داستان دبستاں

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
*داستان دبستاں*

میرا بچپن میرا مکتب:

میرے زمانے میں لکڑی کی تختی چلتی تھی تختی کوسیاہ کرنے کےلئے ہم طاق کی تلاش میں رہتے تھے کیونکہ چراغ انہی طاقوں میں جلائے جاتے تھے، ایک چراغ پوری مسجد کومدھم روشنی فراہم کرتاتھا، ہم اپنی تختی پر طاق والی کالک خوب رگڑتے تھے اور نتیجہ میں ہمارے پہلے سے گندے کپڑے مزید کالک کے دھبوں سے داغدارہوجاتے تھے ،اپنی بدنامی کابھی کوئی خیال نہ گزرتا تھا،کالی تختی پر سفیدملتانی مٹی سے لکھائی ہوتی تھی اور اپنے ٹوٹے پھوٹے ایڑے ترچھے مفردات کونفیس رقم یااعجازرقم سے کم نہیں سمجھتے تھے،تختی پر لکھنے کی وجہ سے داہنے ہاتھ کی آستین رنگ وروپ میں تختی کی بہن ہی محسوس ہوتی تھی، واللہ وہ منظربھی خوب یادہے جب خشک ملتانی مٹی نظر بچاکر کھا لیتے تھے اور اس کی سوندھی سوندھی خوشبو کاالگ ہی لطف تھا، ہماری تختی ساتھیوں سے لڑائی کے دوران عصائے موسوی کاکرداربھی اداکرتی تھی، ایک دوسرے کی تختیوں کی مضبوطی چیک کرنے کاطریقہ بھی نرالاتھا، ایک اپنی تختی کو پکڑ کر زمیں پر کھڑی کرتااور دوسرا لڑکا پوری سختی کے ساتھ اپنی تختی دوسرے کی تختی پردے مارتا، جس کی تختی ٹوٹ جاتی وہ ہاراماناجاتا تھا،یہ شکست خوردہ طالب علم جب اپنے گھرپہنچتاتو وہاں بھی ضرب یضرت کاعمل دہرایا جاتا،تختی جوشہیدہوچکی ہے.

عہداور سن تویادنہیں البتہ یاد پڑتاہے کہ اپنے بغدادی قاعدے کے پھٹے ہوئے صفحات کھابھی لیتاتھا، تختی پرلکھنے والا چوبی قلم خوداستاذہی تراشتے تھے، کاپیوں کاچلن تواب ہواہے اور یقینا بہت غلط ہوا، کیونکہ سب سے زیادہ کاپیاں خریدنے کے عنوان پر پیسے مانگے جاتے ہیں پھر کچھ کی کاپیاں اور کچھ کی ٹافیاں. اللہ اللہ خیرصلی

دوات کی کہانی

دوات کی کہانی بھی تختی سے کم دلچسپ نہیں ہے، روشنائی کبھی پتلی ہوجاتی توکبھی گاڑھی، کبھی خراب ہوجاتی تو شاذ ونادر اچھی، قلم کی تیاری کے لئے سرکنڈے توڑکر لاتے، پتے ہٹاکر سرکنڈہ استاذمحترم کودیتے اور وہ ایک ہی سرکنڈے سے بے شمار قلم تراش کرمستحق بچوں کوتقسیم کردیتے، ہم قلم لے کرخوشی خوشی اپنے بستے تک پہنچتے لیکن یہاں دوسرا مسئلہ تیار کھڑا ہوتا دوات کا دہانہ چھوٹااور قلم کاموہانہ موٹا، اب پھرسے سرکنڈہ لانا قلم ترشوانا آبیل مجھے مار کے مرادف تھااس لئے ایسابھی ہوتا کہ دوسرے ساتھی کی دوات سے تبادلہ ہوتاکبھی اس کی مرضی سے کبھی زبردستی سے کبھی آنکھ بچاکر. یہ دوات شیشے کی ہوتی تھی کیونکہ اسی کے زیریں حصہ کو ہم سختی کے ساتھ تختی پر رگڑتے تھے توتختی چکنی ہوتی چلی جاتی اور اس پر لکھنابھی آسان اور لکھاوٹ بھی بہترہوجاتی تھی، خوب یاد ہے ہمارے مکتب میں مکتب کی طرف سے دریاں تپائیاں نہیں تھیں اس لئے ہم رحل، اپنابوریا اور پلاسٹک کی تھیلی کو یاکپڑے سے سلے تھیلے کو اپنا بستہ کہتے اور کہلواتے تھے اس بستے کوہلکے میں مت لیجئے ایک پوٹلی میں کانچ کی گولیاں، کھیل اور کھلونوں سے متعلق بعض دیگراشیاء بھی نہایت حفاظت اور تیقظ کے ساتھ رکھتاتھا پھربھی کبھی نہ کبھی سامان غائب ملتا تھا، بعض منہ زور، شہ زور، طلبہ دست درازی کرکے اپنے ساتھی طلبہ کا بہت ساسامان بطور مال غنیمت اپنے ساتھ لے جاتے تھے جو کبھی انٹرول میں اور کبھی انٹرول کے بعد کھیلنے میں کام آتا تھا
ایک دن تو غضب ہوگیا مکتب جاتے ہوئے ایک ننھاچوزہ راستہ میں مل گیا جسے پکڑکر ہم نے بستہ نمابوریا یا بوریا نمابستے میں چھپا لیا،ظالم نے بستے میں چوں چوں کی اسپیڈ بنائی، میرے خونخوار، جلاد صفت، خطرناک، سفاک، ضراب استاذ حضرت مولانا حفظ الرحمن نعمانی کی سماعتوں تک چوں چوں کی آواز پہنچ گئی، بستہ کھول کر چوزہ نکالا اور "پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی" منحوس چوزے کووہیں پہنچانا پڑا جہاں سے حاصل کیاتھا.
حضرت مولانا حفظ الرحمن مدظلہ وہی ہیں جن کے نام نامی اسم گرامی کی طرف میں نے اپنی تازہ ترین کتاب "یہ تھے اکابرمظاہر" کاانتساب کیاہے..

