کیا سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی موت دبیلہ پھوڑے سے ہوئی تھی؟
بسم الله الرحمن الرحیم
روافض خناس اکثر مسلمانوں میں یہ وسوسہ ڈالتے ہیں کہ صحابی رسول سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کہ موت دبیلہ پھوڑے سے ہوئی تھی معاذ اللہ۔ روافض پہلے مسلم کی روایت نقل کرتے ہیں کہ منافقین کی علامت دبیلہ ہے اور پھر دبیلہ کا ترجمہ پھوڑا سے کرتے ہیں پھر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں تنقیص کرتے ہوئے انکے ایک زخم کا حوالہ دیتے ہیں اور وہاں زخم کو عربی میں قرحۃ لکھا ہوتا ہے لیکن روافض ان کی جہالت و مکاری دکھاتے ہوئے اس کا ترجمہ پرانے پھوڑے سے کرتے ہیں اور پھر الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم کی ایک مردود روایت نقل کر کہتے ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی موت اسی پرانے پھوڑے سے ہوئی ۔ معاذ اللہ اور لعنت اللہ علی الکاذبین۔
فقال ستة منهم تكفيهم الدُّبَيْلَةُ سِرَاجٌ مِنْ نَارِ جَهَنَّمَ (تفسير ابن كثير، 4/180) یعنی دبیلہ سے مراد جہنم کی آگ کا انگارہ ہوگا۔
علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے روایت نقل فرمائی:
تُكْفِهُمُ الدُّبَيْلَةُ. قُلْنَا: وَمَا الدُّبَيْلَةُ؟ قَالَ: شِهَابٌ مِنْ نَارٍ يُوضَعُ عَلَى نِيَاطِ قَلْبِ أَحَدِهِمْ فَيَقْتُلُهُ (مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 422) یعنی رسول اللہ سے پوچھا گیا کہ یہ دبیلہ کیا ہے؟ تو فرمایا کہ آگ کا شعلہ ہے جو ان میں سے کسی کے دل کی رگ پر پڑے گا تو وہ ہلاک ہوجائے گا۔
امام نووی رحمہ اللہ نے مسلم کی شرح میں لکھا:
وأما ( الدبيلة ) فبدال مهملة ثم باء موحدة وقد فسرها في الحديث بسراج من نار (شرح النووي على مسلم، 17/125) دبیلہ کی وضاحت حدیث میں آگ کے چراغ سے کی گئی ہے۔
پس ان تمام تصریحات سے ثابت ہے کہ منافقین یعنی کفار کیلئے دبیلہ نامی آفت کافی ہوگی، اور وہ دوزخ کے آگ کا شعلہ ہوگا، حدیث کی تشریح حدیث سے ہی کی جاتی ہے، یہاں عربی لغت استعمال کرنی کی ضرورت نہیں۔
قَرْحَةٌ کا مطلب:
روافض کی جانب سے الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم سے ایک روایت پیش کی جاتی ہے اور یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں۔
حَدَّثَنَا هُدْبَةُ بْنُ خَالِدِ بْنِ هُدْبَةَ الْقَيْسِيُّ، ثنا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى مُعَاوِيَةَ وَبِهِ قُرْحَتُهُ الَّتِي مَاتَ فِيهَا (الآحاد والمثاني، 517) یعنی معاویہ رضی اللہ عنہ کی موت اسی (قُرْحَتُهُ الَّتِي مَاتَ فِيهَا) سے ہوئی۔
الجواب 01 : رجال کا ثقہ ہونا حدیث کے صحیح ہونے کو لازم نہیں ہے۔
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے فرمایا:
وهو أيضا باطل، ما أدرى من يغش فيه، فإن هؤلاء ثقات.(ميزان الاعتدال في نقد الرجال3/610) اسکے راوی اگرچہ ثقہ ہیں لیکن یہ حدیث منکر بلکہ بعید نہیں موضوع ہے۔
دوسری جگہ لکھا:
هذا وإن كان رواته ثقات، فهو منكر، وليس ببعيد من الوضع (المستدرك على الصحيحين، 4640) حدیث باطل ہے معلوم نہیں کس نے دھوکہ دیا کیونکہ بیان کرنے والے تمام راوۃ ثقہ ہیں۔
