آداب فرزندی
ناصرالدین مظاہری
بچہ سب سے پہلے اپنے والدین سے ہی علم اورادب سیکھتاہے ،پھراپنے اساتذہ سے اپنی صلاحیت اورصالحیت میں تقویت پیداکرتاہے اوراخیرمیں اپنے پیرومرشدکی خدمت میں بیٹھ کر اپنے ضمیرکوروشن،اپنے فکرکومجلٰی اوراپنے آپ کومصفیٰ بناتاہے،ترتیب تویہی صحیح ہے اس میں ذراسی بے ترتیبی فائدے کے بجائے نقصان پہنچاسکتی ہے ،مثلاًپڑھنے کے دنوں میں آپ اپنے بچے کوخانقاہ یا دعوتی دَوروں پرلگادیں توعلم سے محرومی کاسبب ہے،اللہ تعالیٰ کاجونظام ہے اسی نظام کے مطابق زندگی گزارنانفع بخش ہے۔
ایک جگہ جاناہوا،جمعہ کادن تھا،مصلیان نے تقریرکی فرمائش کردی،میں نے سوچاکہ خطبہ سے پہلے پندرہ منٹ گفتگوکرلوں گا،ٹھیک اُس وقت جب میں منبرکی طرف بڑھ رہاتھا،ایک صاحب بالکل منبرکے سامنے پہنچے،نیت باندھی اورسنتیں شروع کردیں،حالانکہ سنتوں کے لئے اب یہ جگہ بالکل مناسب نہیں تھی ،مجبوراً مجھے جگہ بدلنی پڑی۔اسی طرح بعض لوگ دیرمیں آئیں گے اورجگہ امام صاحب کے پیچھے کی قبضائیں گے،بہت سے لوگ توایک دوسرے کوروندتے، پھلانگتے، بندروں کی طرح چھلانگیں اورقلانچیں بھرتے اگلی صف میں پہنچنے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: راستوں میں بیٹھنے اور بلاوجہ کھڑے ہونے سے بچو۔
بہت سے پڑھے لکھے لوگ صف بندی کے باب میں اپنے نکمے پن کاثبوت دیتے ہیں اوراپنے دائیں بائیں اتنافاصلہ رکھتے ہیں کہ شیطان یاشیطان کابچہ گھس سکتاہے ۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادہے :
صفیں سیدھی کرو، اپنے کندھوں کو برابر کر لو، خالی جگہ پر کرو، اور اپنے بھائیوں کیلیے نرمی اپناؤ، شیطان کے لیے خالی جگہ مت چھوڑو، صف ملانے والے کو اللہ تعالی ملاتا ہے اور صف توڑنے والے کو اللہ تعالی توڑ دیتا ہے۔(ابو داود)
بعض جگہ آپ نے بھی دیکھاہوگاکہ پہلی صف مکمل نہیں ہوئی اوردوسری صف بنانی شروع کردی،کچھ لوگ پہلے سے موقع کی تاک میں رہتے ہیں اورسوچ کررکھتے ہیں کہ انھیں جماعت میں کس جگہ کھڑاہوناہے تاکہ سلام پھرتے ہی مسجدسے باہرنکلنے میں آسانی ہوسکے۔حالانکہ یہ چیزآداب نماز،آداب مساجد دونوں کے خلاف ہے ،کچھ لوگ جب راہ فرارنہیں پاتے تومسبوق کے سجدے میں جانے کاانتظارکرتے ہیں اورجیسے ہی مسبوق سجدے میں گیافوراًاس کی پیٹھ کے اوپرسے کودجاتے ہیں۔اب تونمازیوں کے آگے سے نکلنے کاگناہ اتناعام ہوچکاہے کہ شایدلوگ اس کوگناہ ہی نہیں سمجھتے ،حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت وعیدیں اس بارے میں ہیں۔چنانچہ ارشادفرمایا:
اگر نمازی کے آگے سے گزرنے والے کو پتہ ہو کہ اس کی سزا کیا ہے۔ تو وہ چالیس (سال یا مہینہ وہاں) کھڑا انتظار کرتا اور یہ اس کے لیے نمازی کے آگے سے گزرنے سے بہتر ہوتا۔(ترمذی)
دوسری روایت میں ہے کہ اگر اسے گناہ کا اندازہ ہو جائے تو وہ زمین میں دھنس جانے کو اس گناہ کے مقابلے میں اپنے لیے زیادہ آسان سمجھے گا۔