سبق یادکیا؟

مکتب میں کسی کی کوئی جگہ متعین نہیں تھی جوجہاں جگہ پاجائے وہیں اپنابوریابچھالے، میں اس دن خاص کر سب سے اخیرمیں جگہ پاتاتھا جس دن سبق کچا یا بالکل ہی یاد نہ ہوتا تھا، میرے استاذ کی بینائی اللہ تعالٰی نے غضب کی بنائی ہے زور سے بیدکاڈنڈا اپنی سادہ سی تپائی پرمارتے اور سارے بچے ایسے سہم جاتے جیسے یہ ڈنڈا تپائی پر نہیں بلکہ ان کی پشت شریف پرپڑا ہے سہمنے کے دوران ہی وہ نام بھی لیتے ناصر، اشتیاق، رئیس، مشیر تم لوگوں نے سبق یادکرلیا؟ مت پوچھو ہماری کیاحالت ہوتی تھی سب سے زیادہ خراب حالت تورئیس کی ہوتی تھی جوبے چارہ کبھی صحیح سبق نہ سناسکانتیجہ میں اس کی پشت، اس کی ہتھیلیاں اور اس کی تشریف پربیدکے ذریعہ جو آؤبھگت ہوتی تھی اس کانقشہ کھینچنا بہت ہی آسان ہے، ہرڈنڈے پررئیس پیچھے کی طرف جھکتاچلاجاتا یہاں تک کہ کمان بن جاتا، لیکن ظالم بڑاجی دار تھاکبھی رویا نہیں حالانکہ اس کی مار کودیکھ کرہمیں اپنی عاقبت اوراپنی نوبت نظرآتی تھی، استاذمحترم کی مار جتنی دیکھی ہے اتنی کھائی نہیں اور جتنی کھائی ہے گھر والوں کو بتائی نہیں کیونکہ پھروہاں بھی مکررپٹنے اور ڈانٹ ڈپٹ کااندیشہ رہتاتھا.
میرایہ ساتھی جس کا نام رئیس تھاوہ خداجانے اب کس حال میں ہوگاسناہے اس کے والدکاکسی فرقہ وارانہ واقعہ میں قتل ہوگیاتھا بہرحال آمدم برسرمضمون :سردیوں کاموسم تھا، ہلکی ہلکی دھوپ ہمارے گھروں کے اوپر چمکنی شروع ہوئی تھی، اوس اورشبنم نے کچے کچے راستوں اور پکڈنڈیوں پرسفید چادر سی بچھارکھی تھی گویا زبان حال سے وہ شبنم کہہ رہی ہو" کلیاں نہ بچھاناراہوں میں ہم شبنم بچھانے والے ہیں" موسم اتنااچھاتھاکہ لفظوں میں اس کامنظربیان کرنا میرے لئے ناممکن ہے، پڑھنے کے لئے قریب کے گاؤں بھدئی پوروہ جانا پڑتاتھا جہاں مدرسہ ضیاء العلوم نامی مدرسہ ہمارا اولین مادرعلمی، گہوارہ تربیت اوردرسگاہ تھی، وہیں مولانا حفظ الرحمن نعمانی اپنے جاہ وجلال کے ساتھ تشریف فرمارہتے تھے، سچ کہتاہوں کہ اس سن وسال میں پڑھنے کی طرف طبیعت بالکل مائل نہیں تھی لیکن ع
نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن

والدگرامی کی ناراضی بھی برداشت نہیں تھی اور استاذ کا حال تو"بکرے کی ماں" جیساتھا، یاخلیفہ ہارون رشیدکے بقول "توچاہے جہاں برس تیرا خراج مجھ تک پہنچے گا" میں نے وقت پر جھولا نمابستہ یا بستہ نماجھولا اٹھایا اور گھرسے نکل پڑا، گاؤں کے وسط میں ایک میدان تھا جہاں بازار لگتاتھا وہیں اسحاق تیلی کی دکان کے پیچھے جاکرچھپ گیا، میں نے بڑی دانائی ودانشمندی سے کام کیاتھا، گھروالوں کوچکمہ جودے آیاتھا،لیکن افسوس میری یہ چالاکی و عیاری اور مکاری بالکل کام نہیں آئی، استاذمحترم کے دو فرستادوں بلکہ کارندوں بلکہ قبرکے فرشتوں نے گھرپہنچ کر میری غیبوبت کی اطلاع دی، میری ماں نے میری حمایت کی، دلائل دئے، میری تعلیمی دلچسپی بتائی اور فرمایاکہ وہ تووقت پرمدرسہ چلاگیاتھا، لیکن فرستادوں نے کہاکہ وہاں پہنچا ہی نہیں، توپھر اس وقت میری بہن جومجھ سے آٹھ سال بڑی ہیں اور مانواس وقت مجھ سے عمرمیں دوگناتھیں، انھیں شایدمیرے فراریامیرے قرار کاعلم پہلے سے تھا، تیرکے مانند مجھ تک پہنچ گئیں، میں دکان کے پیچھے دھوپ کی تمازت سے لطف اندوز ہورہا تھا، میرا بستہ بھی ساتھ تھا، اس اچانک افتادپرپریشان ہوگیا، انہوں نے میراہاتھ زور سے پکڑا اور سیدھے گھرپہنچ گئیں جہاں میرے والدپہلے سے ہی غصہ میں بھرے آگ بگولہ منتظرآمدماتھے، مت پوچھئے میری کیاحالت تھی، انہوں نے مجھے پکڑا اور دونوں ہاتھوں سے تھام کرسرکے اوپرتک اٹھاتے چلے گئے، میں سمجھ گیاکہ اب تو نمک کی بوری کی طرح مجھے زمین پردے ماریں گے لیکن اللہ نے ان کادل موم کردیا، رحم آگیا، شایدمیری گھگی پر، شایدمیری اس پہلی حرکت پر، شایدپدرانہ شفقت سے یامیری ماں کی ممتابھرے ضبط اور مصلحت آمیز خاموشی پر، کچھ بھی ہومجھے بچانے والاکوئئ نہ تھا،میری بہن قریب ہی کھڑی میری ایک ایک غلطی، خامی، کوتاہی، شرارت، خباثت بتانے اورگنانے میں لگی ہوئی تھی اس کابس چلتاتو میراکچومر ہی نکلوا دیتی، وہ اللہ کی بندی میری اس گرفتاری پر اپنے دل دماغ پرزور ڈال ڈال کر بڑی بے باکی سے ادھار بیباق کررہی تھی وہ توشاید اسی موقع کی تاک اور گھات میں تھی، اس نے گویاتحیہ چھوڑکرتہیہ کرلیاتھا، ہدی چھوڑی حدی خواں بن گئی تھی، بجائے اس کی کہ وہ آگے بڑھ کر سد سکندری کاکردار اداکرتی کسی ماہر"خبری" کے مانندایک ایک گناہ یاددلارہی تھی اور میں مسکین والدصاحب کے ہاتھوں میں بے چارہ رحم وکرم، وعدوں اور ارادوں کی جھڑی لگارکھی تھی، اس پورے واقعہ میں مجھے مارابالکل نہیں گیالیکن گھسیٹا بہت گیا، آنکھیں دکھائی گئیں،مستقبل میں درانتی اور کھرپادے کرگھاس پھونس کٹوانے کی دھمکی دی گئی، جب والد صاحب ادھرادھرہوگئے تب کہیں جاکرمیری والدہ لپکیں جلدی سے کھینچ کر ایک طرف لے گئیں، اپنے دوپٹے سے میرے آنسوپونچھ رہی تھیں لیکن اس دوران ان کی آنکھوں سے مسلسل آنسوجاری تھے، میں سمجھ نہیں پارہاتھاکہ مار تومجھ پر پڑی، ڈانٹ پھٹکار مجھ پر پڑی، لیکن آنسوؤں کی جھڑی اور لڑی والدہ کی آنکھوں سے کیوں جاری ہوگئے، ع
یہ رشتہ تھامحبت کاکہاں مارا کہاں نکلا

