کیا شرک اکبر میں جہالت کا عذر معتبر ہے؟
بسم الله الرحمن الرحيم
شرک اکبر میں قطعاً عذر بالجہل (جہالت کا عذر) معتبر نہیں ہے۔ بلکہ دنیا میں ہر حالت شرک اکبر کا مرتکب مشرک ہی ہوگا۔ اللہ عزوجل نے جہنمیوں کے بارے میں حکایت کرتے ہوئے فرمایا:
وَقَالُوا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِي أَصْحَابِ السَّعِيرِ
اور ( یہ جہنمی ) کہیں گے کہ اگر ہم نے سنا یا سمجھا ہوتا تو ہم دوزخیوں میں نہ ہوتے۔ [سورۃ الملك، آیت: ۱۰]
دیکھیے وہ سمجھے ہی نہ تھے اور سمجھنا تو کیا ( دل کی کانوں سے ) سنے بھی نہ تھے پھر بھی جہنم چلے گئے۔
اسی طرح فرماتے ہیں :
وَإِنْ أَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّى يَسْمَعَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَعْلَمُونَ
اور اگر کوئی مشرک تم سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دے دو یہاں تک کہ اللہ کا کلام سنے پھر اسے اس کی امن کی جگہ پہنچا دو، یہ اس لیے ہے کہ وہ لوگ بے سمجھ ہیں۔ [سورۃ التوبة، آیت: ۶]
ملاحظہ فرمائیں حتى يسمع كلام الله یعنی انہوں (مشرکین) نے ابھی تک کلام اللہ سنا بھی نہیں ہے لیکن جب شرک میں مبتلا ہے تو ان کا سننا نہ سننا ایک ہی چیز ٹہرا کر ان کو مشرکین کہا گیا کہ وإن أحد من المشركين استجارك
اور یہ اس لیے کہ شرک سے اجتناب کرنے کے لیے کسی کی رہنمائی کی بالکل ضرورت نہیں ہے کیونکہ شرک ایسی چیز ہے جس کا ادراک اور پہچان عقل سے ہوتی ہے لیکن یہ پھر بھی اللہ عزوجل کا احسان ہے کہ اس پاک ذات نے رسولوں کو مبعوث فرمایا ہے اور ہمارے لیے ہدایت کا ذریعہ بنایا ۔
شیخ عبد الرحمن بن حسن بن محمد بن عبد الوہاب رحمہم اللہ فرماتے ہیں:
ولا ريب: أن الله تعالى لم يعذر أهل الجاهلية، الذين لا كتاب لهم، بهذا الشرك الأكبر، كما في حديث عياض بن حمار: عن النبي – صلى الله عليه وسلم «إن الله نظر إلى أهل الأرض، فمقتهم عربهم وعجمهم، إلاَّ بقايا من أهل الكتاب»، فكيف يعذر أمة كتاب الله بين أيديهم، يقرؤونه، ويسمعونه، وهو حجة الله على عباده، كما قال تعالى: {هَذَا بَلاَغٌ لِّلنَّاسِ وَلِيُنذَرُواْ بِهِ وَلِيَعْلَمُواْ أَنَّمَا هُوَ إِلَهٌ وَاحِدٌ وَلِيَذَّكَّرَ أُوْلُواْ الأَلْبَابِ} [إبراهيم: ٥٢] . كذلك سنَّة رسول الله – صلى الله عليه وسلم
اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالٰی نے اہلِ جاہلیت کو جن کے پاس کوئی کتاب نہیں تھی، کو شرکِ اکبر میں جہالت کا عذر نہیں دیا۔ جیسے عیاض بن حمار (رضی اللہ عنہ) کی حدیث میں ہے: نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
إن الله نظر إلى أهل الأرض، فمقتهم عربهم وعجمهم، إلاَّ بقايا من أهل الكتاب.