پس روافض کی وکالت کرنے والوں سے عرض ہے کہ رجال ثقہ دیکھ کر صحابی رسول کی تنقیص کرنا اپنی آخرت برباد کرنا ہے۔
الجواب 02 :الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم نامی کتاب کی سند میں ایک راوی موجود ہے جو مجہول الحال ہے، اور یہ سند کی گھڑونت اسکی کی کارستانی لگتی ہے۔
الأسم : عبد الرحمن بن محمد بن أحمد بن عبد الرحمن
عبد الرحمن بن أبي بكر الذكواني , الكنيه: أبو القاسم
الرتبة : مجهول الحال
الجواب 03 : نیم رافضی نے قَرْحَةٌ کا ترجمہ پرانہ پھوڑے سے کیا ہے۔ اب یہی لفظ حدیث میں امی عائشہ اور خود رسول اللہ صلی اللہ وسلم کیلئے آیا ہے وہاں اسکا ترجمہ زخم سے کیا گیا ہے۔
ابی بردہ سے مروی ہے کہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کو جس وقت زخم لگا تو میں ان کے پاس آیا، انہو نے کہا اے میرے بھائی کے بیٹے، ادھر آو پلٹ کر دیکھو، میں نے پلٹ کر دیکھا تو انکا زخم بھر گیا تھا، میں نے کہا اے امیر المومنین آپ کے لیے کوئی فکر کی بات نہیں ہے۔
رجال :
01- محمد بن سعد الهاشمي , الكنيه: أبو عبد الله،صدوق حسن الحديث
02-عمرو بن عاصم القيسي , الكنيه: أبو عثمان، صدوق حسن الحديث(متوفی 213 ھ)
03-عفان بن مسلم الباهلي , الكنيه: أبو عثمان،ثقة ثبت توفي عام : 220
04- سليمان بن المغيرة القيسي , الكنيه: أبو سعيد، الرتبة : ثقة ثقة
05-حميد بن هلال العدوي , الكنيه: أبو نصر،ثقة
06- أبو بردة بن أبي موسى الأشعري , الكنيه: أبو بردة
اس صحیح سند سے ثابت ہوجاتا ہے کہ امیر المؤمنین سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو جو زخم تھا اللہ نے ان کو اس سے شفاء عطا فرمادی تھی۔
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی تنقیص کرنے والوں کا رد:
یعنی امام احمد ابن حنبل رحمہ اللہ سے انکے ثقہ شاگرد ابو طالب المشکانی نے پوچھا: اس راوی سے حدیث لی جائیگی جو کہتا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی موت کفر پر ہوئی تھی، تو ابن حنبل نے کہاِ نہیں ایسے راوی سے حدیث نہیں لی جائیگی (متروک الحدیث) رسول اللہ کے اصحاب میں سے کوئی بھی کافر نہیں تھا۔
امام ابن حبان رحمہ اللہ نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی توہین کرنے والے ایک راوی کے بارے میں لکھا:
یہ کوفیوں سے روایت کرتا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی توہین کرتا اور ثقہ راویوں کا نام لے لے کر موضوعات بیان کرتا تھا، جیسا کہ اسنے روایت بیان کی کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو منبر پر دیکھو تو قتل کردو۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے لکھا:
وَأَوْرَدَ فِيهَا أَحَادِيثَ بَاطِلَةً فِي ذَمِّ مُعَاوِيَةَ(تاریخ ابن کثیر)
یعنی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی توہین او تنقیص میں روایت کردہ احادیث باطل ہیں۔
حافظ ابن قیم الجوزی رحمہ اللہ نے لکھا:
ومن ذلك الأحاديث في ذَمُّ مُعَاوِيَةَ. وَكَلُّ حَدِيثٍ فِي ذَمِّهِ فَهُوَ كذب.(لمنار المنيف في الصحيح والضعيف251-252)
