کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کافروں اور شرک میں مبتلا لوگوں کی شفاعت کریں گے؟

ابو داؤد

طالب علم
رکن
کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کافروں اور شرک میں مبتلا لوگوں کی شفاعت کریں گے؟

بسم الله الرحمن الرحيم

اللہ عز وجل فرماتے ہیں:

يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلائِكَةُ صَفّاً لا يَتَكَلَّمُونَ إِلاَّ مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَنُ وَقَالَ صَوَاباً۔ (النبا 78:38)
جس دن جبرئیل اور فرشتے صف بستہ کھڑے ہوں گے۔کوئی بات نہیں کرے گا مگر جس کو رحمن اجازت دے اور وہ بالکل ٹھیک بات کہے۔

يَوْمَئِذٍ لا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ إِلاَّ مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَنُ وَرَضِيَ لَهُ قَوْلاً ۔ (طہ 20:109)
اس دن شفاعت نفع نہ دے گی۔ سوائے رحمان جس کو اجازت دے اور جس کے لیے کوئی بات کہنے کو پسند کرے۔

ان آیات سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ یعنی روزِ قیامت اللہ کے حضور کسی کے بارے میں کسی قسم کی سفارش کی کوئی گنجائش نہیں سوائے اس کے کہ رحمن اس بات کی اجازت دے۔ اللہ کے اذن کے بعد دوسری چیز یہ ہے کہ بات کہنے والا بھی وہ بات کہے جو خلافِ عدل نہ ہو۔ تیسرے یہ کہ ہر کسی کے حق میں سفارش نہیں ہوسکتی بلکہ جس کے حق میں اجازت ہو گی صرف اسی کے بارے میں بات ہوگی۔

اب سوال یہاں یہ ہے کہ وہ کونسا معیار ہے جس سے اللہ عز وجل کسی کو اجازت دیں گے کہ وہ فلاں شخص کی سفارش کرے۔ کیونکہ یہ بات تو طے ہے کہ سفارش کرنے والا بھی اس کی سفارش نہیں کرسکتا جس سے اللہ راضی نہیں۔ نیز اللہ عز وجل فرماتے ہیں :

إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ (النساء 4:48)
بے شک اللہ تعالیٰ اس چیز کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک ٹھہرایا جائے، اس کے سوا جو کچھ ہے، جس کے لیے چاہے گا بخش دے گا۔

اس طرح کی بہت ساری آیات ہیں جس میں اللہ عز وجل نے فرمادیا کہ کفر و شرک کرنے والوں کو معاف نہیں کیا جائے گا، لیکن اس کے علاوہ کے گناہوں کو اللہ چاہے تو معاف کردے گا

ایک جگہ اللہ عز وجل فرماتے ہیں :
ان الشرک لظلم عظیم!
شرک سب سے بڑا ظلم ہے۔

یعنی شرک و کفر وہ واحد شنیع فعل ہے جس کی کوئی معافی نہیں۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافر و مشرک کے لیے سفارش کریں؟ جن کے بارے دنیا میں ہی دعا مغفرت مانگنے سے سختی سے منع کردیا ہو۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر اس شخص کی شفاعت فرمائیں گے جو شرک میں مبتلا نہ ہو، مومن ہو مگر گناہ گار ہو۔ جیسا کہ روایات میں بیان ہے:

عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ الْأَشْجَعِيِّ رضی اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَتَانِي آتٍ مِنْ عِنْدِ رَبِّي فَخَيَرَنِي بَيْنَ أَنْ يُدْخِلَ نِصْفَ أُمَّتِي الْجَنَّةَ وَبَيْنَ الشَّفَاعَةِ؟ فَاخْتَرْتُ الشَّفَاعَةَ، وَهِيَ لِمَنْ مَاتَ لَا يُشْرِکُ بِاﷲِ شَيْئا
( رواہ الترمذی کتاب صفة القيامة، باب : ما جاء في الشفاعة2441 )

’’عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے پاس اللہ کی طرف سے پیغام لے کر آنے والا آیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے میری آدھی امت کو بغير حساب جنت میں داخل کرنے اور شفاعت کرنے کے درمیان اختیار دیا؟ پس میں نے شفاعت کو اختیار کر ليا کیونکہ یہ ہر اس شخص کے لئے ہے جو اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہوا نہیں مرے گا۔‘‘

اسی طرح ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ آپ کی حفاظت کا فریضہ سرانجام دیتے تھے۔ ایک رات میں بیدار ہوا تو آپ کو اپنی آرام گاہ میں نہ دیکھ کر میرے دل میں کسی ناگہانی واقعہ کے پیش آنے کا خیال آیا۔ پس میں حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاش میں نکلا تو دیکھا کہ معاذ رضی اللہ عنہ بھی میری طرح اسی لگن میں ہے۔ اسی اثناء میں ہم نے ہوا کی سرسراہٹ جیسی آواز سنی تو اپنی جگہ پر ٹھہر گئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آواز کی سمت سے تشریف لا کر فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ میں کہاں تھا؟ اور کس حال میں تھا؟ میرے رب عزوجل کی طرف سے ایک پیغام لیکر آنے والا آیا کہ اس نے مجھے میری آدھی امت بغير حساب کے جنت میں داخل کرنے اور شفاعت کے درمیان اختیار دیا ہے؟ میں نے شفاعت کو اختیار کر ليا۔ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ ہمیں آپ کی شفاعت سے بہرہ مند فرمائے۔
تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : أَنْتُمْ وَمَنْ مَاتَ لَا يُشْرِکُ بِاﷲِ شَيْءًا فِي شَفَاعَتِي.

تم اور ہر وہ شخص جو اس حال میں فوت ہوا کہ اللہ کے ساتھ شرک نہ کرتا ہو میری شفاعت کا مستحق ہوگا۔
‘‘( مسند احمد)

اس کے علاوہ بھی کئی احادیث موجود ہیں جس میں یہ مذکور ہے کہ مشرک شخص کیلئے کوئی شفاعت نہیں ہے ۔

بلکہ مشرک و کافر ہمیشہ کے لیے جہنم ہی جائے گا۔

والله أعلم بالصواب و علمه أتم، والسلام۔
 
Top