«اور اللہ نے زمین والوں کی طرف نظر فرمائی تو اہل کتاب کے (کچھ) بچے کھچے لوگوں کے سوا باقی عرب اور عجم سب پر سخت ناراض ہوا»۔ (رواه مسلم)
تو وہ امت جن کے ہاتھوں میں اللہ کی کتاب موجود ہے ان کو کس طرح عذر دے گا، جو اسے پڑھتے اور سنتے ہیں، اور یہ بندوں پر اللہ کی حجت ہے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالٰی ہے:
{هَذَا بَلاَغٌ لِّلنَّاسِ وَلِيُنذَرُواْ بِهِ وَلِيَعْلَمُواْ أَنَّمَا هُوَ إِلَهٌ وَاحِدٌ وَلِيَذَّكَّرَ أُوْلُواْ الأَلْبَابِ}
”یہ قرآن تمام لوگوں کے لیے اطلاع نامہ ہے کہ اس کے ذریعے سے وہ ہوشیار کر دیے جائیں اور بخوبی معلوم کرلیں کہ اللہ ایک ہی معبود ہے اور تاکہ عقلمند لوگ سوچ سمجھ لیں۔“ (إبراهيم: ٥٢)
اور اسی طرح اللہ کے رسول ﷺ کی سنت ہے۔
[المختصر المفيد في عقائد أئمة التوحيد، صفحہ: ٤٣٢]
اسی طرح شیخ عبد الرحمن بن حسن بن محمد بن عبد الوہاب رحمہم اللہ فرماتے ہیں:
ولا ريب أن الله تعالى لم يعذر أهل الجاهلية الذين لا كتاب لهم بهذا الشرك الأكبر فكيف يعذر أمةً كتاب الله بين أيديهم يقرؤونه فهو حجة الله على عباده
اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ نے زمانہ جاہلیت کے لوگوں کے شرک پر کوئی عذر قبول نہیں کیا جن کے پاس کوئی کتاب نہیں تھی تو اللہ ایسی قوم کا عذر کیونکر قبول کرے گا جن کے پاس اللہ کی کتاب ہے جس کو وہ پڑھتے ہیں۔ یہ اللہ کے بندوں پر اس کی حجت ہے۔
[فتاوى الأئمة النجدية ٣/ ٢٢٦]
شیخ عبد اللہ بن عبد الرحمٰن ابا بُطین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قال تعالى: {وَإِذَا قِيلَ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَالسَّاعَةُ لا رَيْبَ فِيهَا قُلْتُمْ مَا نَدْرِي مَا السَّاعَةُ إِنْ نَظُنُّ إِلا ظَنًّا وَمَا نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ} ١، وقد قال الله -سبحانه- عن النصارى: {اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ} ٢ الآية. قال عدي بن حاتم للنبي صلى الله عليه وسلم ما عبدناهم. قال: "أليس يحلون ما حرم الله فتحلونه، ويحرمون ما أحل الله فتحرمونه؟ قال: بلى قال: فتلك عبادتهم" فذمهم الله -سبحانه-، وسماهم مشركين مع كونهم لم يعلموا أن فعلهم معهم هذا عبادة لهم، فلم يعذروا بالجهل.
