حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓبھی ان صحابہ میں ہیں جن سے تفسیر میں بہت زیادہ روایتیں منقول ہیں، آپ کو علم قرأت ،علم تفسیر اور علم فقہ میں کمال حاصل تھا۔
مسروق کہتے ہے،میں نے عبداللہ بن مسعودؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں قرآن کریم کی کوئی آیت ایسی نہیں جس کے بارے میں مجھے یہ معلوم نہ ہو کہ وہ کب اورکہاں نازل ہوئی اور اگر مجھے کسی شخص کے بارے میں معلوم ہوجائے کہ وہ تفسیر قرآن کو مجھ سے بہتر جانتا ہے اورسواری وہاں تک پہونچاسکتی ہے تو میں اس کے یہاں حاضر رہ کر اس سے استفادہ کرتا۔
(بخاری، حدیث نمبر:۵۰۰۲)
عتبہ بن عامر فرماتے ہیں کہ میرے علم کی حد تک ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بڑھکر قرآن کا کوئی عالم نہیں۔
(التفسیر والمفسرون:۲۲۲)
جب حضرت عثمانؓ نے مصحف عثمانی کے علاوہ باقی تمام مصاحف جلاڈالےاور حضرت ابن مسعود کو اس کی اطلاع ملی توآپ نے فرمایا:اصحاب محمد خوب جانتے ہیں کہ میں ان سب سے بڑھکر قرآن کریم کا علم رکھتا ہوں ؛مگر میں ان سے افضل نہیں، اگرمجھ کو معلوم ہوجائے کہ کوئی شخص مجھ سے زیادہ قرآن کا عالم ہے اور اونٹ وہاں تک پہونچاسکتے ہیں تو میں اس کے یہاں ضرور حاضری دوں، ابووائل کہتے ہیں کہ میں یہ سننے کے لیے لوگوں کے حلقہ میں گھس گیا کہ وہ ان کے اس قول پر کیا تبصرہ کرتے ہیں؛ چنانچہ میں نے کسی کو بھی اس کی تردید کرتے ہوئے نہیں پایا اور ایک روایت میں اس طرح مذکور ہے شقیق فرماتے ہیں کہ میں اس حلقہ میں بیٹھا ہوا تھا جس میں رسول اللہؐ کے صحابہ تھے میں نے ان میں سے کسی کو ان کے اس قول کا انکار کرتے ہوئے اوران پر رد کرتے ہوئے نہیں سنا (الاستیعاب:۱۳۰۴) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام کے درمیان بھی یہ بات مسلم تھی کہ حضرت عبداللہ بن مسعود کتاب اللہ کے بہت بڑے عالم تھے نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ علم کے کس قدر حریص تھے اور کس محنت وجدوجہد سے انہوں نے یہ علم حاصل کیا تھا۔
تفسیری اقوال
(۱)"لَا يَرَوْنَ فِيهَا شَمْسًا وَلَا زَمْهَرِيرًا" ۔
(الدھر:۱۳)
نہ وہاں گرمی اورتپش پائیں گے اورنہ ہی جاڑا
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ"زَمْھَرِیْرَ" کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ "زَمْھَرِیْرَ" عذاب کی ایک قسم ہے اوریہ انتہائی درجہ کا ٹھنڈا مقام ہے حتی کہ جب جہنمیوں کو اس میں ڈالا جائے گا تو وہ اللہ تعالی سے فریاد کریں گے کہ انہیں آگ ہی کا عذاب دیدیا جائے اوراس عذاب سے نجات دیدی جائے اورآگ کے ایک ہزار سال کا عذاب بھی "زَمْھَرِیْرَ" کے ایک دن کے عذاب سے ان کو کم محسوس ہوگا۔
(تفسیر قرطبی:۱۳۸۱۹)
(۲)"قَدْ كَانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتَا فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَأُخْرَى كَافِرَةٌ يَرَوْنَهُمْ مِثْلَيْهِمْ رَأْيَ الْعَيْنِ"۔
(آل عمران:۱۴)
بیشک تمہارے لیے بڑا نمونہ ہے دو گروہوں کے واقعہ میں جو کہ باہم ایک دوسرے سے مقابل ہوئے تھے ایک گروہ تو اللہ کے راہ میں لڑتے تھے (یعنی مسلمان) اوردوسرا گروہ کافر لوگ تھے یہ کافر اپنے کو دیکھ رہے تھے کہ ان مسلمانوں سے کئی حصہ زیادہ ہیں کھلی آنکھوں دیکھنا۔
اس آیت کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں ایسا بدر کے دن ہوا کہ ہم نے مشرکین کو دیکھا تو وہ ہم کو اپنے سے دو گنے نظر آئے پھر ہم نے ان کو (جنگ کے وقت) دیکھا تو وہ ہم کو اپنے سے بالکل برابر دکھائی دے رہے تھے ان میں ایک آدمی بھی ہم سے زائد نظر نہیں آرہا تھا، یہی مطلب ہے اللہ تعالی کے اس فرمان کا:
"إِذِ الْتَقَيْتُمْ فِي أَعْيُنِكُمْ قَلِيلًا وَيُقَلِّلُكُمْ فِي أَعْيُنِهِمْ"۔
(الانفال:۴۴)
اوراس وقت کو یاد کرو جبکہ تم مقابل ہوئے ان لوگوں کو تمہاری نظر میں کم کرکے دکھلا رہا تھا اوران کی نگاہ میں تم کو کم کرکے دکھلا رہا تھا۔
(الدر المنثور:۱۸۲)
(۳)اللہ تعالی کے اس قول "وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ" (لقمان:۶)میں "لَهْوَ الْحَدِيثِ" کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ بخدا اس سے مراد گانابجانا ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓبھی ان صحابہ میں ہیں جن سے تفسیر میں بہت زیادہ روایتیں منقول ہیں، آپ کو علم قرأت ،علم تفسیر اور علم فقہ میں کمال حاصل تھا۔
