عظیم تحفہ
پینسل جب کوئی غلطی کرتا ہے
تو
ربر اسے مٹاکر صحیح کرنے کا موقع دیتا ہے
اسی طرح جب ہم کوئی غلطی، کوتاہی یا گناہ کرتے ہیں
تب
ہمارا ضمیر ہمیں اس غلطی، کوتاہی اور گناہ پر ٹوکتا ہے اور ملامت کرتا ہے
اور
اگر ہم اپنی ضمیر کی اس آواز پر نادم و شرمندہ ہوکر استغفار و توبہ کرتے رہتے ہیں
تو
ہمارا یہ استغفار و توبہ ربر کی طرح ہماری غلطیوں، کوتاہیوں اور گناہوں کو مٹانے کا کام کرتا ہے
اور
ہمیں سدهرنے کا موقع دیتا ہے اور ہمیں اپنے رب کا فرمانبردار بندہ بناتا ہے۔
اور
یہ توفیق ہمیں ہمارے رب کی طرف سے ہی ملتی ہے
کہ
ہم استغفار اور توبہ کریں اور ہمارا رب ہمارے دلوں کو گناہوں کی آلودگی سے پاک و صاف کردے۔
لیکن
جب انسان استغفار و توبہ نہیں کرتا اور ڈھیٹ بنا گناہوں پر گناہیں کرتا رہتا ہے
تو
انسان کا یہ ضمیر بیمار ہو جاتا ہے اور آخر ایک دن مر جاتا ہے
پھر
انسان کو اس کی غلطیوں، کوتاہیوں اور گناہوں پر ٹوکنا ، روکنا اور ملامت کرنا چھوڑ دیتا ہے
جیسا کہ ہمارے پیارے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ :
” بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ نکتہ پڑ جاتا ہے، پھر جب وہ گناہ کو چھوڑ دیتا ہے اور استغفار اور توبہ کرتا ہے تو اس کے دل کی صفائی ہو جاتی ہے (سیاہ دھبہ مٹ جاتا ہے) اور اگر وہ گناہ دوبارہ کرتا ہے تو سیاہ نکتہ مزید پھیل جاتا ہے یہاں تک کہ پورے دل پر چھا جاتا ہے، اور یہی وہ « رَانَ » ہے جس کا ذکر اللہ نے اس آیت
[ كَلَّا ۖ بَلْ ۜرَانَ عَلَىٰ قُلُوبِهِم مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَ ۔ ۔ ۔ ہرگز نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال (بد) کا زَنگ چڑھ گیا ہے جو وہ کرتے ہیں (14) سورة المطففين]میں کیا ہے“ (حدیث نمبر 3334 ، سنن ترمذی) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ ’’ انسان خطا کا پُتلا ہے ‘‘ ۔
خطا کرنا اس کی سرشت میں شامل ہے۔
اس لئے اسے مسلسل استغار اور توبہ کرتے رہنا چاہئے جو کہ ہمارے رب کا بنی آدم کیلئے ایک عظیم تحفہ ہے جسے سب سے پہلے حضرت آدم اور حضرت حوا علیہم السلام کو نوازا گیا۔
قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ (23) سورة الأعراف
’’ دونوں نے کہا ! اے ہمارے رب! ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا اور اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہوجائیں گے‘‘ ۔ (23) سورة الأعراف
اسی طرح ہر نبی علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اسغفار اور توبہ کا تحفہ دیا جس سے وہ اللہ کی بخشش و کرم اور رحمت سے مالامال ہوئے۔
ہمارے پیارے نبی اکرم ﷺ کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے جو اسغفار و توبہ کا تحفہ دیا ہے وہ تاقیامت اس پوری امت کیلئے اللہ کی بخشش و کرم اور رحمت سے مالامال ہونے کا ذریعہ ہے۔
وَقُل رَّبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَأَنتَ خَيْرُ الرَّاحِمِينَ (118) سورة المؤمنون
’’ اور (اے رسول ﷺ) آپ کہئے! اے میرے پروردگار! تو بخش دے اور رحم فرما اور تو بہترین رحم کرنے والا ہے‘‘۔ (118) سورة المؤمنون
اس کے علاوہ بھی استغفار اور توبہ کے سیغے ہیں جنہیں اللہ کے نبی ﷺ نے اس امت کی آسانی کیلئے ارشاد فرمایا ہے جو احادیث مبارکہ میں درج ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی رحمت سے ہر لمحہ استغفار اور توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی بخشش و کرم اور رحمت سے نوازے۔ آمین یا رب العالمین
تحریر: محمد اجمل خان
