سنو!سنو!!
*رکوع پانے کے لئے دوڑنا*
ناصرالدین مظاہری
وہ جب مسجد میں داخل ہوا تو دیکھاکہ نہ صرف جماعت کھڑی ہوچکی ہے بلکہ امام صاحب رکوع میں جانے والے ہیں، اسے کسی نے یہ مسئلہ بتادیا تھا کہ امام کے ساتھ رکوع پانے والے کو پوری رکعت کا ثواب ملتا ہے، بس پھر کیاتھا، وضوخانے سے ہی دوڑ لگادی، اس کے پیر گیلے تھے، مسجد کا فرش ٹائلوں کی وجہ سے بہت ہی چکنا تھا، پھسل گیا، چوٹ بھی آئی ، نماز مکمل ہوئی تو نمازیوں کی نظریں گرنے والے کو تلاش کررہی تھیں، یہ صاحب سمجھ گئے اور بولے کہ ’’میں ہی تھا ثو اب کا عاشق‘‘۔
اس طرح کے مناظر ہرمسجد میں عام ہیں ، سوچنے کی بات یہ ہے کہ مؤذن نے تقریباً نصف گھنٹہ پہلے نماز اور کامیابی کے لئے پکار لگائی تھی، اگر آپ اسی وقت مسجد کارخ کرلیتے تو سنتوں سے بھی محروم نہ ہوتے، آرام اور سکون کے ساتھ مسجد میں آنے کی جو نبوی ہدایت ہے:’’إذا أتيتم الصلاة فأتوها وأنتم تمشون، ولاتأتوها وأنتم تسعون، عليكم بالسكينة والوقار، ما أدركتم فصلوا، وما فاتكم فاقضوا‘‘:جب نماز کے لیے اقامت کہی جائے، تو تم نماز کی طرف دوڑتے ہوئے نہ آؤ، تم نماز کی طرف آؤ اور اطمینان کے ساتھ رہو، پس جتنی رکعتیں تم پالو، انہیں پڑھ لو اور جو فوت ہوجائیں، انہیں بعد میں مکمل کر لو، کیونکہ تم میں سے کوئی ایک جب نماز کا ارادہ کرتا ہے، تو وہ نماز ہی میں ہوتا ہے۔ (صحیح مسلم)
نہ صرف دوڑنا منع ہے بلکہ مسجد میں دوڑنا آداب مسجد کے بھی خلاف ہے اور نبوی حکم کی مخالفت بھی ہے، دوسرے دوڑ کر جماعت میں شریک ہونے والا ممکن ہے پھسل کر گر پڑے، ہڈیاں ٹوٹنے کا اندیشہ، گرتے وقت کسی اور کو تکلیف پہنچنے کاا مکان، سانس کے پھولنے اور اس بے سکونی میں نماز کے اندر مسنون و ماثور تلاوت، ادعیہ وغیرہ کی ادائیگی میں دقت ہوگی یہ تمام حالات محض رکوع پانے کی خواہش اور چاہت کے سبب پیش آئے ہیں۔
علامہ عینی کا ارشاد ہے:’’ان المسرع اذا اقيمت الصلاة يصل اليها وقد انبهر،فيقرا في تلك الحالة،فلا يحصل له تمام الخشوع في الترتيل وغيره،بخلاف من جاء قبل ذلك،فان الصلاة قد لا تقام حتى يستريح۔۔ والحكمة فی منع الاسراع انه ينافی الخشوع وتركه ايضا يستلزم كثرة الخطى وهو امر مندوب مطلوب وردت فيه احاديث:منها حديث مسلم رواه عن جابر:ان بكل خطوة درجة‘‘ ترجمہ:جب نماز قائم کی جائے گی ،تو تیز چل کر آنے والا اس حال میں نماز تک پہنچے گا کہ اس کا سانس پھولا ہوگا، پس اس حالت میں وہ جو کچھ بھی پڑھے گا،اسے ٹھہر کر پڑھنے وغیرہ معاملات میں مکمل خشوع حاصل نہیں ہوگا،بر خلاف اس شخص کے جو نماز قائم ہونے سے پہلے آیا ہو،کیونکہ نماز قائم نہیں ہوگی،یہاں تک کہ وہ کچھ سانس لے لے گااور دوڑنے سے منع کرنے میں یہ بھی حکمت ہے کہ یہ خشوع کے منافی ہے اور اس کا ترک زیادہ قدم چلنے کو بھی مستلزم ہے اور نماز کے لیے زیادہ قدم چلنا مستحب اور مطلوب ہے۔