اللہ تعالٰی کا فرمان ہے:
{وَإِذَا قِيلَ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَالسَّاعَةُ لا رَيْبَ فِيهَا قُلْتُمْ مَا نَدْرِي مَا السَّاعَةُ إِنْ نَظُنُّ إِلا ظَنًّا وَمَا نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ}
«اور جب کبھی کہا جاتا کہ اللہ کا وعدہ یقیناً سچا ہے اور قیامت کے آنے میں کوئی شک نہیں تو تم جواب دیتے تھے کہ ہم نہیں جانتے قیامت کیا چیز ہے؟ ہمیں کچھ یوں ہی سا خیال ہو جاتا ہے لیکن ہمیں یقین نہیں» (الجاثية ٣٢)
اور اللہ تعالٰی نے نصاریٰ کے متعلق فرمایا:
{اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ}
«انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا ربّ بنا لیا ہے اور اسی طرح مسیح اِبنِ مریم کو بھی» (التوبة ٣١)
قال عدي بن حاتم للنبي صلى الله عليه وسلم ما عبدناهم. قال: "أليس يحلون ما حرم الله فتحلونه، ويحرمون ما أحل الله فتحرمونه؟ قال: بلى قال: فتلك عبادتهم"
عدی بن ثابت (رضی اللہ عنہ) نے نبی ﷺ سے کہا: ہم (زمانۂ کفر میں) ان کی عبادت تو نہیں کرتے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: «کیا ایسا نہیں ہوتا تھا کہ اللہ نے جو کچھ حلال قرار دیا اسے وہ حرام ٹھہرا دیتے اور تم اسے حرام سمجھنے لگتے تھے؟ اور جو کچھ اللہ نے حرام قرار دیا اسے وہ حلال ٹھہرا دیتے تھے اور تم اسے حلال سمجھنے لگتے تھے»۔ جواب دیا: جی ہاں، ایسا ہی ہوتا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: «یہی تو ان کی عبادت کرنا ہے»۔
اس لیے اللہ تعالٰی نے ان کی مذمت کی اور انہیں مشرکین کہا، حالانکہ وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ ان کے افعال جو وہ کر رہے ہیں عبادت کے عمل ہیں، لہذا ان کو جہالت کا عذر نہیں دیا گیا۔
[مجموعة الرسائل والمسائل النجدية - ط المنار، ٥/ ٤٧٧]
علامہ الکاسانی الحنفی رحمہ اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ ابو یوسف رحمہ اللہ نے ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے یہ عبارت روایت کی ہے، فرمایا: ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لَا عُذْرَ لِأَحَدٍ مِنْ الْخَلْقِ فِي جَهْلِهِ مَعْرِفَةَ خَالِقِهِ؛ لِأَنَّ الْوَاجِبَ عَلَى جَمِيعِ الْخَلْقِ مَعْرِفَةُ الرَّبِّ - سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى - وَتَوْحِيدُهُ؛ لِمَا يَرَى مِنْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ، وَخَلْقِ نَفْسِهِ، وَسَائِرِ مَا خَلَقَ اللَّهُ - سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى فَأَمَّا الْفَرَائِضُ فَمَنْ لَمْ يَعْلَمْهَا، وَلَمْ تَبْلُغْهُ، فَإِنَّ هَذَا لَمْ تَقُمْ عَلَيْهِ حُجَّةٌ حُكْمِيَّةٌ بِلَفْظِهِ.
مخلوق کی خالق سے جہالت کا کوئی عذر قبول نہیں ہوگا، اس لیے کہ تمام مخلوقات پر رب اور اس کی توحید کی معرفت واجب ہے، کیونکہ وہ ارض و سماوات کی خلقت، اپنی خلقت اور اللہ کی تمام خلقت کو دیکھ رہا ہے۔ اور رہی فرائض کی بات تو جس کو اس کا علم نہ ہو اور اس تک اس کا علم نہ پہنچا ہو تو اس پر حکمی حجت قائم نہیں ہوئی۔
[بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع للكاساني ٧/ ١٣٢]
شیخ أحمد بن عمر الحازمي حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
