کیا سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی موت دبیلہ پھوڑے سے ہوئی تھی؟

ابو داؤد

طالب علم
رکن
کیا سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی موت دبیلہ پھوڑے سے ہوئی تھی؟



بسم الله الرحمن الرحیم

روافض خناس اکثر مسلمانوں میں یہ وسوسہ ڈالتے ہیں کہ صحابی رسول سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کہ موت دبیلہ پھوڑے سے ہوئی تھی معاذ اللہ۔ روافض پہلے مسلم کی روایت نقل کرتے ہیں کہ منافقین کی علامت دبیلہ ہے اور پھر دبیلہ کا ترجمہ پھوڑا سے کرتے ہیں پھر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں تنقیص کرتے ہوئے انکے ایک زخم کا حوالہ دیتے ہیں اور وہاں زخم کو عربی میں قرحۃ لکھا ہوتا ہے لیکن روافض ان کی جہالت و مکاری دکھاتے ہوئے اس کا ترجمہ پرانے پھوڑے سے کرتے ہیں اور پھر الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم کی ایک مردود روایت نقل کر کہتے ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی موت اسی پرانے پھوڑے سے ہوئی ۔ معاذ اللہ اور لعنت اللہ علی الکاذبین۔

دبیلہ کا مطلب:

اللہ نے قرآن میں منافقین کے بارے میں فرمایا:

ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا فَطُبِعَ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا يَفْقَهُونَ

یہ اس سبب ہے کہ ایمان لا کر پھر کافر ہوگئے پس اُن کے دلوں پر مہر لگادی گئی، اب یہ سمجھتے نہیں۔
[سورۃ المنافقون، آیت: 3]

صحیح مسلم کی حدیث ہے رسول اللہ نے منافقین کی نشانی میں فرمایا کہ ان کو دبیلہ کفایت کرے گا، اور دبیلہ کیا ہے اس کی وضاحت اسی حدیث میں موجود ہے کہ :

تَكْفِيكَهُمُ الدُّبَيْلَةُ، سِرَاجٌ مِنَ النَّارِ يَظْهَرُ فِي أَكْتَافِهِمْ، حَتَّى يَنْجُمَ مِنْ صُدُورِهِمْ (صحیح مسلم: 2779)

یعنی یہ اگ کا چراغ سراج من النار ہے۔

FB_IMG_1677385792510.jpg




تفسیر ابن کثیر میں حذیفہ کی سند سے مروی ہے:

فقال ستة منهم تكفيهم الدُّبَيْلَةُ سِرَاجٌ مِنْ نَارِ جَهَنَّمَ (تفسير ابن كثير، 4/180)
یعنی دبیلہ سے مراد جہنم کی آگ کا انگارہ ہوگا۔



IMG_20230226_073317.jpg



علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے روایت نقل فرمائی:

تُكْفِهُمُ الدُّبَيْلَةُ. قُلْنَا: وَمَا الدُّبَيْلَةُ؟ قَالَ: شِهَابٌ مِنْ نَارٍ يُوضَعُ عَلَى نِيَاطِ قَلْبِ أَحَدِهِمْ فَيَقْتُلُهُ (مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 422)
یعنی رسول اللہ سے پوچھا گیا کہ یہ دبیلہ کیا ہے؟ تو فرمایا کہ آگ کا شعلہ ہے جو ان میں سے کسی کے دل کی رگ پر پڑے گا تو وہ ہلاک ہوجائے گا۔


IMG_20230226_073728.jpg



امام نووی رحمہ اللہ نے مسلم کی شرح میں لکھا:

وأما ( الدبيلة ) فبدال مهملة ثم باء موحدة وقد فسرها في الحديث بسراج من نار (شرح النووي على مسلم، 17/125)
دبیلہ کی وضاحت حدیث میں آگ کے چراغ سے کی گئی ہے۔


IMG_20230226_073909.jpg



پس ان تمام تصریحات سے ثابت ہے کہ منافقین یعنی کفار کیلئے دبیلہ نامی آفت کافی ہوگی، اور وہ دوزخ کے آگ کا شعلہ ہوگا، حدیث کی تشریح حدیث سے ہی کی جاتی ہے، یہاں عربی لغت استعمال کرنی کی ضرورت نہیں۔

قَرْحَةٌ کا مطلب:

روافض کی جانب سے الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم سے ایک روایت پیش کی جاتی ہے اور یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں۔

حَدَّثَنَا هُدْبَةُ بْنُ خَالِدِ بْنِ هُدْبَةَ الْقَيْسِيُّ، ثنا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى مُعَاوِيَةَ وَبِهِ قُرْحَتُهُ الَّتِي مَاتَ فِيهَا (الآحاد والمثاني، 517)
یعنی معاویہ رضی اللہ عنہ کی موت اسی (قُرْحَتُهُ الَّتِي مَاتَ فِيهَا) سے ہوئی۔



FB_IMG_1677386564053.jpg



الجواب 01 : رجال کا ثقہ ہونا حدیث کے صحیح ہونے کو لازم نہیں ہے۔

حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے فرمایا:


وهو أيضا باطل، ما أدرى من يغش فيه، فإن هؤلاء ثقات.(ميزان الاعتدال في نقد الرجال3/610)
اسکے راوی اگرچہ ثقہ ہیں لیکن یہ حدیث منکر بلکہ بعید نہیں موضوع ہے۔

دوسری جگہ لکھا:

هذا وإن كان رواته ثقات، فهو منكر، وليس ببعيد من الوضع (المستدرك على الصحيحين، 4640)
حدیث باطل ہے معلوم نہیں کس نے دھوکہ دیا کیونکہ بیان کرنے والے تمام راوۃ ثقہ ہیں۔