میزان الصرف

ٹوٹی پھوٹی چٹائی پربیٹھ کر،اپنے بستے کواپنی چٹائی پررکھ کراسی پرکتاب رکھ کررٹا مارنے کاعجیب ہی مزا تھا،خوب یادہے میرے استاذبھی ایک جگہ چٹائی پربیٹھے سامنے ایک تپائی رکھے نگرانی کرتے رہتے تھے جہاں کہیں کسی نے کوئی شرارت کی لمباسا ڈنڈا پشت شریف پرپڑتا اور چودہ طبق روشن ہوجاتے تھے،مجھے ہرگردان ایک جیسی لگتی تھی "ایں ہمہ کہ گفتہ شد"پرہی غصہ آتاتھا،ماضی مجہول اورمعروف کی یکسانیت ،مذکرومؤنث کاجھمیلا،واحدتنیہ اورجمع کاچکر،متکلم کامسئلہ یہ سب باتیں بھلاعام قارئین کیاجانیں اورانھیں کیاپتہ کہ ابتدائی درجات کے بچوں کوکن جان جوکھم مراحل اورکن پریشان کن مسائل سے جوجھناپڑتاہے ،جب تک گھرمیں رہوبڑوں کی ڈانٹ ڈپٹ جھیلتے رہوجب مدرسہ پہنچوتواستاذکی خوفناک نظروں اورتنبیہ الغافلین کے دھڑکوں سے دل ہی نہیں جسم بھی دھڑکتاتھا،خوب رٹ رٹاکرجب سبق سنانے پہنچتا اوراستاذجی بھاری بھرکم آواز اورپہلے سے ہی غیض وغضب سے بھرے لہجے میں کہتے:ہاں بھئی سناؤ‘‘بس پھرکیاتھا رٹے رٹائے سارے جملے ،بنی بنائی ساری عمارت،ترتیب کے تانے بانے ،یادداشت کی تمام ڈورے اورحفظ ویادداشت کے تمام ترخیالات خام خیالی میں تبدیل ہوجاتے تھے بالکل اسی طرح ساری گردان دماغ سے غائب ہوجاتی تھی جس طرح کمپیوٹروالے کی ذراسی غلطی سے تمام ترلکھی لکھائی تحریرغائب ہوجاتی ہے ،بس پھرکیا تھا استاذ جی ہوتے میری کمراورپیٹھ ہوتی اورتنبیہ الغافلین کی دنادن ہوتی تھی ۔اللہ جزائے خیردے میرے بھائی ریاض الدین کوجنہوں نے میری کتابوں پرگتے لگادئے تھے اوران گتوں کی بدولت مابدولت کی یہ دولت محفوظ رہ گئی ،ویسے پڑھنے کے زمانے میں بھی مجھ سے کتابیں پھٹنے اورجلدیں ٹوٹنے سے محفوظ رہی ہیں لیکن اپنے بچوں کودیکھتاہوں کہ کوئی سیپارہ پھاڑے لئے آرہاہے توکوئی کاپی نوچے آرہاہے،کوئی قلم کی ایسی کی تیسی کررہاہے توکوئی بستے میں ایک منہ سے زائدمنہ بناچکاہے توغصہ کی جگہ لطف آتاہے ،مزا آتاہے ،بچپن یادآتاہے ،میں توبستے میں کتابیں نہ رکھ سکااس وقت اتناچلن بھی نہیں تھا،بستہ توچھوڑئے جی پیروں میں چپل ہی نہیں ہوتی تھیں ،سخت سردیوں میں پیدل ہی پیدل ہم مدرسہ کی طرف صبح صبح مارچ کرتے تھے ،اس وقت تک ہمارے گاؤں کی سڑکیں سڑکیں نہیں کچے راستے ہواکرتے تھے جن کوچکروٹ بولتے تھے ،یہ چکروٹ کہیں کسی کسان کی نظرکرم سے محروم رہ گئے توکشادہ اورکہیں کسی کسان کی نظرکرم پڑگئی توتنگ ہوجاتے تھے ،کچی پکی پکذنڈیوں پرگزرتے تھے ،ہری ہری گھاس پرچلتے تھے گھاس پرٹھنڈی ٹھنڈی اوس اورشبنم کی بوندیں چمک رہی ہوتی تھیں وہ بوندیں چلنے کے دوران اچھل اچھل کرہمارے پیروں اورپاجامے کی مہری کوترکردیتے تھے جہاں تک مہری ترہوتی تھی مٹی کے اثرات بھی وہاں تک واضح ہوجاتے تھے اسی کیفیت اوراسی حالت میں ہمارایہ قافلہ ایک کلومیٹرکاراستہ طے کرکے مدرسہ ضیائ العلوم میں پہنچتاتھاجہاں کی دنیاہی نرائی تھی ایک کمرہ پختہ تھااس کے سامنے چھپرپڑاہواتھا،کمرے میں میرے استاذرہتے تھے چھپر کے نیچے اورصحن میں طلبہ پڑھتے تھے ،بچے اوربچیاں الگ الگ بیٹھتی تھیں ،میرے استاذکواس وقت پان،پڑیا، بیڑی،حقہ کچھ بھی پسندنہ تھااس لئے جوطلبہ بڑی عمرکے ہوتے ان پرخاص نظررکھتے تھے ،طلبہ توطلبہ بڑی عمرکے جوان اورپختہ عمربوڑھے بھی مولاناسے ڈرتے تھے،سبھی ان کاادب کرتے تھے ،احترام کرتے تھے ،سبق نہ سناپانے کے جرم میں بچے اوربچیاں برابرتھے جوبھی استاذمحترم کے شکنجہ میں آگیاتوسمجھوکہ نپ گیا،خیرہم میزان الصرف پڑھتے تھے ،ساتھ میں فارسی کی پہلی اورگلزاردبستاں بھی رٹتے تھے ،مفتاح القرآن از مولانا نامی بھی پڑھتے تھے اورجملے بھی رٹتے تھے ،مولاناعجیب جناتی انسان تھے اوراس زمانے میں جیساکہ ہمیں بتایاگیاکہ واقعی ان کے پاس جنات بھی رہتے تھے ،مفتاح القرآن کے قرآنی جملے جلدی یادبھی ہوجاتے تھے لیکن میزان الصرف کی گردانیں گردنوں پربوجھ بنی رہتی تھیں ،برانہ مانیں توکہوں اس اکیلے بندے پرکام کابوجھ بھی بہت زیادہ تھا،قرآن پڑھنے والے بھی ،قاعدہ بغدادی والے بھی ،اردووالے بھی،تختی پرلکھنے کی مشق والے بھی،فارسی اور عربی کی کتابیں پڑھنے والے بھی اورساتھ بچیوں کی تعلیم کامستقل مسئلہ بھی ،یہ سب کام میرے استاذاکیلے کیسے انجام دے لیتے تھے میری توسمجھ سے باہر ہے، آج اگراتناکام کسی کو دے دیاجائے توپتہ نہیں انجام بخیرہوگایامہتمم صاحب کی خوش انجام ہوجائیں گے.
(ناصرالدین مظاہری)
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
میری تعلیم وتربیت میں حضرت مولانا حفظ الرحمن مدظلہ (خیری) کی ابتدائی کوششیں شامل ہیں،مولانا محمد عمرزیدپوری کی توجہات سامیہ،مفتی محمد نسیم لکھیم پوری کی کوثروتسنیم سے دھلی ہوئی باتیں، مفتی نظام الدین قاسمی بھاگلپوری کااندازتربیت، مولانامحمدسلیم قاسمی زیدپوری کے تفسیری نکات، مفتی محمدیعقوب بستوی کی فتوی نویسی،مولاناکفیل احمدزیدپوری ؒ اورمولانامحمدیوسف زیدپوری کی پدرانہ شفقتیں،مولاناابوبکرزیدپوری کاتعلیمی انہماک،قاری محی الدین بھاگلپوری اورقاری علی حیدرسیوانی کی تعلیمی دلچسپیاں، مولانامحمدعبداللہ بہرائچیؒ کی پروقار تدریس،مولانا محمدایوب بارہ بنکویؒ کی علمی گہرائی وگیرائی،مولاناعبدالخالق مظاہریؒ کی تدریسی صلاحیتیں، مولانامحمدقاسم مظاہریؒ کاطرزتکلم ،مولانامجدالقدوس رومیؒ کی فقہی موشگافیاں، مولاناعبدالحسیب اعظمی کی فقہی جزئیات،مولاناوقارعلی بجنوریؒ کاعلم فرائض،مولانامحمدیعقوب مظاہری کاعلم تفسیر، مولانا عشیق احمدؒکی رعنائیاں، مولانا اطہرحسینؒ کی ادبی مہارتیں،مولانارئیس الدین بجنوریؒ کی تدریس حدیث،علامہ محمدعثمان غنیؒ کی شان شیخ الحدیثی اورفقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒ کاتفقہ یہ سب صفات وخصوصیات وہ ہیں جن پرمیں ایک بسیط مقالہ لکھ سکتاہوں کیونکہ ناصرکے تربیتی عناصرمیں یہی صاحبان قدردان ہیں جنہوں نے عظیم کرداراداکیاہے،یہی وہ ہستیاں ہیں جن کے سامنے زانوے تلمذتہ کرنے پرمجھے فخرہے،یہی وہ نیک طینت اکابرہیں جنہوں نے مجھے اپناغلام بنایاہوا ہے،ان ہی کی ذات والاصفات سے مجھے سکون حاصل ہے، ان ہی کے اندازتربیت نے میرے افکارونظریات کوگندگی اور پراگندگی سے محفوظ کیاہواہے۔یہی وہ ریاض الجنة ہیں جن کے باغ میں مجھے ”چرنے“کی توفیق ملی ہے۔ان ہی کے دم سے میرادم وابستہ ہے،ان ہی کے قدموں میں میراسررکھاہواہے۔ انا عبد من علمني حرفا واحدا ..ان شاء باع..او ان شاء اعتق..او ان شاء استرق۔
(ناصرالدین مظاہری)
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
مدرسہ امدادالعلوم زیدپوربارہ بنکی میں داخلے کی کہانی(1)