علامہ نووی ؒارشاد فرماتے ہیں:’’والحكمة فی اتيانها بسكينة والنهی عن السعی:ان الذاهب الى صلاة عامد فی تحصيلها ومتوصل اليها، فينبغيی ان يكون متادبا بآدابها ‘‘ ترجمہ:اور نماز کی طرف اطمینان کے ساتھ آنے کے حکم اور دوڑکرآنے سے منع کرنے میں حکمت یہ ہے کہ بے شک نماز کی طرف جانے والا،اس کو ادا کرنے کا ارادہ کرنے والا اور اس تک پہنچنے والا ہے، پس مناسب یہ ہے کہ وہ اس کے آداب کو بجا لائے۔ (شرح النووی علی مسلم )
غلطی صرف اِن دوڑنے والوں کی نہیں ہے ، ہمارے ائمہ ٔمساجد کی بھی ہے جو اِن مواقع پر تنبیہ نہیں کرتے ، انہوں نے رکوع پانے کی صورت میں رکعت پانے کا مسئلہ تو بتا دیا یہ نہیں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھاگنے اور قلانچیں بھرنے سے منع فرمایا ہے ، یہ بھی نہیں بتایا کہ اگر تمہارا رکوع یا ر کعت چھوٹ گئی ہے تو اب کھڑے ہوکر خواہ مخواہ وقت ضائع مت کرو بلکہ امام کو جس حالت اور کیفیت میں پاؤ اسی حالت اور کیفیت میں شامل ہوجاؤ کیو نکہ اللہ تعالیٰ تمہارے خلوص کو دیکھتاہے، تمہاری نیتوں سے واقف ہے۔ مسجد میں آنے والے افراد کو امام کا اگلی رکعت میں اٹھنے کا انتظار نہ کرنا چاہیے، بلکہ ا مام کو جس حالت میں پائے اسی حالت میں امام کے ساتھ شامل ہوجانا چاہیے‘‘ ۔الفاظ حدیث یہ ہیں:إِذَا أَتَى أَحَدُكُمُ الصَّلَاةَ وَالْإِمَامُ عَلَى حَالٍ، فَلْيَصْنَعْ كَمَا يَصْنَعُ الْإِمَامُ.
محدثین کاارشادہے کہ ایسا کرنے سے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمادے‘‘۔ لَعَلَّهُ لَا يَرْفَعُ رَأْسَهُ فِي تِلْكَ السَّجْدَةِ حَتَّى يُغْفَرَ لَهُ۔
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں:’’بينما نحن نصلی مع النبی صلى اللہ عليه وسلم اذ سمع جلبة رجال، فلما صلى قال:ما شانكم؟قالوا:استعجلنا الى الصلاة؟قال:فلا تفعلوا،اذا اتيتم الصلاة فعليكم بالسكينة،فما ادركتم فصلوا وما فاتكم فاتموا‘‘ ترجمہ:ہم حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے،اچانک کچھ مردوں کے دوڑنے کی آوازیں سنائی دیں،پس جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا چکے،تو ارشاد فرمایا:تمہارا کیا معاملہ ہے؟انہوں نے عرض کیا:ہم نے نماز کی طرف جلدی کی ہے،ارشاد فرمایا:ایسا نہ کرو،جب تم نماز کی طرف آؤ،تو اطمینان کے ساتھ آؤ ،پس جتنی رکعتیں تم پا لو،وہ پڑھ لو اور جو فوت ہوجائیں،انہیں بعد میں پورا کر لو۔(صحیح لبخاری)