رواية عن الإمام أبي حنيفة رحمه الله تعالى في أن من وقع في الشرك لا عذر له ، وأن من ترك التوحيد فلا عذر له ، وأن من مسائل التوحيد والشرك لا عذر لأحدٍ البتة في دعوى الجهل فلا يقبل منه البتة ، فكل جاهل وقع في الشرك فحينئذ فهو مشرك في الدنيا وننزل عليه أحكام المشركين ، وفي الآخرة نعتقد بأنه من أهل النار خالدًا فيها. قال الكساني : بلفظه . يعني نقل هذا القول عن أبي يوسف الذي نقله عن الإمام أبي حنيفة ، فلا عذر في ترك التوحيد ، وأما مسائل الفرائض من المعلوم من الدين بالضرورة حينئذ هذا مرده إلى إقامة الحجة ونحوها
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی روایت میں ہے کہ جو شخص شرک میں پڑ جائے اس کے لیے کوئی عذر نہیں اور جو توحید کو چھوڑ دے اس کے لیے کوئی عذر نہیں، اور یہ کہ توحید و شرک کے مسائل میں سے ہے کہ جہل کے دعویٰ میں کسی کے لیے کوئی عذر نہیں، اس لیے اس کی طرف سے یہ دعویٰ ہرگز قبول نہیں کیا جاتا۔ اس لیے ہر جاہل شخص اگر شرک میں پڑ گیا، تو وہ اس وقت اس دنیا میں مشرک ہوگا ، اور ہم اس پر مشرکین کے احکام لاگو کریں گے۔ اور آخرت میں ہمارا عقیدہ ہے کہ وہ جہنمیوں میں سے ہے جو اس میں ہمیشہ رہے گا۔ کاسانی نے کہا: یہ قول اس کے الفاظ کے ساتھ۔ مطلب یہ ہے کہ کاسانی حنفی نے یہ قول ابو یوسف سے نقل کیا ہے جنہوں نے امام ابو حنیفہ سے نقل کیا ہے۔ تو توحید کے چھوڑنے میں کوئی عذر نہیں ہے ، اور وہ فرائض کے مسائل جو دین سے ضروری معلوم ہوتے ہیں، تو اس کا رجوع حجت کے قیام اور اسی طرح اور چیزوں کی طرف کیا جائے گا۔
[شرح مفيد المستفيد في كفر تارك التوحيد للشيخ الحازمي ، الشريط الثالث، صفحہ: ٢١]
معلوم ہوا کہ شرکِ اکبر میں کسی کے لیے جہالت کا عذر نہیں بلکہ توحید کی معرفت واجب ہے۔
والله أعلم بالصواب و علمه أتم، والسلام۔
شرک اکبر میں قطعاً عذر بالجہل (جہالت کا عذر) معتبر نہیں ہے۔ بلکہ دنیا میں ہر حالت شرک اکبر کا مرتکب مشرک ہی ہوگا۔ اللہ عزوجل نے جہنمیوں کے بارے میں حکایت کرتے ہوئے فرمایا:
وَقَالُوا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِي أَصْحَابِ السَّعِيرِ
اور ( یہ جہنمی ) کہیں گے کہ اگر ہم نے سنا یا سمجھا ہوتا تو ہم دوزخیوں میں نہ ہوتے۔ [سورۃ الملك، آیت: ۱۰]
دیکھیے وہ سمجھے ہی نہ تھے اور سمجھنا تو کیا ( دل کی کانوں سے ) سنے بھی نہ تھے پھر بھی جہنم چلے گئے۔
اسی طرح فرماتے ہیں :
وَإِنْ أَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّى يَسْمَعَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَعْلَمُونَ
اور اگر کوئی مشرک تم سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دے دو یہاں تک کہ اللہ کا کلام سنے پھر اسے اس کی امن کی جگہ پہنچا دو، یہ اس لیے ہے کہ وہ لوگ بے سمجھ ہیں۔ [سورۃ التوبة، آیت: ۶]
ملاحظہ فرمائیں حتى يسمع كلام الله یعنی انہوں (مشرکین) نے ابھی تک کلام اللہ سنا بھی نہیں ہے لیکن جب شرک میں مبتلا ہے تو ان کا سننا نہ سننا ایک ہی چیز ٹہرا کر ان کو مشرکین کہا گیا کہ وإن أحد من المشركين استجارك
اور یہ اس لیے کہ شرک سے اجتناب کرنے کے لیے کسی کی رہنمائی کی بالکل ضرورت نہیں ہے کیونکہ شرک ایسی چیز ہے جس کا ادراک اور پہچان عقل سے ہوتی ہے لیکن یہ پھر بھی اللہ عزوجل کا احسان ہے کہ اس پاک ذات نے رسولوں کو مبعوث فرمایا ہے اور ہمارے لیے ہدایت کا ذریعہ بنایا ۔