بعض لوگ جمعہ کے دن مسجدکے باہرگپ شپ کرتے رہیں گے اورگھڑی دیکھ دیکھ کرباتیں بھی کرتے رہتے ہیں بعض کوتوکہتے بھی سناکہ ابھی رک جاؤوہاں تقریرچل رہی ہے۔توبھائی تقریرکیاتمہارے فرشتوں کے لئے ہورہی ہے،تم سمجھے سمجھائے ہو؟تمہیں اپنے علم پرغرہ ہے یااپنی جہالت پرنازہے ،اللہ تعالیٰ توفرماتے ہیں کہ جیسے ہی تم اذان جمعہ سنوتومسجدوں کی طرف دوڑپڑو اورتم مسجدوں کے باہرکھڑے ہوکراپنی جراء ت کامظاہرہ اوراللہ تعالیٰ کے حکم کی مخالفت کرتے ہو۔ اگر وقت پرمسجدپہنچتے توممکن تھاکہ سورۃ الکہف کی تلاوت کرلیتے،نمازسے پہلے کی سنتیں پڑھنے کی توفیق مل جاتی،یہ بھی ہوسکتاتھاکہ کچھ دیراللہ اللہ کرلیتے اورمسجدمیں جتنی دیربھی رکاجائے اعتکاف کی نیت کرلی جائے تواعتکاف کاثواب بھی ملتاہے۔
جوصاحب تقریرکررہے ہیں ان کااحسان ہے ،اس ایک تقریرکے لئے انھوں نے اپناموضوع منتخب کرکے اپنی تقریرتیارکی ہے،انھیں پتہ ہے کہ معاشرہ میں کس چیزپرنکیرکی ضرورت ہے ،انھوں نے اپنی ذمہ داری اوردعوتی کرداراداکیاہے اورتم محض وہاں بیٹھ کرتقریربھی نہیں سنناچاہتے ،اسی کاتونتیجہ ہے کہ پوری پوری زندگی گزرجاتی ہے دعائے قنوت یادنہیں ہوتی،التحیات میں غلطیاں ہوتی ہیں،مایجوزبہ الصلوۃ سورتیں یادنہیں ہوپاتی ہیں،لمبے لمبے گانے تویادہیں لیکن چھوٹی چھوٹی آیتیں اورماثوردعائیں یادنہیں ہیں۔ایک دن دوران تقریرایک صاحب سے پوچھ لیاکہ بھائی آپ کوثنایادہے بولے نہیں مجھے تویادنہیں ہے۔
پورے ہفتے میں یہی توایک دن ہوتاہے جس میں آپ کودین کی کچھ باتیں امام صاحب بتاپاتے ہیں اورآپ ان باتوں کوسننے سے بھی دور بھاگتے ہیں،علماء کی تقریریں سنیں کیونکہ یہ حضرات عطرفروخت کرنے والوں کے مانندہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادہے :
’’ نیک اور برے ہم نشین کی مثال کستوری بیچنے والے عطار اور لوہار کی سی ہے۔ مشک بیچنے والے کے پاس سے تم دو اچھائیوں میں سے ایک ضرور ہی پاؤ گے۔ یا مشک ہی خرید لو گے ورنہ کم از کم اس کی خوشبو تو ضرور ہی پا سکو گے۔ باقی رہی لوہار کی بھٹی یا تو وہ تمہارے بدن اور کپڑوں کو جھلسا دے گی ورنہ تم اس کی بدبو تو ضرور ہی پا ؤ گے۔
آپ کامسجدکے باہرکھڑے ہوکرباتیں کرنا گناہ بھی ہوسکتاہے،ممکن ہے اس میں کسی کی غیبت ہوجائے،یہ بھی امکان ہے کہ حقوق اللہ یاحقوق العبادکی پامالی ہوجائے لیکن مسجدمیں یہ تمام خدشات الحمدللہ ختم ہوجاتے ہیں اسی لئے روئے زمین پرسب سے اچھی جگہیں مساجدہیں اورسب سے خراب جگہیں بازارہیں۔
یہ باتیں صرف ایک مسجدیاایک علاقہ کی نہیںہیں ،عموماًمسلمانوں کی یہی کیفیت ہے ،میت کولادکرجنازہ گاہ تک توپہنچادیں گے لیکن نمازجنازہ نہیں پڑھیں گے کیونکہ انھیں عذرہے کہ انھیں نمازجنازہ کاطریقہ معلوم نہیں ہے۔آپ کسی بھی مسجدمیں سروے کرالیجئے اکثریت اپنی نمازوں اوراس کے مطالبات اور تقاضوں سے واقف نہیں ہے۔توپھرآپ ہی فیصلہ کیجئے کہ امت میں سدھار اورصالح افکارکیسے پیداہوں گے۔
