*داستان دبستاں*
میرا بچپن میرا مکتب:
میرے زمانے میں لکڑی کی تختی چلتی تھی تختی کوسیاہ کرنے کےلئے ہم طاق کی تلاش میں رہتے تھے کیونکہ چراغ انہی طاقوں میں جلائے جاتے تھے، ایک چراغ پوری مسجد کومدھم روشنی فراہم کرتاتھا، ہم اپنی تختی پر طاق والی کالک خوب رگڑتے تھے اور نتیجہ میں ہمارے پہلے سے گندے کپڑے مزید کالک کے دھبوں سے داغدارہوجاتے تھے ،اپنی بدنامی کابھی کوئی خیال نہ گزرتا تھا،کالی تختی پر سفیدملتانی مٹی سے لکھائی ہوتی تھی اور اپنے ٹوٹے پھوٹے ایڑے ترچھے مفردات کونفیس رقم یااعجازرقم سے کم نہیں سمجھتے تھے،تختی پر لکھنے کی وجہ سے داہنے ہاتھ کی آستین رنگ وروپ میں تختی کی بہن ہی محسوس ہوتی تھی، واللہ وہ منظربھی خوب یادہے جب خشک ملتانی مٹی نظر بچاکر کھا لیتے تھے اور اس کی سوندھی سوندھی خوشبو کاالگ ہی لطف تھا، ہماری تختی ساتھیوں سے لڑائی کے دوران عصائے موسوی کاکرداربھی اداکرتی تھی، ایک دوسرے کی تختیوں کی مضبوطی چیک کرنے کاطریقہ بھی نرالاتھا، ایک اپنی تختی کو پکڑ کر زمیں پر کھڑی کرتااور دوسرا لڑکا پوری سختی کے ساتھ اپنی تختی دوسرے کی تختی پردے مارتا، جس کی تختی ٹوٹ جاتی وہ ہاراماناجاتا تھا،یہ شکست خوردہ طالب علم جب اپنے گھرپہنچتاتو وہاں بھی ضرب یضرت کاعمل دہرایا جاتا،تختی جوشہیدہوچکی ہے.
عہداور سن تویادنہیں البتہ یاد پڑتاہے کہ اپنے بغدادی قاعدے کے پھٹے ہوئے صفحات کھابھی لیتاتھا، تختی پرلکھنے والا چوبی قلم خوداستاذہی تراشتے تھے، کاپیوں کاچلن تواب ہواہے اور یقینا بہت غلط ہوا، کیونکہ سب سے زیادہ کاپیاں خریدنے کے عنوان پر پیسے مانگے جاتے ہیں پھر کچھ کی کاپیاں اور کچھ کی ٹافیاں. اللہ اللہ خیرصلی
دوات کی کہانی
دوات کی کہانی بھی تختی سے کم دلچسپ نہیں ہے، روشنائی کبھی پتلی ہوجاتی توکبھی گاڑھی، کبھی خراب ہوجاتی تو شاذ ونادر اچھی، قلم کی تیاری کے لئے سرکنڈے توڑکر لاتے، پتے ہٹاکر سرکنڈہ استاذمحترم کودیتے اور وہ ایک ہی سرکنڈے سے بے شمار قلم تراش کرمستحق بچوں کوتقسیم کردیتے، ہم قلم لے کرخوشی خوشی اپنے بستے تک پہنچتے لیکن یہاں دوسرا مسئلہ تیار کھڑا ہوتا دوات کا دہانہ چھوٹااور قلم کاموہانہ موٹا، اب پھرسے سرکنڈہ لانا قلم ترشوانا آبیل مجھے مار کے مرادف تھااس لئے ایسابھی ہوتا کہ دوسرے ساتھی کی دوات سے تبادلہ ہوتاکبھی اس کی مرضی سے کبھی زبردستی سے کبھی آنکھ بچاکر. یہ دوات شیشے کی ہوتی تھی کیونکہ اسی کے زیریں حصہ کو ہم سختی کے ساتھ تختی پر رگڑتے تھے توتختی چکنی ہوتی چلی جاتی اور اس پر لکھنابھی آسان اور لکھاوٹ بھی بہترہوجاتی تھی، خوب یاد ہے ہمارے مکتب میں مکتب کی طرف سے دریاں تپائیاں نہیں تھیں اس لئے ہم رحل، اپنابوریا اور پلاسٹک کی تھیلی کو یاکپڑے سے سلے تھیلے کو اپنا بستہ کہتے اور کہلواتے تھے اس بستے کوہلکے میں مت لیجئے ایک پوٹلی میں کانچ کی گولیاں، کھیل اور کھلونوں سے متعلق بعض دیگراشیاء بھی نہایت حفاظت اور تیقظ کے ساتھ رکھتاتھا پھربھی کبھی نہ کبھی سامان غائب ملتا تھا، بعض منہ زور، شہ زور، طلبہ دست درازی کرکے اپنے ساتھی طلبہ کا بہت ساسامان بطور مال غنیمت اپنے ساتھ لے جاتے تھے جو کبھی انٹرول میں اور کبھی انٹرول کے بعد کھیلنے میں کام آتا تھا
ایک دن تو غضب ہوگیا مکتب جاتے ہوئے ایک ننھاچوزہ راستہ میں مل گیا جسے پکڑکر ہم نے بستہ نمابوریا یا بوریا نمابستے میں چھپا لیا،ظالم نے بستے میں چوں چوں کی اسپیڈ بنائی، میرے خونخوار، جلاد صفت، خطرناک، سفاک، ضراب استاذ حضرت مولانا حفظ الرحمن نعمانی کی سماعتوں تک چوں چوں کی آواز پہنچ گئی، بستہ کھول کر چوزہ نکالا اور "پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی" منحوس چوزے کووہیں پہنچانا پڑا جہاں سے حاصل کیاتھا.