اور ان میں وہ احادیث بھی موجود ہیں جو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پر بہتان لگاتی ہے اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی توہین اور تنقیص میں روایت کردہ تمام احادیث موضوع ہیں۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے يَطْلُعُ عَلَيْكُمْ رَجُلٌ يَمُوتُ عَلَى غَيْرِ سُنَّتِي فَطَلَعَ مُعَاوِيَةُ نقل کرنے کے بعد لکھا
وَيُقَالُ ثَانِيًا: هَذَا الْحَدِيثُ مِنَ الْكَذِبِ الْمَوْضُوعِ بِاتِّفَاقِ أَهْلِ الْمَعْرِفَةِ بِالْحَدِيثِ(منهاج السنة النبوية في نقض كلام الشيعة القدرية)
یہ روایت جھوٹی ہے اور اسکے موضوع ہونے پر اہلحدیث میں اجماع اور اتفاق ہے۔
کیا سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی موت دبیلہ پھوڑے سے ہوئی تھی؟
بسم الله الرحمن الرحیم
روافض خناس اکثر مسلمانوں میں یہ وسوسہ ڈالتے ہیں کہ صحابی رسول سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کہ موت دبیلہ پھوڑے سے ہوئی تھی معاذ اللہ۔ روافض پہلے مسلم کی روایت نقل کرتے ہیں کہ منافقین کی علامت دبیلہ ہے اور پھر دبیلہ کا ترجمہ پھوڑا سے کرتے ہیں پھر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں تنقیص کرتے ہوئے انکے ایک زخم کا حوالہ دیتے ہیں اور وہاں زخم کو عربی میں قرحۃ لکھا ہوتا ہے لیکن روافض ان کی جہالت و مکاری دکھاتے ہوئے اس کا ترجمہ پرانے پھوڑے سے کرتے ہیں اور پھر الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم کی ایک مردود روایت نقل کر کہتے ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی موت اسی پرانے پھوڑے سے ہوئی ۔ معاذ اللہ اور لعنت اللہ علی الکاذبین۔
فقال ستة منهم تكفيهم الدُّبَيْلَةُ سِرَاجٌ مِنْ نَارِ جَهَنَّمَ (تفسير ابن كثير، 4/180) یعنی دبیلہ سے مراد جہنم کی آگ کا انگارہ ہوگا۔
علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے روایت نقل فرمائی:
تُكْفِهُمُ الدُّبَيْلَةُ. قُلْنَا: وَمَا الدُّبَيْلَةُ؟ قَالَ: شِهَابٌ مِنْ نَارٍ يُوضَعُ عَلَى نِيَاطِ قَلْبِ أَحَدِهِمْ فَيَقْتُلُهُ (مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 422) یعنی رسول اللہ سے پوچھا گیا کہ یہ دبیلہ کیا ہے؟ تو فرمایا کہ آگ کا شعلہ ہے جو ان میں سے کسی کے دل کی رگ پر پڑے گا تو وہ ہلاک ہوجائے گا۔
امام نووی رحمہ اللہ نے مسلم کی شرح میں لکھا:
وأما ( الدبيلة ) فبدال مهملة ثم باء موحدة وقد فسرها في الحديث بسراج من نار (شرح النووي على مسلم، 17/125) دبیلہ کی وضاحت حدیث میں آگ کے چراغ سے کی گئی ہے۔
پس ان تمام تصریحات سے ثابت ہے کہ منافقین یعنی کفار کیلئے دبیلہ نامی آفت کافی ہوگی، اور وہ دوزخ کے آگ کا شعلہ ہوگا، حدیث کی تشریح حدیث سے ہی کی جاتی ہے، یہاں عربی لغت استعمال کرنی کی ضرورت نہیں۔
قَرْحَةٌ کا مطلب:
روافض کی جانب سے الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم سے ایک روایت پیش کی جاتی ہے اور یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں۔
حَدَّثَنَا هُدْبَةُ بْنُ خَالِدِ بْنِ هُدْبَةَ الْقَيْسِيُّ، ثنا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى مُعَاوِيَةَ وَبِهِ قُرْحَتُهُ الَّتِي مَاتَ فِيهَا (الآحاد والمثاني، 517) یعنی معاویہ رضی اللہ عنہ کی موت اسی (قُرْحَتُهُ الَّتِي مَاتَ فِيهَا) سے ہوئی۔
