رمضان کی آمد سے قبل روزوں کی قضا کرلیں!
بسم الله الرحمن الرحيم
✺ اس بات پر اجماع ہے کہ ماہ رمضان میں مسافر اور بیمار حضرات کو روزے کے متعلق رخصت دی گئی ہے، اور خواتین کو حالتِ حیض ونفاس، روزہ رکھنا حرام قرار دیا گیا ہے، سو ان پر چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا آئندہ رمضان کی آمد سے قبل کر لینا واجب ہے۔
[دیکھئے: مراتب الاجماع :٤۰، ۲۳، المحلی لابن حزم: ٤؍ ۲۸۵، المجموع للنووی: ٦؍ ۲۵۷]
❍ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۗ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ﴾ [البقرۃ: ۱۸۵ ]
جو بیمار ہو یا مسافر ہو اسے دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرنی چاہئے، اللہ تعالیٰ کا ارادہ تمہارے ساتھ آسانی کا ہے، سختی کا نہیں۔
✺ اور جہاں تک ممکن ہو ہمیں اپنے چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا جلد از جلد کر لینی چاہئے، کیونکہ اِس باب میں یہی افضل وبہتر ہے، البتہ اس کے جواز کا وقت ایک رمضان سے دوسرے رمضان کے درمیان تک موسع (کشادہ) ہے۔ [دیکھئے: مرعاۃ المفاتیح: ۲؍ ۲۳]
اس کی دلیل درج ذیل ہے:
❍ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا ازواج مطہرات کے متعلق بیان فرماتی ہیں کہ:
’’إِنْ كَانَتْ إِحْدَانَا لَتُفْطِرُ فِي زَمَانِ رَسُولِ اللهِ ﷺ، فَمَا تَقْدِرُ عَلَى أَنْ تَقْضِيَهُ مَعَ رَسُولِ اللهِ ﷺ، حَتَّى يَأْتِيَ شَعْبَانُ‘‘۔ [صحیح مسلم: ۱۱٤٦]
ہم میں سے کوئی ایک رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں روزہ چھوڑتی تو رسول اللہ ﷺ کی معیت میں اس کی قضا نہ دے پاتی، یہاں تک کہ شعبان آ جاتا۔
❍ نیز م المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے متعلق فرماتی ہیں:
’’كانَ يَكونُ عَلَيَّ الصَّوْمُ مِن رَمَضانَ، فَما أسْتَطِيعُ أنْ أقْضِيَ إلّا في شَعْبانَ. قالَ يَحْيى: الشُّغْلُ مِنَ النبيِّ أوْ بالنبيِّ ﷺ‘‘. [صحیح البخاری: ۱۹۵۰، صحیح مسلم: ۱۱٤٦]
مجھ پر رمضان کے فوت شدہ روزے ہوتے اور میں شعبان کے مہینے کے علاوہ انھیں قضا نہ کرسکتی۔ (راوی حدیث) یحییٰ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں مشغول ہونے کی وجہ سے انھیں قضا کرنے کا وقت نہیں ملتا تھا۔
❍ ایک اور روایت میں مزید اضافہ ہے کہ:
’’مَا كُنْتُ أَقْضِي مَا يَكُونُ عَلَيَّ مِنْ رَمَضَانَ إِلَّا فِي شَعْبَانَ حَتَّى تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ‘‘۔ [سنن الترمذي: ۷۸۳، وصححہ الألبانی]
رمضان کے جو روزے مجھ پر رہ جاتے انہیں میں شعبان ہی میں قضا کر پاتی تھی۔ حتی کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات ہو گئی۔
❍ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وَيُؤْخَذُ مِنْ حِرْصِهَا عَلَى ذَلِكَ فِي شَعْبَانَ أَنَّهُ لَا يَجُوزُ تَأْخِيرُ الْقَضَاءِ حَتَّى يَدْخُلَ رَمَضَانُ [فتح الباری: ٤؍ ۱۹۱]
’’عائشہ رضی اللہ عنہا کا شعبان میں قضاءِ صوم کے تئیں حریص ہونا یہ بتاتا ہے کہ رمضان کے روزوں کی قضاء میں اتنی تاخیر کرنی جائز نہیں کہ دوسرا رمضان شروع ہوجائے‘‘۔
والله أعلم بالصواب و علمه أتم، والسلام