شیخ عبد الرحمن بن حسن بن محمد بن عبد الوہاب رحمہم اللہ فرماتے ہیں:
ولا ريب: أن الله تعالى لم يعذر أهل الجاهلية، الذين لا كتاب لهم، بهذا الشرك الأكبر، كما في حديث عياض بن حمار: عن النبي – صلى الله عليه وسلم «إن الله نظر إلى أهل الأرض، فمقتهم عربهم وعجمهم، إلاَّ بقايا من أهل الكتاب»، فكيف يعذر أمة كتاب الله بين أيديهم، يقرؤونه، ويسمعونه، وهو حجة الله على عباده، كما قال تعالى: {هَذَا بَلاَغٌ لِّلنَّاسِ وَلِيُنذَرُواْ بِهِ وَلِيَعْلَمُواْ أَنَّمَا هُوَ إِلَهٌ وَاحِدٌ وَلِيَذَّكَّرَ أُوْلُواْ الأَلْبَابِ} [إبراهيم: ٥٢] . كذلك سنَّة رسول الله – صلى الله عليه وسلم
اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالٰی نے اہلِ جاہلیت کو جن کے پاس کوئی کتاب نہیں تھی، کو شرکِ اکبر میں جہالت کا عذر نہیں دیا۔ جیسے عیاض بن حمار (رضی اللہ عنہ) کی حدیث میں ہے: نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
إن الله نظر إلى أهل الأرض، فمقتهم عربهم وعجمهم، إلاَّ بقايا من أهل الكتاب.
«اور اللہ نے زمین والوں کی طرف نظر فرمائی تو اہل کتاب کے (کچھ) بچے کھچے لوگوں کے سوا باقی عرب اور عجم سب پر سخت ناراض ہوا»۔ (رواه مسلم)
تو وہ امت جن کے ہاتھوں میں اللہ کی کتاب موجود ہے ان کو کس طرح عذر دے گا، جو اسے پڑھتے اور سنتے ہیں، اور یہ بندوں پر اللہ کی حجت ہے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالٰی ہے:
{هَذَا بَلاَغٌ لِّلنَّاسِ وَلِيُنذَرُواْ بِهِ وَلِيَعْلَمُواْ أَنَّمَا هُوَ إِلَهٌ وَاحِدٌ وَلِيَذَّكَّرَ أُوْلُواْ الأَلْبَابِ}
”یہ قرآن تمام لوگوں کے لیے اطلاع نامہ ہے کہ اس کے ذریعے سے وہ ہوشیار کر دیے جائیں اور بخوبی معلوم کرلیں کہ اللہ ایک ہی معبود ہے اور تاکہ عقلمند لوگ سوچ سمجھ لیں۔“ (إبراهيم: ٥٢)
اور اسی طرح اللہ کے رسول ﷺ کی سنت ہے۔
[المختصر المفيد في عقائد أئمة التوحيد، صفحہ: ٤٣٢]
اسی طرح شیخ عبد الرحمن بن حسن بن محمد بن عبد الوہاب رحمہم اللہ فرماتے ہیں:
ولا ريب أن الله تعالى لم يعذر أهل الجاهلية الذين لا كتاب لهم بهذا الشرك الأكبر فكيف يعذر أمةً كتاب الله بين أيديهم يقرؤونه فهو حجة الله على عباده
اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ نے زمانہ جاہلیت کے لوگوں کے شرک پر کوئی عذر قبول نہیں کیا جن کے پاس کوئی کتاب نہیں تھی تو اللہ ایسی قوم کا عذر کیونکر قبول کرے گا جن کے پاس اللہ کی کتاب ہے جس کو وہ پڑھتے ہیں۔ یہ اللہ کے بندوں پر اس کی حجت ہے۔
[فتاوى الأئمة النجدية ٣/ ٢٢٦]
شیخ عبد اللہ بن عبد الرحمٰن ابا بُطین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قال تعالى: {وَإِذَا قِيلَ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَالسَّاعَةُ لا رَيْبَ فِيهَا قُلْتُمْ مَا نَدْرِي مَا السَّاعَةُ إِنْ نَظُنُّ إِلا ظَنًّا وَمَا نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ} ١، وقد قال الله -سبحانه- عن النصارى: {اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ} ٢ الآية. قال عدي بن حاتم للنبي صلى الله عليه وسلم ما عبدناهم. قال: "أليس يحلون ما حرم الله فتحلونه، ويحرمون ما أحل الله فتحرمونه؟ قال: بلى قال: فتلك عبادتهم" فذمهم الله -سبحانه-، وسماهم مشركين مع كونهم لم يعلموا أن فعلهم معهم هذا عبادة لهم، فلم يعذروا بالجهل.