FB_IMG_1677386948294.jpg



پس روافض کی وکالت کرنے والوں سے عرض ہے کہ رجال ثقہ دیکھ کر صحابی رسول کی تنقیص کرنا اپنی آخرت برباد کرنا ہے۔

الجواب 02 : الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم نامی کتاب کی سند میں ایک راوی موجود ہے جو مجہول الحال ہے، اور یہ سند کی گھڑونت اسکی کی کارستانی لگتی ہے۔

الأسم : عبد الرحمن بن محمد بن أحمد بن عبد الرحمن
عبد الرحمن بن أبي بكر الذكواني , الكنيه: أبو القاسم
الرتبة : مجهول الحال


الجواب 03 : نیم رافضی نے قَرْحَةٌ کا ترجمہ پرانہ پھوڑے سے کیا ہے۔ اب یہی لفظ حدیث میں امی عائشہ اور خود رسول اللہ صلی اللہ وسلم کیلئے آیا ہے وہاں اسکا ترجمہ زخم سے کیا گیا ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ، - وَاللَّفْظُ لِابْنِ أَبِي عُمَرَ - قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ رَبِّهِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا اشْتَكَى الْإِنْسَانُ الشَّيْءَ مِنْهُ، أَوْ كَانَتْ بِهِ قَرْحَةٌ أَوْ جُرْحٌ، قَالَ: النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِإِصْبَعِهِ هَكَذَا (صحیح مسلم: 5719)


IMG_20230226_081001_820.jpg



حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ الخَيَّاطُ قَالَ: حَدَّثَنَا فَائِدٌ، مَوْلًى لِآلِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ جَدَّتِهِ سَلْمَى، وَكَانَتْ تَخْدُمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: «مَا كَانَ يَكُونُ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرْحَةٌ وَلَا نَكْبَةٌ إِلَّا أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَضَعَ عَلَيْهَا الحِنَّاءَ» (سنن ترمذی : 2054)

IMG_20230226_082843_442.jpg



الجواب 04 : علامہ وحید الزمان حیدرآبادی نے لغات الحدیث میں قرحہ کا ترجمہ زخم سے کیا ہے۔ حوالہ اسکین کے ساتھ۔


IMG_20230226_084237_511.jpg



IMG_20230226_084244_345.jpg



الجواب 05 : طبقات ابن سعد کی ثقہ اور نازل سند سے مروی روایت ہے :

قَالَ: أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ الْكِلابِيُّ وَعَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ قَالا: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلالٍ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ حِينَ أَصَابَتْهُ قَرْحَتُهُ فَقَالَ: هَلُمَّ يَا ابْنَ أَخِي تَحَوَّلْ فَانْظُرْ. قَالَ: فَتَحَوَّلْتُ فَنَظَرْتُ فَإِذَا هِيَ قَدْ سَبَرَتْ. يَعْنِي قَرْحَتَهُ.- فَقُلْتُ: لَيْسَ عَلَيْكَ بَأْسٌ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ. (الطبقات الكبرى، ص: 105)

ابی بردہ سے مروی ہے کہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کو جس وقت زخم لگا تو میں ان کے پاس آیا، انہو نے کہا اے میرے بھائی کے بیٹے، ادھر آو پلٹ کر دیکھو، میں نے پلٹ کر دیکھا تو انکا زخم بھر گیا تھا، میں نے کہا اے امیر المومنین آپ کے لیے کوئی فکر کی بات نہیں ہے۔

رجال :

01- محمد بن سعد الهاشمي , الكنيه: أبو عبد الله،صدوق حسن الحديث

02-عمرو بن عاصم القيسي , الكنيه: أبو عثمان، صدوق حسن الحديث(متوفی 213 ھ)

03-عفان بن مسلم الباهلي , الكنيه: أبو عثمان،ثقة ثبت توفي عام : 220

04- سليمان بن المغيرة القيسي , الكنيه: أبو سعيد، الرتبة : ثقة ثقة

05-حميد بن هلال العدوي , الكنيه: أبو نصر،ثقة

06- أبو بردة بن أبي موسى الأشعري , الكنيه: أبو بردة

اس صحیح سند سے ثابت ہوجاتا ہے کہ امیر المؤمنین سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو جو زخم تھا اللہ نے ان کو اس سے شفاء عطا فرمادی تھی۔


سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی تنقیص کرنے والوں کا رد:

امام ابوبکر الخلال رحمہ اللہ نے روایت نقل کی:

أَخْبَرَنِي أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مَطَرٍ،(ثقة) قَالَ: ثَنَا أَبُو طَالِبٍ،(أحمد بن حميد المشكاني، ثقة ) قَالَ: سَأَلْتُ [ص:448] أَبَا عَبْدِ اللَّهِ: يُكْتَبُ عَنِ الرَّجُلِ، إِذَا قَالَ: مُعَاوِيَةُ مَاتَ عَلَى غَيْرِ الْإِسْلَامِ أَوْ كَافِرٌ؟ قَالَ: " لَا، ثُمَّ قَالَ: لَا يُكَفَّرُ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" (السنة لأبي بكر بن الخلال، 691)

یعنی امام احمد ابن حنبل رحمہ اللہ سے انکے ثقہ شاگرد ابو طالب المشکانی نے پوچھا: اس راوی سے حدیث لی جائیگی جو کہتا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی موت کفر پر ہوئی تھی، تو ابن حنبل نے کہاِ نہیں ایسے راوی سے حدیث نہیں لی جائیگی (متروک الحدیث) رسول اللہ کے اصحاب میں سے کوئی بھی کافر نہیں تھا۔

امام ابن حبان رحمہ اللہ نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی توہین کرنے والے ایک راوی کے بارے میں لکھا:

روى عَنْهُ الْكُوفِيُّونَ كَانَ يشْتم أَصْحَاب مُحَمَّد صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْوِي عَن الثِّقَات الْأَشْيَاء الموضوعات-- وَهُوَ الَّذِي يَرْوِي----رَأَيْتُمْ مُعَاوِيَةَ عَلَى مِنْبَرِي فَاقْتُلُوهُ (المجروحين من المحدثين والضعفاء والمتروكين، 237)

یہ کوفیوں سے روایت کرتا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی توہین کرتا اور ثقہ راویوں کا نام لے لے کر موضوعات بیان کرتا تھا، جیسا کہ اسنے روایت بیان کی کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو منبر پر دیکھو تو قتل کردو۔

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے لکھا:

وَأَوْرَدَ فِيهَا أَحَادِيثَ بَاطِلَةً فِي ذَمِّ مُعَاوِيَةَ (تاریخ ابن کثیر)

یعنی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی توہین او تنقیص میں روایت کردہ احادیث باطل ہیں۔

حافظ ابن قیم الجوزی رحمہ اللہ نے لکھا:

ومن ذلك الأحاديث في ذَمُّ مُعَاوِيَةَ. وَكَلُّ حَدِيثٍ فِي ذَمِّهِ فَهُوَ كذب.(لمنار المنيف في الصحيح والضعيف251-252)

ا
ور ان میں وہ احادیث بھی موجود ہیں جو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پر بہتان لگاتی ہے اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی توہین اور تنقیص میں روایت کردہ تمام احادیث موضوع ہیں۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے يَطْلُعُ عَلَيْكُمْ رَجُلٌ يَمُوتُ عَلَى غَيْرِ سُنَّتِي فَطَلَعَ مُعَاوِيَةُ نقل کرنے کے بعد لکھا

وَيُقَالُ ثَانِيًا: هَذَا الْحَدِيثُ مِنَ الْكَذِبِ الْمَوْضُوعِ بِاتِّفَاقِ أَهْلِ الْمَعْرِفَةِ بِالْحَدِيثِ (منهاج السنة النبوية في نقض كلام الشيعة القدرية)

یہ روایت جھوٹی ہے اور اسکے موضوع ہونے پر اہلحدیث میں اجماع اور اتفاق ہے۔

ملا علی قاری حنفی رحمہ اللہ نے لکھا:

وَكَذَا مَا وَضَعَهُ الْكَذَّابُونَ أَيْضًا فِي ذَمِّهِمَا وَمِنْ ذَلِكَ الْأَحَادِيثُ فِي ذَمِّ مُعَاوِيةَ- (الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة المعروف بالموضوعات الكبرى)

اور اسی طرح جھوٹے کذاب راویوں نے صحابہ کی توہین میں روایات گھڑی ، بشمول وہ احادیث جو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی مذمت کرتی ہیں۔
 
Last edited:

محمد عثمان غنی

طالب علم
Staff member
ناظم اعلی
کیا سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی موت دبیلہ پھوڑے سے ہوئی تھی؟



بسم الله الرحمن الرحیم

روافض خناس اکثر مسلمانوں میں یہ وسوسہ ڈالتے ہیں کہ صحابی رسول سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کہ موت دبیلہ پھوڑے سے ہوئی تھی معاذ اللہ۔ روافض پہلے مسلم کی روایت نقل کرتے ہیں کہ منافقین کی علامت دبیلہ ہے اور پھر دبیلہ کا ترجمہ پھوڑا سے کرتے ہیں پھر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں تنقیص کرتے ہوئے انکے ایک زخم کا حوالہ دیتے ہیں اور وہاں زخم کو عربی میں قرحۃ لکھا ہوتا ہے لیکن روافض ان کی جہالت و مکاری دکھاتے ہوئے اس کا ترجمہ پرانے پھوڑے سے کرتے ہیں اور پھر الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم کی ایک مردود روایت نقل کر کہتے ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی موت اسی پرانے پھوڑے سے ہوئی ۔ معاذ اللہ اور لعنت اللہ علی الکاذبین۔

دبیلہ کا مطلب:

اللہ نے قرآن میں منافقین کے بارے میں فرمایا:

ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا فَطُبِعَ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا يَفْقَهُونَ

یہ اس سبب ہے کہ ایمان لا کر پھر کافر ہوگئے پس اُن کے دلوں پر مہر لگادی گئی، اب یہ سمجھتے نہیں۔ [سورۃ المنافقون، آیت: 3]

صحیح مسلم کی حدیث ہے رسول اللہ نے منافقین کی نشانی میں فرمایا کہ ان کو دبیلہ کفایت کرے گا، اور دبیلہ کیا ہے اس کی وضاحت اسی حدیث میں موجود ہے کہ :

تَكْفِيكَهُمُ الدُّبَيْلَةُ، سِرَاجٌ مِنَ النَّارِ يَظْهَرُ فِي أَكْتَافِهِمْ، حَتَّى يَنْجُمَ مِنْ صُدُورِهِمْ (صحیح مسلم: 2779)

یعنی یہ اگ کا چراغ سراج من النار ہے۔

FB_IMG_1677385792510.jpg




تفسیر ابن کثیر میں حذیفہ کی سند سے مروی ہے:

فقال ستة منهم تكفيهم الدُّبَيْلَةُ سِرَاجٌ مِنْ نَارِ جَهَنَّمَ (تفسير ابن كثير، 4/180)
یعنی دبیلہ سے مراد جہنم کی آگ کا انگارہ ہوگا۔



IMG_20230226_073317.jpg



علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے روایت نقل فرمائی:

تُكْفِهُمُ الدُّبَيْلَةُ. قُلْنَا: وَمَا الدُّبَيْلَةُ؟ قَالَ: شِهَابٌ مِنْ نَارٍ يُوضَعُ عَلَى نِيَاطِ قَلْبِ أَحَدِهِمْ فَيَقْتُلُهُ (مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 422)
یعنی رسول اللہ سے پوچھا گیا کہ یہ دبیلہ کیا ہے؟ تو فرمایا کہ آگ کا شعلہ ہے جو ان میں سے کسی کے دل کی رگ پر پڑے گا تو وہ ہلاک ہوجائے گا۔


IMG_20230226_073728.jpg



امام نووی رحمہ اللہ نے مسلم کی شرح میں لکھا:

وأما ( الدبيلة ) فبدال مهملة ثم باء موحدة وقد فسرها في الحديث بسراج من نار (شرح النووي على مسلم، 17/125)
دبیلہ کی وضاحت حدیث میں آگ کے چراغ سے کی گئی ہے۔


IMG_20230226_073909.jpg



پس ان تمام تصریحات سے ثابت ہے کہ منافقین یعنی کفار کیلئے دبیلہ نامی آفت کافی ہوگی، اور وہ دوزخ کے آگ کا شعلہ ہوگا، حدیث کی تشریح حدیث سے ہی کی جاتی ہے، یہاں عربی لغت استعمال کرنی کی ضرورت نہیں۔

قَرْحَةٌ کا مطلب:

روافض کی جانب سے الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم سے ایک روایت پیش کی جاتی ہے اور یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں۔

حَدَّثَنَا هُدْبَةُ بْنُ خَالِدِ بْنِ هُدْبَةَ الْقَيْسِيُّ، ثنا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى مُعَاوِيَةَ وَبِهِ قُرْحَتُهُ الَّتِي مَاتَ فِيهَا (الآحاد والمثاني، 517)
یعنی معاویہ رضی اللہ عنہ کی موت اسی (قُرْحَتُهُ الَّتِي مَاتَ فِيهَا) سے ہوئی۔



FB_IMG_1677386564053.jpg



الجواب 01 : رجال کا ثقہ ہونا حدیث کے صحیح ہونے کو لازم نہیں ہے۔

حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے فرمایا:


وهو أيضا باطل، ما أدرى من يغش فيه، فإن هؤلاء ثقات.(ميزان الاعتدال في نقد الرجال3/610)
اسکے راوی اگرچہ ثقہ ہیں لیکن یہ حدیث منکر بلکہ بعید نہیں موضوع ہے۔

دوسری جگہ لکھا:

هذا وإن كان رواته ثقات، فهو منكر، وليس ببعيد من الوضع (المستدرك على الصحيحين، 4640)
حدیث باطل ہے معلوم نہیں کس نے دھوکہ دیا کیونکہ بیان کرنے والے تمام راوۃ ثقہ ہیں۔



FB_IMG_1677386948294.jpg



پس روافض کی وکالت کرنے والوں سے عرض ہے کہ رجال ثقہ دیکھ کر صحابی رسول کی تنقیص کرنا اپنی آخرت برباد کرنا ہے۔

الجواب 02 : الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم نامی کتاب کی سند میں ایک راوی موجود ہے جو مجہول الحال ہے، اور یہ سند کی گھڑونت اسکی کی کارستانی لگتی ہے۔

الأسم : عبد الرحمن بن محمد بن أحمد بن عبد الرحمن
عبد الرحمن بن أبي بكر الذكواني , الكنيه: أبو القاسم
الرتبة : مجهول الحال


الجواب 03 : نیم رافضی نے قَرْحَةٌ کا ترجمہ پرانہ پھوڑے سے کیا ہے۔ اب یہی لفظ حدیث میں امی عائشہ اور خود رسول اللہ صلی اللہ وسلم کیلئے آیا ہے وہاں اسکا ترجمہ زخم سے کیا گیا ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ، - وَاللَّفْظُ لِابْنِ أَبِي عُمَرَ - قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ رَبِّهِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا اشْتَكَى الْإِنْسَانُ الشَّيْءَ مِنْهُ، أَوْ كَانَتْ بِهِ قَرْحَةٌ أَوْ جُرْحٌ، قَالَ: النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِإِصْبَعِهِ هَكَذَا (صحیح مسلم: 5719)


IMG_20230226_081001_820.jpg



حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ الخَيَّاطُ قَالَ: حَدَّثَنَا فَائِدٌ، مَوْلًى لِآلِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ جَدَّتِهِ سَلْمَى، وَكَانَتْ تَخْدُمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: «مَا كَانَ يَكُونُ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرْحَةٌ وَلَا نَكْبَةٌ إِلَّا أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَضَعَ عَلَيْهَا الحِنَّاءَ» (سنن ترمذی : 2054)

IMG_20230226_082843_442.jpg



الجواب 04 : علامہ وحید الزمان حیدرآبادی نے لغات الحدیث میں قرحہ کا ترجمہ زخم سے کیا ہے۔ حوالہ اسکین کے ساتھ۔


IMG_20230226_084237_511.jpg



IMG_20230226_084244_345.jpg



الجواب 05 : طبقات ابن سعد کی ثقہ اور نازل سند سے مروی روایت ہے :

قَالَ: أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ الْكِلابِيُّ وَعَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ قَالا: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلالٍ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ حِينَ أَصَابَتْهُ قَرْحَتُهُ فَقَالَ: هَلُمَّ يَا ابْنَ أَخِي تَحَوَّلْ فَانْظُرْ. قَالَ: فَتَحَوَّلْتُ فَنَظَرْتُ فَإِذَا هِيَ قَدْ سَبَرَتْ. يَعْنِي قَرْحَتَهُ.- فَقُلْتُ: لَيْسَ عَلَيْكَ بَأْسٌ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ. (الطبقات الكبرى، ص: 105)