الجواب 01 : رجال کا ثقہ ہونا حدیث کے صحیح ہونے کو لازم نہیں ہے۔
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے فرمایا:
وهو أيضا باطل، ما أدرى من يغش فيه، فإن هؤلاء ثقات.(ميزان الاعتدال في نقد الرجال3/610) اسکے راوی اگرچہ ثقہ ہیں لیکن یہ حدیث منکر بلکہ بعید نہیں موضوع ہے۔
دوسری جگہ لکھا:
هذا وإن كان رواته ثقات، فهو منكر، وليس ببعيد من الوضع (المستدرك على الصحيحين، 4640) حدیث باطل ہے معلوم نہیں کس نے دھوکہ دیا کیونکہ بیان کرنے والے تمام راوۃ ثقہ ہیں۔
پس روافض کی وکالت کرنے والوں سے عرض ہے کہ رجال ثقہ دیکھ کر صحابی رسول کی تنقیص کرنا اپنی آخرت برباد کرنا ہے۔
الجواب 02 :الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم نامی کتاب کی سند میں ایک راوی موجود ہے جو مجہول الحال ہے، اور یہ سند کی گھڑونت اسکی کی کارستانی لگتی ہے۔
الأسم : عبد الرحمن بن محمد بن أحمد بن عبد الرحمن
عبد الرحمن بن أبي بكر الذكواني , الكنيه: أبو القاسم
الرتبة : مجهول الحال
الجواب 03 : نیم رافضی نے قَرْحَةٌ کا ترجمہ پرانہ پھوڑے سے کیا ہے۔ اب یہی لفظ حدیث میں امی عائشہ اور خود رسول اللہ صلی اللہ وسلم کیلئے آیا ہے وہاں اسکا ترجمہ زخم سے کیا گیا ہے۔
ابی بردہ سے مروی ہے کہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کو جس وقت زخم لگا تو میں ان کے پاس آیا، انہو نے کہا اے میرے بھائی کے بیٹے، ادھر آو پلٹ کر دیکھو، میں نے پلٹ کر دیکھا تو انکا زخم بھر گیا تھا، میں نے کہا اے امیر المومنین آپ کے لیے کوئی فکر کی بات نہیں ہے۔
رجال :
01- محمد بن سعد الهاشمي , الكنيه: أبو عبد الله،صدوق حسن الحديث
02-عمرو بن عاصم القيسي , الكنيه: أبو عثمان، صدوق حسن الحديث(متوفی 213 ھ)
03-عفان بن مسلم الباهلي , الكنيه: أبو عثمان،ثقة ثبت توفي عام : 220
04- سليمان بن المغيرة القيسي , الكنيه: أبو سعيد، الرتبة : ثقة ثقة
05-حميد بن هلال العدوي , الكنيه: أبو نصر،ثقة
06- أبو بردة بن أبي موسى الأشعري , الكنيه: أبو بردة
اس صحیح سند سے ثابت ہوجاتا ہے کہ امیر المؤمنین سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو جو زخم تھا اللہ نے ان کو اس سے شفاء عطا فرمادی تھی۔
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی تنقیص کرنے والوں کا رد:
یعنی امام احمد ابن حنبل رحمہ اللہ سے انکے ثقہ شاگرد ابو طالب المشکانی نے پوچھا: اس راوی سے حدیث لی جائیگی جو کہتا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی موت کفر پر ہوئی تھی، تو ابن حنبل نے کہاِ نہیں ایسے راوی سے حدیث نہیں لی جائیگی (متروک الحدیث) رسول اللہ کے اصحاب میں سے کوئی بھی کافر نہیں تھا۔
امام ابن حبان رحمہ اللہ نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی توہین کرنے والے ایک راوی کے بارے میں لکھا:
یہ کوفیوں سے روایت کرتا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی توہین کرتا اور ثقہ راویوں کا نام لے لے کر موضوعات بیان کرتا تھا، جیسا کہ اسنے روایت بیان کی کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو منبر پر دیکھو تو قتل کردو۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے لکھا:
وَأَوْرَدَ فِيهَا أَحَادِيثَ بَاطِلَةً فِي ذَمِّ مُعَاوِيَةَ(تاریخ ابن کثیر)
یعنی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی توہین او تنقیص میں روایت کردہ احادیث باطل ہیں۔
حافظ ابن قیم الجوزی رحمہ اللہ نے لکھا:
ومن ذلك الأحاديث في ذَمُّ مُعَاوِيَةَ. وَكَلُّ حَدِيثٍ فِي ذَمِّهِ فَهُوَ كذب.(لمنار المنيف في الصحيح والضعيف251-252)
اور ان میں وہ احادیث بھی موجود ہیں جو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پر بہتان لگاتی ہے اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی توہین اور تنقیص میں روایت کردہ تمام احادیث موضوع ہیں۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے يَطْلُعُ عَلَيْكُمْ رَجُلٌ يَمُوتُ عَلَى غَيْرِ سُنَّتِي فَطَلَعَ مُعَاوِيَةُ نقل کرنے کے بعد لکھا
وَيُقَالُ ثَانِيًا: هَذَا الْحَدِيثُ مِنَ الْكَذِبِ الْمَوْضُوعِ بِاتِّفَاقِ أَهْلِ الْمَعْرِفَةِ بِالْحَدِيثِ(منهاج السنة النبوية في نقض كلام الشيعة القدرية)
یہ روایت جھوٹی ہے اور اسکے موضوع ہونے پر اہلحدیث میں اجماع اور اتفاق ہے۔
علمی و تحقیقی پوسٹ ہے۔۔ لیکن تحقیق اعتدال کا عکس ہو تی۔ ایک محقق کو تحقیق میں نرم گوئی سے کام لینا چاہیے۔ ۔ ۔ ۔ محقق معتدل مزاج ہوتا ہے۔ ۔اور اصولِ شریعت بھی ہے کہ اعتدلو ھو اقرب للتقویٰ۔۔۔۔۔ ہرلفظ کو پہلے تولنا اور پھر بولنا ایک محقق کا کام ہے۔۔۔
کیا سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی موت دبیلہ پھوڑے سے ہوئی تھی؟
بسم الله الرحمن الرحیم
روافض خناس اکثر مسلمانوں میں یہ وسوسہ ڈالتے ہیں کہ صحابی رسول سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کہ موت دبیلہ پھوڑے سے ہوئی تھی معاذ اللہ۔ روافض پہلے مسلم کی روایت نقل کرتے ہیں کہ منافقین کی علامت دبیلہ ہے اور پھر دبیلہ کا ترجمہ پھوڑا سے کرتے ہیں پھر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں تنقیص کرتے ہوئے انکے ایک زخم کا حوالہ دیتے ہیں اور وہاں زخم کو عربی میں قرحۃ لکھا ہوتا ہے لیکن روافض ان کی جہالت و مکاری دکھاتے ہوئے اس کا ترجمہ پرانے پھوڑے سے کرتے ہیں اور پھر الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم کی ایک مردود روایت نقل کر کہتے ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی موت اسی پرانے پھوڑے سے ہوئی ۔ معاذ اللہ اور لعنت اللہ علی الکاذبین۔
فقال ستة منهم تكفيهم الدُّبَيْلَةُ سِرَاجٌ مِنْ نَارِ جَهَنَّمَ (تفسير ابن كثير، 4/180) یعنی دبیلہ سے مراد جہنم کی آگ کا انگارہ ہوگا۔
علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے روایت نقل فرمائی:
تُكْفِهُمُ الدُّبَيْلَةُ. قُلْنَا: وَمَا الدُّبَيْلَةُ؟ قَالَ: شِهَابٌ مِنْ نَارٍ يُوضَعُ عَلَى نِيَاطِ قَلْبِ أَحَدِهِمْ فَيَقْتُلُهُ (مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 422) یعنی رسول اللہ سے پوچھا گیا کہ یہ دبیلہ کیا ہے؟ تو فرمایا کہ آگ کا شعلہ ہے جو ان میں سے کسی کے دل کی رگ پر پڑے گا تو وہ ہلاک ہوجائے گا۔
