دہلی میں قبریں ،قبروں میں دہلی

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
دہلی میں قبریں ،قبروں میں دہلی

ناصرالدین مظاہری

دہلی والے بھی عجیب دل گردے والے ہیں ،جو دل گردہ دہلی والوں کا دیکھاہے کہیں اور نہیں دکھا، آپ خود سوچیں ،قبرستان میں کون رہتا ہے یا کون رہنا چاہتا ہے لیکن دہلی والوں کو دیکھیں توبڑی تعداد قبروں کے درمیان ہی رہتی ہے بلکہ پرانی دہلی والوں کو باقی دہلی میں بھی کوئی کشش نہیں محسوس ہوتی ہے ،انھیں نئی دہلی کی کشادہ شاہراہوں، زرق برق گلیوں، رنگ برنگ وادیوں، خوبصورت و خوشنما ہریالیوں اور بے مثال برج وپلوں اور دیدہ زیب سجاوٹوں میں وہ سکون نہیں ملتا ہے جوقبرستان مہندیان،کوچہ چیلان ، چتلی قبر،مقبرہ رضیہ سلطانہ، مقبرہ ادھم خان، مقبرہ افسروالا، مقبرہ بلبن ،مقبرہ ابراہیم لودھی، مقبرہ عیسیٰ خان ،مقبرہ صفدر جنگ،مقبرہ ہمایوں،مقبرہ غالب، مقبرہ نصیرالدین چراغ، مقبرہ ذوق ، مقبرہ ابوالکلام آزادؒ، مقبرہ مولانا شوکت علی ؒ، مقبرہ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ وغیرہ میں میں ملتاہے۔

اگررضا علی عابدی جیسا کوئی جناتی انسان چاہے تو صرف دہلی کے مقبروں، مزاروں،قبرستانوں پر ہی پوری کتاب لکھ سکتاہے۔یہاںکے آثار قدیمہ پرعوام توعوام خواص بھی خوب ہاتھ صاف کرتے رہے ہیں بلکہ خواص الخواص،سربراہان مملکت، وزراء، امراء، روساء ، بلکہ حکومتیں بھی اس بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوتی رہی ہیں ،بے شمار قبضوں کی آوازیں کورٹ تک پہنچ گئیں توبہت سے نزاعات کوآپسی تال میل سے ختم اور جائداد کوہضم کرلیا گیا،بہت سے مقبرے مکانو ں میں تبدیل ہوگئے تو بعض کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ مندروں میں تبدیل کردیا گیا، کچھ کووقف بورڈکے ذمہ داران نے تو کچھ کوان کے ’’اوپر والوں‘‘ نے ’’اوپر ہی اوپر ‘‘سے کام تمام کرلیا، بے شمار اوقاف تباہی کے کنارے پر پہنچ گئے، لاتعداد اوقاف کا نام اور نشان بھی مٹ گیا،بھارت میں سب سے زیادہ اوقاف دہلی میں ہیں اور یہاں کی زمینیں گزوں اورفٹوں میں نہیں انچوں اور ایم ایم میں فروخت ہوتی ہیں۔

مقام شکرہے کہ وکی پیڈیانے محکمہ اوقاف سے زیادہ تحریری طورپرہی سہی ان کومحفوظ کردیاہے چنانچہ الفاظ اورتعبیرات کی تبدیلیوں کے ساتھ وکی پیڈیا کی مددسے چندتاریخی باتیں آنحضور کے حضور حاضر کرتاہوں:

ابراہیم لودھی کا مقبرہ(چمک دار گنبد) اس کو شیش گنبد بھی کہا جاتا ہے، لودھی خاندان کا ایک مقبرہ ہے تقریباً 1489 اور 1517 عیسوی کے درمیان تعمیر کیا گیا تھا۔ شیش گنبد (شیشے کے گنبد) میں قبریں ہیں، جن کے مکینوں کی غیر واضح طور پر شناخت نہیں کی جا سکتی۔ مورخین کا خیال ہے کہ یہ ڈھانچہ یا تو کسی نامعلوم خاندان کے لیے وقف کیا گیا ہوگا، جو لودھی خاندان اور سکندر لودھی کے دربار یا بہلول لودھی (وفات 12) جولائی 1489) خود، جو افغان لودھی قبیلے کا سردار تھا، دہلی سلطنت کے لودھی خاندان کا بانی اور سلطان تھا۔ شیش گنبد دہلی کے باغ لودھی میں واقع ہے اور یہ علاقہ خیر پور کے نام سے جانا جاتا تھا۔