مسروق کہتے ہے،میں نے عبداللہ بن مسعودؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں قرآن کریم کی کوئی آیت ایسی نہیں جس کے بارے میں مجھے یہ معلوم نہ ہو کہ وہ کب اورکہاں نازل ہوئی اور اگر مجھے کسی شخص کے بارے میں معلوم ہوجائے کہ وہ تفسیر قرآن کو مجھ سے بہتر جانتا ہے اورسواری وہاں تک پہونچاسکتی ہے تو میں اس کے یہاں حاضر رہ کر اس سے استفادہ کرتا۔
(بخاری، حدیث نمبر:۵۰۰۲)
عتبہ بن عامر فرماتے ہیں کہ میرے علم کی حد تک ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بڑھکر قرآن کا کوئی عالم نہیں۔
(التفسیر والمفسرون:۲۲۲)
جب حضرت عثمانؓ نے مصحف عثمانی کے علاوہ باقی تمام مصاحف جلاڈالےاور حضرت ابن مسعود کو اس کی اطلاع ملی توآپ نے فرمایا:اصحاب محمد خوب جانتے ہیں کہ میں ان سب سے بڑھکر قرآن کریم کا علم رکھتا ہوں ؛مگر میں ان سے افضل نہیں، اگرمجھ کو معلوم ہوجائے کہ کوئی شخص مجھ سے زیادہ قرآن کا عالم ہے اور اونٹ وہاں تک پہونچاسکتے ہیں تو میں اس کے یہاں ضرور حاضری دوں، ابووائل کہتے ہیں کہ میں یہ سننے کے لیے لوگوں کے حلقہ میں گھس گیا کہ وہ ان کے اس قول پر کیا تبصرہ کرتے ہیں؛ چنانچہ میں نے کسی کو بھی اس کی تردید کرتے ہوئے نہیں پایا اور ایک روایت میں اس طرح مذکور ہے شقیق فرماتے ہیں کہ میں اس حلقہ میں بیٹھا ہوا تھا جس میں رسول اللہؐ کے صحابہ تھے میں نے ان میں سے کسی کو ان کے اس قول کا انکار کرتے ہوئے اوران پر رد کرتے ہوئے نہیں سنا (الاستیعاب:۱۳۰۴) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام کے درمیان بھی یہ بات مسلم تھی کہ حضرت عبداللہ بن مسعود کتاب اللہ کے بہت بڑے عالم تھے نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ علم کے کس قدر حریص تھے اور کس محنت وجدوجہد سے انہوں نے یہ علم حاصل کیا تھا۔
تفسیری اقوال
(۱)"لَا يَرَوْنَ فِيهَا شَمْسًا وَلَا زَمْهَرِيرًا" ۔
(الدھر:۱۳)
نہ وہاں گرمی اورتپش پائیں گے اورنہ ہی جاڑا
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ"زَمْھَرِیْرَ" کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ "زَمْھَرِیْرَ" عذاب کی ایک قسم ہے اوریہ انتہائی درجہ کا ٹھنڈا مقام ہے حتی کہ جب جہنمیوں کو اس میں ڈالا جائے گا تو وہ اللہ تعالی سے فریاد کریں گے کہ انہیں آگ ہی کا عذاب دیدیا جائے اوراس عذاب سے نجات دیدی جائے اورآگ کے ایک ہزار سال کا عذاب بھی "زَمْھَرِیْرَ" کے ایک دن کے عذاب سے ان کو کم محسوس ہوگا۔
(تفسیر قرطبی:۱۳۸۱۹)
(۲)"قَدْ كَانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتَا فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَأُخْرَى كَافِرَةٌ يَرَوْنَهُمْ مِثْلَيْهِمْ رَأْيَ الْعَيْنِ"۔
(آل عمران:۱۴)
بیشک تمہارے لیے بڑا نمونہ ہے دو گروہوں کے واقعہ میں جو کہ باہم ایک دوسرے سے مقابل ہوئے تھے ایک گروہ تو اللہ کے راہ میں لڑتے تھے (یعنی مسلمان) اوردوسرا گروہ کافر لوگ تھے یہ کافر اپنے کو دیکھ رہے تھے کہ ان مسلمانوں سے کئی حصہ زیادہ ہیں کھلی آنکھوں دیکھنا۔
اس آیت کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں ایسا بدر کے دن ہوا کہ ہم نے مشرکین کو دیکھا تو وہ ہم کو اپنے سے دو گنے نظر آئے پھر ہم نے ان کو (جنگ کے وقت) دیکھا تو وہ ہم کو اپنے سے بالکل برابر دکھائی دے رہے تھے ان میں ایک آدمی بھی ہم سے زائد نظر نہیں آرہا تھا، یہی مطلب ہے اللہ تعالی کے اس فرمان کا:
"إِذِ الْتَقَيْتُمْ فِي أَعْيُنِكُمْ قَلِيلًا وَيُقَلِّلُكُمْ فِي أَعْيُنِهِمْ"۔
(الانفال:۴۴)
اوراس وقت کو یاد کرو جبکہ تم مقابل ہوئے ان لوگوں کو تمہاری نظر میں کم کرکے دکھلا رہا تھا اوران کی نگاہ میں تم کو کم کرکے دکھلا رہا تھا۔
(الدر المنثور:۱۸۲)
(۳)اللہ تعالی کے اس قول "وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ" (لقمان:۶)میں "لَهْوَ الْحَدِيثِ" کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ بخدا اس سے مراد گانابجانا ہے۔