ناصرالدین مظاہری

گیارہ سال کی عمرہی کیاہوتی ہے، ایسی کچی عمرمیں بھلاکون بچہ ہے جواپنی سب سے قیمتی اورجان سے زیادہ پیاری ’’ماں‘‘سے سیکڑوں کلو میٹردور قصبہ زیدپورضلع بارہ بنکی کے مدرسہ امدادالعلوم میں پڑھنے کی سوچے ،ہوایہ کہ اس مدرسہ کے پڑھے ہوئے کئی بڑے اہل علم ہمارے علاقہ لکھیم پورمیں ہیں، زیدپوربھی لکھیم پورکی طرح عجیب وغریب جگہ بساہواہے ،آپ امرتسرسے کلکتہ چلے جائیں ،سڑک سے ہو یا ٹرین سے ،کہیں بھی زیدپورنہیں ملے گا،البتہ آپ زیدپور سے اتنے قریب سے گزرجائیں گے کہ جن کی قوت شامہ مضبوط اورجن کی بینائی تیزہوتووہ زیدپورکی خوشبوکا احساس اورادراک کرسکتے ہیں ،جی ہاں جب آپ کی ٹرین یاکارلکھنؤسے مشرق کی طرف چلے اوربڑھے تو سب سے پہلے بارہ بنکی شہرآپ کاااستقبال کرے گاپھرمشہورقصبہ رسولی اورصفدرگنج کاعلاقہ گزرے گابس صفدرگنج سے ہی ایک سڑک شمال کی جانب نکلتی ہے اوریہی سڑک آپ کوزیدپورپہنچاتی ہے ۔

میرے والدنے میرے استاذ حضرت مولاناحفظ الرحمن صاحب سے مشورہ کیایاحضرت مولانانے خودہی میرے والدسے مشورہ کیابہرحال طے یہ پایاکہ زیدپورمیں داخلہ کرایا جائے۔ہماری چارنفری یہ جماعت جومرحوم محمدمستقیم، مولانامحمدحسین، مولانافضل الرحمن ، مولانا محمد مشیر اورراقم الحروف پرمشتمل تھی سب زیدپورکے لئے تیاریاں کرنے لگے۔
داخلہ میں ایک اورصاحب بلکہ سب سے اہم کڑی اوروجہ ترجیح ہمارے علاقے کے مشہورومقبول اورہردل عزیزعالم دین حضرت مولانامفتی محمدنسیم صاحب تھے جواسی مدرسہ امدادالعلوم کے فارغ اوروہیں مدرس تھے ۔

فضل الرحمن اب ماشاء اللہ مولانا ہیں،لکھنے پڑھنے کااچھاذوق رکھتے ہیں ،مفتی بھی ہیں اورمرادآبادکے فارغ بھی ہیں یہ صاحب میرے استاذمولاناحفظ الرحمن کے برادر زادے ہیں اوران کی ابتدائی تعلیم بھی میرے ہی گاؤں میں ہم لوگوں کے ساتھ ہی ہوئی تھی اس لئے میرے والد اورمولاناحفظ الرحمن کے والددونوں نے زیدپورہی فیصلہ کیاتھا۔