پینسل جب کوئی غلطی کرتا ہے
تو
ربر اسے مٹاکر صحیح کرنے کا موقع دیتا ہے
اسی طرح جب ہم کوئی غلطی، کوتاہی یا گناہ کرتے ہیں
تب
ہمارا ضمیر ہمیں اس غلطی، کوتاہی اور گناہ پر ٹوکتا ہے اور ملامت کرتا ہے
اور
اگر ہم اپنی ضمیر کی اس آواز پر نادم و شرمندہ ہوکر استغفار و توبہ کرتے رہتے ہیں
تو
ہمارا یہ استغفار و توبہ ربر کی طرح ہماری غلطیوں، کوتاہیوں اور گناہوں کو مٹانے کا کام کرتا ہے
اور
ہمیں سدهرنے کا موقع دیتا ہے اور ہمیں اپنے رب کا فرمانبردار بندہ بناتا ہے۔
اور
یہ توفیق ہمیں ہمارے رب کی طرف سے ہی ملتی ہے
کہ
ہم استغفار اور توبہ کریں اور ہمارا رب ہمارے دلوں کو گناہوں کی آلودگی سے پاک و صاف کردے۔
لیکن
جب انسان استغفار و توبہ نہیں کرتا اور ڈھیٹ بنا گناہوں پر گناہیں کرتا رہتا ہے
تو
انسان کا یہ ضمیر بیمار ہو جاتا ہے اور آخر ایک دن مر جاتا ہے
پھر
انسان کو اس کی غلطیوں، کوتاہیوں اور گناہوں پر ٹوکنا ، روکنا اور ملامت کرنا چھوڑ دیتا ہے
جیسا کہ ہمارے پیارے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ :
” بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ نکتہ پڑ جاتا ہے، پھر جب وہ گناہ کو چھوڑ دیتا ہے اور استغفار اور توبہ کرتا ہے تو اس کے دل کی صفائی ہو جاتی ہے (سیاہ دھبہ مٹ جاتا ہے) اور اگر وہ گناہ دوبارہ کرتا ہے تو سیاہ نکتہ مزید پھیل جاتا ہے یہاں تک کہ پورے دل پر چھا جاتا ہے، اور یہی وہ « رَانَ » ہے جس کا ذکر اللہ نے اس آیت
[ كَلَّا ۖ بَلْ ۜرَانَ عَلَىٰ قُلُوبِهِم مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَ ۔ ۔ ۔ ہرگز نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال (بد) کا زَنگ چڑھ گیا ہے جو وہ کرتے ہیں (14) سورة المطففين]میں کیا ہے“ (حدیث نمبر 3334 ، سنن ترمذی) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ ’’ انسان خطا کا پُتلا ہے ‘‘ ۔
خطا کرنا اس کی سرشت میں شامل ہے۔
اس لئے اسے مسلسل استغار اور توبہ کرتے رہنا چاہئے جو کہ ہمارے رب کا بنی آدم کیلئے ایک عظیم تحفہ ہے جسے سب سے پہلے حضرت آدم اور حضرت حوا علیہم السلام کو نوازا گیا۔
قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ (23) سورة الأعراف
’’ دونوں نے کہا ! اے ہمارے رب! ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا اور اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہوجائیں گے‘‘ ۔ (23) سورة الأعراف
اسی طرح ہر نبی علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اسغفار اور توبہ کا تحفہ دیا جس سے وہ اللہ کی بخشش و کرم اور رحمت سے مالامال ہوئے۔
ہمارے پیارے نبی اکرم ﷺ کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے جو اسغفار و توبہ کا تحفہ دیا ہے وہ تاقیامت اس پوری امت کیلئے اللہ کی بخشش و کرم اور رحمت سے مالامال ہونے کا ذریعہ ہے۔
وَقُل رَّبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَأَنتَ خَيْرُ الرَّاحِمِينَ (118) سورة المؤمنون
’’ اور (اے رسول ﷺ) آپ کہئے! اے میرے پروردگار! تو بخش دے اور رحم فرما اور تو بہترین رحم کرنے والا ہے‘‘۔ (118) سورة المؤمنون
اس کے علاوہ بھی استغفار اور توبہ کے سیغے ہیں جنہیں اللہ کے نبی ﷺ نے اس امت کی آسانی کیلئے ارشاد فرمایا ہے جو احادیث مبارکہ میں درج ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی رحمت سے ہر لمحہ استغفار اور توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی بخشش و کرم اور رحمت سے نوازے۔ آمین یا رب العالمین
تحریر: محمد اجمل خان