نئی نسل کاتواوربھی براحال ہے ،اسے نشے کی لت لگ چکی ہے،فلمیں اس کی زندگی کابیڑہ غرق کرچکی ہیں،سودی کاروبارمیں گلے تک دھنس چکاہے،حرام کاری اورحرام خوری کی دلدل میں پھنس چکاہے،کفرسے قریب اورایمان سے دورہوتا چلا جارہا ہے،پجاریوں سے قریب اورمولویوں سے دورہوتاجارہاہے،نورکی وادی سے نکل کرظلمات کے سمندروں میں سکون کامتلاشی ہے،ایک رب کوناراض کرکے ہزاروں کروڑوں کوراضی کرنے کے جتن کررہاہے۔جب سے مسجدیں خالی ہوئی ہیں تب سے جیل خانے اوراسپتال بھرگئے ہیں۔http://www.algazali.org/index.php?threads/22173/
ایک جگہ جاناہوا،جمعہ کادن تھا،مصلیان نے تقریرکی فرمائش کردی،میں نے سوچاکہ خطبہ سے پہلے پندرہ منٹ گفتگوکرلوں گا،ٹھیک اُس وقت جب میں منبرکی طرف بڑھ رہاتھا،ایک صاحب بالکل منبرکے سامنے پہنچے،نیت باندھی اورسنتیں شروع کردیں،حالانکہ سنتوں کے لئے اب یہ جگہ بالکل مناسب نہیں تھی ،مجبوراً مجھے جگہ بدلنی پڑی۔اسی طرح بعض لوگ دیرمیں آئیں گے اورجگہ امام صاحب کے پیچھے کی قبضائیں گے،بہت سے لوگ توایک دوسرے کوروندتے، پھلانگتے، بندروں کی طرح چھلانگیں اورقلانچیں بھرتے اگلی صف میں پہنچنے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: راستوں میں بیٹھنے اور بلاوجہ کھڑے ہونے سے بچو۔
بہت سے پڑھے لکھے لوگ صف بندی کے باب میں اپنے نکمے پن کاثبوت دیتے ہیں اوراپنے دائیں بائیں اتنافاصلہ رکھتے ہیں کہ شیطان یاشیطان کابچہ گھس سکتاہے ۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادہے :
صفیں سیدھی کرو، اپنے کندھوں کو برابر کر لو، خالی جگہ پر کرو، اور اپنے بھائیوں کیلیے نرمی اپناؤ، شیطان کے لیے خالی جگہ مت چھوڑو، صف ملانے والے کو اللہ تعالی ملاتا ہے اور صف توڑنے والے کو اللہ تعالی توڑ دیتا ہے۔(ابو داود)
بعض جگہ آپ نے بھی دیکھاہوگاکہ پہلی صف مکمل نہیں ہوئی اوردوسری صف بنانی شروع کردی،کچھ لوگ پہلے سے موقع کی تاک میں رہتے ہیں اورسوچ کررکھتے ہیں کہ انھیں جماعت میں کس جگہ کھڑاہوناہے تاکہ سلام پھرتے ہی مسجدسے باہرنکلنے میں آسانی ہوسکے۔حالانکہ یہ چیزآداب نماز،آداب مساجد دونوں کے خلاف ہے ،کچھ لوگ جب راہ فرارنہیں پاتے تومسبوق کے سجدے میں جانے کاانتظارکرتے ہیں اورجیسے ہی مسبوق سجدے میں گیافوراًاس کی پیٹھ کے اوپرسے کودجاتے ہیں۔اب تونمازیوں کے آگے سے نکلنے کاگناہ اتناعام ہوچکاہے کہ شایدلوگ اس کوگناہ ہی نہیں سمجھتے ،حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت وعیدیں اس بارے میں ہیں۔چنانچہ ارشادفرمایا:
اگر نمازی کے آگے سے گزرنے والے کو پتہ ہو کہ اس کی سزا کیا ہے۔ تو وہ چالیس (سال یا مہینہ وہاں) کھڑا انتظار کرتا اور یہ اس کے لیے نمازی کے آگے سے گزرنے سے بہتر ہوتا۔(ترمذی)
دوسری روایت میں ہے کہ اگر اسے گناہ کا اندازہ ہو جائے تو وہ زمین میں دھنس جانے کو اس گناہ کے مقابلے میں اپنے لیے زیادہ آسان سمجھے گا۔
