اختصارُ الكلامِ في الدَّعوةِ للإسلام
اسلام کی طرف دعوت دیتے وقت بات میں اختصار
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه ومن والاه، أما بعد.
ہم ایسے دور میں ہیں جہاں آدمی وہ کچھ سیکھنے کے لیے بہت ہی کم وقت صرف کرتا ہے کہ جس کا سیکھنا لازم ہے، بس اللہ ہی سے مدد کا سوال ہے، لہٰذا، اللہ رب العالمین کی طرف دعوت دینے والے میڈیا کے مجاہدین پر لازم ہے کہ وہ اس مسئلے کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیں اور جس چیز کی طرف رسولوں نے بلایا اسے حتی الامکان آسان ترین طریقے سے پہنچانے کی کوشش کریں،
اگر کوئی اور چارہ نہ ہو تو پھر بھلے کوئی چھوٹا سا پیغام ہی چند جملوں اور کثیر معانی کے ساتھ ہی کیوںنہ ہو؛ بایں طور کہ نہ پیغام پڑھنے والا اکتائے، نہ پیغام بردار ہی تھکنے پائے، اور یوں یہ پیغام کئی معانی کو سمیٹے ہوئے اور شکوک و التباس سے پاکیزگی کے ساتھ اپنی عمدہ ترتیب اور کم الفاظ کے باعث دلوں تک پہنچ جائے۔
مجاہدین اور داعیان کا بنیادی مقصد حق کو پھیلانا اور لوگوں کی رہنمائی کرنا ہے، اللہ تعالی فرماتا ہے:
وكَذَلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِنْ أَمْرِنَا مَا كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ وَلَكِنْ جَعَلْنَاهُ نُورًا نَهْدِي بِهِ مَنْ نَشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ
اور اسی طرح ہم نے آپ کی طرف اپنے حکم سے روح کو اتارا ہے، آپ اس سے پہلے یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اور ایمان کیا ہے؟ لیکن ہم نے اسے نور بنایا، اس کے ذریعہ سے ہم اپنے بندوں میں جسے چاہتے ہیں، ہدایت دیتے ہیں، اور بیشک آپ راہ راست کی طرف رہنمائی کر رہے ہیں۔
ایک داعی اپنے کلام میں تکلف سے کام نہیں لیتا، نہ ہی کھود کھود کر عجیب و غریب حقائق نکال کر لاتا ہے، کیونکہ اگر وہ بہت سی شاخوں، اقسام اور ابواب میں اپنی بات کرنے لگے تو وہ سامنے والے کو اس بنیادی فائدے سے محروم کر دے گا جسے آگے پہنچانے کے لیے اس نے اتنا کچھ لکھا؛ اس لیے کہ اس زمانے میں لوگ چھوٹی کتابیں اور خلاصے تک دیکھنے میں کم ہمتی دکھا جاتے ہیں، چہ جائے کہ ضخیم کتابیں پڑھنا۔
جب آپ لوگوں پر نگاہ دوڑائیں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان کے بارے میں یہ بات سچ ہے، کیونکہ زیادہ تر لوگوں کا آپ کو شاید ہی پتا چلے کہ انہوں نے شاید ہی کوئی کتاب مکمل کی ہو، ان میں سے اکثریت بغیر بصیرت کے اور بغیر گہرائی میں جائے ہی صفحات پلٹتے رہتے ہیں، بہت سے ایسے ہیں جن کی ہمت ضخیم کتابیں دیکھ کر ہی جواب دے جاتی ہے پھر پڑھنا تو دور کی بات ہے وہ اسے کھولتے بھی نہیں ہیں۔
اسی لیے جب آپ اس امت کے ابتدائی لوگوں کے الفاظ پر نظر ڈالیں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان کے الفاظ مختصر ترین، لیکن بامعنی ترین اور مافی الضمیر کو بہترین طریقے سے بیان کرتے ہیں، پس اسی طرح پیغام بالکل بلا تکلف، آسان ترین عبارت کے ذریعے، سامنے والے تک پہنچ جاتا ہے، لہذا کچھ عجب نہیں کہ آپ ان کے بارے میں پڑھتے ہیں کہ وہ دن رات اپنے الفاظ کا چناؤ کیا کرتے تھے۔