حضرت مولانا حفظ الرحمن مدظلہ وہی ہیں جن کے نام نامی اسم گرامی کی طرف میں نے اپنی تازہ ترین کتاب "یہ تھے اکابرمظاہر" کاانتساب کیاہے..
سبق یادکیا؟
مکتب میں کسی کی کوئی جگہ متعین نہیں تھی جوجہاں جگہ پاجائے وہیں اپنابوریابچھالے، میں اس دن خاص کر سب سے اخیرمیں جگہ پاتاتھا جس دن سبق کچا یا بالکل ہی یاد نہ ہوتا تھا، میرے استاذ کی بینائی اللہ تعالٰی نے غضب کی بنائی ہے زور سے بیدکاڈنڈا اپنی سادہ سی تپائی پرمارتے اور سارے بچے ایسے سہم جاتے جیسے یہ ڈنڈا تپائی پر نہیں بلکہ ان کی پشت شریف پرپڑا ہے سہمنے کے دوران ہی وہ نام بھی لیتے ناصر، اشتیاق، رئیس، مشیر تم لوگوں نے سبق یادکرلیا؟ مت پوچھو ہماری کیاحالت ہوتی تھی سب سے زیادہ خراب حالت تورئیس کی ہوتی تھی جوبے چارہ کبھی صحیح سبق نہ سناسکانتیجہ میں اس کی پشت، اس کی ہتھیلیاں اور اس کی تشریف پربیدکے ذریعہ جو آؤبھگت ہوتی تھی اس کانقشہ کھینچنا بہت ہی آسان ہے، ہرڈنڈے پررئیس پیچھے کی طرف جھکتاچلاجاتا یہاں تک کہ کمان بن جاتا، لیکن ظالم بڑاجی دار تھاکبھی رویا نہیں حالانکہ اس کی مار کودیکھ کرہمیں اپنی عاقبت اوراپنی نوبت نظرآتی تھی، استاذمحترم کی مار جتنی دیکھی ہے اتنی کھائی نہیں اور جتنی کھائی ہے گھر والوں کو بتائی نہیں کیونکہ پھروہاں بھی مکررپٹنے اور ڈانٹ ڈپٹ کااندیشہ رہتاتھا.
میرایہ ساتھی جس کا نام رئیس تھاوہ خداجانے اب کس حال میں ہوگاسناہے اس کے والدکاکسی فرقہ وارانہ واقعہ میں قتل ہوگیاتھا بہرحال آمدم برسرمضمون :سردیوں کاموسم تھا، ہلکی ہلکی دھوپ ہمارے گھروں کے اوپر چمکنی شروع ہوئی تھی، اوس اورشبنم نے کچے کچے راستوں اور پکڈنڈیوں پرسفید چادر سی بچھارکھی تھی گویا زبان حال سے وہ شبنم کہہ رہی ہو" کلیاں نہ بچھاناراہوں میں ہم شبنم بچھانے والے ہیں" موسم اتنااچھاتھاکہ لفظوں میں اس کامنظربیان کرنا میرے لئے ناممکن ہے، پڑھنے کے لئے قریب کے گاؤں بھدئی پوروہ جانا پڑتاتھا جہاں مدرسہ ضیاء العلوم نامی مدرسہ ہمارا اولین مادرعلمی، گہوارہ تربیت اوردرسگاہ تھی، وہیں مولانا حفظ الرحمن نعمانی اپنے جاہ وجلال کے ساتھ تشریف فرمارہتے تھے، سچ کہتاہوں کہ اس سن وسال میں پڑھنے کی طرف طبیعت بالکل مائل نہیں تھی لیکن ع
نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن
والدگرامی کی ناراضی بھی برداشت نہیں تھی اور استاذ کا حال تو"بکرے کی ماں" جیساتھا، یاخلیفہ ہارون رشیدکے بقول "توچاہے جہاں برس تیرا خراج مجھ تک پہنچے گا" میں نے وقت پر جھولا نمابستہ یا بستہ نماجھولا اٹھایا اور گھرسے نکل پڑا، گاؤں کے وسط میں ایک میدان تھا جہاں بازار لگتاتھا وہیں اسحاق تیلی کی دکان کے پیچھے جاکرچھپ گیا، میں نے بڑی دانائی ودانشمندی سے کام کیاتھا، گھروالوں کوچکمہ جودے آیاتھا،لیکن افسوس میری یہ چالاکی و عیاری اور مکاری بالکل کام نہیں آئی، استاذمحترم کے دو فرستادوں بلکہ کارندوں بلکہ قبرکے فرشتوں نے گھرپہنچ کر میری غیبوبت کی اطلاع دی، میری ماں نے میری حمایت کی، دلائل دئے، میری تعلیمی دلچسپی بتائی اور فرمایاکہ وہ تووقت پرمدرسہ چلاگیاتھا، لیکن فرستادوں نے کہاکہ وہاں پہنچا ہی نہیں، توپھر اس وقت میری بہن جومجھ سے آٹھ سال بڑی ہیں اور مانواس وقت مجھ سے