شوال کی خداجانے کیاتاریخ رہی ہوگی ہم چاروں کولے کریہ دونوں بزرگوارلکھیم پورپہنچے ،میرے استاذ حضرت مولاناحفظ الرحمن صاحب بھی لکھیم پورتک چھوڑنے تشریف لائے ،پہلی باریلوے اسٹیشن دیکھا، کافی دیرانتظارکے بعدٹرین تشریف لائی ،تشریف اس لئے لکھ رہاہوں کیونکہ اس زمانے کی ٹرین آج کی ٹرین سے بالکل الگ تھی،کالی کلوٹی،کوئلہ سے چلنے والی،تنگ سی، ڈبے اتنے نیچے کہ ایک ہی جست میں آدمی اندرپہنچ جائے۔لکڑی کی سیٹیں،اوپروالی ٹانڈ میں بھی لکڑی کے تختے اورپٹرے ،اکادکاپنکھے،دہ بھی سرکارکی طرح چلتے کم تھے شور زیادہ مچاتے تھے،ٹرین کے بالکل اگلے ڈبے میں ڈرائیور بیٹھتاتھا، مسلسل بھٹی میں کوئلہ ڈالتا رہتا تھا، کوئلہ کے پاس اورآگ کی بھٹی کے پاس رہتے رہتے ڈرائیوربھی حبشی النسل محسوس ہوتاتھا،ٹرین کی آواز بھی خوفناک،اس کی چال بالکل ہرنی جیسی،مست و مستانہ،اس کاموڈبالکل بھینسا جیساجہاں مرضی رک گئی ، مرضی ہوئی توچل پڑی،نہ آگے سے کسی ٹرین کے آنے کاخطرہ نہ ہی ٹرین کے وقت پرپہنچے کاٹینشن،بالکل ایساہی لگتاتھاجیسے آج کل کی مکمل اکثریت سے جیتنے والی سرکاروں کاہوتاہے نہ سرکارکے گرنے کا خدشہ،نہ مخالفین کادھڑکا،مرضی ہوئی تواچھی چلنے لگی مرضی ہوئی توخراب چلنے لگی،پہلی سرکاروں کے تشنہ کاموں کوبیک جنبش قلم ختم کرنے میں کوئی احساس نہیں کہ ملک کاکس قدرروپیہ خرچ ہوچکاہے نہ ہی کسی کی ڈانٹ اورپھٹکارکاخوف کیونکہ عدالتیں، صدرجمہوریہ ،گورنرسب چڑھتے سورج کوہی سلام کرنے لگے ہیں،جس کی لاٹھی اسی کی بھینس والامعاملہ ہوچکا ہے۔

خیرہم ٹرین میں بیٹھ گئے ،ٹرین اپنی مرضی سے چلتی رہی ،کوئلہ کے ذرات اڑاڑکرہمارے کپڑوں کوداغدار کرتے رہے یہاں تک کہ فتح پورکے نام سے ایک اسٹیشن آیا،وہاں اترے اورپھرکسی بس وغیرہ سے بارہ بنکی پہنچے، وہاں سے بھی بس ملی اورزیدپورپہنچے ۔حضرت مولانامفتی محمدنسیم صاحب نے استقبال کیا، مولاناکی وجہ سے داخلوں میں بھی خوب آسانی ہوئی۔دودن تک ہمارے والد اورمولانافضل الرحمن کے داداجان رکے رہے ،ان کی روانگی کاوقت ہواتو ہماری حالت غیرہونے لگی ،دونوں حضرات مدرسہ سے روانہ ہوگئے لیکن سب سے نیچے داخلی عمارت میں داہنی جانب والاوہ ستون میرے لئے کسی ماں سے کم نہیں تھاجس سےلپٹ کررویا اورخوب رویا،اس سے پہلے زندگی میں کبھی لکھیم پورنہیں دیکھاتھاچہ جائے کہ زیدپورپہنچ گیا۔اس زمانے میں زیدپورمیں خربوزے بہت سستے ملتے تھے ،میرے والدنے کئی کلوخربوزے خریددئے تھے کہ بھوک لگے توکھالینا،کیابتاؤں ،جب اپناٹین کابکس والدصاحب کے جانے کے بعدکھولاتوخوب رویا،والدصاحب جب مجھ سے رخصت ہورہے تھے توایک باربھی میری طرف مڑکرنہیں دیکھا تھا،بہت احساس ہواتھا،غصہ بھی آرہا تھاکہ مڑکردیکھ تولیتے لیکن اس نہ مڑنے کی سمجھ تب آئی جب میری شادی ہوگئی اورمیراننھابچہ ریحان اپنی ماں کی گودمیں تھااورمیں مظاہرعلوم سہارنپورکے لئے روانہ ہورہاتھا اور ایک باربھی پیچھے مڑکرمیں نے نہیں دیکھاتھابلکہ اب بھی نہیں دیکھتاہوں، جواب ملااورخوب ملا،سمجھ آئی اور خوب آئی ۔یہ کوئی والدکے دل سے پوچھے کہ ان کے دل پرکیاگزرتی ہے جب وہ اپنے بچوں ہی کے لئے اپنے گھرسے بچوں کوچھوڑتاہے۔

داخلہ کی صبح سے پڑھائی میں لگ گیا،سب سے زیادہ اس وقت قربت حضرت مولانامفتی نسیم صاحب سے ہی رہی کیونکہ اتنامعلوم تھاکہ یہ لکھیم پورکے عدلیس پورکے رہنے والے ہیں۔کسی ہم علاقہ کی شفقت وہمدردی دیارغیرمیں کتنی ڈھارس بندھاتی ہے یہ کوئی مجھ سے پوچھے۔

اگلے ہی دن مفتی صاحب نے فرمایاکہ ناصرالدین !جب بھی روپے پیسوں کی ضرورت ہوبے تکلف مجھ سے لیتے رہناتمہارے والدنے روپے میرے حوالہ کئے ہیں تم چھوٹے ہوغائب ہوسکتے ہیں ۔یہ سرپرستی حضرت نے ایسی نبھائی کہ چھ سال تک وہی میرے استاذوہی میرے والدوہی میرے مشیروہی میرے سرپرست۔ان ہی کی ذات میں مجھے ماں کاروپ،باپ کاپیار، استاذکی شفقت،سرپرست کی ہمدردی سب کچھ نظرآئی اورخوب نظرآئی۔(جاری)
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
حضرت مولانامفتی محمدنسیم لکھیم پوری(2)

ناصرالدین مظاہری

اتنے بڑے مدرسہ میں اپنی جماعت میں سب سے چھوٹامیں ہی تھا،یقین جانیں کچھ بھی پلے نہیں پڑتاتھا،جان توڑمحنت وکوشش کرتاتھا،یادکرنے اوررٹنے پربھرپورتوجہ دیتاتھا،کم عمری کے زورمیں سبق تویادہوجاتالیکن سمجھ میں نہیں آتاتھا،نہ آج کل کی طرح بورڈکارواج تھا،بورڈپرطلبہ کوسمجھانابھی آسان ہے اورطلبہ کاسمجھنابھی آسان ہے ،مثلاً ایک استاذجتنی محنت تنازع فعلان پرکرتاہے،اورطلبہ کے ساتھ خوداپنے دماغ کی دہی بنادیتاہے اگریہی سبق یہی استاذبورڈپرپڑھادے توطلبہ کونہ تودماغ کی دہی بنانے کی ضرورت ہے نہ ہی استاذکواتنی محنت سے کرنے کی ضرورت ہے ۔

