گناہوں پر شرم سار ہونا۔۔۔۔ اپنی لغزش کا اقرار کرنا ۔۔۔۔اور اپنے جرم کا اعتراف کرنا ۔۔۔وہ مبارک و بابرکت عمل ہے جس کا توڑ شیطان کے پاس نہیں ۔
امام اوزاعیؒ فرماتے ہیں:
’’ابلیس نے اپنے چیلوں سے کہا: ’’تم انسانوں کو کس طرح گمراہ کرتے ہو؟‘‘
وہ کہنے لگے: ’’ہم ہر طریقے اور ہر جہت سے انہیں گمراہ کرتے ہیں۔‘‘
ابلیس نے جواب میں کہا: ’’کیا استغفار کے بارے میں بھی تم نے انہیں گمراہ کیا ہے؟‘‘
یہ سن کر ابلیسی گماشتوں نے کہا: ’’استغفار تو وہ عمل ہے جو توحید باری تعالیٰ کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔‘‘ (اس پر ہمارا زور کیسے چل سکتا ہے؟)
ابلیس نے کہا: ’’میں انسانوں کے درمیان ایسی چیز پھیلائوں گا جس پر انہیں استغفار کرنے کی نوبت نہیں آئے گی۔‘‘
امام اوزاعیؒ فرماتے ہیں: ’’شیطان نے انسانوں میں خواہشات و تمنائوں کو پھیلایا (جسے کوئی گناہ نہیں سمجھتا اور اس پر استغفار بھی نہیں کرتا)‘‘
(سنن دارمی: باب فی اجتناب الأہواء)
امام اوزاعیؒ فرماتے ہیں:
’’ابلیس نے اپنے چیلوں سے کہا: ’’تم انسانوں کو کس طرح گمراہ کرتے ہو؟‘‘
وہ کہنے لگے: ’’ہم ہر طریقے اور ہر جہت سے انہیں گمراہ کرتے ہیں۔‘‘
ابلیس نے جواب میں کہا: ’’کیا استغفار کے بارے میں بھی تم نے انہیں گمراہ کیا ہے؟‘‘
یہ سن کر ابلیسی گماشتوں نے کہا: ’’استغفار تو وہ عمل ہے جو توحید باری تعالیٰ کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔‘‘ (اس پر ہمارا زور کیسے چل سکتا ہے؟)
ابلیس نے کہا: ’’میں انسانوں کے درمیان ایسی چیز پھیلائوں گا جس پر انہیں استغفار کرنے کی نوبت نہیں آئے گی۔‘‘
امام اوزاعیؒ فرماتے ہیں: ’’شیطان نے انسانوں میں خواہشات و تمنائوں کو پھیلایا (جسے کوئی گناہ نہیں سمجھتا اور اس پر استغفار بھی نہیں کرتا)‘‘
(سنن دارمی: باب فی اجتناب الأہواء)