عمرمیں دوگناتھیں، انھیں شایدمیرے فراریامیرے قرار کاعلم پہلے سے تھا، تیرکے مانند مجھ تک پہنچ گئیں، میں دکان کے پیچھے دھوپ کی تمازت سے لطف اندوز ہورہا تھا، میرا بستہ بھی ساتھ تھا، اس اچانک افتادپرپریشان ہوگیا، انہوں نے میراہاتھ زور سے پکڑا اور سیدھے گھرپہنچ گئیں جہاں میرے والدپہلے سے ہی غصہ میں بھرے آگ بگولہ منتظرآمدماتھے، مت پوچھئے میری کیاحالت تھی، انہوں نے مجھے پکڑا اور دونوں ہاتھوں سے تھام کرسرکے اوپرتک اٹھاتے چلے گئے، میں سمجھ گیاکہ اب تو نمک کی بوری کی طرح مجھے زمین پردے ماریں گے لیکن اللہ نے ان کادل موم کردیا، رحم آگیا، شایدمیری گھگی پر، شایدمیری اس پہلی حرکت پر، شایدپدرانہ شفقت سے یامیری ماں کی ممتابھرے ضبط اور مصلحت آمیز خاموشی پر، کچھ بھی ہومجھے بچانے والاکوئئ نہ تھا،میری بہن قریب ہی کھڑی میری ایک ایک غلطی، خامی، کوتاہی، شرارت، خباثت بتانے اورگنانے میں لگی ہوئی تھی اس کابس چلتاتو میراکچومر ہی نکلوا دیتی، وہ اللہ کی بندی میری اس گرفتاری پر اپنے دل دماغ پرزور ڈال ڈال کر بڑی بے باکی سے ادھار بیباق کررہی تھی وہ توشاید اسی موقع کی تاک اور گھات میں تھی، اس نے گویاتحیہ چھوڑکرتہیہ کرلیاتھا، ہدی چھوڑی حدی خواں بن گئی تھی، بجائے اس کی کہ وہ آگے بڑھ کر سد سکندری کاکردار اداکرتی کسی ماہر"خبری" کے مانندایک ایک گناہ یاددلارہی تھی اور میں مسکین والدصاحب کے ہاتھوں میں بے چارہ رحم وکرم، وعدوں اور ارادوں کی جھڑی لگارکھی تھی، اس پورے واقعہ میں مجھے مارابالکل نہیں گیالیکن گھسیٹا بہت گیا، آنکھیں دکھائی گئیں،مستقبل میں درانتی اور کھرپادے کرگھاس پھونس کٹوانے کی دھمکی دی گئی، جب والد صاحب ادھرادھرہوگئے تب کہیں جاکرمیری والدہ لپکیں جلدی سے کھینچ کر ایک طرف لے گئیں، اپنے دوپٹے سے میرے آنسوپونچھ رہی تھیں لیکن اس دوران ان کی آنکھوں سے مسلسل آنسوجاری تھے، میں سمجھ نہیں پارہاتھاکہ مار تومجھ پر پڑی، ڈانٹ پھٹکار مجھ پر پڑی، لیکن آنسوؤں کی جھڑی اور لڑی والدہ کی آنکھوں سے کیوں جاری ہوگئے، ع
یہ رشتہ تھامحبت کاکہاں مارا کہاں نکلا
میزان الصرف
ٹوٹی پھوٹی چٹائی پربیٹھ کر،اپنے بستے کواپنی چٹائی پررکھ کراسی پرکتاب رکھ کررٹا مارنے کاعجیب ہی مزا تھا،خوب یادہے میرے استاذبھی ایک جگہ چٹائی پربیٹھے سامنے ایک تپائی رکھے نگرانی کرتے رہتے تھے جہاں کہیں کسی نے کوئی شرارت کی لمباسا ڈنڈا پشت شریف پرپڑتا اور چودہ طبق روشن ہوجاتے تھے،مجھے ہرگردان ایک جیسی لگتی تھی "ایں ہمہ کہ گفتہ شد"پرہی غصہ آتاتھا،ماضی مجہول اورمعروف کی یکسانیت ،مذکرومؤنث کاجھمیلا،واحدتنیہ اورجمع کاچکر،متکلم کامسئلہ یہ سب باتیں بھلاعام قارئین کیاجانیں اورانھیں کیاپتہ کہ ابتدائی درجات کے بچوں کوکن جان جوکھم مراحل اورکن پریشان کن مسائل سے جوجھناپڑتاہے ،جب تک گھرمیں رہوبڑوں کی ڈانٹ ڈپٹ جھیلتے رہوجب مدرسہ پہنچوتواستاذکی خوفناک نظروں اورتنبیہ الغافلین کے دھڑکوں سے دل ہی نہیں جسم بھی دھڑکتاتھا،خوب رٹ رٹاکرجب سبق سنانے پہنچتا اوراستاذجی بھاری بھرکم آواز اورپہلے سے ہی غیض وغضب سے بھرے لہجے میں کہتے:ہاں بھئی سناؤ‘‘بس پھرکیاتھا رٹے رٹائے سارے جملے ،بنی بنائی ساری عمارت،ترتیب کے تانے بانے ،یادداشت کی تمام ڈورے اورحفظ ویادداشت کے تمام ترخیالات خام خیالی میں تبدیل ہوجاتے تھے بالکل اسی طرح ساری گردان دماغ سے غائب ہوجاتی تھی جس طرح کمپیوٹروالے کی ذراسی غلطی سے تمام ترلکھی لکھائی تحریرغائب ہوجاتی ہے ،بس پھرکیا تھا استاذ جی ہوتے میری کمراورپیٹھ ہوتی اورتنبیہ الغافلین کی دنادن ہوتی تھی ۔