حضرت علامہ شامی ؒ فرماتے ہیں:’’والھرولۃ للصلاۃ‘‘اور نماز کے لیے دوڑنا مکروہ ہے۔(ردالمحتار)
بہرحال رکوع پانے کے لئے بھاگ دوڑ اور جلدبازی میں کئی امور ایسے ہیں جن کی خلاف ورزی ہوتی ہے مثلاً آداب نمازکی خلاف ورزی، مسجدکے تقدس کی پامالی، سانس پھولنے کی صورت میں نماز میں پڑھی جانے والی دعاؤں کے پڑھنے میں دقت، چوٹ لگنے کاا ندیشہ، دوسروں کو تکلیف پہنچنے کا خد شہ ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منع کرنے کے باوجود اس کا ارتکاب ۔
اس پہلوپر بھی سوچنے اورغورکرنے کی ضرورت ہے کہ جب آپ کومؤذن نے نصف گھنٹہ پہلے اطلاع دے دی تھی،جب اللہ پاک نے ہرشخص کوموبائل اورگھڑی عطا فرمارکھی ہے ،اس کے باوجود آپ نے مسجدپہنچنے میں اتنی تاخیرکیوں کی؟تاخیرسے پہنچنے کی صورت میں اوربھی کئی نقصان ہوئے مثلاًنمازسے پہلے کی سنتیں رہ گئیں،سنتیں نہ پڑھ سکنے کی صورت میں ثواب سے بھی محرومی ہوئی،مسجدمیں کچھ دیراعتکاف کی نیت سے بیٹھتے توثواب سے مالامال ہوتے وہ ثواب بھی گیا،نمازکے شروع کے مراحل اقامت، تکبیر، تلاوت اورحالت قیام کے فضائل وغیرہ سے بھی محرومی ہوئی۔ان تمام محرومیوں کے ذمہ دارصرف آپ ہیں ۔کیاپتہ نمازکے کس حصہ میں الٰہی رحمت اورتوجہ ہماری طرف مبذول ہوئی ہو،بہت ممکن ہے اس حصہ میں ہوئی ہوجس کوقیام کہاجاتا ہے،یہ بھی ممکن ہے کہ سجدہ میں ہوئی ہوجس کے بارے میں خودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے : عليك بكثرة السجود؛ فإنك لن تسجد لّٰله سجدة إلا رَفَعَكَ الّٰله بها دَرَجة، وحَطَّ عنك بها خَطِيئة ( مسلم)
’’کثرت سے سجدے کیا کرو ۔ تم جب بھی سجدہ کرتے ہو، اللہ تعالی اس کے بدلے میں تمہارا ایک درجہ بڑھا دیتے ہیں اور ایک گناہ معاف کردیتے ہیں‘‘
ایک اورروایت میں ہے : أقْرَبُ ما يَكون العبد مِنْ رَبِّهِ وهو ساجد، فَأَكْثروا الدُّعاء۔(رواه مسلم)
’’بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب سجدہ کی حالت ميں ہوتا ہے لہٰذا تم (سجدے میں) خوب دعا کیا کرو‘‘
اسی لئے بہت سے حضرات نے نمازکے ارکان میں سب سے اہم اورافضل سجدے کوبتایاہے جب کہ بہت سے فقہانے قیام کوافضل بتایاہے ۔
بہرحال ہمای معروضات کا حاصل صرف یہ ہے کہ نمازکا کوئی بھی رکن دیدہ ودانستہ چھوڑنا اور چھوٹنا نہیں چاہئے جس طرح نمازافضل العبادۃ ہے اسی طرح اس کاہررکن نہایت فضیلت اوراہمیت کاحامل ہے۔
اللہ تعالیٰ کی توفیق شامل حال رہی توان شا ء اللہ ارکان نمازبالخصوص قیام، رکوع، سجود اورقعودپرتفصیل سے عرض کروں گا۔