ابی بردہ سے مروی ہے کہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کو جس وقت زخم لگا تو میں ان کے پاس آیا، انہو نے کہا اے میرے بھائی کے بیٹے، ادھر آو پلٹ کر دیکھو، میں نے پلٹ کر دیکھا تو انکا زخم بھر گیا تھا، میں نے کہا اے امیر المومنین آپ کے لیے کوئی فکر کی بات نہیں ہے۔

رجال :

01- محمد بن سعد الهاشمي , الكنيه: أبو عبد الله،صدوق حسن الحديث

02-عمرو بن عاصم القيسي , الكنيه: أبو عثمان، صدوق حسن الحديث(متوفی 213 ھ)

03-عفان بن مسلم الباهلي , الكنيه: أبو عثمان،ثقة ثبت توفي عام : 220

04- سليمان بن المغيرة القيسي , الكنيه: أبو سعيد، الرتبة : ثقة ثقة

05-حميد بن هلال العدوي , الكنيه: أبو نصر،ثقة

06- أبو بردة بن أبي موسى الأشعري , الكنيه: أبو بردة

اس صحیح سند سے ثابت ہوجاتا ہے کہ امیر المؤمنین سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو جو زخم تھا اللہ نے ان کو اس سے شفاء عطا فرمادی تھی۔


سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی تنقیص کرنے والوں کا رد:

امام ابوبکر الخلال رحمہ اللہ نے روایت نقل کی:

أَخْبَرَنِي أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مَطَرٍ،(ثقة) قَالَ: ثَنَا أَبُو طَالِبٍ،(أحمد بن حميد المشكاني، ثقة ) قَالَ: سَأَلْتُ [ص:448] أَبَا عَبْدِ اللَّهِ: يُكْتَبُ عَنِ الرَّجُلِ، إِذَا قَالَ: مُعَاوِيَةُ مَاتَ عَلَى غَيْرِ الْإِسْلَامِ أَوْ كَافِرٌ؟ قَالَ: " لَا، ثُمَّ قَالَ: لَا يُكَفَّرُ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" (السنة لأبي بكر بن الخلال، 691)

یعنی امام احمد ابن حنبل رحمہ اللہ سے انکے ثقہ شاگرد ابو طالب المشکانی نے پوچھا: اس راوی سے حدیث لی جائیگی جو کہتا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی موت کفر پر ہوئی تھی، تو ابن حنبل نے کہاِ نہیں ایسے راوی سے حدیث نہیں لی جائیگی (متروک الحدیث) رسول اللہ کے اصحاب میں سے کوئی بھی کافر نہیں تھا۔

امام ابن حبان رحمہ اللہ نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی توہین کرنے والے ایک راوی کے بارے میں لکھا:

روى عَنْهُ الْكُوفِيُّونَ كَانَ يشْتم أَصْحَاب مُحَمَّد صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْوِي عَن الثِّقَات الْأَشْيَاء الموضوعات-- وَهُوَ الَّذِي يَرْوِي----رَأَيْتُمْ مُعَاوِيَةَ عَلَى مِنْبَرِي فَاقْتُلُوهُ (المجروحين من المحدثين والضعفاء والمتروكين، 237)

یہ کوفیوں سے روایت کرتا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی توہین کرتا اور ثقہ راویوں کا نام لے لے کر موضوعات بیان کرتا تھا، جیسا کہ اسنے روایت بیان کی کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو منبر پر دیکھو تو قتل کردو۔

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے لکھا:

وَأَوْرَدَ فِيهَا أَحَادِيثَ بَاطِلَةً فِي ذَمِّ مُعَاوِيَةَ (تاریخ ابن کثیر)

یعنی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی توہین او تنقیص میں روایت کردہ احادیث باطل ہیں۔

حافظ ابن قیم الجوزی رحمہ اللہ نے لکھا:

ومن ذلك الأحاديث في ذَمُّ مُعَاوِيَةَ. وَكَلُّ حَدِيثٍ فِي ذَمِّهِ فَهُوَ كذب.(لمنار المنيف في الصحيح والضعيف251-252)

ا
ور ان میں وہ احادیث بھی موجود ہیں جو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پر بہتان لگاتی ہے اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی توہین اور تنقیص میں روایت کردہ تمام احادیث موضوع ہیں۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے يَطْلُعُ عَلَيْكُمْ رَجُلٌ يَمُوتُ عَلَى غَيْرِ سُنَّتِي فَطَلَعَ مُعَاوِيَةُ نقل کرنے کے بعد لکھا

وَيُقَالُ ثَانِيًا: هَذَا الْحَدِيثُ مِنَ الْكَذِبِ الْمَوْضُوعِ بِاتِّفَاقِ أَهْلِ الْمَعْرِفَةِ بِالْحَدِيثِ (منهاج السنة النبوية في نقض كلام الشيعة القدرية)

یہ روایت جھوٹی ہے اور اسکے موضوع ہونے پر اہلحدیث میں اجماع اور اتفاق ہے۔

ملا علی قاری حنفی رحمہ اللہ نے لکھا:

وَكَذَا مَا وَضَعَهُ الْكَذَّابُونَ أَيْضًا فِي ذَمِّهِمَا وَمِنْ ذَلِكَ الْأَحَادِيثُ فِي ذَمِّ مُعَاوِيةَ- (الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة المعروف بالموضوعات الكبرى)