ابتدائی اسباق میں فارسی کی تقریباًتمام کتابیں حضرت مفتی محمدنسیم صاحب کے پاس تھیں،سخن نو،شعرباستاں،گلستاں،بوستاں وغیرہ۔ مفتی محمدنسیم صاحب عجیب دماغ لے کرپیداہوئے ہیں ،درس میں آپ انھیں میزان الاعتدال سے میزان الصرف تک ،ملاعلی قاری کی مرقات سے فضل حق خیرآبادی کی مرقات تک جوبھی کتاب دیناچاہیں دیدیں ان کی زبان سے’’ نا‘‘ نہیں نکل سکتاتھا۔فارسی کے اردوکے اورعربی کے بہت سے اشعاران کویادتھے ،شعرباستاں جیسی مشکل فارسی کتاب کووہ نورانی قاعدہ کی طرح سہل اندازمیں پڑھادیتے تھے ،صرف درسیات کے باب میں ہی انہوں نے اپنی صلاحتیوں کاسکہ اورلوہانہیں منوایاہواتھاکوئی بھی کام ہواس میں ماہرتھے چنانچہ ان کاننھابچہ ندیم خراب کھلوناکارلئے پھررہاتھاکہنے لگے اس میں چابی بھرویہ چلے گی وہ کہنے لگاخراب ہوگئی ہے ،بس پھرکیاتھاوہیں بیٹھ گئے ،کارکھولی ،پرزے ترتیب سے رکھے،جہاں جس چیزکی کمی تھی اس کودرست کیااورپھرکارکوپہلی حالت میں کرکے چابی بھری اوروہ دوڑتی چلی گئی اورپیچھے پیچھے ندیم بھی دوڑنے لگا۔

ایک طالب علم کے ہاتھ میں گھڑی تھی پوچھاکیاوقت ہوا،وہ بولایہ توخراب ہے ،فرمایالاؤمجھے دو،وہ سمجھاکہ شایدگھڑی کی شامت آگئی ہے کیونکہ مفتی صاحب کاغصہ بمبئی کی طرح بارش کے مانندتھاکب اورکہاں برس جائے کچھ پتہ نہیں ۔اس نے ڈرتے ڈرتے گھڑی نکال کردی،مفتی صاحب نے اپنے پاس موجودپرزوں سے اس کی گھڑی کھولی ،جہاں جس چیزکی ضرورت اورمرمت کرنی تھی کردی اورگھڑی درست ہوگئی۔

یہ جوہم پوری پوری زندگی بجلی اورپنکھے سے لطف اندوزہوتے ہیں لیکن کبھی بھی اس کے بارے میں کچھ سیکھنے کی نوبت نہیں آتی مفتی صاحب اس باب میں بھی ماہرتھے کبھی ان کے کمرے کی بجلی خراب ہوگئی توکسی کوبلانے کی ضرورت نہیں تھی خودہی بورڈکوکھول کھال کردرست کرلیتے تھے ۔

اسی طرح انھیں تقریربھی آتی تھی،قرب وجوارمیں انھیں میں نے کئی بارتقریرکرتے دیکھااورسناہے ۔

تعویذات میں بھی انھیں درک تھااورکسی کومحروم نہ فرماتے تھے۔کسی پرآسیب کااثرہومفتی صاحب اس کوبھی دورکردیتے تھے ۔

ایک باراپنے بھتیجے محمدعمیم لکھیم پوری سے کہاکہ چائے بناؤ،اس نے چائے بنائی ،عمیم کہنے لگاکہ مفتی صاحب کپ توہیں نہیں ،چائے کیسے نکالوں؟فرمایاکہ پچھلے ہی ہفتہ چھ کپ لے کرآیاتھاکہاں گئے ،عمیم نے سادگی کے ساتھ جواب دیاکہ دوکپ وہاں گئے ہیں تین وہاں گئے ہیں ایک پہلے ہی ٹوٹ گیاتھا،غصہ آگیااورفرمایاکہ جاؤ سب سے کپ لے کرآؤ!عمیم کپ لے آیا،مفتی صاحب اپنے کمرے میں وضوخانے کی چوکی کے پاس بیٹھ گئے جیسے لگ رہاتھاکہ کب دھونے کاارادہ ہے لیکن ہم لوگوں کوکیاپتہ تھاکہ بڑے میاں کاارادہ کپ دھونے کانہیں کپ پھوڑنے کاہے ،پانچ کپ ایک ایک کرکے اٹھااٹھاکرپٹختے گئے اورکپ جام شہادت نوش کرتے گئے۔ہرکپ کے پھوڑتے وقت مفتی صاحب زورسے بسم اللہ الرحمن الرحیم بھی پڑھتے جاتے تھے۔جب تمام کپوں نے جام شہادت نوش کرلیاتوفرمایاکہ جاؤیہ کباڑان ہی لوگوں کے یہاں پھینک آؤ۔

ایک بارتوعجیب واقعہ ہوا،لالٹین بارباردقت کھڑی کررہی تھی ،مفتی صاحب نے کئی بار کوشش کی کہ صحیح ہوجائے جب صحیح نہیں ہوئی تووضوخانے کے پاس بیٹھ گئے اورلالٹین کی تارکوہاتھ میں پکڑکرجواس کوپٹخناشروع کیاہے الامان ولحفیظ۔تھوڑی ہی دیرمیں لالٹین کی حالت دیکھنے کے لائق نہیں رہی تھی۔

ندیم کی والدہ (جن کومیں چچی کہتاہوں اوراب بھی بیٹے سے زیادہ مجھ سے شفقت فرماتی ہیں )نے بیان فرمایاکہ ایک دفعہ گھرمیں دروازے کے سامنے ایک المونیم کالوٹاپڑاہواتھا،کئی بارمفتی صاحب نے آتے جاتے فرمایابھی کہ اس لوٹے کویہاں سے اٹھاکرقرینے سے رکھولیکن تعمیل حکم پرکسی کادھیان نہیں گیا،اورنوبت یہ آئی کہ مفتی صاحب گھرمیں داخل ہوئے وہیں مصالحہ پیسنے والی پتھرکی سل پڑی ہوئی تھی اسے اپنے سے اوپرتک اٹھاکرلوٹے پردے مارا اورچشم زدن میں لوٹاتوابن گیا۔(جاری)
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
حضرت مولانامفتی محمدنسیم لکھیم پوری

ناصرالدین مظاہری
(3)
ہمارے کان خواہ مخواہ بڑے نہیں ہوئے اس میں حضرت مولانامفتی محمدنسیم اورحضرت مولانااطہرحسینؒ دونوں کی حصہ داری ہے،حضرت مفتی نسیم صاحب مدظلہ سبق کے دوران چاہتے تھے کہ طلبہ کی پوری توجہ سبق پرہی مرکوزرہے کبھی کبھی ایسا بھی ہوتاکہ ہم لوگوں کادھیان کہیں ادھرادھرہوجاتاخوب یادہے کہ بڑے غصہ میں دایاں یابایاں کان جڑسے پکڑتے تھے وہ تواللہ تعالیٰ کاشکرہے کہ اس نے کان بڑے مضبوط بنائے ہیں ورنہ آپ اپنے گردوپیش میں جس کسی کوکان کٹادیکھتے توسمجھ جاتے کہ یہ کسی استاذکی کرم فرمائی ہے۔کان کھینچائی کے وقت کامنظربھی خوب یادہے جس طرف کوکان کھینچایامروڑا جاتاتھامنہ کازاویہ بھی ادھرہی کوفطری طورپربنتابگڑتاچلاجاتاتھا۔مفتی صاحب ڈنڈے سے کم ہی مارتے تھے ۔

بالکل یہی حالت مظاہرعلوم پہنچنے کے بعدحضرت مولانااطہرحسینؒ کی دیکھی ہے ،ویسے بتاتاچلوں کہ مظاہرعلوم میں طلبہ کوزدوکوب کرنامنع ہے ،ویسے بھی بڑے اداروں میں کس استاذکوپڑی ہے کہ وہ طلبہ پراتنی سختی اوران کی اتنی پٹائی کرے۔