اللہ جزائے خیردے میرے بھائی ریاض الدین کوجنہوں نے میری کتابوں پرگتے لگادئے تھے اوران گتوں کی بدولت مابدولت کی یہ دولت محفوظ رہ گئی ،ویسے پڑھنے کے زمانے میں بھی مجھ سے کتابیں پھٹنے اورجلدیں ٹوٹنے سے محفوظ رہی ہیں لیکن اپنے بچوں کودیکھتاہوں کہ کوئی سیپارہ پھاڑے لئے آرہاہے توکوئی کاپی نوچے آرہاہے،کوئی قلم کی ایسی کی تیسی کررہاہے توکوئی بستے میں ایک منہ سے زائدمنہ بناچکاہے توغصہ کی جگہ لطف آتاہے ،مزا آتاہے ،بچپن یادآتاہے ،میں توبستے میں کتابیں نہ رکھ سکااس وقت اتناچلن بھی نہیں تھا،بستہ توچھوڑئے جی پیروں میں چپل ہی نہیں ہوتی تھیں ،سخت سردیوں میں پیدل ہی پیدل ہم مدرسہ کی طرف صبح صبح مارچ کرتے تھے ،اس وقت تک ہمارے گاؤں کی سڑکیں سڑکیں نہیں کچے راستے ہواکرتے تھے جن کوچکروٹ بولتے تھے ،یہ چکروٹ کہیں کسی کسان کی نظرکرم سے محروم رہ گئے توکشادہ اورکہیں کسی کسان کی نظرکرم پڑگئی توتنگ ہوجاتے تھے ،کچی پکی پکذنڈیوں پرگزرتے تھے ،ہری ہری گھاس پرچلتے تھے گھاس پرٹھنڈی ٹھنڈی اوس اورشبنم کی بوندیں چمک رہی ہوتی تھیں وہ بوندیں چلنے کے دوران اچھل اچھل کرہمارے پیروں اورپاجامے کی مہری کوترکردیتے تھے جہاں تک مہری ترہوتی تھی مٹی کے اثرات بھی وہاں تک واضح ہوجاتے تھے اسی کیفیت اوراسی حالت میں ہمارایہ قافلہ ایک کلومیٹرکاراستہ طے کرکے مدرسہ ضیائ العلوم میں پہنچتاتھاجہاں کی دنیاہی نرائی تھی ایک کمرہ پختہ تھااس کے سامنے چھپرپڑاہواتھا،کمرے میں میرے استاذرہتے تھے چھپر کے نیچے اورصحن میں طلبہ پڑھتے تھے ،بچے اوربچیاں الگ الگ بیٹھتی تھیں ،میرے استاذکواس وقت پان،پڑیا، بیڑی،حقہ کچھ بھی پسندنہ تھااس لئے جوطلبہ بڑی عمرکے ہوتے ان پرخاص نظررکھتے تھے ،طلبہ توطلبہ بڑی عمرکے جوان اورپختہ عمربوڑھے بھی مولاناسے ڈرتے تھے،سبھی ان کاادب کرتے تھے ،احترام کرتے تھے ،سبق نہ سناپانے کے جرم میں بچے اوربچیاں برابرتھے جوبھی استاذمحترم کے شکنجہ میں آگیاتوسمجھوکہ نپ گیا،خیرہم میزان الصرف پڑھتے تھے ،ساتھ میں فارسی کی پہلی اورگلزاردبستاں بھی رٹتے تھے ،مفتاح القرآن از مولانا نامی بھی پڑھتے تھے اورجملے بھی رٹتے تھے ،مولاناعجیب جناتی انسان تھے اوراس زمانے میں جیساکہ ہمیں بتایاگیاکہ واقعی ان کے پاس جنات بھی رہتے تھے ،مفتاح القرآن کے قرآنی جملے جلدی یادبھی ہوجاتے تھے لیکن میزان الصرف کی گردانیں گردنوں پربوجھ بنی رہتی تھیں ،برانہ مانیں توکہوں اس اکیلے بندے پرکام کابوجھ بھی بہت زیادہ تھا،قرآن پڑھنے والے بھی ،قاعدہ بغدادی والے بھی ،اردووالے بھی،تختی پرلکھنے کی مشق والے بھی،فارسی اور عربی کی کتابیں پڑھنے والے بھی اورساتھ بچیوں کی تعلیم کامستقل مسئلہ بھی ،یہ سب کام میرے استاذاکیلے کیسے انجام دے لیتے تھے میری توسمجھ سے باہر ہے، آج اگراتناکام کسی کو دے دیاجائے توپتہ نہیں انجام بخیرہوگایامہتمم صاحب کی خوش انجام ہوجائیں گے.