اور اسی طرح جھوٹے کذاب راویوں نے صحابہ کی توہین میں روایات گھڑی ، بشمول وہ احادیث جو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی مذمت کرتی ہیں۔
علمی و تحقیقی پوسٹ ہے۔۔ لیکن تحقیق اعتدال کا عکس ہو تی۔ ایک محقق کو تحقیق میں نرم گوئی سے کام لینا چاہیے۔ ۔ ۔ ۔ محقق معتدل مزاج ہوتا ہے۔ ۔اور اصولِ شریعت بھی ہے کہ اعتدلو ھو اقرب للتقویٰ۔۔۔۔۔ ہرلفظ کو پہلے تولنا اور پھر بولنا ایک محقق کا کام ہے۔۔۔
 

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
کیا سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی موت دبیلہ پھوڑے سے ہوئی تھی؟



بسم الله الرحمن الرحیم

روافض خناس اکثر مسلمانوں میں یہ وسوسہ ڈالتے ہیں کہ صحابی رسول سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کہ موت دبیلہ پھوڑے سے ہوئی تھی معاذ اللہ۔ روافض پہلے مسلم کی روایت نقل کرتے ہیں کہ منافقین کی علامت دبیلہ ہے اور پھر دبیلہ کا ترجمہ پھوڑا سے کرتے ہیں پھر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں تنقیص کرتے ہوئے انکے ایک زخم کا حوالہ دیتے ہیں اور وہاں زخم کو عربی میں قرحۃ لکھا ہوتا ہے لیکن روافض ان کی جہالت و مکاری دکھاتے ہوئے اس کا ترجمہ پرانے پھوڑے سے کرتے ہیں اور پھر الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم کی ایک مردود روایت نقل کر کہتے ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی موت اسی پرانے پھوڑے سے ہوئی ۔ معاذ اللہ اور لعنت اللہ علی الکاذبین۔

دبیلہ کا مطلب:

اللہ نے قرآن میں منافقین کے بارے میں فرمایا:

ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا فَطُبِعَ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا يَفْقَهُونَ

یہ اس سبب ہے کہ ایمان لا کر پھر کافر ہوگئے پس اُن کے دلوں پر مہر لگادی گئی، اب یہ سمجھتے نہیں۔
[سورۃ المنافقون، آیت: 3]

صحیح مسلم کی حدیث ہے رسول اللہ نے منافقین کی نشانی میں فرمایا کہ ان کو دبیلہ کفایت کرے گا، اور دبیلہ کیا ہے اس کی وضاحت اسی حدیث میں موجود ہے کہ :

تَكْفِيكَهُمُ الدُّبَيْلَةُ، سِرَاجٌ مِنَ النَّارِ يَظْهَرُ فِي أَكْتَافِهِمْ، حَتَّى يَنْجُمَ مِنْ صُدُورِهِمْ (صحیح مسلم: 2779)

یعنی یہ اگ کا چراغ سراج من النار ہے۔

FB_IMG_1677385792510.jpg




تفسیر ابن کثیر میں حذیفہ کی سند سے مروی ہے:

فقال ستة منهم تكفيهم الدُّبَيْلَةُ سِرَاجٌ مِنْ نَارِ جَهَنَّمَ (تفسير ابن كثير، 4/180)
یعنی دبیلہ سے مراد جہنم کی آگ کا انگارہ ہوگا۔



IMG_20230226_073317.jpg



علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے روایت نقل فرمائی:

تُكْفِهُمُ الدُّبَيْلَةُ. قُلْنَا: وَمَا الدُّبَيْلَةُ؟ قَالَ: شِهَابٌ مِنْ نَارٍ يُوضَعُ عَلَى نِيَاطِ قَلْبِ أَحَدِهِمْ فَيَقْتُلُهُ (مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 422)
یعنی رسول اللہ سے پوچھا گیا کہ یہ دبیلہ کیا ہے؟ تو فرمایا کہ آگ کا شعلہ ہے جو ان میں سے کسی کے دل کی رگ پر پڑے گا تو وہ ہلاک ہوجائے گا۔


IMG_20230226_073728.jpg



امام نووی رحمہ اللہ نے مسلم کی شرح میں لکھا:

وأما ( الدبيلة ) فبدال مهملة ثم باء موحدة وقد فسرها في الحديث بسراج من نار (شرح النووي على مسلم، 17/125)
دبیلہ کی وضاحت حدیث میں آگ کے چراغ سے کی گئی ہے۔


IMG_20230226_073909.jpg



پس ان تمام تصریحات سے ثابت ہے کہ منافقین یعنی کفار کیلئے دبیلہ نامی آفت کافی ہوگی، اور وہ دوزخ کے آگ کا شعلہ ہوگا، حدیث کی تشریح حدیث سے ہی کی جاتی ہے، یہاں عربی لغت استعمال کرنی کی ضرورت نہیں۔

قَرْحَةٌ کا مطلب:

روافض کی جانب سے الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم سے ایک روایت پیش کی جاتی ہے اور یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں۔

حَدَّثَنَا هُدْبَةُ بْنُ خَالِدِ بْنِ هُدْبَةَ الْقَيْسِيُّ، ثنا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى مُعَاوِيَةَ وَبِهِ قُرْحَتُهُ الَّتِي مَاتَ فِيهَا (الآحاد والمثاني، 517)
یعنی معاویہ رضی اللہ عنہ کی موت اسی (قُرْحَتُهُ الَّتِي مَاتَ فِيهَا) سے ہوئی۔



FB_IMG_1677386564053.jpg



الجواب 01 : رجال کا ثقہ ہونا حدیث کے صحیح ہونے کو لازم نہیں ہے۔

حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے فرمایا:


وهو أيضا باطل، ما أدرى من يغش فيه، فإن هؤلاء ثقات.(ميزان الاعتدال في نقد الرجال3/610)
اسکے راوی اگرچہ ثقہ ہیں لیکن یہ حدیث منکر بلکہ بعید نہیں موضوع ہے۔

