سنوسنو!!
*گفتگو کامعیار*
ناصرالدین مظاہری
استاذ مظاہرعلوم وقف سہارنپور
پہلی بار جب ہوائی جہاز میں بیٹھنے کی نوبت آئی تو ہر چیزعجیب وغریب محسوس ہورہی تھی،ہوائی جہازمیں اڑان سے پہلے ایرہوسٹس نے بتایا گیاکہ ہم ہندی، انگریزی اوربنگلہ زبان میں بات کرسکتے ہیں،جہازکے اترنے سے پہلے اس شہر کا درجہ حرارت بتایا گیا۔
اِس سے دو باتیں معلوم ہوئیں کہ اُس ہوائی جہازمیں اگر آپ کو کسی چیز کا مطالبہ کرناہے تو تین زبانوں میں سے کسی بھی زبان میں کرسکتے ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ باہری موسم کے اعتبار سے آپ اپنے لباس کو زیب تن کرسکتے ہیں تاکہ اچانک بدلنے والے موسم سے آپ کی طبیعت خراب نہ ہوجائے۔یعنی ذہنی اورجسمانی دونوں اعتبارسے آپ کوسنورنا اور تیار رہناہے ۔سردی والے کپڑے پہن کر آپ گرم علاقے میں پریشان ہوجائیں گے اور گرم کپڑے پہن کرآپ سرد علاقے میں پریشان ہوجائیں گے۔
مجھ سے میرے استاذ حضرت مولانا محمدیوسف زیدپوری مدظلہ نے بیان کیاکہ ایک بار امدادالعلوم زیدپورضلع بارہ بنکی میں حضرت مولانا علامہ محمد ابراہیم بلیاویؒ کودعوت دی گئی ، علامہ صاحب تو ماشاء اللہ علامہ بھی تھے فہامہ بھی،معقولات کے امام بھی تھے اورمنقولات کے ماہرترین عالم بھی ،دوران تقریر طلبہ اور علماء اش اش توعوام ہش ہش کررہے تھے،اہل علم حضرات علامہ صاحب کی تقریر میں کھوگئے تھے اورعوام بے چارے حضرت کی تقریرسے اوب گئے تھے،ایک طبقہ کے دل میں ان کی تقریر اتر اتر جارہی تھی، دوسرے طبقہ کے سرسے ان کی تقریر گزر گزر جارہی تھی۔تقریرکے بعد ایک طبقہ تعریف میں کہہ رہا تھا کہ واہ کیاتقریر کی ہے ؟دوسراطبقہ سراپاحیرت و استعجاب بنا ایک دوسرے سے پوچھ رہاتھاکہ کیاتقریرکی ہے ؟
حکیم الامت حضرت مولانااشرف علی تھانویؒ نے اپنی طالب علمی کا ایک واقعہ لکھاہے کہ ہم لوگ حضرت مولانامحمدیعقوب نانوتویؒ کے پاس پڑھ رہے تھے ، حضرت نے سبق میں تقریرفرمائی تو وہ تقریر ہمارے پلے نہیں پڑی،ہماری سمجھ میں نہیں آیا،عرض کیا گیاکہ حضرت تھوڑا سا نزول فرماکر تقریر کیجئے چنانچہ حضرت نے پھر کچھ آسان تقریر فرمائی اب بھی بات پوری طرح سمجھ میں نہیں آئی توپھرنزول کی درخواست کی گئی، حضرت نے تیسری مرتبہ پھر مزید آسان کرکے تقریرکی تب حضرت تھانویؒ اور ان کے رفقائے درس کی سمجھ میں سبق آسکا۔
تقریر کاحسن اورتحریر کا جادو اسی وقت مؤثر اور اثرانداز ہوتاہے جب مخاطب کی رعایت رکھی جائے ،بہت سے انشاء پردازوں کی تحریرات آج اسی لئے ردی کی ٹوکری میں پھینک دی گئی ہیں کہ ان کی باتیں اور مشمولات اتنے معیاری تھے کہ اس معیارکے پرکھنے اورپڑھنے والے نہیں رہے۔
مجھے تعجب ہوتاہے دوشخصیتوں پرجو علوم اور فنون کے دریاپئے ہوئے تھے ،ان میں سے ایک نے بہشتی زیورلکھی جوعورتوں کے لئے لکھی جانے والی کتابوں میں اب بھی سب سے عمدہ اورسب سے بہتر ہے ،دوسرے نے عوام کے لئے تبلیغی نصاب لکھی جس میں کوئی قابلیت نہیں بگھاری،اس قدر نزول کے بعدکتاب لکھی کہ تھوڑاسا پڑھا لکھا بھی سمجھ لیتا ہے ،دونوں نے آسان عبارت،سلیس ترجمہ اورعام فہم اسلوب اختیار کیا ۔نتیجہ آپ کے سامنے ہے کوئی گھر ایسا نہیں جس میں بہشتی زیور نہ پڑھی جاتی ہواورکوئی مسجدایسی نہیں جس میں تبلیغی نصاب نہ سنی جاتی ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاکہ انبیائے کرام کواس بات پرمامور کیا گیاہے کہ وہ لوگوں کی عقلوں اور ان کے فہموں کے مطابق گفتگو کیا کریں۔ امرناان نکلم الناس علی قدرعقلولہم۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کاارشادہے کہ حدثواالناس بمایعرفون اتحبون أن یکذب اللّٰہ ورسولہ۔(بخاری) لوگوں سے تم ایسی باتیں بیان کرو جن کو وہ سمجھ سکتے ہوں کیا تم یہ چاہتے ہو کہ لوگ اللہ اوراس کے رسول کی تکذیب کریں۔کیونکہ لوگوں کوجو بات بھی عجیب وغریب محسوس ہوتی ہے وہ فوراً اس کو جھٹلا دیتے ہیں ،اس جھٹلانے کی وجہ آپ بنے ہیں، آپ نے ان سے ایک ایسی بات بیان کردی ہے جس کے لئے آپ نے پہلے سے اُن کوتیارنہیں کیاتھا۔
حضرت رابعہ بصریؒ حضرت حسن بصری ؒکے وعظ میں تشریف لے جاتیں تو حضرت حسن بصری ؒاس دن بڑے ذوق و شوق سے وعظ فرماتے اور علم و معرفت کے دریا بہا دیتے، ایک دن لوگوں نے آپ سے پوچھا۔حضرت آپ اسی دن کیوں وعظ فرماتے ہیں جس دن حضرت رابعہ بصری تشریف لاتی ہیں۔حالانکہ مخلوق خدا کا تو ہمیشہ ہجوم رہتا ہے۔ حضرت حسن بصری ؒ نے فرمایا:
’’ جوشربت ہاتھیوں کے برتنوں کے لیے ہوتا ہے وہ چیونٹیوں کے برتنوں میں نہیں ڈالا جاتا‘‘۔
(خواتین کے لئے منتخب تقاریر)
تجربہ کرلیجئے کسی بھی منبرو محراب اور اسٹیج پراگر آپ کے مخاطب ہونہار، ہوشیار،عاقل وبالغ اور علماء ہوں گے تو آپ کی تقریر عالمانہ ہوگی اور اگرآپ کے سامنے بچے اورطفل نوخیز موجودہوں گے تو آپ اپنی تقریر کے معیار اور الفاظ وحروف کے انتخاب میں نزول پرمجبور ہوجائیں گے۔
مضمون یا تقریر وہی معیاری اور بہتر ہے جو لوگوں کی سمجھ میں آجائے اور لوگ عمل پرمجبور ہوجائیں۔
*گفتگو کامعیار*
ناصرالدین مظاہری
استاذ مظاہرعلوم وقف سہارنپور
پہلی بار جب ہوائی جہاز میں بیٹھنے کی نوبت آئی تو ہر چیزعجیب وغریب محسوس ہورہی تھی،ہوائی جہازمیں اڑان سے پہلے ایرہوسٹس نے بتایا گیاکہ ہم ہندی، انگریزی اوربنگلہ زبان میں بات کرسکتے ہیں،جہازکے اترنے سے پہلے اس شہر کا درجہ حرارت بتایا گیا۔
اِس سے دو باتیں معلوم ہوئیں کہ اُس ہوائی جہازمیں اگر آپ کو کسی چیز کا مطالبہ کرناہے تو تین زبانوں میں سے کسی بھی زبان میں کرسکتے ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ باہری موسم کے اعتبار سے آپ اپنے لباس کو زیب تن کرسکتے ہیں تاکہ اچانک بدلنے والے موسم سے آپ کی طبیعت خراب نہ ہوجائے۔یعنی ذہنی اورجسمانی دونوں اعتبارسے آپ کوسنورنا اور تیار رہناہے ۔سردی والے کپڑے پہن کر آپ گرم علاقے میں پریشان ہوجائیں گے اور گرم کپڑے پہن کرآپ سرد علاقے میں پریشان ہوجائیں گے۔
مجھ سے میرے استاذ حضرت مولانا محمدیوسف زیدپوری مدظلہ نے بیان کیاکہ ایک بار امدادالعلوم زیدپورضلع بارہ بنکی میں حضرت مولانا علامہ محمد ابراہیم بلیاویؒ کودعوت دی گئی ، علامہ صاحب تو ماشاء اللہ علامہ بھی تھے فہامہ بھی،معقولات کے امام بھی تھے اورمنقولات کے ماہرترین عالم بھی ،دوران تقریر طلبہ اور علماء اش اش توعوام ہش ہش کررہے تھے،اہل علم حضرات علامہ صاحب کی تقریر میں کھوگئے تھے اورعوام بے چارے حضرت کی تقریرسے اوب گئے تھے،ایک طبقہ کے دل میں ان کی تقریر اتر اتر جارہی تھی، دوسرے طبقہ کے سرسے ان کی تقریر گزر گزر جارہی تھی۔تقریرکے بعد ایک طبقہ تعریف میں کہہ رہا تھا کہ واہ کیاتقریر کی ہے ؟دوسراطبقہ سراپاحیرت و استعجاب بنا ایک دوسرے سے پوچھ رہاتھاکہ کیاتقریرکی ہے ؟