اللہ تعالٰی کا فرمان ہے:
{وَإِذَا قِيلَ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَالسَّاعَةُ لا رَيْبَ فِيهَا قُلْتُمْ مَا نَدْرِي مَا السَّاعَةُ إِنْ نَظُنُّ إِلا ظَنًّا وَمَا نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ}
«اور جب کبھی کہا جاتا کہ اللہ کا وعدہ یقیناً سچا ہے اور قیامت کے آنے میں کوئی شک نہیں تو تم جواب دیتے تھے کہ ہم نہیں جانتے قیامت کیا چیز ہے؟ ہمیں کچھ یوں ہی سا خیال ہو جاتا ہے لیکن ہمیں یقین نہیں» (الجاثية ٣٢)
اور اللہ تعالٰی نے نصاریٰ کے متعلق فرمایا:
{اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ}
«انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا ربّ بنا لیا ہے اور اسی طرح مسیح اِبنِ مریم کو بھی» (التوبة ٣١)
قال عدي بن حاتم للنبي صلى الله عليه وسلم ما عبدناهم. قال: "أليس يحلون ما حرم الله فتحلونه، ويحرمون ما أحل الله فتحرمونه؟ قال: بلى قال: فتلك عبادتهم"
عدی بن ثابت (رضی اللہ عنہ) نے نبی ﷺ سے کہا: ہم (زمانۂ کفر میں) ان کی عبادت تو نہیں کرتے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: «کیا ایسا نہیں ہوتا تھا کہ اللہ نے جو کچھ حلال قرار دیا اسے وہ حرام ٹھہرا دیتے اور تم اسے حرام سمجھنے لگتے تھے؟ اور جو کچھ اللہ نے حرام قرار دیا اسے وہ حلال ٹھہرا دیتے تھے اور تم اسے حلال سمجھنے لگتے تھے»۔ جواب دیا: جی ہاں، ایسا ہی ہوتا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: «یہی تو ان کی عبادت کرنا ہے»۔
اس لیے اللہ تعالٰی نے ان کی مذمت کی اور انہیں مشرکین کہا، حالانکہ وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ ان کے افعال جو وہ کر رہے ہیں عبادت کے عمل ہیں، لہذا ان کو جہالت کا عذر نہیں دیا گیا۔
[مجموعة الرسائل والمسائل النجدية - ط المنار، ٥/ ٤٧٧]
علامہ الکاسانی الحنفی رحمہ اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ ابو یوسف رحمہ اللہ نے ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے یہ عبارت روایت کی ہے، فرمایا: ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لَا عُذْرَ لِأَحَدٍ مِنْ الْخَلْقِ فِي جَهْلِهِ مَعْرِفَةَ خَالِقِهِ؛ لِأَنَّ الْوَاجِبَ عَلَى جَمِيعِ الْخَلْقِ مَعْرِفَةُ الرَّبِّ - سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى - وَتَوْحِيدُهُ؛ لِمَا يَرَى مِنْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ، وَخَلْقِ نَفْسِهِ، وَسَائِرِ مَا خَلَقَ اللَّهُ - سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى فَأَمَّا الْفَرَائِضُ فَمَنْ لَمْ يَعْلَمْهَا، وَلَمْ تَبْلُغْهُ، فَإِنَّ هَذَا لَمْ تَقُمْ عَلَيْهِ حُجَّةٌ حُكْمِيَّةٌ بِلَفْظِهِ.