(ناصرالدین مظاہری)
میرا بچپن میرا مکتب:
میرے زمانے میں لکڑی کی تختی چلتی تھی تختی کوسیاہ کرنے کےلئے ہم طاق کی تلاش میں رہتے تھے کیونکہ چراغ انہی طاقوں میں جلائے جاتے تھے، ایک چراغ پوری مسجد کومدھم روشنی فراہم کرتاتھا، ہم اپنی تختی پر طاق والی کالک خوب رگڑتے تھے اور نتیجہ میں ہمارے پہلے سے گندے کپڑے مزید کالک کے دھبوں سے داغدارہوجاتے تھے ،اپنی بدنامی کابھی کوئی خیال نہ گزرتا تھا،کالی تختی پر سفیدملتانی مٹی سے لکھائی ہوتی تھی اور اپنے ٹوٹے پھوٹے ایڑے ترچھے مفردات کونفیس رقم یااعجازرقم سے کم نہیں سمجھتے تھے،تختی پر لکھنے کی وجہ سے داہنے ہاتھ کی آستین رنگ وروپ میں تختی کی بہن ہی محسوس ہوتی تھی، واللہ وہ منظربھی خوب یادہے جب خشک ملتانی مٹی نظر بچاکر کھا لیتے تھے اور اس کی سوندھی سوندھی خوشبو کاالگ ہی لطف تھا، ہماری تختی ساتھیوں سے لڑائی کے دوران عصائے موسوی کاکرداربھی اداکرتی تھی، ایک دوسرے کی تختیوں کی مضبوطی چیک کرنے کاطریقہ بھی نرالاتھا، ایک اپنی تختی کو پکڑ کر زمیں پر کھڑی کرتااور دوسرا لڑکا پوری سختی کے ساتھ اپنی تختی دوسرے کی تختی پردے مارتا، جس کی تختی ٹوٹ جاتی وہ ہاراماناجاتا تھا،یہ شکست خوردہ طالب علم جب اپنے گھرپہنچتاتو وہاں بھی ضرب یضرت کاعمل دہرایا جاتا،تختی جوشہیدہوچکی ہے.
عہداور سن تویادنہیں البتہ یاد پڑتاہے کہ اپنے بغدادی قاعدے کے پھٹے ہوئے صفحات کھابھی لیتاتھا، تختی پرلکھنے والا چوبی قلم خوداستاذہی تراشتے تھے، کاپیوں کاچلن تواب ہواہے اور یقینا بہت غلط ہوا، کیونکہ سب سے زیادہ کاپیاں خریدنے کے عنوان پر پیسے مانگے جاتے ہیں پھر کچھ کی کاپیاں اور کچھ کی ٹافیاں. اللہ اللہ خیرصلی
دوات کی کہانی
دوات کی کہانی بھی تختی سے کم دلچسپ نہیں ہے، روشنائی کبھی پتلی ہوجاتی توکبھی گاڑھی، کبھی خراب ہوجاتی تو شاذ ونادر اچھی، قلم کی تیاری کے لئے سرکنڈے توڑکر لاتے، پتے ہٹاکر سرکنڈہ استاذمحترم کودیتے اور وہ ایک ہی سرکنڈے سے بے شمار قلم تراش کرمستحق بچوں کوتقسیم کردیتے، ہم قلم لے کرخوشی خوشی اپنے بستے تک پہنچتے لیکن یہاں دوسرا مسئلہ تیار کھڑا ہوتا دوات کا دہانہ چھوٹااور قلم کاموہانہ موٹا، اب پھرسے سرکنڈہ لانا قلم ترشوانا آبیل مجھے مار کے مرادف تھااس لئے ایسابھی ہوتا کہ دوسرے ساتھی کی دوات سے تبادلہ ہوتاکبھی اس کی مرضی سے کبھی زبردستی سے کبھی آنکھ بچاکر. یہ دوات شیشے کی ہوتی تھی کیونکہ اسی کے زیریں حصہ کو ہم سختی کے ساتھ تختی پر رگڑتے تھے توتختی چکنی ہوتی چلی جاتی اور اس پر لکھنابھی آسان اور لکھاوٹ بھی بہترہوجاتی تھی، خوب یاد ہے ہمارے مکتب میں مکتب کی طرف سے دریاں تپائیاں نہیں تھیں اس لئے ہم رحل، اپنابوریا اور پلاسٹک کی تھیلی کو یاکپڑے سے سلے تھیلے کو اپنا بستہ کہتے اور کہلواتے تھے اس بستے کوہلکے میں مت لیجئے ایک پوٹلی میں کانچ کی گولیاں، کھیل اور کھلونوں سے متعلق بعض دیگراشیاء بھی نہایت حفاظت اور تیقظ کے ساتھ رکھتاتھا پھربھی کبھی نہ کبھی سامان غائب ملتا تھا، بعض منہ زور، شہ زور، طلبہ دست درازی کرکے اپنے ساتھی طلبہ کا بہت ساسامان بطور مال غنیمت اپنے ساتھ لے جاتے تھے جو کبھی انٹرول میں اور کبھی انٹرول کے بعد کھیلنے میں کام آتا تھا
ایک دن تو غضب ہوگیا مکتب جاتے ہوئے ایک ننھاچوزہ راستہ میں مل گیا جسے پکڑکر ہم نے بستہ نمابوریا یا بوریا نمابستے میں چھپا لیا،ظالم نے بستے میں چوں چوں کی اسپیڈ بنائی، میرے خونخوار، جلاد صفت، خطرناک، سفاک، ضراب استاذ حضرت مولانا حفظ الرحمن نعمانی کی سماعتوں تک چوں چوں کی آواز پہنچ گئی، بستہ کھول کر چوزہ نکالا اور "پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی" منحوس چوزے کووہیں پہنچانا پڑا جہاں سے حاصل کیاتھا.
