ارتداد/ظہرالفساد

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
سنو!سنو!!

ارتداد/ظہرالفساد

ناصرالدین مظاہری

حاجی سمیع اللہ خان لکھیم پورکھیری کے قصبہ دھورہرہ کے رہنے والے ہیں ، ایک دن میری ان سے ملاقات ہوئی تو بتانے لگے کہ تحصیل دھورہرہ کے تحت تقریباً دوسواسی گاؤں ایسے ہیں جہاں مسلمان موجود ہیں ،ان میں سے تقریباً سو گاؤں میں مساجد نہیں ہیں۔تبلیغی حضرات نے ایک گاؤں میں ایک مسلمان کوروک کر درخواست کی کہ مسجد تشریف لے آئیں ،اس نے جواب دیا کہ اِسی سال تو میں کانوڑ یاترالے کرگیا تھا۔اِسی جماعت کے ایک وفد نے بیان کیا کہ اسی علاقہ میں ایک مسلمان سے مسجدمیں آنے کی اپیل کی گئی تواس نے کہا کہ میں ابھی مسجد میں نہیں جاسکتا، وجہ پوچھنے پراس نے بتایا کہ کچھ دن پہلے اس کے گھر میں بچے کی ولادت ہوئی ہے۔ایک سروے میں پتہ چلا کہ بارہ گاؤں کی مساجد میں پنج وقتہ نمازی صرف تین ہیں۔

یہ توصرف دو مثالیں بتائی گئی ہیں ایسی مثالیں اورنظیریں آپ کوبغیر تلاش کئے ہرگھرمیں مل جائیں گی، کفرجتنی تیزی سے ہمارے گھروں میں داخل ہورہاہے اس کی وجوہ تلاش کرنے پرآئیں توہم میں سے ہرشخص خود کو مجرم پائے گا،احساس جرم کی وجہ سے ہماری گردنیں جھک جائیں گی،پوری دنیا میں دارالعلوم دیوبند مظاہرعلوم سہارنپورکا شہرہ ہے لیکن اگر آپ ایسے غافل اور جاہل لوگ تلاش کرنا چاہیں جن کو کلمہ طیبہ بھی یادنہیں تو دور جانے کی ضرورت نہیں ہے اِن ہی اداروں کے اڑوس پڑوس میں کئی نمونے آپ کو ایسے مل جائیں گے جن کو کلمہ طیبہ تو دور کی بات ہے اپنا صحیح نام بھی معلوم نہ ہوگا۔

دوسری طرف دیکھیں توہرگاؤں میں کئی کئی دینی ادارے موجودہیں، ہر ادارہ باہری طلبہ کواپنے مدرسہ میں رکھنے کے لئے کوشاں ہے ،ہرادارہ کی کمیٹی میں صرف مہتمم یابانی کے گھرکے کچھ ایسے افرادمل جائیں گے جن کوکمیٹی کی کاف کابھی علم نہیں ہے ،یہ شاطرلوگ جب مدرسہ کی کمیٹی اورسوسائٹی رجسٹرڈکراتے ہیں توپہلے سے ہی ان کے من میں چورہوتا ہے کہ کسی ہوشیار،تعلیم یافتہ اور جہاں دیدہ شخص کوممبرشب نہ دی جائے ورنہ اس کو’’ہرچیز‘‘ کاعلم ہوجائے گا،کہیں بھی چلے جائیں مدارس کا جال نظرآجائے گا لیکن ہرجگہ جہالت اور اب ارتداد اس قدر پاؤں پسار چکا ہے کہ مرض ہی لاعلاج ہوکررہ گیاہے۔عوام علماء سے دوری بناچکے ،علماء اپنے خول اورحصارسے باہرنکلنے پرتیارنہیں،تبلیغی جماعت کو آپس میں لڑنے سے اور جمعیۃ علمائے ہندکو تزک واحتشام کے ساتھ پروگرام کرنے سے ہی فرصت نہیں ہے، چھوٹے مدارس کی اپنی اپنی مشکلات ہیں اور بڑے مدارس کی اپنی اپنی کہانیاں ہیں،کون کس کا گلہ کرے سبھی اپنی ساکھ اور شاخ کے چکرمیں ہیں۔