ادھم خان کا مزار،افسروالا مقبرہ، بلبن کا مقبرہ (لال بنگلہ ، ہندوستان میں واقع دو شاہی مغل مقبرے ہیں، جو ہندوستان کے آثار قدیمہ کے سروے کے تحت یادگاریں ہیں)۔

مزار صفدر جنگ یہ مغل وزیر صفدر جنگ کا مزار ہے، اس مزار کو مغل تعمیرات کا آخری چراغ کہا جاتا ہے۔

مقبرہ عیسیٰ خان:

شیر شاہ سوری کے دربار کے پٹھان عہدے دار امیر عیسی خان نیازی کا مقبرہ بھارت کے شہر دہلی میں مغل تاجدار ہمایوں کے مقبرے کے احاطے میں واقع ہے۔مزار کی سرخ ریتلے پتھر کی ہشت پہلو عمارت شیر شاہ سوری کے عہد میں 1547-1548 کے دوران تعمیر کی گئی تھی۔مسجد عیسی خان مزار کی مغربی سمت یونیسکو کی جانب سے بین الاقوامی ثقافتی ورثہ قرار دیئے گئے ہمایوں کے مزار اور اس کے احاطے میں موجود دیگر عمارتوں کے ساتھ واقع ہے۔عیسی خان کے مقبرے کا طرز تعمیر لودھی معماری کا نمونہ ہے۔ مقبرے کی عمارت پست چبوترے پر ہشت پہلو ہے جو لودھی طرز تعمیر کا طرہ امتیاز تھا۔مرکزی عمارت کے اطراف ایک برآمدہ ہے اور ہر پہلو پر تین محرابیں ہیں جن کے اوپر چھجے بنے ہیں۔اس مقبرے کا طرز تعمیر مبارک شاہ، محمد شاہ، خانِ جہاں تلنگانی اور سکندر لودھی کے مقابر جیسا ہے۔ آغا خان ٹرسٹ برائے ثقافت نے 2011 سے 2015 تک آر کیالو جیکل سروے آف انڈیا کے ساتھ مل کر اس مقبرے کی تعمیر نو اور بحالی کا کام کیا تھا۔

مسجد عیسی خان کا مرکزی گنبد ستونوں پر اٹھایا ہے اس کی شکل خیمہ جیسی ہے۔مسجد کا مرکزی دالان تین حصوں میں منقسم ہے۔ مسجد کا مرکزی دالان سرخ ریتلے پتھر سے بنایا گیا ہے جبکہ اطرافی دالانوں میں بھورے رنگ کا پتھر استعمال کیا گیا ہے۔

مقبرہ ہمایوں:

مغل بادشاہ نصیر الدین محمد ہمایوں کا مقبرہ ہے جو اس کی بیوی حمیدہ بانو بیگم نے 1562ء میں بنوایا۔ یہ مقبرہ لال پتھر سے بنا ہوا ہے۔ اس کے احاطے میں دوسری شخصیات کے بھی مقبرے موجود ہیں۔یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں اس کا اندراج ہوا ہے۔ اس طرح کے طرزِ تعمیر کا نمونہ ہندوستان میں اوّلین ہے۔ اس میں ہندوستانی اور ایرانی طرزِ تعمیر کا امتزاج پایا جاتا ہے۔یہاں مقبرہ ہمایوں کے علاوہ دوسرے مقبرے اور مسجد بھی ہیں۔ اس لیے ’’ مغلوں کی بسترگاہ ‘‘ کے نام سے بھی یہ یادگار جانی جاتی ہے۔ مقبرہ عیسیٰ خاں، مقبرہ بوحلیمہ، افسروالا مقبرہ، نائی کا مقبرہ وغیرہ مقبرے ہمایوں کے احاطے میں ہی موجود ہیں۔