حضرت مولانا حفظ الرحمن مدظلہ وہی ہیں جن کے نام نامی اسم گرامی کی طرف میں نے اپنی تازہ ترین کتاب "یہ تھے اکابرمظاہر" کاانتساب کیاہے..
سبق یادکیا؟
مکتب میں کسی کی کوئی جگہ متعین نہیں تھی جوجہاں جگہ پاجائے وہیں اپنابوریابچھالے، میں اس دن خاص کر سب سے اخیرمیں جگہ پاتاتھا جس دن سبق کچا یا بالکل ہی یاد نہ ہوتا تھا، میرے استاذ کی بینائی اللہ تعالٰی نے غضب کی بنائی ہے زور سے بیدکاڈنڈا اپنی سادہ سی تپائی پرمارتے اور سارے بچے ایسے سہم جاتے جیسے یہ ڈنڈا تپائی پر نہیں بلکہ ان کی پشت شریف پرپڑا ہے سہمنے کے دوران ہی وہ نام بھی لیتے ناصر، اشتیاق، رئیس، مشیر تم لوگوں نے سبق یادکرلیا؟ مت پوچھو ہماری کیاحالت ہوتی تھی سب سے زیادہ خراب حالت تورئیس کی ہوتی تھی جوبے چارہ کبھی صحیح سبق نہ سناسکانتیجہ میں اس کی پشت، اس کی ہتھیلیاں اور اس کی تشریف پربیدکے ذریعہ جو آؤبھگت ہوتی تھی اس کانقشہ کھینچنا بہت ہی آسان ہے، ہرڈنڈے پررئیس پیچھے کی طرف جھکتاچلاجاتا یہاں تک کہ کمان بن جاتا، لیکن ظالم بڑاجی دار تھاکبھی رویا نہیں حالانکہ اس کی مار کودیکھ کرہمیں اپنی عاقبت اوراپنی نوبت نظرآتی تھی، استاذمحترم کی مار جتنی دیکھی ہے اتنی کھائی نہیں اور جتنی کھائی ہے گھر والوں کو بتائی نہیں کیونکہ پھروہاں بھی مکررپٹنے اور ڈانٹ ڈپٹ کااندیشہ رہتاتھا.
میرایہ ساتھی جس کا نام رئیس تھاوہ خداجانے اب کس حال میں ہوگاسناہے اس کے والدکاکسی فرقہ وارانہ واقعہ میں قتل ہوگیاتھا بہرحال آمدم برسرمضمون :سردیوں کاموسم تھا، ہلکی ہلکی دھوپ ہمارے گھروں کے اوپر چمکنی شروع ہوئی تھی، اوس اورشبنم نے کچے کچے راستوں اور پکڈنڈیوں پرسفید چادر سی بچھارکھی تھی گویا زبان حال سے وہ شبنم کہہ رہی ہو" کلیاں نہ بچھاناراہوں میں ہم شبنم بچھانے والے ہیں" موسم اتنااچھاتھاکہ لفظوں میں اس کامنظربیان کرنا میرے لئے ناممکن ہے، پڑھنے کے لئے قریب کے گاؤں بھدئی پوروہ جانا پڑتاتھا جہاں مدرسہ ضیاء العلوم نامی مدرسہ ہمارا اولین مادرعلمی، گہوارہ تربیت اوردرسگاہ تھی، وہیں مولانا حفظ الرحمن نعمانی اپنے جاہ وجلال کے ساتھ تشریف فرمارہتے تھے، سچ کہتاہوں کہ اس سن وسال میں پڑھنے کی طرف طبیعت بالکل مائل نہیں تھی لیکن ع
نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن
والدگرامی کی ناراضی بھی برداشت نہیں تھی اور استاذ کا حال تو"بکرے کی ماں" جیساتھا، یاخلیفہ ہارون رشیدکے بقول "توچاہے جہاں برس تیرا خراج مجھ تک پہنچے گا" میں نے وقت پر جھولا نمابستہ یا بستہ نماجھولا اٹھایا اور گھرسے نکل پڑا، گاؤں کے وسط میں ایک میدان تھا جہاں بازار لگتاتھا وہیں اسحاق تیلی کی دکان کے پیچھے جاکرچھپ گیا، میں نے بڑی دانائی ودانشمندی سے کام کیاتھا، گھروالوں کوچکمہ جودے آیاتھا،لیکن افسوس میری یہ چالاکی و عیاری اور مکاری بالکل کام نہیں آئی، استاذمحترم کے دو فرستادوں بلکہ کارندوں بلکہ قبرکے فرشتوں نے گھرپہنچ کر میری غیبوبت کی اطلاع دی، میری ماں نے میری حمایت کی، دلائل دئے، میری تعلیمی دلچسپی بتائی اور فرمایاکہ وہ تووقت پرمدرسہ چلاگیاتھا، لیکن فرستادوں نے کہاکہ وہاں پہنچا ہی نہیں، توپھر اس وقت میری بہن جومجھ سے آٹھ سال بڑی ہیں اور مانواس وقت مجھ سے عمرمیں