*رکوع پانے کے لئے دوڑنا*
ناصرالدین مظاہری
وہ جب مسجد میں داخل ہوا تو دیکھاکہ نہ صرف جماعت کھڑی ہوچکی ہے بلکہ امام صاحب رکوع میں جانے والے ہیں، اسے کسی نے یہ مسئلہ بتادیا تھا کہ امام کے ساتھ رکوع پانے والے کو پوری رکعت کا ثواب ملتا ہے، بس پھر کیاتھا، وضوخانے سے ہی دوڑ لگادی، اس کے پیر گیلے تھے، مسجد کا فرش ٹائلوں کی وجہ سے بہت ہی چکنا تھا، پھسل گیا، چوٹ بھی آئی ، نماز مکمل ہوئی تو نمازیوں کی نظریں گرنے والے کو تلاش کررہی تھیں، یہ صاحب سمجھ گئے اور بولے کہ ’’میں ہی تھا ثو اب کا عاشق‘‘۔
اس طرح کے مناظر ہرمسجد میں عام ہیں ، سوچنے کی بات یہ ہے کہ مؤذن نے تقریباً نصف گھنٹہ پہلے نماز اور کامیابی کے لئے پکار لگائی تھی، اگر آپ اسی وقت مسجد کارخ کرلیتے تو سنتوں سے بھی محروم نہ ہوتے، آرام اور سکون کے ساتھ مسجد میں آنے کی جو نبوی ہدایت ہے:’’إذا أتيتم الصلاة فأتوها وأنتم تمشون، ولاتأتوها وأنتم تسعون، عليكم بالسكينة والوقار، ما أدركتم فصلوا، وما فاتكم فاقضوا‘‘:جب نماز کے لیے اقامت کہی جائے، تو تم نماز کی طرف دوڑتے ہوئے نہ آؤ، تم نماز کی طرف آؤ اور اطمینان کے ساتھ رہو، پس جتنی رکعتیں تم پالو، انہیں پڑھ لو اور جو فوت ہوجائیں، انہیں بعد میں مکمل کر لو، کیونکہ تم میں سے کوئی ایک جب نماز کا ارادہ کرتا ہے، تو وہ نماز ہی میں ہوتا ہے۔ (صحیح مسلم)
نہ صرف دوڑنا منع ہے بلکہ مسجد میں دوڑنا آداب مسجد کے بھی خلاف ہے اور نبوی حکم کی مخالفت بھی ہے، دوسرے دوڑ کر جماعت میں شریک ہونے والا ممکن ہے پھسل کر گر پڑے، ہڈیاں ٹوٹنے کا اندیشہ، گرتے وقت کسی اور کو تکلیف پہنچنے کاا مکان، سانس کے پھولنے اور اس بے سکونی میں نماز کے اندر مسنون و ماثور تلاوت، ادعیہ وغیرہ کی ادائیگی میں دقت ہوگی یہ تمام حالات محض رکوع پانے کی خواہش اور چاہت کے سبب پیش آئے ہیں۔
علامہ عینی کا ارشاد ہے:’’ان المسرع اذا اقيمت الصلاة يصل اليها وقد انبهر،فيقرا في تلك الحالة،فلا يحصل له تمام الخشوع في الترتيل وغيره،بخلاف من جاء قبل ذلك،فان الصلاة قد لا تقام حتى يستريح۔۔ والحكمة فی منع الاسراع انه ينافی الخشوع وتركه ايضا يستلزم كثرة الخطى وهو امر مندوب مطلوب وردت فيه احاديث:منها حديث مسلم رواه عن جابر:ان بكل خطوة درجة‘‘ ترجمہ:جب نماز قائم کی جائے گی ،تو تیز چل کر آنے والا اس حال میں نماز تک پہنچے گا کہ اس کا سانس پھولا ہوگا، پس اس حالت میں وہ جو کچھ بھی پڑھے گا،اسے ٹھہر کر پڑھنے وغیرہ معاملات میں مکمل خشوع حاصل نہیں ہوگا،بر خلاف اس شخص کے جو نماز قائم ہونے سے پہلے آیا ہو،کیونکہ نماز قائم نہیں ہوگی،یہاں تک کہ وہ کچھ سانس لے لے گااور دوڑنے سے منع کرنے میں یہ بھی حکمت ہے کہ یہ خشوع کے منافی ہے اور اس کا ترک زیادہ قدم چلنے کو بھی مستلزم ہے اور نماز کے لیے زیادہ قدم چلنا مستحب اور مطلوب ہے۔