دوسری جگہ لکھا:

هذا وإن كان رواته ثقات، فهو منكر، وليس ببعيد من الوضع (المستدرك على الصحيحين، 4640)
حدیث باطل ہے معلوم نہیں کس نے دھوکہ دیا کیونکہ بیان کرنے والے تمام راوۃ ثقہ ہیں۔



FB_IMG_1677386948294.jpg



پس روافض کی وکالت کرنے والوں سے عرض ہے کہ رجال ثقہ دیکھ کر صحابی رسول کی تنقیص کرنا اپنی آخرت برباد کرنا ہے۔

الجواب 02 : الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم نامی کتاب کی سند میں ایک راوی موجود ہے جو مجہول الحال ہے، اور یہ سند کی گھڑونت اسکی کی کارستانی لگتی ہے۔

الأسم : عبد الرحمن بن محمد بن أحمد بن عبد الرحمن
عبد الرحمن بن أبي بكر الذكواني , الكنيه: أبو القاسم
الرتبة : مجهول الحال


الجواب 03 : نیم رافضی نے قَرْحَةٌ کا ترجمہ پرانہ پھوڑے سے کیا ہے۔ اب یہی لفظ حدیث میں امی عائشہ اور خود رسول اللہ صلی اللہ وسلم کیلئے آیا ہے وہاں اسکا ترجمہ زخم سے کیا گیا ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ، - وَاللَّفْظُ لِابْنِ أَبِي عُمَرَ - قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ رَبِّهِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا اشْتَكَى الْإِنْسَانُ الشَّيْءَ مِنْهُ، أَوْ كَانَتْ بِهِ قَرْحَةٌ أَوْ جُرْحٌ، قَالَ: النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِإِصْبَعِهِ هَكَذَا (صحیح مسلم: 5719)


IMG_20230226_081001_820.jpg



حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ الخَيَّاطُ قَالَ: حَدَّثَنَا فَائِدٌ، مَوْلًى لِآلِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ جَدَّتِهِ سَلْمَى، وَكَانَتْ تَخْدُمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: «مَا كَانَ يَكُونُ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرْحَةٌ وَلَا نَكْبَةٌ إِلَّا أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَضَعَ عَلَيْهَا الحِنَّاءَ» (سنن ترمذی : 2054)

IMG_20230226_082843_442.jpg



الجواب 04 : علامہ وحید الزمان حیدرآبادی نے لغات الحدیث میں قرحہ کا ترجمہ زخم سے کیا ہے۔ حوالہ اسکین کے ساتھ۔


IMG_20230226_084237_511.jpg



IMG_20230226_084244_345.jpg



الجواب 05 : طبقات ابن سعد کی ثقہ اور نازل سند سے مروی روایت ہے :

قَالَ: أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ الْكِلابِيُّ وَعَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ قَالا: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلالٍ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ حِينَ أَصَابَتْهُ قَرْحَتُهُ فَقَالَ: هَلُمَّ يَا ابْنَ أَخِي تَحَوَّلْ فَانْظُرْ. قَالَ: فَتَحَوَّلْتُ فَنَظَرْتُ فَإِذَا هِيَ قَدْ سَبَرَتْ. يَعْنِي قَرْحَتَهُ.- فَقُلْتُ: لَيْسَ عَلَيْكَ بَأْسٌ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ. (الطبقات الكبرى، ص: 105)

ابی بردہ سے مروی ہے کہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کو جس وقت زخم لگا تو میں ان کے پاس آیا، انہو نے کہا اے میرے بھائی کے بیٹے، ادھر آو پلٹ کر دیکھو، میں نے پلٹ کر دیکھا تو انکا زخم بھر گیا تھا، میں نے کہا اے امیر المومنین آپ کے لیے کوئی فکر کی بات نہیں ہے۔

رجال :

01- محمد بن سعد الهاشمي , الكنيه: أبو عبد الله،صدوق حسن الحديث

02-عمرو بن عاصم القيسي , الكنيه: أبو عثمان، صدوق حسن الحديث(متوفی 213 ھ)

03-عفان بن مسلم الباهلي , الكنيه: أبو عثمان،ثقة ثبت توفي عام : 220

04- سليمان بن المغيرة القيسي , الكنيه: أبو سعيد، الرتبة : ثقة ثقة

05-حميد بن هلال العدوي , الكنيه: أبو نصر،ثقة

06- أبو بردة بن أبي موسى الأشعري , الكنيه: أبو بردة

اس صحیح سند سے ثابت ہوجاتا ہے کہ امیر المؤمنین سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو جو زخم تھا اللہ نے ان کو اس سے شفاء عطا فرمادی تھی۔


سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی تنقیص کرنے والوں کا رد:

امام ابوبکر الخلال رحمہ اللہ نے روایت نقل کی:

أَخْبَرَنِي أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مَطَرٍ،(ثقة) قَالَ: ثَنَا أَبُو طَالِبٍ،(أحمد بن حميد المشكاني، ثقة ) قَالَ: سَأَلْتُ [ص:448] أَبَا عَبْدِ اللَّهِ: يُكْتَبُ عَنِ الرَّجُلِ، إِذَا قَالَ: مُعَاوِيَةُ مَاتَ عَلَى غَيْرِ الْإِسْلَامِ أَوْ كَافِرٌ؟ قَالَ: " لَا، ثُمَّ قَالَ: لَا يُكَفَّرُ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" (السنة لأبي بكر بن الخلال، 691)