حکیم الامت حضرت مولانااشرف علی تھانویؒ نے اپنی طالب علمی کا ایک واقعہ لکھاہے کہ ہم لوگ حضرت مولانامحمدیعقوب نانوتویؒ کے پاس پڑھ رہے تھے ، حضرت نے سبق میں تقریرفرمائی تو وہ تقریر ہمارے پلے نہیں پڑی،ہماری سمجھ میں نہیں آیا،عرض کیا گیاکہ حضرت تھوڑا سا نزول فرماکر تقریر کیجئے چنانچہ حضرت نے پھر کچھ آسان تقریر فرمائی اب بھی بات پوری طرح سمجھ میں نہیں آئی توپھرنزول کی درخواست کی گئی، حضرت نے تیسری مرتبہ پھر مزید آسان کرکے تقریرکی تب حضرت تھانویؒ اور ان کے رفقائے درس کی سمجھ میں سبق آسکا۔
تقریر کاحسن اورتحریر کا جادو اسی وقت مؤثر اور اثرانداز ہوتاہے جب مخاطب کی رعایت رکھی جائے ،بہت سے انشاء پردازوں کی تحریرات آج اسی لئے ردی کی ٹوکری میں پھینک دی گئی ہیں کہ ان کی باتیں اور مشمولات اتنے معیاری تھے کہ اس معیارکے پرکھنے اورپڑھنے والے نہیں رہے۔
مجھے تعجب ہوتاہے دوشخصیتوں پرجو علوم اور فنون کے دریاپئے ہوئے تھے ،ان میں سے ایک نے بہشتی زیورلکھی جوعورتوں کے لئے لکھی جانے والی کتابوں میں اب بھی سب سے عمدہ اورسب سے بہتر ہے ،دوسرے نے عوام کے لئے تبلیغی نصاب لکھی جس میں کوئی قابلیت نہیں بگھاری،اس قدر نزول کے بعدکتاب لکھی کہ تھوڑاسا پڑھا لکھا بھی سمجھ لیتا ہے ،دونوں نے آسان عبارت،سلیس ترجمہ اورعام فہم اسلوب اختیار کیا ۔نتیجہ آپ کے سامنے ہے کوئی گھر ایسا نہیں جس میں بہشتی زیور نہ پڑھی جاتی ہواورکوئی مسجدایسی نہیں جس میں تبلیغی نصاب نہ سنی جاتی ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاکہ انبیائے کرام کواس بات پرمامور کیا گیاہے کہ وہ لوگوں کی عقلوں اور ان کے فہموں کے مطابق گفتگو کیا کریں۔ امرناان نکلم الناس علی قدرعقلولہم۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کاارشادہے کہ حدثواالناس بمایعرفون اتحبون أن یکذب اللّٰہ ورسولہ۔(بخاری) لوگوں سے تم ایسی باتیں بیان کرو جن کو وہ سمجھ سکتے ہوں کیا تم یہ چاہتے ہو کہ لوگ اللہ اوراس کے رسول کی تکذیب کریں۔کیونکہ لوگوں کوجو بات بھی عجیب وغریب محسوس ہوتی ہے وہ فوراً اس کو جھٹلا دیتے ہیں ،اس جھٹلانے کی وجہ آپ بنے ہیں، آپ نے ان سے ایک ایسی بات بیان کردی ہے جس کے لئے آپ نے پہلے سے اُن کوتیارنہیں کیاتھا۔
حضرت رابعہ بصریؒ حضرت حسن بصری ؒکے وعظ میں تشریف لے جاتیں تو حضرت حسن بصری ؒاس دن بڑے ذوق و شوق سے وعظ فرماتے اور علم و معرفت کے دریا بہا دیتے، ایک دن لوگوں نے آپ سے پوچھا۔حضرت آپ اسی دن کیوں وعظ فرماتے ہیں جس دن حضرت رابعہ بصری تشریف لاتی ہیں۔حالانکہ مخلوق خدا کا تو ہمیشہ ہجوم رہتا ہے۔ حضرت حسن بصری ؒ نے فرمایا:
’’ جوشربت ہاتھیوں کے برتنوں کے لیے ہوتا ہے وہ چیونٹیوں کے برتنوں میں نہیں ڈالا جاتا‘‘۔
(خواتین کے لئے منتخب تقاریر)
تجربہ کرلیجئے کسی بھی منبرو محراب اور اسٹیج پراگر آپ کے مخاطب ہونہار، ہوشیار،عاقل وبالغ اور علماء ہوں گے تو آپ کی تقریر عالمانہ ہوگی اور اگرآپ کے سامنے بچے اورطفل نوخیز موجودہوں گے تو آپ اپنی تقریر کے معیار اور الفاظ وحروف کے انتخاب میں نزول پرمجبور ہوجائیں گے۔
مضمون یا تقریر وہی معیاری اور بہتر ہے جو لوگوں کی سمجھ میں آجائے اور لوگ عمل پرمجبور ہوجائیں۔