علامہ نووی ؒارشاد فرماتے ہیں:’’والحكمة فی اتيانها بسكينة والنهی عن السعی:ان الذاهب الى صلاة عامد فی تحصيلها ومتوصل اليها، فينبغيی ان يكون متادبا بآدابها ‘‘ ترجمہ:اور نماز کی طرف اطمینان کے ساتھ آنے کے حکم اور دوڑکرآنے سے منع کرنے میں حکمت یہ ہے کہ بے شک نماز کی طرف جانے والا،اس کو ادا کرنے کا ارادہ کرنے والا اور اس تک پہنچنے والا ہے، پس مناسب یہ ہے کہ وہ اس کے آداب کو بجا لائے۔ (شرح النووی علی مسلم )
غلطی صرف اِن دوڑنے والوں کی نہیں ہے ، ہمارے ائمہ ٔمساجد کی بھی ہے جو اِن مواقع پر تنبیہ نہیں کرتے ، انہوں نے رکوع پانے کی صورت میں رکعت پانے کا مسئلہ تو بتا دیا یہ نہیں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھاگنے اور قلانچیں بھرنے سے منع فرمایا ہے ، یہ بھی نہیں بتایا کہ اگر تمہارا رکوع یا ر کعت چھوٹ گئی ہے تو اب کھڑے ہوکر خواہ مخواہ وقت ضائع مت کرو بلکہ امام کو جس حالت اور کیفیت میں پاؤ اسی حالت اور کیفیت میں شامل ہوجاؤ کیو نکہ اللہ تعالیٰ تمہارے خلوص کو دیکھتاہے، تمہاری نیتوں سے واقف ہے۔ مسجد میں آنے والے افراد کو امام کا اگلی رکعت میں اٹھنے کا انتظار نہ کرنا چاہیے، بلکہ ا مام کو جس حالت میں پائے اسی حالت میں امام کے ساتھ شامل ہوجانا چاہیے‘‘ ۔الفاظ حدیث یہ ہیں:إِذَا أَتَى أَحَدُكُمُ الصَّلَاةَ وَالْإِمَامُ عَلَى حَالٍ، فَلْيَصْنَعْ كَمَا يَصْنَعُ الْإِمَامُ.
محدثین کاارشادہے کہ ایسا کرنے سے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمادے‘‘۔ لَعَلَّهُ لَا يَرْفَعُ رَأْسَهُ فِي تِلْكَ السَّجْدَةِ حَتَّى يُغْفَرَ لَهُ۔
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں:’’بينما نحن نصلی مع النبی صلى اللہ عليه وسلم اذ سمع جلبة رجال، فلما صلى قال:ما شانكم؟قالوا:استعجلنا الى الصلاة؟قال:فلا تفعلوا،اذا اتيتم الصلاة فعليكم بالسكينة،فما ادركتم فصلوا وما فاتكم فاتموا‘‘ ترجمہ:ہم حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے،اچانک کچھ مردوں کے دوڑنے کی آوازیں سنائی دیں،پس جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا چکے،تو ارشاد فرمایا:تمہارا کیا معاملہ ہے؟انہوں نے عرض کیا:ہم نے نماز کی طرف جلدی کی ہے،ارشاد فرمایا:ایسا نہ کرو،جب تم نماز کی طرف آؤ،تو اطمینان کے ساتھ آؤ ،پس جتنی رکعتیں تم پا لو،وہ پڑھ لو اور جو فوت ہوجائیں،انہیں بعد میں پورا کر لو۔(صحیح لبخاری)
