بسم اللہ الرحمن الرحیم
اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ ہَدَانَا لِہٰذَا وَ مَا کُنَّا لِنَہْتَدِیَ لَوْلاَ اَنْ ہَدَانَا اللّٰہُ
رَبِّ اشۡرَحۡ لِىۡ صَدۡرِىۙ وَيَسِّرۡ لِىۡۤ اَمۡرِىۙ وَاحۡلُلۡ عُقۡدَةً مِّنۡ لِّسَانِىۙ يَفۡقَهُوۡا قَوۡلِى
رَبِّ يَسِّرْ وَ لَا تُعَسِّرْ وَ تَمِّمْ بِالْخَيْرِ
کان، یکون کے استعمالاتاَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ ہَدَانَا لِہٰذَا وَ مَا کُنَّا لِنَہْتَدِیَ لَوْلاَ اَنْ ہَدَانَا اللّٰہُ
رَبِّ اشۡرَحۡ لِىۡ صَدۡرِىۙ وَيَسِّرۡ لِىۡۤ اَمۡرِىۙ وَاحۡلُلۡ عُقۡدَةً مِّنۡ لِّسَانِىۙ يَفۡقَهُوۡا قَوۡلِى
رَبِّ يَسِّرْ وَ لَا تُعَسِّرْ وَ تَمِّمْ بِالْخَيْرِ
کَانَ کے معنی ہیں "وہ تھا"
یَکُوْنُ کے معنی ہیں "وہ ہو گا یا ہو جائے گا"
کَانَ عموما ماضی کے لیے استعمال ہوتا ہے اور یَکُوْنُ عموما صرف مستقبل کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ حال کے لیے زیادہ تر جملہ اسمیہ استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلا
زید بیمار ہے۔ (جملہ اسمیہ)
زید بیمار تھا۔ (کَانَ استعمال کریں گے)
زید بیمار ہو جائے گا۔ (یَکُوْنُ استعمال کریں گے)
جملہ اسمیہ پر کَانَ کے داخل ہونے سے جملہ اسمیہ کی خبر حالت نصب میں چلی جاتا ہے۔ مندرجہ بالا جملوں کی عربی کچھ اس طرح ہو گی
زید بیمار ہے۔ زَیْدٌ مَرِیْضٌ
زید بیمار تھا۔ کَانَ زَیْدٌ مَرِیْضًا
زید بیمار ہو جائے گا۔ یَکُوْنُ زَیْدٌ مَرِیْضًا
کَانَ دراصل ایک فعل ناقص ہے۔ فعل ناقص اس فعل کو کہا جاتا ہے جو اپنے فاعل کے ساتھ مل کر بھی مفہوم واضح نہ کرے۔
جَاءَ زَیْدٌ۔ زید آیا۔ مفہوم مکمل
ضَرَبَ زَیْدٌ۔ زید نے مارا۔ مفہوم مکمل
کَانَ زَیْدٌ۔ زید تھا۔ مفہوم نامکمل
مفہوم کو مکمل اور واضح کرنے کے لیے مفعول کی ضرورت ہوتی ہے۔ کَانَ کا فاعل دراصل کَانَ کا اسم اور کَانَ کا مفعول کَانَ کی خبر کہلاتا ہے۔ اور کَانَ کی خبر حالت نصب میں ہوتی ہے۔
کَانَ اگرچہ فعل ناقص ہے لیکن اس پر فعل کے قواعد کا اطلاق ہوتا ہے۔ یعنی فاعل اگر اسم ظاہر ہے تو فعل ہمیشہ واحد آئے گا خواہ فاعل ہو مثنی ہو یا جمع ہے۔
کَانَ الْمُعَلِّمُ قَائِمًا
کَانَتِ الْمُعَلِّمَۃُ قَائِمَۃً
کَانَ الْمُعَلِّمَانِ قَائِمَیْنَ
کَانَتِ الْمُعَلِّمَتَانِ قَائِمَتَیْنِ
کَانَ الْمُعَلِّمُوْنَ قَائِمِیْنَ
کَانَتِ الْمُعَلِّمَاتُ قَائِمَاتٍ
فاعل اگر اسم ضمیر ہو تو فعل کی گردان چلے گی۔
کَانَ قَائِمًا
کَانَا قَائِمَیْنَ
کَانُوْا قَائِمِیْنَ
کَانَتْ قَائِمَۃً
کَانَتَا قَائِمَتَیْنِ
کُنَّ قَائِمَاتٍ
کُنْتَ قَائِمًا
کُنْتُمَا قَائِمَیْنَ
کُنْتُمْ قَائِمِیْنَ
کُنْتِ قَائِمَۃً
کُنْتُمَا قَائِمَتَیْنِ
کُنْتُنَّ قَائِمَاتٍ
کُنْتُ قَائِمًا/ قَائِمَۃً
کُنَّا قَائِمِیْنَ / قَائِمَاتٍ
کَانَ اور یَکُوْنَ فعل کے ساتھ بھی استعمال ہوتے ہیں۔ فعل کے ساتھ استعمال کی صورتیں درج ذیل ہیں۔
1: کَانَ + فعل ماضی = ماضی بعید
کَانَ کَتَبَ۔ اس نے لکھا تھا۔
کَانَ اور فعل ماضی دونوں کی گردان ساتھ چلے گی۔
2: کَانَ + فعل مضارع = ماضی اسمتراری
کَانَ یَکْتُبُ۔ وہ لکھتا تھا یا لکھا کرتا تھا۔
کَانَ اور فعل مضارع دونوں کی گردان ساتھ چلے گی۔
3: یَکُوْنُ + فعل ماضی = ماضی شکیہ
یَکُوْنُ کَتَبَ۔ اس نے لکھا ہو گا۔
یَکُوْنُ اور فعل ماضی کی دونوں کی گردان ساتھ چلے گی۔
کچھ آفاقی صداقتیں ہوتی ہیں جو زمانے سے بے نیاز ہوتی ہیں۔ ماضی میں بھی وہی صداقت، حال میں بھی وہی صداقت اور مستقبل میں بھی وہی صداقت۔ زبانوں کا مسئلہ ہے کہ کوئی ایسا لفظ، فعل یا اسم نہیں ہے جو تینوں زمانوں پر بیک وقت حاوی ہو۔ اس لیے مجبورا ہر زبان میں ایسی آفاقی صداقت کو بیان کرنے کے لیے کسی ایک مخصوص زمانہ کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ اردو مین اس کا اظہار زمان حال سے کرتے ہیں جبکہ عربی میں ماضی سے۔
کَانَ اللہُ غَفُوْرًا رَحِیْمًا (اللہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے)
کَانَ اللہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًا (اللہ جاننے والا حکمت والا ہے)
و آخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على أشرف الانبیاء و المرسلين سيدنا محمد و على آله وصحبه أجمعين
والسلام
طاہرہ فاطمہ
2022-9-3