یعنی امام احمد ابن حنبل رحمہ اللہ سے انکے ثقہ شاگرد ابو طالب المشکانی نے پوچھا: اس راوی سے حدیث لی جائیگی جو کہتا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی موت کفر پر ہوئی تھی، تو ابن حنبل نے کہاِ نہیں ایسے راوی سے حدیث نہیں لی جائیگی (متروک الحدیث) رسول اللہ کے اصحاب میں سے کوئی بھی کافر نہیں تھا۔

امام ابن حبان رحمہ اللہ نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی توہین کرنے والے ایک راوی کے بارے میں لکھا:

روى عَنْهُ الْكُوفِيُّونَ كَانَ يشْتم أَصْحَاب مُحَمَّد صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْوِي عَن الثِّقَات الْأَشْيَاء الموضوعات-- وَهُوَ الَّذِي يَرْوِي----رَأَيْتُمْ مُعَاوِيَةَ عَلَى مِنْبَرِي فَاقْتُلُوهُ (المجروحين من المحدثين والضعفاء والمتروكين، 237)

یہ کوفیوں سے روایت کرتا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی توہین کرتا اور ثقہ راویوں کا نام لے لے کر موضوعات بیان کرتا تھا، جیسا کہ اسنے روایت بیان کی کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو منبر پر دیکھو تو قتل کردو۔

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے لکھا:

وَأَوْرَدَ فِيهَا أَحَادِيثَ بَاطِلَةً فِي ذَمِّ مُعَاوِيَةَ (تاریخ ابن کثیر)

یعنی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی توہین او تنقیص میں روایت کردہ احادیث باطل ہیں۔

حافظ ابن قیم الجوزی رحمہ اللہ نے لکھا:

ومن ذلك الأحاديث في ذَمُّ مُعَاوِيَةَ. وَكَلُّ حَدِيثٍ فِي ذَمِّهِ فَهُوَ كذب.(لمنار المنيف في الصحيح والضعيف251-252)

ا
ور ان میں وہ احادیث بھی موجود ہیں جو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پر بہتان لگاتی ہے اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی توہین اور تنقیص میں روایت کردہ تمام احادیث موضوع ہیں۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے يَطْلُعُ عَلَيْكُمْ رَجُلٌ يَمُوتُ عَلَى غَيْرِ سُنَّتِي فَطَلَعَ مُعَاوِيَةُ نقل کرنے کے بعد لکھا

وَيُقَالُ ثَانِيًا: هَذَا الْحَدِيثُ مِنَ الْكَذِبِ الْمَوْضُوعِ بِاتِّفَاقِ أَهْلِ الْمَعْرِفَةِ بِالْحَدِيثِ (منهاج السنة النبوية في نقض كلام الشيعة القدرية)

یہ روایت جھوٹی ہے اور اسکے موضوع ہونے پر اہلحدیث میں اجماع اور اتفاق ہے۔

ملا علی قاری حنفی رحمہ اللہ نے لکھا:

وَكَذَا مَا وَضَعَهُ الْكَذَّابُونَ أَيْضًا فِي ذَمِّهِمَا وَمِنْ ذَلِكَ الْأَحَادِيثُ فِي ذَمِّ مُعَاوِيةَ- (الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة المعروف بالموضوعات الكبرى)

اور اسی طرح جھوٹے کذاب راویوں نے صحابہ کی توہین میں روایات گھڑی ، بشمول وہ احادیث جو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی مذمت کرتی ہیں۔
ماشاءاللہ بہت خوب جزاک اللہ خیرا کثیرا
 

محمد نبیل خان

وفقہ اللہ
رکن
علمی و تحقیقی پوسٹ ہے۔۔ لیکن تحقیق اعتدال کا عکس ہو تی۔ ایک محقق کو تحقیق میں نرم گوئی سے کام لینا چاہیے۔ ۔ ۔ ۔ محقق معتدل مزاج ہوتا ہے۔ ۔اور اصولِ شریعت بھی ہے کہ اعتدلو ھو اقرب للتقویٰ۔۔۔۔۔ ہرلفظ کو پہلے تولنا اور پھر بولنا ایک محقق کا کام ہے۔۔۔
ماشاءاللہ
مدلل تحریر ہے
 

محمد عثمان غنی

طالب علم
Staff member
ناظم اعلی
دلیل کے ساتھ محقق میں معتدل مزاجی بھی ضروری ہے۔۔۔۔۔
امتِ مسلمہ کو ’’امتِ وسط‘‘ کہا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :

وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا.

’’اور (اے مسلمانو!) اسی طرح ہم نے تمہیں (اعتدال والی) بہتر امت بنایا۔‘‘

البقرة، 2 : 143
 

ابو داؤد

طالب علم
رکن
علمی و تحقیقی پوسٹ ہے۔۔ لیکن تحقیق اعتدال کا عکس ہو تی۔ ایک محقق کو تحقیق میں نرم گوئی سے کام لینا چاہیے۔ ۔ ۔ ۔ محقق معتدل مزاج ہوتا ہے۔ ۔اور اصولِ شریعت بھی ہے کہ اعتدلو ھو اقرب للتقویٰ۔۔۔۔۔ ہرلفظ کو پہلے تولنا اور پھر بولنا ایک محقق کا کام ہے۔۔۔
اس تحریر میں آپ کو بے اعتدالی والی کون سی بات نظر آئی؟
 

محمد عثمان غنی

طالب علم
Staff member
ناظم اعلی
بے اعتدالی کوئی بھی نہیں تھی۔ ماشاء اللہ عمدہ اور مدلل تحریر ہے۔۔۔ انکار نہیں ۔ ۔۔۔۔ انتہائی ابتداء میں جن الفاظ کا استعمال تھا اس کیطرف اشارہ کیا تھا کہ ایک محقق کو تحقیق کے بعد ایسے الفاظ سے گریز کرنا چاہیے۔ مثال کے طور پر "خناس" وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top