دوگناتھیں، انھیں شایدمیرے فراریامیرے قرار کاعلم پہلے سے تھا، تیرکے مانند مجھ تک پہنچ گئیں، میں دکان کے پیچھے دھوپ کی تمازت سے لطف اندوز ہورہا تھا، میرا بستہ بھی ساتھ تھا، اس اچانک افتادپرپریشان ہوگیا، انہوں نے میراہاتھ زور سے پکڑا اور سیدھے گھرپہنچ گئیں جہاں میرے والدپہلے سے ہی غصہ میں بھرے آگ بگولہ منتظرآمدماتھے، مت پوچھئے میری کیاحالت تھی، انہوں نے مجھے پکڑا اور دونوں ہاتھوں سے تھام کرسرکے اوپرتک اٹھاتے چلے گئے، میں سمجھ گیاکہ اب تو نمک کی بوری کی طرح مجھے زمین پردے ماریں گے لیکن اللہ نے ان کادل موم کردیا، رحم آگیا، شایدمیری گھگی پر، شایدمیری اس پہلی حرکت پر، شایدپدرانہ شفقت سے یامیری ماں کی ممتابھرے ضبط اور مصلحت آمیز خاموشی پر، کچھ بھی ہومجھے بچانے والاکوئئ نہ تھا،میری بہن قریب ہی کھڑی میری ایک ایک غلطی، خامی، کوتاہی، شرارت، خباثت بتانے اورگنانے میں لگی ہوئی تھی اس کابس چلتاتو میراکچومر ہی نکلوا دیتی، وہ اللہ کی بندی میری اس گرفتاری پر اپنے دل دماغ پرزور ڈال ڈال کر بڑی بے باکی سے ادھار بیباق کررہی تھی وہ توشاید اسی موقع کی تاک اور گھات میں تھی، اس نے گویاتحیہ چھوڑکرتہیہ کرلیاتھا، ہدی چھوڑی حدی خواں بن گئی تھی، بجائے اس کی کہ وہ آگے بڑھ کر سد سکندری کاکردار اداکرتی کسی ماہر"خبری" کے مانندایک ایک گناہ یاددلارہی تھی اور میں مسکین والدصاحب کے ہاتھوں میں بے چارہ رحم وکرم، وعدوں اور ارادوں کی جھڑی لگارکھی تھی، اس پورے واقعہ میں مجھے مارابالکل نہیں گیالیکن گھسیٹا بہت گیا، آنکھیں دکھائی گئیں،مستقبل میں درانتی اور کھرپادے کرگھاس پھونس کٹوانے کی دھمکی دی گئی، جب والد صاحب ادھرادھرہوگئے تب کہیں جاکرمیری والدہ لپکیں جلدی سے کھینچ کر ایک طرف لے گئیں، اپنے دوپٹے سے میرے آنسوپونچھ رہی تھیں لیکن اس دوران ان کی آنکھوں سے مسلسل آنسوجاری تھے، میں سمجھ نہیں پارہاتھاکہ مار تومجھ پر پڑی، ڈانٹ پھٹکار مجھ پر پڑی، لیکن آنسوؤں کی جھڑی اور لڑی والدہ کی آنکھوں سے کیوں جاری ہوگئے، ع
یہ رشتہ تھامحبت کاکہاں مارا کہاں نکلا
میزان الصرف
ٹوٹی پھوٹی چٹائی پربیٹھ کر،اپنے بستے کواپنی چٹائی پررکھ کراسی پرکتاب رکھ کررٹا مارنے کاعجیب ہی مزا تھا،خوب یادہے میرے استاذبھی ایک جگہ چٹائی پربیٹھے سامنے ایک تپائی رکھے نگرانی کرتے رہتے تھے جہاں کہیں کسی نے کوئی شرارت کی لمباسا ڈنڈا پشت شریف پرپڑتا اور چودہ طبق روشن ہوجاتے تھے،مجھے ہرگردان ایک جیسی لگتی تھی "ایں ہمہ کہ گفتہ شد"پرہی غصہ آتاتھا،ماضی مجہول اورمعروف کی یکسانیت ،مذکرومؤنث کاجھمیلا،واحدتنیہ اورجمع کاچکر،متکلم کامسئلہ یہ سب باتیں بھلاعام قارئین کیاجانیں اورانھیں کیاپتہ کہ ابتدائی درجات کے بچوں کوکن جان جوکھم مراحل اورکن پریشان کن مسائل سے جوجھناپڑتاہے ،جب تک گھرمیں رہوبڑوں کی ڈانٹ ڈپٹ جھیلتے رہوجب مدرسہ پہنچوتواستاذکی خوفناک نظروں اورتنبیہ الغافلین کے دھڑکوں سے دل ہی نہیں جسم بھی دھڑکتاتھا،خوب رٹ رٹاکرجب سبق سنانے پہنچتا اوراستاذجی بھاری بھرکم آواز اورپہلے سے ہی غیض وغضب سے بھرے لہجے میں کہتے:ہاں بھئی سناؤ‘‘بس پھرکیاتھا رٹے رٹائے سارے جملے ،بنی بنائی ساری عمارت،ترتیب کے تانے بانے ،یادداشت کی تمام ڈورے اورحفظ ویادداشت کے تمام ترخیالات خام خیالی میں تبدیل ہوجاتے تھے بالکل اسی طرح ساری گردان دماغ سے غائب ہوجاتی تھی جس طرح کمپیوٹروالے کی ذراسی غلطی سے تمام ترلکھی لکھائی تحریرغائب ہوجاتی ہے ،بس پھرکیا تھا استاذ جی ہوتے میری کمراورپیٹھ ہوتی اورتنبیہ الغافلین کی دنادن ہوتی تھی ۔