مقبرہ شیخ نظام الدین اولیا:

نظام الدین درگاہ صوفی بزرگ خواجہ نظام الدین اولیاء (1238-1325 عیسوی) کی درگاہ ( مزار ) ہے۔ دہلی کے نظام الدین علاقے میں واقع اس درگاہ کی زیارت کرنے ہر ہفتے ہزاروں زائرین آتے ہیں۔حضرت نظام الدین اولیاء کی درگاہ چونسٹھ کھمبے کے قریب واقع ہے۔ یہ یادگار عمارت نظام الدین مذہبی احاطے کا حصہ ہے اور اس کو اب میراث قرار دیا گیا ہے۔چونسٹھ کھمبے کے ساتھ دوسری دو میراثی یادگاریں متصل ہیں۔ وہ یہ ہیں۔(۱) عرس محل(۲) مزارِ غالب۔عرس محل چونسٹھ کھمبے کے سامنے واقع ایک ایوان ہے جہاں جشن اور عرسِ نظام الدین اولیا کے مواقع پر قوالی کے پروگرام منعقد ہوتے ہیں۔جب کہ مزارِ غالب اردو شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب کا مقبرہ ہے اور ہنوزمحفوظ قومی ورثہ ہے۔

رضیہ سلطانہ مرحومہ کی قبرسے کچھ آگے ایک مستقل محلہ ہی ہے جس کو قبرستان سے جانا جاتا ہے،ہررکشہ والا اس سے واقف ہے ،آپ پرانی دہلی کے کسی بھی رکشہ والے سے کہہ دیں کہ محلہ قبرستان چلناہے ،وہ آپ کولے کرچل پڑے گا اور ایک ایسے محلے میں پہنچادے گاجہاں زمین کے اوپر زندہ اور زمین کے نیچے مردہ لوگ رہتے ہیں۔یہاں آپ کو گھرگھرمیں قبریں،ہرگھرمیں قبریں، دائیں بائیں اورنیچے قبریں مل جائیں گی۔

دہلی کے یہ مقبرے ہمیں ایک طرف تویہ سبق دیتے ہیں کہ چاہے جتنا جی لو ایک دن مرناہے ، فلک بوس گنبد و میناراس بات کی یقین دہانی کراتے ہیں کہ جب اتنے بڑے امراء اور بادشاہان مملکت نہیں رہے تو تم کیارہو گے،یہ مقبرے تازیانۂ عبرت،باعث موعظت،سرمۂ چشم بصیرت اور یاد دہانی کے لئے کافی ہیں کہ کہاں اپنی ناک پربیٹھی مکھی کو ہٹانے اور اڑانے کے لئے خادمائیں متعین تھیں اور کہاں آج بے یار و مددکاربے کسی وبے بسی کی تصویر بنے اپنی جائدادوں کو حسرتوں کے ساتھ دوسروں کے تصرف میں دیکھ رہے ہیں۔

یہ لوگ جو ان مزاروں میں سورہے ہیں ایک زمانے میں ان کاطوطی بولتا تھا، ان کے اشارے پرجنگیں ہوتی تھیں،سردھڑکی بازیاں لگتی تھیں،آقا اور غلام کی جنگ میں جیت ہمیشہ آقا کی ہوتی تھی، انھیں معلوم نہیں تھا کہ دنیامیں آقابنے پھرنے والے لوگ بھی اور دنیامیں غلامی کا قلادہ اپنی گردنوں میں،اور محکومی کا پٹہ اپنی کمر میں ڈالنے والے لوگ بھی قبر میں یکساں ہیں ،سبھی کوقبرمیں جانا ہے، سبھی کواپنے کئے کاجواب دیناہے ، ظالموں کوظلم کا حساب دینا ہوگا، مظلوموں کو اپنی مظلومیت کاصلہ مل کر رہے گا،وہاں سبھی کی آقائیت ختم ہوجائے گی ،صرف ایک احکم الحاکمین کی حکومت ہوگی۔لمن الملک الیوم کااعلان ہوگا اور دنیاکے بڑے بڑے امیروں ، وزیروں اور وڈیروں کی گردنیں احساس جرم کی وجہ سے خم ہوں گی۔