امام نووی رحمہ اللہ نے مسلم کی شرح میں لکھا:
وأما ( الدبيلة ) فبدال مهملة ثم باء موحدة وقد فسرها في الحديث بسراج من نار (شرح النووي على مسلم، 17/125) دبیلہ کی وضاحت حدیث میں آگ کے چراغ سے کی گئی ہے۔
پس ان تمام تصریحات سے ثابت ہے کہ منافقین یعنی کفار کیلئے دبیلہ نامی آفت کافی ہوگی، اور وہ دوزخ کے آگ کا شعلہ ہوگا، حدیث کی تشریح حدیث سے ہی کی جاتی ہے، یہاں عربی لغت استعمال کرنی کی ضرورت نہیں۔
قَرْحَةٌ کا مطلب:
روافض کی جانب سے الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم سے ایک روایت پیش کی جاتی ہے اور یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں۔
حَدَّثَنَا هُدْبَةُ بْنُ خَالِدِ بْنِ هُدْبَةَ الْقَيْسِيُّ، ثنا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى مُعَاوِيَةَ وَبِهِ قُرْحَتُهُ الَّتِي مَاتَ فِيهَا (الآحاد والمثاني، 517) یعنی معاویہ رضی اللہ عنہ کی موت اسی (قُرْحَتُهُ الَّتِي مَاتَ فِيهَا) سے ہوئی۔
الجواب 01 : رجال کا ثقہ ہونا حدیث کے صحیح ہونے کو لازم نہیں ہے۔
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے فرمایا:
وهو أيضا باطل، ما أدرى من يغش فيه، فإن هؤلاء ثقات.(ميزان الاعتدال في نقد الرجال3/610) اسکے راوی اگرچہ ثقہ ہیں لیکن یہ حدیث منکر بلکہ بعید نہیں موضوع ہے۔
دوسری جگہ لکھا:
هذا وإن كان رواته ثقات، فهو منكر، وليس ببعيد من الوضع (المستدرك على الصحيحين، 4640) حدیث باطل ہے معلوم نہیں کس نے دھوکہ دیا کیونکہ بیان کرنے والے تمام راوۃ ثقہ ہیں۔
پس روافض کی وکالت کرنے والوں سے عرض ہے کہ رجال ثقہ دیکھ کر صحابی رسول کی تنقیص کرنا اپنی آخرت برباد کرنا ہے۔
الجواب 02 :الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم نامی کتاب کی سند میں ایک راوی موجود ہے جو مجہول الحال ہے، اور یہ سند کی گھڑونت اسکی کی کارستانی لگتی ہے۔
الأسم : عبد الرحمن بن محمد بن أحمد بن عبد الرحمن
عبد الرحمن بن أبي بكر الذكواني , الكنيه: أبو القاسم
الرتبة : مجهول الحال
الجواب 03 : نیم رافضی نے قَرْحَةٌ کا ترجمہ پرانہ پھوڑے سے کیا ہے۔ اب یہی لفظ حدیث میں امی عائشہ اور خود رسول اللہ صلی اللہ وسلم کیلئے آیا ہے وہاں اسکا ترجمہ زخم سے کیا گیا ہے۔
ابی بردہ سے مروی ہے کہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کو جس وقت زخم لگا تو میں ان کے پاس آیا، انہو نے کہا اے میرے بھائی کے بیٹے، ادھر آو پلٹ کر دیکھو، میں نے پلٹ کر دیکھا تو انکا زخم بھر گیا تھا، میں نے کہا اے امیر المومنین آپ کے لیے کوئی فکر کی بات نہیں ہے۔
رجال :
01- محمد بن سعد الهاشمي , الكنيه: أبو عبد الله،صدوق حسن الحديث
02-عمرو بن عاصم القيسي , الكنيه: أبو عثمان، صدوق حسن الحديث(متوفی 213 ھ)
03-عفان بن مسلم الباهلي , الكنيه: أبو عثمان،ثقة ثبت توفي عام : 220
04- سليمان بن المغيرة القيسي , الكنيه: أبو سعيد، الرتبة : ثقة ثقة
05-حميد بن هلال العدوي , الكنيه: أبو نصر،ثقة
06- أبو بردة بن أبي موسى الأشعري , الكنيه: أبو بردة