اس ضمن میں لوگوں میں سب سے قابلِ قدر الفاظ والے، حق کو سب سے بہترین بیان کرنے والے، آسان ترین الفاظ کو وسیع ترین معانی و مفہوم میں بیان کرنے والے؛ اللہ کے رسول محمد ﷺ تھے جنہیں جامع ترین کلمات عطا کیے گئے، صحیح بخاری میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
بعثت بجوامع الكلم، ونصرت بالرّعب، وبينا أنا نائم رأيتني أتيت بمفاتيح خزائن الأرض فوضعت في يدي، قال محمّد -يعني الزهري-: "وبلغنى أنّ جوامع الكلم: أنّ اللّه يجمع الأمور الكثيرة الّتي كانت تكتب في الكتب قبله في الأمر الواحد والأمرين. أو نحو ذلك"
مجھے جامع ترین کلمات عطا کیے گئے، رعب سے مدد کی گئی، اور میں نے سوتے میں دیکھا کہ میرے پاس زمین کے خزانوں کی کنجیاں لائی گئیں اور انہیں میرے ہاتھوں میں دے دیا گیا۔ محمد الزہری رحمہ اللہ کہتے ہیں: "مجھے پتا چلا کہ جامع ترین کلمات کا مطلب ہے کہ ایسی باتیں جو پہلے پوری پوری کتابوں میں لکھی گئیں تھی انہیں اللہ تعالی نے ایک یا دو اسی کی بقدر کچھ کلمات میں سمو دیا" [صحیح بخاری]
اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
فضّلت على الأنبياء بستّ: أعطيت جوامع الكلم، ونصرت بالرّعب، وأحلّت لي الغنائم، وجعلت لي الأرض مسجدا وطهورا، وأرسلت إلى الخلق كافّة، وختم بي النبيّون
مجھے باقی انبیاء پر چھ فضلیتیں حاصل ہیں: مجھے جامع ترین کلمات دیے گئے، رعب سے مدد کی گئی، میرے لیے غنائم حلال کر دیے گئے، میرے لیے زمین سجدہ گاہ اور پاک صاف بنا دی گئی، مجھے تمام مخلوق کی طرف مبعوث کیا گیا اور مجھ پر نبوت ختم کردی گئی۔ [بخاری و مسلم]
آپ ﷺ کے الفاظ ایسے تھے گویا کسی ہار کے موتی، ایک کے بعد ایک، نہ بے معنی اور نہ ہی بکھرے ہوئے، سامنے والے کو بات سمجھنے میں دشواری نہ ہوتی، بلکہ وہ عبارت کی آسانی اور تلفظ کی پختگی کے باعث سمجھنے میں ایک مٹھاس محسوس کرتا؛ پس سنتِ مطہرہ شعائرِ دین کے اظہار کے لیے، اور توحید کو پھیلانے اور شرک اور اہلِ شرک کا رد کرنے کے لیے ان سب آداب کو لے کر آئی ہے،
پس اگر مسلمان اس کی روشنی میں قرآن کو مضبوطی سے تھام لیں تو لوگوں کے دلوں میں توحید کا بیج بونے میں یہ زیادہ فائدہ مند ثابت ہو، اور ہاں! جب بات میں تفصیل کی ضرورت ہو تو اسے مفصل بھی ہونا چاہیے اور اس میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ ہر موقع الگ گفتگو کا متقاضی ہوتا ہے۔
جامع ترین کلمات میں سے
آج لوگوں کو کس قدر ضرورت ہے کہ وہ مختصر بات کریں اور اس پُر تکلف کلام سے بچیں جو امت کی توحید میں پختگی اور اپنے دشمن سے جہاد کے متعلقہ انتہائی اہم اور ضروری مسائل میں بہت بڑے نقصان کا سبب بن گیا ہے، اور اگر آپ کتاب وسنت میں دیکھیں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ اس سے کیا مراد ہے، اللہ تعالی فرماتا ہے:
لَا خَيْرَ فِي كَثِيرٍ مِنْ نَجْوَاهُمْ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلَاحٍ بَيْنَ النَّاسِ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ مَرْضَاةِ اللَّهِ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا
ان کے اکثر خفیہ مشوروں میں کوئی خیر نہیں ہوتی، ہاں بھلائی اس کے مشورے میں ہے جو خیرات کا یا نیک بات کا یا لوگوں میں صلح کرانے کا حکم کرے اور جو شخص صرف اللہ تعالٰی کی رضامندی حاصل کرنے کے ارادہ سے یہ کام کرے، اسے ہم یقیناً بہت بڑا ثواب دیں گے۔
اور یہ رہے نبی کریم ﷺ جو ہمیں بلا ضرورت زیادہ بولنے سے منع فرماتے تھے، احنف بن قیس نے عبداللہ (ابن مسعود رضی اللہ عنہ) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: هلك المتنطّعون (کلام میں مبالغہ و تکلف کرنے والے ہلاک ہو گئے)، آپ نے یہ بات تین بار ارشاد فرمائی۔
اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ألا أنبئكم بشراركم؟ فقال: هم الثرثارون المتشدّقون، ألا أنبئكم بخياركم؟ أحاسنكم أخلاقا
کیا میں تمہیں تمہارے بدترین لوگوں کے بارے میں نہ بتاؤں؟ وہ وہ لوگ ہیں جو فضول گوئی کرنے والے اور متشدق ہیں، نیز کیا تمہیں تمہارے بہترین افراد کے بارے میں نہ بتاؤں؟ وہ وہ لوگ ہیں جو تم میں اخلاق کے لحاظ سے سب سے اچھے ہیں۔ [ مسند أحمد]
متشدق سے مراد ہے کہ جو بغیر احتیاط کے، بے سوچے سمجھے بات کرنے والا ہو، اور کہا جاتا ہے کہ وہ جو لوگوں کا مذاق اڑائے۔
سنن بیہقی میں ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا:
"بعثني النبي -صلى الله عليه وسلم- ومعاذا إلى اليمن فقال: (انطلقا فادعوا النّاس إلى الإسلام، ويسّرا ولا تعسّرا، وبشّرا ولا تنفّرا)،
"نبی ﷺ نے مجھے اور معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یمن کی جانب بھیجا، آپ ﷺ نے فرمایا: (جاؤ، لوگوں کو اسلام کی دعوت دو، معاملات کو آسان بنانا اور لوگوں کو مشکل میں نہ ڈالنا، انہیں خوشخبری دینا اور متنفر نہ کرنا)،
قال قلت: يا رسول اللّه أفتنا في شرابين كنّا نصنعهما باليمن، البتع من العسل ننبذه حتّى يشتدّ، والمزر من البرّ والشّعير والذّرة ننبذه حتّى يشتدّ،
کہتے ہیں: میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! ہمیں ان دو مشروبوں کے بارے میں فتوی دیجیے جنہیں ہم یمن میں تیار کیا کرتے تھے، ایک بتع جو شہد سے تیار کیا جاتا ہے، اسے برتنوں میں ڈال کر چھوڑ دیا جاتاہے حتیٰ کہ وہ گاڑھا ہو جاتا ہے، اور دوسرا مزر جو مکئی اور جَو سے تیار کیا جاتا ہے، اسے بھی برتنوں میں ڈال کر رکھ چھوڑدیتے ہیں حتی کہ وہ گاڑھا ہو جاتا ہے،
قال وكان النبي -صلى الله عليه وسلم- قد أعطى جوامع الكلم وخواتمه وقال: (أحرّم كلّ مسكر عن الصّلاة)، قال: فانطلقنا"
انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ کو فیصلہ کن، جامع کلمات عطا کیے گئے تھے، سو آپ ﷺ نے فرمایا: میں نماز سے مدہوش کر دینے والی ہر نشہ آور چیز کی حرمت لایا ہوں (جس چیز کی زیادہ مقدار نشہ دلائے تو اس کی قلیل ترین مقدار بھی حرام ہے) ابو موسی کہتے ہیں: پھر ہم روانہ ہوگئے"۔