حضرت علامہ شامی ؒ فرماتے ہیں:’’والھرولۃ للصلاۃ‘‘اور نماز کے لیے دوڑنا مکروہ ہے۔(ردالمحتار)
بہرحال رکوع پانے کے لئے بھاگ دوڑ اور جلدبازی میں کئی امور ایسے ہیں جن کی خلاف ورزی ہوتی ہے مثلاً آداب نمازکی خلاف ورزی، مسجدکے تقدس کی پامالی، سانس پھولنے کی صورت میں نماز میں پڑھی جانے والی دعاؤں کے پڑھنے میں دقت، چوٹ لگنے کاا ندیشہ، دوسروں کو تکلیف پہنچنے کا خد شہ ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منع کرنے کے باوجود اس کا ارتکاب ۔
اس پہلوپر بھی سوچنے اورغورکرنے کی ضرورت ہے کہ جب آپ کومؤذن نے نصف گھنٹہ پہلے اطلاع دے دی تھی،جب اللہ پاک نے ہرشخص کوموبائل اورگھڑی عطا فرمارکھی ہے ،اس کے باوجود آپ نے مسجدپہنچنے میں اتنی تاخیرکیوں کی؟تاخیرسے پہنچنے کی صورت میں اوربھی کئی نقصان ہوئے مثلاًنمازسے پہلے کی سنتیں رہ گئیں،سنتیں نہ پڑھ سکنے کی صورت میں ثواب سے بھی محرومی ہوئی،مسجدمیں کچھ دیراعتکاف کی نیت سے بیٹھتے توثواب سے مالامال ہوتے وہ ثواب بھی گیا،نمازکے شروع کے مراحل اقامت، تکبیر، تلاوت اورحالت قیام کے فضائل وغیرہ سے بھی محرومی ہوئی۔ان تمام محرومیوں کے ذمہ دارصرف آپ ہیں ۔کیاپتہ نمازکے کس حصہ میں الٰہی رحمت اورتوجہ ہماری طرف مبذول ہوئی ہو،بہت ممکن ہے اس حصہ میں ہوئی ہوجس کوقیام کہاجاتا ہے،یہ بھی ممکن ہے کہ سجدہ میں ہوئی ہوجس کے بارے میں خودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے : عليك بكثرة السجود؛ فإنك لن تسجد لّٰله سجدة إلا رَفَعَكَ الّٰله بها دَرَجة، وحَطَّ عنك بها خَطِيئة ( مسلم)
’’کثرت سے سجدے کیا کرو ۔ تم جب بھی سجدہ کرتے ہو، اللہ تعالی اس کے بدلے میں تمہارا ایک درجہ بڑھا دیتے ہیں اور ایک گناہ معاف کردیتے ہیں‘‘
ایک اورروایت میں ہے : أقْرَبُ ما يَكون العبد مِنْ رَبِّهِ وهو ساجد، فَأَكْثروا الدُّعاء۔(رواه مسلم)
’’بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب سجدہ کی حالت ميں ہوتا ہے لہٰذا تم (سجدے میں) خوب دعا کیا کرو‘‘
اسی لئے بہت سے حضرات نے نمازکے ارکان میں سب سے اہم اورافضل سجدے کوبتایاہے جب کہ بہت سے فقہانے قیام کوافضل بتایاہے ۔
بہرحال ہمای معروضات کا حاصل صرف یہ ہے کہ نمازکا کوئی بھی رکن دیدہ ودانستہ چھوڑنا اور چھوٹنا نہیں چاہئے جس طرح نمازافضل العبادۃ ہے اسی طرح اس کاہررکن نہایت فضیلت اوراہمیت کاحامل ہے۔
اللہ تعالیٰ کی توفیق شامل حال رہی توان شا ء اللہ ارکان نمازبالخصوص قیام، رکوع، سجود اورقعودپرتفصیل سے عرض کروں گا۔