہ تھاکہ حضرت کی تعلیمات عام کی جاتیں،حضرت کے اقوال اورملفوظات سے لوگوں کوفیضیاب کیاجاتا،حضرت کے حالات اورسوانح پراچھے اچھے مضامین لکھے جاتے ،حضرت کی شخصیت کے اُن گوشوں اورمتقیانہ پہلوؤں پرروشنی ڈالی جاتی جواب تک مخفی ومستورتھے تاکہ ہم جیسوں کوحضرت کے طریق اورنقش قدم پرعمل کی توفیق ہوتی۔
حضرت رحمہ اللہ ہمیشہ تصویرکے مخالف رہے ،حضرت ہی کیاحضرت کے پورے سلسلہ کے اکابر،حضرت کے تمام تراساتذہ اورحضرت کے تمام ترمعاصربزرگان دین بھی تصویرسازی کے سخت مخالف رہے۔اگرفقہانے شدیدضرورت پربدرجہ مجبوری جوازکافتویٰ دے ہی دیاہے تواس کایہ مطلب ہرگزنہیں ہے کہ اپنے بزرگوں کی تصاویرکویوں وائرل کرناشروع کردیں۔
مجھے یادآیا خطیب اسلام حضرت مولانامحمدسالم قاسمی مہتمم دارالعلوم وقف دیوبندؒزندگی کے بالکل اخیرمرحلہ میں تھے ،میں دولت کدہ پرحاضرہوا،صرف دوتین لوگ ہی لوگ اس وقت موجودتھے ،میں نے پوچھاکہ حضرت تھانویؒ کی جوتصویروائرل ہورہی ہے اس کے بارے میں بتائیں کیایہ تصویرحضرت ہی کی ہے یالوگوں نے خواہ مخواہ حضرت کی طرف منسوب کردیاہے؟ فرمایاکہ ہاں یہ تصویرحضرت ہی کی ہے اورپھرفرمایاکہ حضرت کوپتہ چل گیاتھاکہ تصویرکھینچی گئی ہے ،فوراً فوٹوگرافرکوپکڑاگیا،لیکن فوٹوگرافرنے بڑی ہوشیاری کے ساتھ اتنی دیرمیں کیمرہ سے ریل نکال کراپنے منہ میں رکھ لی تھی۔
فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مطفرحسینؒبھی تصویرکے سخت مخالف تھے ،ایک دفعہ دارالحدیث میں ترمذی شریف کاسبق ہورہاتھا،اچانک دارالحدیث کے باہرنظراٹھ گئی تودیکھا کہ کسی ٹی وی چینل کے نمائندگان اسٹینڈوغیرہ نصب کررہے تھے تاکہ ویڈیوگرافی کی جاسکے۔یہ منظردیکھناتھاکہ حضرت مفتی مظفرحسینؒ سبق چھوڑکرتیرکے مانندچینل والوں کی طرف گرجتے ہوئے لپکے،ٹی وی والوں نے جب منظردیکھا تواپناسامان سمیٹ کربھاگ کھڑے ہوئے۔
حضرت مولاناحکیم سیدمکرم حسین سنسارپوریؒ کی پوری زندگی سنت نبوی کی ترویج اورسلوک واحسان کی اشاعت میں گزری ہے ،کم ازکم بزرگوں سے محبت رکھنے والوں کوچاہئے کہ ان کے بعدبھی کوئی ایساعمل نہ کریں جس کوزندگی میں بھی پسندنہیں فرمایاہے۔لیکن اب حالت یہ ہے کہ لوگ منع کرنے کے باوجودچھپ چھپ کرتصاویرلینے لگے ہیں،وائرل کرنے لگے ہیں،عقیدت مندافراداپنے بزرگوں کی تصویروں کواحترام کے ساتھ اپنے پاس محفوظ کرنے لگے ہیں۔یہ سب چیزیں روح شریعت اورمزاج شریعت کے خلاف ہیں۔
اگرتصویرکھینچنی ہی ہے توان کے ’’کردار‘‘کی تصویرکھینچئے۔اگرتصویرکھینچنی ہی ہے توان کے’’ افکار‘‘کی تصویرکھینچئے۔اگرتصویرکھینچنی ہی ہے توان کی’’ تعلیمات ‘‘کی تصویرکھینچئے۔اگرتصویرکھینچنی ہی ہے توسیرت وسنت سے محبت اور شریعت وطریقت کی خدمات کی تصویرکھینچئے۔ان ’’تصویروں‘‘ پرخودعمل کیجئے اوردوسروں کوبھی عمل کی تبلیغ کیجئے۔جوکام کرنے کے ہیں وہ ہم سے ہوتے نہیں اورجن سے منع کیاگیاہے ان میں ہم پیش پیش رہتے ہیں۔افسوس صدافسوس