پہلے ہم اپنے پروگراموں میں کفار اور کفارکے سرخیل کو دعوت دیتے تھے ، بلاتے تھے ،ان کی منافقانہ باتیں دینی پیرائے میں سنتے تھے ، کہیں کوئی شری مان جی مدعوہیں تو کہیں ڈبل شری براجمان ہیں،کسی کواسلام کی کوئی خوبی پسندہے اورکہیں کسی کواسلام کے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس ہی سب سے بزرگ وبرتر نظرآرہی ہے یہ سچ ہے کہ وہ غلط نہیں کہہ رہے لیکن اس سے بھی زیادہ سچ یہ ہے کہ وہ اسلام کی طرف ایک انچ دل سے نہیں بڑھے ،اتنے بڑے بڑے دینی پروگراموں میں اتنے بڑے بڑے مہنتوں،سادھوؤں،سنتوں اور پجاریوں کوبلایا جاچکا ہے اگر ان سب کی تقاریر یکجاکرلی جائیں تو کئی جلدیں تیار ہوجائیں لیکن کیا ان میں سے کوئی ایک اسلام کے دامن سے وابستہ ہواہے ؟

ہم نے خود کو،اپنی تنظیم اورجماعت کو’’سیکولر‘‘ کہلانے کے چکرمیں انھیں اپنے گھر کاراستہ بتادیا ہے،ہم نے ان کی شرکت کو وقت کاتقاضا سمجھا ہے،وہ ہمارے ہی پروگراموں میں ہمارے ہی منہ پرچندتعریفی کلمات کہہ کرموٹے موٹے لفافے اورکرائے وصولتے رہے ، اب جب وہ اپنے پروگراموں میں ہمیں بھی مدعو کرنے لگے توہم نے وہاں جانے اور شرکت کرنے پرہی اکتفا نہیں کیا بلکہ ان کے مذہبی لوگوں کی تعریف کے پل باندھ دئے،کسی کوعظیم ہستی قرار دے دیا، کسی کو ان کے ہولی اور دیوالی میں خوبیاں نظرآئیں ،کسی کوان کے درمیان پہنچ کراپنی کمیاں دکھائی دینے لگیں،کسی کوسانپ سونگھ گیااورکسی نے ان کی مورتیوں کے سامنے ہاتھ جوڑلئے،بعض نے ہون تک کیا، بعض کی روح کوسکون اورشانتی پہنچانے کے لئے پنڈتوں کوبلایا گیا، کسی غیرمسلم کے مرنے پرقرآن کریم تک پڑھوا دیاگیا۔ گویا کفراسلام کی طرف نہیں بڑھااسلام کفرکی طرف بڑھتانظرآیا، کفاراسلام کی طرف نہیں آئے مسلمان کفارکی طرف بھاگتے دکھائی دئے۔

ہم تاریخ کے وہ منحوس ترین اور منافق ترین انسان ہیں جن کا دل کچھ اور کہتا ہے اور زبان کچھ اور بولتی ہے،ہمارا قول کچھ ہے اور ہمارافعل کچھ اور ہے،ہم اپنوں کے ساتھ معاملہ کچھ اور کرتے ہیں اور دوسروں کے ساتھ ہمارا رویہ کچھ اور ہے ،ہم دین کودین سمجھ کر مانتے تب تو بات تھی لیکن ہم دین کو وراثت سمجھنے لگے،ہم نے اسلام کو زندہ کرنے کی سنجیدہ کوششیں کب کیں ہمیں یاد نہیں لیکن ہمارے کردار اور گفتارسے دین ہرروز بلکہ ہروقت مرتا ہے اور ہمیں احساس تک نہیں ہوتا۔ہم لوجہادکے نعروں میں آگئے اورسوچاتک نہیں کہ ہر ظالم و جابر ملک ، ہرظالم وجابر قوم ہرشاطر لابی اورتنظیم کہتی کچھ ہے کرتی کچھ ہے ،جال کہیں اور بچھاتی ہے اور شورکہیں اور مچاتی ہے،نعرہ کسی اور چیزکا لگتاہے تو ہرکارہ کسی اور کا بجتاہے،اشارہ کہیں ہوتاہے نگاہیں کہیں اور ہوتی ہیں اورہم احمق بن کران کی منصوبہ بندیوں کونہ تو سمجھتے ہیں اور نہ ہی سمجھنے کی قوت اورسکت اپنے اندرپاتے ہیں۔