عیدبقرہ عیدکی چھٹیوں میں اگرمفتی صاحب بھی اپنے وطن لکھیم پورتشریف لے آئے توہم لوگوں کی واپسی ان ہی کے ساتھ ہوتی تھی ،ہم لوگ چھٹیاں گزار کرمفتی صاحب کے گھرعدلیس پورپہنچ جاتے تھے،وہاں سے مفتی صاحب کئی کئی بچوں کولے کراپنی سرپرستی اوررہنمائی میں زیدپورلے جاتے تھے ،لکھیم پورسے وہی ٹرین ملتی تھی جس کااوپرذکرکرچکاہوں،مفتی صاحب بڑے پھرتیلے ہیں ،ہلکے بدن کے طویل قامت ہیں ، بیدارمغز اورجہان دیدہ وجہاں دیدہ ،سفرکے سردوگرم سے واقف ،جب تک ہم لوگ پلیٹ فارم پرہوتے تومفتی صاحب ایسی نگرانی رکھتے جیسے مرغی اورپنے چوزوں کی کرتی ہے ،جیسے ہی ٹرین آتی تومفتی صاحب ہم لوگوں کوتاکیدکرتے کہ سب لوگ بیٹھے رہناجب میں سیٹ پرقبضہ کرلوں گاتب ڈبے میں آنا، مفتی صاحب کے پاس ہمیشہ رومال رہتاتھاوہ اپنے رومال کوخاص اندازمیں گول کرلیتے اورخالی سیٹ پرایسے پھینکتے کہ رومال پوری سیٹ پرپھیل جاتا۔خوب یادہے میں جسم وجثہ میں اتناکم تھاکہ کبھی کبھی یابالکل شروع میں نصف ٹکٹ بھی لے لیتے تھے۔

عصربعدکھیتوں میں ٹہلنے کی ان کی عادت تھی ،کبھی ہم لوگوں کوبھی ساتھ لے لیتے ،کھیت والے مفتی صاحب کودیکھتے توزبردستی بلالیتے اورہم لوگوں کے مزے آجاتے،کوئی خربوزہ کھلاتاتوکبھی شکرقنداورکوئی کھیراوغیرہ ۔

مفتی صاحب کے اندرعلاقائیت یا برادری وادبالکل نہیں تھابلکہ شایداُس پورے علاقہ میں یہ دونوں مرض اب بھی نہیں ہیں،کوئی بھی ہو،کسی بھی علاقہ اورکسی بھی برادری کاہوکسی کوکوئی مطلب نہیں تھااورنہ ہی کوئی کسی سے برادری پوچھتاتھا۔

ایک بار مفتی صاحب کابھتیجامحمدعمیم مفتی صاحب ہی کے کمرے میں کوئی شرارت کررہاتھا،پوری جماعت پڑھنے کے لئے بیٹھی ہوئی تھی،مفتی صاحب اچانک آگئے، عمیم پرنظرپڑی توعمیم نے جھٹ سے اپنی ناک پکڑلی،مفتی صاحب نے پوچھاکہ تیری ناک کو کیاہوا؟اس نے کہاکہ میری کہنی سے ناک میںچوٹ لگ گئی ہے،پہلے تومفتی صاحب خاموش رہے پھرنہایت ہی غضبناک اندازمیں بولے کہ ’’ابے اپنی کہنی اپنی ناک تک لے جاکردکھا‘‘اب عمیم کوپتہ چلاکہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے ہیں اورآخرکارمفتی صاحب کے عتاب کاشکارہوااورخجل بھی ہوا۔