مخلوق کی خالق سے جہالت کا کوئی عذر قبول نہیں ہوگا، اس لیے کہ تمام مخلوقات پر رب اور اس کی توحید کی معرفت واجب ہے، کیونکہ وہ ارض و سماوات کی خلقت، اپنی خلقت اور اللہ کی تمام خلقت کو دیکھ رہا ہے۔ اور رہی فرائض کی بات تو جس کو اس کا علم نہ ہو اور اس تک اس کا علم نہ پہنچا ہو تو اس پر حکمی حجت قائم نہیں ہوئی۔
[بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع للكاساني ٧/ ١٣٢]
شیخ أحمد بن عمر الحازمي حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
رواية عن الإمام أبي حنيفة رحمه الله تعالى في أن من وقع في الشرك لا عذر له ، وأن من ترك التوحيد فلا عذر له ، وأن من مسائل التوحيد والشرك لا عذر لأحدٍ البتة في دعوى الجهل فلا يقبل منه البتة ، فكل جاهل وقع في الشرك فحينئذ فهو مشرك في الدنيا وننزل عليه أحكام المشركين ، وفي الآخرة نعتقد بأنه من أهل النار خالدًا فيها. قال الكساني : بلفظه . يعني نقل هذا القول عن أبي يوسف الذي نقله عن الإمام أبي حنيفة ، فلا عذر في ترك التوحيد ، وأما مسائل الفرائض من المعلوم من الدين بالضرورة حينئذ هذا مرده إلى إقامة الحجة ونحوها
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی روایت میں ہے کہ جو شخص شرک میں پڑ جائے اس کے لیے کوئی عذر نہیں اور جو توحید کو چھوڑ دے اس کے لیے کوئی عذر نہیں، اور یہ کہ توحید و شرک کے مسائل میں سے ہے کہ جہل کے دعویٰ میں کسی کے لیے کوئی عذر نہیں، اس لیے اس کی طرف سے یہ دعویٰ ہرگز قبول نہیں کیا جاتا۔ اس لیے ہر جاہل شخص اگر شرک میں پڑ گیا، تو وہ اس وقت اس دنیا میں مشرک ہوگا ، اور ہم اس پر مشرکین کے احکام لاگو کریں گے۔ اور آخرت میں ہمارا عقیدہ ہے کہ وہ جہنمیوں میں سے ہے جو اس میں ہمیشہ رہے گا۔ کاسانی نے کہا: یہ قول اس کے الفاظ کے ساتھ۔ مطلب یہ ہے کہ کاسانی حنفی نے یہ قول ابو یوسف سے نقل کیا ہے جنہوں نے امام ابو حنیفہ سے نقل کیا ہے۔ تو توحید کے چھوڑنے میں کوئی عذر نہیں ہے ، اور وہ فرائض کے مسائل جو دین سے ضروری معلوم ہوتے ہیں، تو اس کا رجوع حجت کے قیام اور اسی طرح اور چیزوں کی طرف کیا جائے گا۔
[شرح مفيد المستفيد في كفر تارك التوحيد للشيخ الحازمي ، الشريط الثالث، صفحہ: ٢١]
معلوم ہوا کہ شرکِ اکبر میں کسی کے لیے جہالت کا عذر نہیں بلکہ توحید کی معرفت واجب ہے۔
والله أعلم بالصواب و علمه أتم، والسلام۔