اور اس وصیت میں جامع کلمات ملاحظہ کریں، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا کہ آپ مجھے کوئی نصیحت فرما دیں، نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ: لا تغضب (غصہ نہ کیا کرو) اس نے کئی مرتبہ یہ سوال کیا اور نبی کریم ﷺ فرماتے رہے کہ: لا تغضب (غصہ نہ کیا کرو)۔
اور دیکھیں -اللہ آپ کو برکت سے نوازے- امام بخاری رحمہ اللہ نے سعید سے، اور انہوں نے ابو شریح سے سن کر حدیث روایت کی کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
واللّه لا يؤمن واللّه لا يؤمن واللّه لا يؤمن، قيل ومن يا رسول اللّه؟ قال: الّذى لا يأمن جاره بوايقه
اللہ کی قسم! وہ ایمان والا نہیں، اللہ کی قسم! وہ ایمان والا نہیں، اللہ کی قسم! وہ ایمان والا نہیں۔ عرض کیا گیا: کون، یا رسول اللہ؟ فرمایا: وہ جس کے شر سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو۔
اس حدیث کو شبابہ اور اسد بن موسیٰ نے بھی روایت کیا ہے، پس اس میں موجود خیر کے جامع کلمات پر غور کریں۔ نیز یہ بھی دیکھیں جو امام مسلم رحمہ اللہ نے جریر بن عبداللہ سے روایت کیا ہے:
قال رأيت رسول اللّه -صلى الله عليه وسلم- يلوي ناصية فرس بإصبعه وهو يقول: (الخيل معقود بنواصيها الخير إلى يوم القيامة الأجر والغنيمة
کہتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ کو دیکھا آپ ایک گھوڑے کی پیشانی کو انگلی سے سہلا رہے تھے اور فرمارہے تھے: تاقیامت گھوڑوں کی پیشانیوں سے برکت باندھ دی گئی ہے یعنی ثواب اور غنیمت۔
اس میں عزت والے کتنے جامع کلمات ہیں؟ اگر ہماری پیاری امت اس پر ڈٹ جائے۔
وعن أبي الحوراء السّعدي قال قلت للحسن بن علي رضي الله عنهما ما حفظت من رسول اللّه -صلى الله عليه وسلم- قال حفظت منه: (دع ما يريبك إلى ما لا يريبك)
ابو الحوراء سعدی سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے کہا کہ آپ نے رسول اللہ ﷺ کا کوئی فرمان یاد رکھا ہے؟ انہوں نے کہا کہ میں نے آپ کا یہ فرمان یاد رکھا ہے: (شک و شبہ میں مبتلا کرتی چیز کو چھوڑ کر وہ چیز اختیار کرو جو مشتبہ نہ ہو)۔
وعن عبد الرّحمن بن ماعز عن سفيان بن عبد اللّه الثقفي قال قلت يا رسول اللّه حدثني بأمر أعتصم به، قال: (قل ربّي اللّه ثمّ استقم)، قلت يا رسول اللّه ما أخوف ما تخاف علي؟ فأخذ بلسان نفسه ثمّ قال: (هذا)، قال أبو عيسى هذا حديث حسن صحيح
عبدالرحمن بن ماعز، سفیان بن عبداللہ الثقفی سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا میں نے پوچھا، اے اللہ کے رسول ﷺ! مجھے کوئی ایسی چیز بیان کریں کہ میں اسے مضبوطی سے تھام لوں، آپ ﷺ نے فرمایا: (تم کہو کہ میرا ربّ اللہ ہے اور پھر اس پر ڈٹ جاؤ)، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ کس چیز سے میرے بارے میں سب سے زیادہ خوفزدہ ہیں؟ تو آپ ﷺ نے اپنی زبان پکڑی اور فرمایا: (اس سے)، ابو عیسیٰ الترمذی رحمہ اللہ نے کہا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وعن أبي هريرة أنّه أتى النبي -صلى الله عليه وسلم- فقال: إني إذا رأيتك طابت نفسي وقرّت عيني فأنبئني عن كلّ شيء، قال: (كلّ شيء خلق اللّه عزّ وجلّ من الماء)، قال أنبئني بأمر إذا أخذت به دخلت الجنّة. قال: (أفش السّلام وأطعم الطّعام وصل الأرحام وصلّ والنّاس نيام ثمّ ادخل الجنّة بسلام)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہ وہ نبی کریم ﷺ کے پاس آئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! جب میں آپ کو دیکھتا ہوں تو میرا نفس خوش ہو جاتا ہے اور میری آنکھیں ٹھنڈی ہو جاتی ہیں، پس آپ مجھے ہر چیز کے بارے میں بتا دیجیے، آپ ﷺ نے فرمایا: (ہر چیز کو الله عز وجل نے پانی سے پیدا کیا ہے)، انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ مجھے ایسی چیز کے بارے میں بتلائیے کہ اگر میں اس کو تھام لوں، تو جنت میں داخل ہو جاؤں، آپ ﷺ نے فرمایا: (سلام کو عام کرو، کھانا کھلاؤ، صلہ رحمی کرو اور رات کو جب لوگ سو رہے ہوں تو قیام کرو اور پھر جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ) [أخرجه أحمد]
عمدہ کلام حق کو قبول کرنے پر ابھارتا ہے
عمدہ کلام حق بات کو قبول کرنے پر ابھارتا ہے، ولید بن المغیرہ نے قرآن کریم کی چند ہی آیات سن کر کہا تھا:
إن لقوله الذي يقول حلاوة، وإن عليه لطلاوة، وإنه لمثمر أعلاه، مغدق أسفله، وإنه ليعلو وما يعلى، وإنه ليحطم ما تحته
"اس کے اس کلام میں حلاوت ہے، اور اس کے اوپر خوبصورت رنگ روغن ہے، یہ اوپر سے پھل دار ہے، اور نیچے سے زرخیز ہے، یہ غالب ہوتا ہے لیکن کوئی اس پر غالب نہیں ہو سکتا، اور جو کچھ اس کے نیچے ہے یہ اسے پاش پاش کر دیتا ہے۔ " [رواه الحاكم]
اسلام کے دشمن اس اسلوب کو پوری طرح باخبر ہو چکے ہیں پس آپ انہیں اپنے باطل کے لیے روشن ترین اور مختصر ترین جملے چنتے ہوئے پائیں گے، جنہیں وہ حق کو مسخ کرنے اور حقائق کو جھٹلانے کے لیے مزین کرتے ہیں، وہ اسے اپنے اولین استاد ابلیس -اس پر اللہ کی لعنت ہو- سے اخذ کرتے ہیں، جیسا کہ کتابِ عزیر میں آیا ہے جب اللہ تعالیٰ نے ہمارے باپ آدم علیہ السلام کے ساتھ اس کا واقعہ بیان کیا:
{فَوَسْوَسَ إِلَيْهِ الشَّيْطَانُ قَالَ يَا آَدَمُ هَلْ أَدُلُّكَ عَلَى شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَمُلْكٍ لَا يَبْلَى}
لیکن شیطان نے اسے وسوسہ ڈالا، کہنے لگا کہ اے آدم! کیا میں تجھے دائمی زندگی کے درخت کا اور اس بادشاہت کا نہ بتلاؤں کہ جو کبھی پرانی نہ ہو؟
یوں یہ تو انہیں نسل در نسل وراثت میں ملا ہے، اللہ تعالی فرماتا ہے:
يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوراً
(ان میں سے بعض بعضوں کو چکنی چپڑی باتوں کا وسوسہ ڈالتے رہتے ہیں۔) [الأنعام:112]
جیسا کہ کہا گیا ہے:
في زخرف القولِ تزيينٌ لباطله
والحقُّ قد يعتريهِ سوء تعبيرِ
والحقُّ قد يعتريهِ سوء تعبيرِ
بات کی ملمع کاری میں، باطل کے لیے سامانِ زینت ہے، اور بعض اوقات غلط اسلوب سے سچ بھی چھپا دیا جاتا ہے۔
صحیح بخاری میں زید بن اسلم سے ایک حدیث مروی ہے، جسے وہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ
أنّه قدم رجلان من المشرق فخطبا فعجب النّاس لبيانهما فقال رسول اللّه -صلى الله عليه وسلم-: (إنّ من البيان لسحرا أو إنّ بعض البيان لسحر).