اللہ جزائے خیردے میرے بھائی ریاض الدین کوجنہوں نے میری کتابوں پرگتے لگادئے تھے اوران گتوں کی بدولت مابدولت کی یہ دولت محفوظ رہ گئی ،ویسے پڑھنے کے زمانے میں بھی مجھ سے کتابیں پھٹنے اورجلدیں ٹوٹنے سے محفوظ رہی ہیں لیکن اپنے بچوں کودیکھتاہوں کہ کوئی سیپارہ پھاڑے لئے آرہاہے توکوئی کاپی نوچے آرہاہے،کوئی قلم کی ایسی کی تیسی کررہاہے توکوئی بستے میں ایک منہ سے زائدمنہ بناچکاہے توغصہ کی جگہ لطف آتاہے ،مزا آتاہے ،بچپن یادآتاہے ،میں توبستے میں کتابیں نہ رکھ سکااس وقت اتناچلن بھی نہیں تھا،بستہ توچھوڑئے جی پیروں میں چپل ہی نہیں ہوتی تھیں ،سخت سردیوں میں پیدل ہی پیدل ہم مدرسہ کی طرف صبح صبح مارچ کرتے تھے ،اس وقت تک ہمارے گاؤں کی سڑکیں سڑکیں نہیں کچے راستے ہواکرتے تھے جن کوچکروٹ بولتے تھے ،یہ چکروٹ کہیں کسی کسان کی نظرکرم سے محروم رہ گئے توکشادہ اورکہیں کسی کسان کی نظرکرم پڑگئی توتنگ ہوجاتے تھے ،کچی پکی پکذنڈیوں پرگزرتے تھے ،ہری ہری گھاس پرچلتے تھے گھاس پرٹھنڈی ٹھنڈی اوس اورشبنم کی بوندیں چمک رہی ہوتی تھیں وہ بوندیں چلنے کے دوران اچھل اچھل کرہمارے پیروں اورپاجامے کی مہری کوترکردیتے تھے جہاں تک مہری ترہوتی تھی مٹی کے اثرات بھی وہاں تک واضح ہوجاتے تھے اسی کیفیت اوراسی حالت میں ہمارایہ قافلہ ایک کلومیٹرکاراستہ طے کرکے مدرسہ ضیائ العلوم میں پہنچتاتھاجہاں کی دنیاہی نرائی تھی ایک کمرہ پختہ تھااس کے سامنے چھپرپڑاہواتھا،کمرے میں میرے استاذرہتے تھے چھپر کے نیچے اورصحن میں طلبہ پڑھتے تھے ،بچے اوربچیاں الگ الگ بیٹھتی تھیں ،میرے استاذکواس وقت پان،پڑیا، بیڑی،حقہ کچھ بھی پسندنہ تھااس لئے جوطلبہ بڑی عمرکے ہوتے ان پرخاص نظررکھتے تھے ،طلبہ توطلبہ بڑی عمرکے جوان اورپختہ عمربوڑھے بھی مولاناسے ڈرتے تھے،سبھی ان کاادب کرتے تھے ،احترام کرتے تھے ،سبق نہ سناپانے کے جرم میں بچے اوربچیاں برابرتھے جوبھی استاذمحترم کے شکنجہ میں آگیاتوسمجھوکہ نپ گیا،خیرہم میزان الصرف پڑھتے تھے ،ساتھ میں فارسی کی پہلی اورگلزاردبستاں بھی رٹتے تھے ،مفتاح القرآن از مولانا نامی بھی پڑھتے تھے اورجملے بھی رٹتے تھے ،مولاناعجیب جناتی انسان تھے اوراس زمانے میں جیساکہ ہمیں بتایاگیاکہ واقعی ان کے پاس جنات بھی رہتے تھے ،مفتاح القرآن کے قرآنی جملے جلدی یادبھی ہوجاتے تھے لیکن میزان الصرف کی گردانیں گردنوں پربوجھ بنی رہتی تھیں ،برانہ مانیں توکہوں اس اکیلے بندے پرکام کابوجھ بھی بہت زیادہ تھا،قرآن پڑھنے والے بھی ،قاعدہ بغدادی والے بھی ،اردووالے بھی،تختی پرلکھنے کی مشق والے بھی،فارسی اور عربی کی کتابیں پڑھنے والے بھی اورساتھ بچیوں کی تعلیم کامستقل مسئلہ بھی ،یہ سب کام میرے استاذاکیلے کیسے انجام دے لیتے تھے میری توسمجھ سے باہر ہے، آج اگراتناکام کسی کو دے دیاجائے توپتہ نہیں انجام بخیرہوگایامہتمم صاحب کی خوش انجام ہوجائیں گے.
(ناصرالدین مظاہری)