سبھی کوایک دن اللہ کے سامنے پیش ہوناہے ،وہ زیر کو پسندکرتاہے زبر کونہیں ،اپنی پیشی سے پہلے پیش ہونے کی تیاری کرلینے والے لوگ ہی فائدے میں رہیں گے ۔والعصران الانسان لفی خسر،الاالذین آمنواوعملواالصالحات۔
 

محمد عثمان غنی

طالب علم
Staff member
ناظم اعلی
دہلی میں قبریں ،قبروں میں دہلی

ناصرالدین مظاہری

دہلی والے بھی عجیب دل گردے والے ہیں ،جو دل گردہ دہلی والوں کا دیکھاہے کہیں اور نہیں دکھا، آپ خود سوچیں ،قبرستان میں کون رہتا ہے یا کون رہنا چاہتا ہے لیکن دہلی والوں کو دیکھیں توبڑی تعداد قبروں کے درمیان ہی رہتی ہے بلکہ پرانی دہلی والوں کو باقی دہلی میں بھی کوئی کشش نہیں محسوس ہوتی ہے ،انھیں نئی دہلی کی کشادہ شاہراہوں، زرق برق گلیوں، رنگ برنگ وادیوں، خوبصورت و خوشنما ہریالیوں اور بے مثال برج وپلوں اور دیدہ زیب سجاوٹوں میں وہ سکون نہیں ملتا ہے جوقبرستان مہندیان،کوچہ چیلان ، چتلی قبر،مقبرہ رضیہ سلطانہ، مقبرہ ادھم خان، مقبرہ افسروالا، مقبرہ بلبن ،مقبرہ ابراہیم لودھی، مقبرہ عیسیٰ خان ،مقبرہ صفدر جنگ،مقبرہ ہمایوں،مقبرہ غالب، مقبرہ نصیرالدین چراغ، مقبرہ ذوق ، مقبرہ ابوالکلام آزادؒ، مقبرہ مولانا شوکت علی ؒ، مقبرہ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ وغیرہ میں میں ملتاہے۔

اگررضا علی عابدی جیسا کوئی جناتی انسان چاہے تو صرف دہلی کے مقبروں، مزاروں،قبرستانوں پر ہی پوری کتاب لکھ سکتاہے۔یہاںکے آثار قدیمہ پرعوام توعوام خواص بھی خوب ہاتھ صاف کرتے رہے ہیں بلکہ خواص الخواص،سربراہان مملکت، وزراء، امراء، روساء ، بلکہ حکومتیں بھی اس بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوتی رہی ہیں ،بے شمار قبضوں کی آوازیں کورٹ تک پہنچ گئیں توبہت سے نزاعات کوآپسی تال میل سے ختم اور جائداد کوہضم کرلیا گیا،بہت سے مقبرے مکانو ں میں تبدیل ہوگئے تو بعض کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ مندروں میں تبدیل کردیا گیا، کچھ کووقف بورڈکے ذمہ داران نے تو کچھ کوان کے ’’اوپر والوں‘‘ نے ’’اوپر ہی اوپر ‘‘سے کام تمام کرلیا، بے شمار اوقاف تباہی کے کنارے پر پہنچ گئے، لاتعداد اوقاف کا نام اور نشان بھی مٹ گیا،بھارت میں سب سے زیادہ اوقاف دہلی میں ہیں اور یہاں کی زمینیں گزوں اورفٹوں میں نہیں انچوں اور ایم ایم میں فروخت ہوتی ہیں۔

مقام شکرہے کہ وکی پیڈیانے محکمہ اوقاف سے زیادہ تحریری طورپرہی سہی ان کومحفوظ کردیاہے چنانچہ الفاظ اورتعبیرات کی تبدیلیوں کے ساتھ وکی پیڈیا کی مددسے چندتاریخی باتیں آنحضور کے حضور حاضر کرتاہوں:

ابراہیم لودھی کا مقبرہ(چمک دار گنبد) اس کو شیش گنبد بھی کہا جاتا ہے، لودھی خاندان کا ایک مقبرہ ہے تقریباً 1489 اور 1517 عیسوی کے درمیان تعمیر کیا گیا تھا۔ شیش گنبد (شیشے کے گنبد) میں قبریں ہیں، جن کے مکینوں کی غیر واضح طور پر شناخت نہیں کی جا سکتی۔ مورخین کا خیال ہے کہ یہ ڈھانچہ یا تو کسی نامعلوم خاندان کے لیے وقف کیا گیا ہوگا، جو لودھی خاندان اور سکندر لودھی کے دربار یا بہلول لودھی (وفات 12) جولائی 1489) خود، جو افغان لودھی قبیلے کا سردار تھا، دہلی سلطنت کے لودھی خاندان کا بانی اور سلطان تھا۔ شیش گنبد دہلی کے باغ لودھی میں واقع ہے اور یہ علاقہ خیر پور کے نام سے جانا جاتا تھا۔

ادھم خان کا مزار،افسروالا مقبرہ، بلبن کا مقبرہ (لال بنگلہ ، ہندوستان میں واقع دو شاہی مغل مقبرے ہیں، جو ہندوستان کے آثار قدیمہ کے سروے کے تحت یادگاریں ہیں)۔

مزار صفدر جنگ یہ مغل وزیر صفدر جنگ کا مزار ہے، اس مزار کو مغل تعمیرات کا آخری چراغ کہا جاتا ہے۔

مقبرہ عیسیٰ خان:

شیر شاہ سوری کے دربار کے پٹھان عہدے دار امیر عیسی خان نیازی کا مقبرہ بھارت کے شہر دہلی میں مغل تاجدار ہمایوں کے مقبرے کے احاطے میں واقع ہے۔مزار کی سرخ ریتلے پتھر کی ہشت پہلو عمارت شیر شاہ سوری کے عہد میں 1547-1548 کے دوران تعمیر کی گئی تھی۔مسجد عیسی خان مزار کی مغربی سمت یونیسکو کی جانب سے بین الاقوامی ثقافتی ورثہ قرار دیئے گئے ہمایوں کے مزار اور اس کے احاطے میں موجود دیگر عمارتوں کے ساتھ واقع ہے۔عیسی خان کے مقبرے کا طرز تعمیر لودھی معماری کا نمونہ ہے۔ مقبرے کی عمارت پست چبوترے پر ہشت پہلو ہے جو لودھی طرز تعمیر کا طرہ امتیاز تھا۔مرکزی عمارت کے اطراف ایک برآمدہ ہے اور ہر پہلو پر تین محرابیں ہیں جن کے اوپر چھجے بنے ہیں۔اس مقبرے کا طرز تعمیر مبارک شاہ، محمد شاہ، خانِ جہاں تلنگانی اور سکندر لودھی کے مقابر جیسا ہے۔ آغا خان ٹرسٹ برائے ثقافت نے 2011 سے 2015 تک آر کیالو جیکل سروے آف انڈیا کے ساتھ مل کر اس مقبرے کی تعمیر نو اور بحالی کا کام کیا تھا۔

مسجد عیسی خان کا مرکزی گنبد ستونوں پر اٹھایا ہے اس کی شکل خیمہ جیسی ہے۔مسجد کا مرکزی دالان تین حصوں میں منقسم ہے۔ مسجد کا مرکزی دالان سرخ ریتلے پتھر سے بنایا گیا ہے جبکہ اطرافی دالانوں میں بھورے رنگ کا پتھر استعمال کیا گیا ہے۔

مقبرہ ہمایوں:

مغل بادشاہ نصیر الدین محمد ہمایوں کا مقبرہ ہے جو اس کی بیوی حمیدہ بانو بیگم نے 1562ء میں بنوایا۔ یہ مقبرہ لال پتھر سے بنا ہوا ہے۔ اس کے احاطے میں دوسری شخصیات کے بھی مقبرے موجود ہیں۔یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں اس کا اندراج ہوا ہے۔ اس طرح کے طرزِ تعمیر کا نمونہ ہندوستان میں اوّلین ہے۔ اس میں ہندوستانی اور ایرانی طرزِ تعمیر کا امتزاج پایا جاتا ہے۔یہاں مقبرہ ہمایوں کے علاوہ دوسرے مقبرے اور مسجد بھی ہیں۔ اس لیے ’’ مغلوں کی بسترگاہ ‘‘ کے نام سے بھی یہ یادگار جانی جاتی ہے۔ مقبرہ عیسیٰ خاں، مقبرہ بوحلیمہ، افسروالا مقبرہ، نائی کا مقبرہ وغیرہ مقبرے ہمایوں کے احاطے میں ہی موجود ہیں۔

مقبرہ شیخ نظام الدین اولیا:

نظام الدین درگاہ صوفی بزرگ خواجہ نظام الدین اولیاء (1238-1325 عیسوی) کی درگاہ ( مزار ) ہے۔ دہلی کے نظام الدین علاقے میں واقع اس درگاہ کی زیارت کرنے ہر ہفتے ہزاروں زائرین آتے ہیں۔حضرت نظام الدین اولیاء کی درگاہ چونسٹھ کھمبے کے قریب واقع ہے۔ یہ یادگار عمارت نظام الدین مذہبی احاطے کا حصہ ہے اور اس کو اب میراث قرار دیا گیا ہے۔چونسٹھ کھمبے کے ساتھ دوسری دو میراثی یادگاریں متصل ہیں۔ وہ یہ ہیں۔(۱) عرس محل(۲) مزارِ غالب۔عرس محل چونسٹھ کھمبے کے سامنے واقع ایک ایوان ہے جہاں جشن اور عرسِ نظام الدین اولیا کے مواقع پر قوالی کے پروگرام منعقد ہوتے ہیں۔جب کہ مزارِ غالب اردو شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب کا مقبرہ ہے اور ہنوزمحفوظ قومی ورثہ ہے۔

رضیہ سلطانہ مرحومہ کی قبرسے کچھ آگے ایک مستقل محلہ ہی ہے جس کو قبرستان سے جانا جاتا ہے،ہررکشہ والا اس سے واقف ہے ،آپ پرانی دہلی کے کسی بھی رکشہ والے سے کہہ دیں کہ محلہ قبرستان چلناہے ،وہ آپ کولے کرچل پڑے گا اور ایک ایسے محلے میں پہنچادے گاجہاں زمین کے اوپر زندہ اور زمین کے نیچے مردہ لوگ رہتے ہیں۔یہاں آپ کو گھرگھرمیں قبریں،ہرگھرمیں قبریں، دائیں بائیں اورنیچے قبریں مل جائیں گی۔

دہلی کے یہ مقبرے ہمیں ایک طرف تویہ سبق دیتے ہیں کہ چاہے جتنا جی لو ایک دن مرناہے ، فلک بوس گنبد و میناراس بات کی یقین دہانی کراتے ہیں کہ جب اتنے بڑے امراء اور بادشاہان مملکت نہیں رہے تو تم کیارہو گے،یہ مقبرے تازیانۂ عبرت،باعث موعظت،سرمۂ چشم بصیرت اور یاد دہانی کے لئے کافی ہیں کہ کہاں اپنی ناک پربیٹھی مکھی کو ہٹانے اور اڑانے کے لئے خادمائیں متعین تھیں اور کہاں آج بے یار و مددکاربے کسی وبے بسی کی تصویر بنے اپنی جائدادوں کو حسرتوں کے ساتھ دوسروں کے تصرف میں دیکھ رہے ہیں۔

یہ لوگ جو ان مزاروں میں سورہے ہیں ایک زمانے میں ان کاطوطی بولتا تھا، ان کے اشارے پرجنگیں ہوتی تھیں،سردھڑکی بازیاں لگتی تھیں،آقا اور غلام کی جنگ میں جیت ہمیشہ آقا کی ہوتی تھی، انھیں معلوم نہیں تھا کہ دنیامیں آقابنے پھرنے والے لوگ بھی اور دنیامیں غلامی کا قلادہ اپنی گردنوں میں،اور محکومی کا پٹہ اپنی کمر میں ڈالنے والے لوگ بھی قبر میں یکساں ہیں ،سبھی کوقبرمیں جانا ہے، سبھی کواپنے کئے کاجواب دیناہے ، ظالموں کوظلم کا حساب دینا ہوگا، مظلوموں کو اپنی مظلومیت کاصلہ مل کر رہے گا،وہاں سبھی کی آقائیت ختم ہوجائے گی ،صرف ایک احکم الحاکمین کی حکومت ہوگی۔لمن الملک الیوم کااعلان ہوگا اور دنیاکے بڑے بڑے امیروں ، وزیروں اور وڈیروں کی گردنیں احساس جرم کی وجہ سے خم ہوں گی۔