دو آدمی مشرق کی سمت (ملک عراق) سے مدینہ آئے اور لوگوں سے خطاب کیا، لوگ ان کی تقریر سے بہت متاثر ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: (بعض تقریریں بھی جادو بھری ہوتی ہیں یا یہ کہ بعض تقاریر جادو ہوتی ہیں)۔
پس یوں یہ چیز آپ کے لیے حق کا نقشہ کھینچ دے گی گویا آپ اسے سامنے دیکھ رہے ہیں، پھر اس میں سے کچھ بھی آپ کو مشکوک نہ کرے گا۔ آپ کو ہر ہر نبی کی دعوت میں ایک صحیح نقطہ نظر، ایک مختصر صریح دعوت، ایک واضح مقصد، ایک عظیم ہدف اور غیر مبہم الفاظ دکھیں گے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا أَنِ اُعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ فَمِنْهُمْ مَنْ هَدَى اللَّهُ وَمِنْهُمْ مَنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلَالَةُ فَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ}.
ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ صرف اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو، پس بعض لوگوں کو تو اللہ تعالٰی نے ہدایت دے دی اور بعضوں پر گمراہی ثابت ہوگئی پس تم خود زمین میں چل پھر کر دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیسا کچھ ہوا۔
بہترین بات
الغرض، بہترین بات وہ ہے جو مختصر، مفید، جامع، روک دینے والی، کم الفاظ والی، باہم مربوط اور مترتب ہو، جو بغیر کسی دکھلاوے، گھٹن اور چیخ چنگھاڑے کے ہو، اور بغیر بیزار کن طوالت یا خلل ڈالنے والے اختصار کے ہو،
اسے زائد از ضرورت، عجیب و غریب، مضحکہ خیز، باہم متعارض یا بے معنی نہیں ہونا چاہیے، بلکہ تفصیل کی جگہ مفصل ہونا چاہیے اور اختصار کی جگہ مختصر، واضح الفاظ ہونے چاہیئں جن میں دوسرے معانی نہ نکالے جا سکیں، جسے سامنے والا زیادہ عرق ریزی کے بغیر سمجھ سکے،
پیش کرنے میں جامعیت ہو، کمی یا کٹوتی کے بغیر ہو، معانی مکمل ہوں جس پر خاموش رہنا ہی بہتر لگے، جملہ آسان ہو اور معنی خیز ہو جسے اکثر لوگ یکساں سمجھ پائیں، اچھی عمدہ ترکیب سے کلام ترتیب دیا گیا ہو، اور پڑھنے والے کو اس میں کوئی التباس نہ ہو بایں طو کہ لکھنے والے نے لوگوں کے مقام و مرتبہ کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی باتیں ان کے درجات کے حساب سے کی ہوں، پس ایسی بات روح کے قریب تر اور حق کو بیان کر دینے سے نزدیک تر ہوگی۔
ہمیں اس کی کتنی ہی ضرورت ہے!
پس اے میڈیا کے سپاہی اور مجاہد! جو اللہ کی عبادت اور توحید کی اور شرک و اہلِ شرک کو چھوڑ کر ان سے لڑائی کی دعوت دیتا ہے، جس چیز کی تمہیں سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ یہ عمدہ اسلوب اور صحیح طریقہ ہے جس کے سامنے دلوں کے تالے ٹوٹ جائیں، سینے کھل جائیں اور روحیں اس کی طرف کھنچی چلی آئیں،
جس طرح تم اپنی چمکدار تلوار سے امت کے دشمنوں کی تلواریں توڑ دیتے ہو اسی طرح کلمہ حق سے ان کے جھوٹے قلموں کے نشانات بھی مٹا ڈالو، اور اس کلمہِ حق کے ساتھ کہ جس کی گونج سے بہرے کانوں اور بند دلوں میں راستے بن جائیں، تاکہ تم بھٹکے ہوؤں کی ہدایت اور انہیں اندھیروں سے نور کی طرف نکال لانے کا سبب بن جاؤ گے۔
اس مجاہد کی دعوت سے بڑھ کر کیا چیز عظیم ہو گی جس نے اپنی دعوت کے حروف اپنے پاکیزہ خون کی سیاہی سے لکھے، پس ہم تو مر جاتے ہیں لیکن یہ دین زندہ رہتا ہے، اس لیے جب آپ یہ جان چکے ہیں تو اس پر قائم رہیں، اور اللہ ہی مدد فرمانے والا ہے، تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