ایک بارہال کے کنارے ریلنگ کے پاس بیٹھ کرامتحان ششماہی کے سوالات مرتب کررہے تھے ،متعلقہ جماعت کے طلبہ دوسری منزل سے لٹک لٹک کرنیچے جھانکنے اورسوال پڑھنے کی ناکام کوشش کررہے تھے خداجانے مفتی صاحب کوکیسے پتہ چل گیا،غضب ناک ہوکرفرمایاکہ سب لوگ نیچے آجاؤ،حکم کے مطابق سب لوگ نیچے پہنچ گئے فرمایاکہ میں تمہارے سامنے سوال مرتب کروں گااورتمہاراباپ بھی حل نہیں کرسکے گا.
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
حضرت مولانامحمدسلیم قاسمی زیدپوری مدظلہ
ناصرالدین مظاہری
انسانی ہجوم میں بہت کم شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو’’شخصیت‘‘کہے جانے کے لائق ہوتی ہیں،یہ زمانہ تشخص کازمانہ ہے،اس زمانے میں کوئی حسب نسب نہیں دیکھتا،کوئی ذات برادری نہیں پوچھتا،کون کالاہے کون گوراہے اس سے کسی کوکوئی علاقہ نہیں ہے،البتہ کون کتنابافیض ہے یہ اصل چیزہے ۔میرے طالب علمی کے زمانے میں قصبہ زیدپورہی کے میرے استاذحضرت مولانامحمدسلیم قاسمی کچھ ایسی ہی خوبیوں کے مالک تھے جن کی مشغولیات اورمصروفیات کودیکھ اورسن کراچھاخاصاانسان حیرت زدہ رہ جاتاتھا،مولاناکی خاص خوبی یہ ہے کہ اپنے طلبہ کواپنی اولادیااس سے زیادہ مانتے جانتے اوربرتاؤکرتے تھے، نوجوان، شجیع، بہادر،درازقامت، بلندپیشانی، فکرمندآنکھیں، ہوشمند جبین،گورے چٹے،متناسب الاعضاء،پھرتیلے ایسے کہ اب تک ان کازینوں پرچڑھنا اوراترنا یادہے کودکودکر زینے چڑھتے تھے،ہرچیزمیں ان کی شجاعت محسوس ہوتی تھی،فراغت پتہ نہیں کس سن میں ہوئی ہوگی لیکن صلاحیتوں کودیکھ کراندازہ ہوتاتھاکہ دارالعلوم دیوبندمیں اپنی جماعت میں ضرورممتازرہے ہوں گے۔حکیم الاسلام حضرت مولاناقاری محمدطیبؒ کاذکرخیرسب سے زیادہ کرتے تھے،تفسیران کامضمون اورمطالعہ کتب ان کامشعلہ تھا،ویسے بھی میرے زمانہ طالب علمی میں کتب خانے کے ناظم ومنتظم آپ ہی تھے،تمام کتابیں نہایت سلیقہ سے رکھتے تھے،درس کاوقت ہوتاتووہی کتب خانہ درسگاہ بن جاتی،کلاس کاوقت ختم ہوتاتوکتب خانے کے معمولات شروع ہوجاتے ،پان کاشوق اس زمانے میں اتناتھاکہ اس کامنظرپیش کرناممکن نہیں ہے بس یہ سمجھیں کہ چچاغالب کوآم اورمولانا کوپان عزیزازجان تھے ۔
اسٹیل کاایک چھوٹاسے مربع ڈبہ ،اس ڈبے میں ایک چھوٹی سی دیوار،ایک طرف سلیقہ سے تیارشدہ ،مڑے ہوئے پان اوردوسری طرف پان کے دیگرلوازمات،ادھرپان دردہان ختم ادھرپان دردہان وارد،واہ واہ کیاسلیقہ تھا،پڑھانے کے باوجودمجال ہے پان کی کوئی چھینٹ کپڑوں پریاکتاب پریاتپائی پرپڑجائے ،کپڑے اورہونٹ بالکل صاف وشفاف رہتے تھے،میرے زمانے میں غالباًسائیکل سے مدرسہ آتے تھے بعدمیں موٹرسائیکل اوراب کار زیر استعمال ہے ۔غالباًان کے یہاں تمباکوکاہی کاروبارہوتاتھا،یہ دھیان نہیں ہے کہ تمباکوحقہ والاتیارہوتاتھایاپان والا،اگرپان والاتیارہوتاتھاتب توکیاکہنے : فانہ یمشی فی التمباکو،ویقعدفی التمباکو،ویاکل فی التمباکو،ویرقدفی التمباکو،ویقظ فی التمباکو،فیالہ من کثرۃ التمباکو۔جیسے جاڑے جبوں ،کوٹ وپتلونوں،جیکٹ وسوئٹروں کے ساتھ آتے ہیں بالکل اسی طرح مولانابھی پان وتمباکو،چھالی وآہک اورکتھاولوازمات کے ساتھ آتے تھے،صبح کے تمام گھنٹے ختم ہوجاتے تھے لیکن پان موجودرہتے تھے۔
زیدپور:جی ہاں بارہ بنکی کاایک قصبہ جہاں مسلمان ہی مسلمان ہیں،جہاں کپڑوں کی بنائی کاکام عروج پرتھا،جہاں گھرگھرمیں کپڑے تیارکرنے کی مشینیں موجودتھیں،جہاں کی عورتیں اوربچیاں بھی اپنے اخراجات اپنے ہاتھوں سے پورے کرلیتی تھیں،جہاں کاماحول دینی تھی،اس زمانے میں زیدپورمیں حفاظ کی اتنی کثرت تھی کہ اگرضلع کی تمام مساجدمیں صرف زیدپورکے حفاظ مقررکردئے جاتے توبھی شایدحفاظ بچ جاتے۔وہاں کے لوگ علماء سے محبت کرنے والے تھے،بزرگوں سے تعلق رکھنے والے تھے ،خالص اسلامی ماحول تھا،اسی ماحول اوراسی قصبہ میں پیداہونے اورپرورش پانے والے حضرت مولانامحمدسلیم قاسمی مدظلہ میرے ان اساتذہ میں سے ہیں جن کی ذات اورصفات میرے لئے نمونہ ہے،اللہ تعالیٰ نے مولاناکی ذات کوبڑابافیض بنایاہے،اس وقت قصبہ میں سب سے زیادہ تقریری پروگرام آپ کے ہی ہوتے تھے،ہرچھوٹے بڑے پروگرام میں مولاناکاوجودضروری تھا،مدرسہ کی مصروفیات کے علاوہ بھی آپ کی بہت سی مصروفیات تھیں مثلاًکسی مسجدمیں تفسیری درس ہوتا،کسی میں تقریری نظام ہوتا،کسی میں امامت ہوتی کسی میں خطابت کے فرائض ہوتے ،کبھی شہرمیں توکبھی شہرکے باہرقرب وجوارمیں جلسوں میں بھی چلے جاتے،کاروباربھی دیکھتے،خام مال کی درآمدگی اورتیارمال کی برآمدگی کانظام بھی چلتا ان تمام مشغولیات کے باوجودمولانانہ توتھکتے،نہ حوصلہ اورہمت ہارتے۔
طلبہ میں نہایت مقبول تھے،طلبہ کی تربیت پران کی پوری توجہ رہتی تھی ،ہم لوگوں نے زیدپورکے تعلیمی نظام کوانتہاتک پہنچاکراگلی جماعتوں میں داخلے کے لئے جب دیوبنداورسہارنپورکارخ کیامولانانے تب بھی ترک تعلق نہیں فرمایا،بعض طلبہ دارالعلوم دیوبندپہنچ گئے کچھ کی روزی روٹی وقف دارالعلوم میں لکھی تھی،بعض جدیدمظاہرعلوم میں واردہوگئے اورمیں اپنے کئی ساتھیوں کے ساتھ قدیم مظاہرعلوم میں آگیا،جس کوجہاں موقع ملا،پڑھنے میں مشغول ہوگیا،ایسے حالات میں بھلاکون استاذہے جواپنے طلبہ کااتنی مصروفیات کے باوجوددھیان رکھے گا،الگ الگ ہرطالب کی خیرخیریت معلوم کرے گا؟جی ہاں حضرت مولانامحمدسلیم قاسمی مدظلہ ہی وہ استاذہیں جومستقل الگ الگ طلبہ کے نام کے ساتھ الگ الگ پرچے یاپرچی لکھتے رہتے تھے ،کئی کئی پرچیاں ایک ہی لفافہ میں ملفوف کسی نہ کسی ساتھی کے پاس ڈاک سے موصول ہوکرتقسیم ہوجایاکرتی تھیں،کمال یہ تھاکہ ہرپرچی کامضمون الگ الگ مناسب حال ہوتاتھامثلاً میں سب سے کم عمرتھاتومیری پرچی کامضمون کچھ یوں ہوتا:
’’پیارے ناصر!خداتمہیں خوش رکھے،محنت سے پڑھو،کھیل کودمیں بالکل دھیان مت دو،مغرب بعدتکراراوراسباق کامطالعہ ضرورکرتے رہنا،کسی نہ کسی استاذسے ایساتعلق ضروررکھناجس سے کتابیں اوراسباق پوچھنے کی نوبت آئے توپوچھ سکو،ہمیشہ بڑی عمرکے استاذسے تعلق رکھنا،نئے نئے اساتذہ سے دورہی رہنا،استاذوں کی باتیں کسی سے بیان مت کرنا،ساتھیوں سے تعلق رکھناالبتہ دوستی کسی سے مت رکھنا، اپنا کھاناکھاکربرتن کے ساتھ دسترخوان ضرورصاف رکھنا،روزانہ غسل کرنے کی عادت ڈالو،کسی سے کدورت،لڑائی اوردشمنی مت رکھنا، اساتدہ،درسگاہیں،کتابیں اورتپائیاں سب کااحترام کرنا،عبدالحلیم ،مجیب،شبیر،شمیم کوئی نہ کوئی خط لکھے گاتوتم بھی اپنے تعلیمی حالات کی پرچی اسی لفافے میں رکھ دینا،اساتذہ کے لئے دعاکرتے رہنا،جتنی دعااپنے استاذوں کے لئے کروگے تعلیم میں اسی کے حساب سے برکت اوراللہ کی رحمت کے حق دارہوگے۔‘‘
یہ تومیں نے مولاناکے تمام خطوط کامجموعی مضمون لکھ دیاہے ،مولاناکے خطوط کے مضامین عمومااسی طرح کے ہوتے تھے ۔
 
Top