آج غیروں کے تمام جلسوں، جلوسوں، پروگراموں حتیٰ کہ مذہبی اجتماعات تک میں مسلمانوں کی شرکت کسی نہ کسی وجہ سے اتنی بڑھ چکی ہے کہ لگتا ہے پوری قوم تباہی اور بربادی کی اس خندق اور کھائی پرجاکھڑی ہوئی ہے جس کے دونوں طرف کفر خوبصورت جال بچھائے ہوئے ہے۔ہماری بچیاں مرتدہورہی ہیں اس میں بچیوں کاقصور کم والدین کاقصور زیادہ ہے بلکہ والدین کا قصورکم اور نوجوان لڑکے اور ان کے لالچی والدین کاقصورزیادہ ہے،لڑکے والے جہیزپررال ٹپکا رہے ہیں اورلڑکیاں بغیرشادی کے بوڑھی ہوتی جارہی ہیں ،ایسی صورت میں غریب بچیوں کے والدین کیاکریں ،نہ ان کے پاس اتنی دولت ہے کہ وہ حریص اور لالچی لڑکے اور اس کے والدین کی فرمائشیں پوری کرسکیں اور نہ ہی لڑکیوں کے پاس کوئی ایسا راستہ ہے کہ وہ بغیربجہیزکے نکاح کرسکیں ۔دوسری طرف کفارکے’’ تربیت یافتہ‘‘ لڑکے مسلم محلوں میں مسلم لڑکوں اورلڑکیوں کے بھائیوں سے صرف اس وجہ سے یارانہ گانٹھ رہے ہیں تاکہ ان کو’’زینہ‘‘ بناکراس کی بہن سے ’’تعلق ‘‘بناسکے۔

مسجدیں نمازیوں سے ویران ہورہی ہیں،مدرسے طلبہ سے محروم ہورہے ہیں،والدین کااپنی اولادسے رشتہ کمزورپڑرہاہے،اولاد اپنے والدین سے دور ہوتی جارہی ہے،جہاں تعلیم زیادہ ہے وہ ’’لالچ‘‘زیادہ ہے ،جہاں تعلیم نہیں ہے وہاں کاماحول کفرزدہ ہے ،دینی لوگوں کودینی گھرانے نہیں ملتے،دنیاوی لوگ دینی گھرانوں سے دوریاں بنائے ہوئے ہیں۔

کسی بھی شادی کاسب سے اہم فریضہ ’’نکاح ‘‘ہوتاہے ،بارات گھروں میں ہونے والے نکاحوں کی حالت اوردرگت جوبنتی ہے اس کولفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے، پوراہال بھراہواہے لیکن مجلس نکاح میں بمشکل دس بیس لوگ ہی شریک ہوتے ہیں۔تقریب پرکئی کئی لاکھ روپے خرچ کردئے جاتے ہیں اور نکاح خواں کو چندہزار روپے نذرانہ یاحق المحنت دینے میں نانی یادآتی ہے۔

بسنت کااسلام اورمسلمانوں سے کوئی تعلق ہے نہیں لیکن بسنت پرقبضہ مسلمانوں کاہے۔

رسم و رواج کاتعلق کسی بھی طرح اسلام سے نہیں ہے لیکن ہم دیوبندی ہونے کے باوجود رسم ورواج چھوڑنے پرتیارنہیں ہیں۔

پردہ اسلام کا اہم ترین شعارہے لیکن بے پردگی میں ہماری حالت اتنی آگے بڑھ چکی ہے ہمیں کسی دن بے پردگی کاایوارڈ مل سکتاہے۔

کفارکے مذہبی اورغیرمذہبی تہواروں میں ہماری نمائندگی اتنی بڑھ چکی ہے کہ بہت سے مسلمان تواب چندہ بھی دینے لگے ہیں۔

کرسمس خالص عیسائیوں کاتہوارہے لیکن اس میں سب سے زیادہ ملوث مسلمان ہیں ۔

دسمبرکے آخری دن جوبے حیائیاں، جوبرائیاں،جو زناکاریاں اور زیاں کاریاں ہوتی ہیں اس کوبیان کرنے کی بھی ہمارے قلم میں طاقت نہیں ہے ، افسوس کہ اس میں بھی مسلمان کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔

غورکیجئے کیااسلام بڑھ رہاہے یاپسپا رہاہے؟
 
Top