اس صحیح سند سے ثابت ہوجاتا ہے کہ امیر المؤمنین سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو جو زخم تھا اللہ نے ان کو اس سے شفاء عطا فرمادی تھی۔
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی تنقیص کرنے والوں کا رد:
یعنی امام احمد ابن حنبل رحمہ اللہ سے انکے ثقہ شاگرد ابو طالب المشکانی نے پوچھا: اس راوی سے حدیث لی جائیگی جو کہتا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی موت کفر پر ہوئی تھی، تو ابن حنبل نے کہاِ نہیں ایسے راوی سے حدیث نہیں لی جائیگی (متروک الحدیث) رسول اللہ کے اصحاب میں سے کوئی بھی کافر نہیں تھا۔
امام ابن حبان رحمہ اللہ نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی توہین کرنے والے ایک راوی کے بارے میں لکھا:
یہ کوفیوں سے روایت کرتا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی توہین کرتا اور ثقہ راویوں کا نام لے لے کر موضوعات بیان کرتا تھا، جیسا کہ اسنے روایت بیان کی کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو منبر پر دیکھو تو قتل کردو۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے لکھا:
وَأَوْرَدَ فِيهَا أَحَادِيثَ بَاطِلَةً فِي ذَمِّ مُعَاوِيَةَ(تاریخ ابن کثیر)
یعنی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی توہین او تنقیص میں روایت کردہ احادیث باطل ہیں۔
حافظ ابن قیم الجوزی رحمہ اللہ نے لکھا:
ومن ذلك الأحاديث في ذَمُّ مُعَاوِيَةَ. وَكَلُّ حَدِيثٍ فِي ذَمِّهِ فَهُوَ كذب.(لمنار المنيف في الصحيح والضعيف251-252)
اور ان میں وہ احادیث بھی موجود ہیں جو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پر بہتان لگاتی ہے اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی توہین اور تنقیص میں روایت کردہ تمام احادیث موضوع ہیں۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے يَطْلُعُ عَلَيْكُمْ رَجُلٌ يَمُوتُ عَلَى غَيْرِ سُنَّتِي فَطَلَعَ مُعَاوِيَةُ نقل کرنے کے بعد لکھا
وَيُقَالُ ثَانِيًا: هَذَا الْحَدِيثُ مِنَ الْكَذِبِ الْمَوْضُوعِ بِاتِّفَاقِ أَهْلِ الْمَعْرِفَةِ بِالْحَدِيثِ(منهاج السنة النبوية في نقض كلام الشيعة القدرية)
یہ روایت جھوٹی ہے اور اسکے موضوع ہونے پر اہلحدیث میں اجماع اور اتفاق ہے۔
علمی و تحقیقی پوسٹ ہے۔۔ لیکن تحقیق اعتدال کا عکس ہو تی۔ ایک محقق کو تحقیق میں نرم گوئی سے کام لینا چاہیے۔ ۔ ۔ ۔ محقق معتدل مزاج ہوتا ہے۔ ۔اور اصولِ شریعت بھی ہے کہ اعتدلو ھو اقرب للتقویٰ۔۔۔۔۔ ہرلفظ کو پہلے تولنا اور پھر بولنا ایک محقق کا کام ہے۔۔۔
علمی و تحقیقی پوسٹ ہے۔۔ لیکن تحقیق اعتدال کا عکس ہو تی۔ ایک محقق کو تحقیق میں نرم گوئی سے کام لینا چاہیے۔ ۔ ۔ ۔ محقق معتدل مزاج ہوتا ہے۔ ۔اور اصولِ شریعت بھی ہے کہ اعتدلو ھو اقرب للتقویٰ۔۔۔۔۔ ہرلفظ کو پہلے تولنا اور پھر بولنا ایک محقق کا کام ہے۔۔۔
بے اعتدالی کوئی بھی نہیں تھی۔ ماشاء اللہ عمدہ اور مدلل تحریر ہے۔۔۔ انکار نہیں ۔ ۔۔۔۔ انتہائی ابتداء میں جن الفاظ کا استعمال تھا اس کیطرف اشارہ کیا تھا کہ ایک محقق کو تحقیق کے بعد ایسے الفاظ سے گریز کرنا چاہیے۔ مثال کے طور پر "خناس" وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