سبھی کوایک دن اللہ کے سامنے پیش ہوناہے ،وہ زیر کو پسندکرتاہے زبر کونہیں ،اپنی پیشی سے پہلے پیش ہونے کی تیاری کرلینے والے لوگ ہی فائدے میں رہیں گے ۔والعصران الانسان لفی خسر،الاالذین آمنواوعملواالصالحات۔
چشمِ بددور حضور عالی قدر ۔۔۔۔۔۔ الفاظ نہیں احقر کے پاس اپنے دہلی کے لیے۔۔۔۔۔۔۔۔اسلاف کے علوم و فنون کا مرکز ۔۔۔۔۔ دہلی
فقط اتنا کہوں گا کہ
؎
میرے آبا کہ تھے نامحرم طوق و زنجیر

وہ مضامیں جو ادا کرتا ہے اب میرا قلم

نوک شمشیر پہ لکھتے تھے بہ نوک شمشیر

روشنائی سے جو میں کرتا ہوں کاغذ پہ رقم

سنگ و صحرا پہ وہ کرتے تھے لہو سے تحریر

اور
دہلی کی قبریں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان علوم و فنون کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!



ہچکیوں نے کسی دیوار میں در رکھا تھا
میرے آباء نے جب اِس خاک پہ سر رکھا تھا


گھر سے نکلے تھے تو اِک دشتِ فنا کی صورت راہ میں
صرف سفر،صرف سفر رکھا تھا


دل تھے متروکہ مکانات کی صورت خالی
اور اسباب میں بچھڑا ہوا گھر رکھا تھا

جسم اجداد کی قبروں سے نکلتے ہی نہ تھے
نسل در نسل اِسی خاک میں سر رکھا تھا

روح پر نقش تھے وہ نقش ابھی تک جن میں
رنگ بچپن کی کسی یاد نے بھر رکھا تھا


دل میں سر سبز تھے اُس پیڑ کے پتّے جس پر
دستِ قدرت نے ابھی پہلا ثمر رکھا تھا

کٹتے دیکھے تھے وہ برگد بھی ،جنہوں نے خود کو
مدتوں دھوپ کی بستی میں شجر رکھا تھا


جلتے دیکھے تھے وہ خود سوز محلّے جن میں
جانے کب سے کوئی خوابیدہ شرر رکھا تھا

چوڑیاں ٹوٹ کے بکھری تھیں ہر اک آنگن میں
اک کنواں تھا کہ تمنّاؤں سے بھر رکھا تھا


راہ تھی سُرخ گلابوں کے لہو سے روشن
پاؤں رکھا نہیں جاتا تھا، مگر رکھا تھا

قافلے ایک ہی سرحد کی طرف جاتے تھے
خواب کے پار کوئی خواب ِدگر رکھا تھا


تیرگی چیر کے آتے ہوئے رستوں کے لئے
ایک مہتاب سرِ راہ گزر رکھا تھا

اک حسیں چاند تھا اک سبز زمیں پر روشن
اک ستارے کو بھی آغوش میں بھر رکھا تھا

حرفِ اظہار میں حائل تھیں فصیلیں لیکن
رکھنے والے نے خموشی میں اثر رکھا تھا

لب تک آتے ہی نہ تھے حرف مناجاتوں کے
ہچکیوں نے کسی دیوار میں در رکھا تھا

چشمِ بینا میں وہ منظر ابھی تازہ ہے سعودؔ
میرے آباء نے جب اس خاک پہ سر رکھا تھا
 
Top