بعض لوگ جمعہ کے دن مسجدکے باہرگپ شپ کرتے رہیں گے اورگھڑی دیکھ دیکھ کرباتیں بھی کرتے رہتے ہیں بعض کوتوکہتے بھی سناکہ ابھی رک جاؤوہاں تقریرچل رہی ہے۔توبھائی تقریرکیاتمہارے فرشتوں کے لئے ہورہی ہے،تم سمجھے سمجھائے ہو؟تمہیں اپنے علم پرغرہ ہے یااپنی جہالت پرنازہے ،اللہ تعالیٰ توفرماتے ہیں کہ جیسے ہی تم اذان جمعہ سنوتومسجدوں کی طرف دوڑپڑو اورتم مسجدوں کے باہرکھڑے ہوکراپنی جراء ت کامظاہرہ اوراللہ تعالیٰ کے حکم کی مخالفت کرتے ہو۔ اگر وقت پرمسجدپہنچتے توممکن تھاکہ سورۃ الکہف کی تلاوت کرلیتے،نمازسے پہلے کی سنتیں پڑھنے کی توفیق مل جاتی،یہ بھی ہوسکتاتھاکہ کچھ دیراللہ اللہ کرلیتے اورمسجدمیں جتنی دیربھی رکاجائے اعتکاف کی نیت کرلی جائے تواعتکاف کاثواب بھی ملتاہے۔
جوصاحب تقریرکررہے ہیں ان کااحسان ہے ،اس ایک تقریرکے لئے انھوں نے اپناموضوع منتخب کرکے اپنی تقریرتیارکی ہے،انھیں پتہ ہے کہ معاشرہ میں کس چیزپرنکیرکی ضرورت ہے ،انھوں نے اپنی ذمہ داری اوردعوتی کرداراداکیاہے اورتم محض وہاں بیٹھ کرتقریربھی نہیں سنناچاہتے ،اسی کاتونتیجہ ہے کہ پوری پوری زندگی گزرجاتی ہے دعائے قنوت یادنہیں ہوتی،التحیات میں غلطیاں ہوتی ہیں،مایجوزبہ الصلوۃ سورتیں یادنہیں ہوپاتی ہیں،لمبے لمبے گانے تویادہیں لیکن چھوٹی چھوٹی آیتیں اورماثوردعائیں یادنہیں ہیں۔ایک دن دوران تقریرایک صاحب سے پوچھ لیاکہ بھائی آپ کوثنایادہے بولے نہیں مجھے تویادنہیں ہے۔
پورے ہفتے میں یہی توایک دن ہوتاہے جس میں آپ کودین کی کچھ باتیں امام صاحب بتاپاتے ہیں اورآپ ان باتوں کوسننے سے بھی دور بھاگتے ہیں،علماء کی تقریریں سنیں کیونکہ یہ حضرات عطرفروخت کرنے والوں کے مانندہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادہے :
’’ نیک اور برے ہم نشین کی مثال کستوری بیچنے والے عطار اور لوہار کی سی ہے۔ مشک بیچنے والے کے پاس سے تم دو اچھائیوں میں سے ایک ضرور ہی پاؤ گے۔ یا مشک ہی خرید لو گے ورنہ کم از کم اس کی خوشبو تو ضرور ہی پا سکو گے۔ باقی رہی لوہار کی بھٹی یا تو وہ تمہارے بدن اور کپڑوں کو جھلسا دے گی ورنہ تم اس کی بدبو تو ضرور ہی پا ؤ گے۔
آپ کامسجدکے باہرکھڑے ہوکرباتیں کرنا گناہ بھی ہوسکتاہے،ممکن ہے اس میں کسی کی غیبت ہوجائے،یہ بھی امکان ہے کہ حقوق اللہ یاحقوق العبادکی پامالی ہوجائے لیکن مسجدمیں یہ تمام خدشات الحمدللہ ختم ہوجاتے ہیں اسی لئے روئے زمین پرسب سے اچھی جگہیں مساجدہیں اورسب سے خراب جگہیں بازارہیں۔
یہ باتیں صرف ایک مسجدیاایک علاقہ کی نہیںہیں ،عموماًمسلمانوں کی یہی کیفیت ہے ،میت کولادکرجنازہ گاہ تک توپہنچادیں گے لیکن نمازجنازہ نہیں پڑھیں گے کیونکہ انھیں عذرہے کہ انھیں نمازجنازہ کاطریقہ معلوم نہیں ہے۔آپ کسی بھی مسجدمیں سروے کرالیجئے اکثریت اپنی نمازوں اوراس کے مطالبات اور تقاضوں سے واقف نہیں ہے۔توپھرآپ ہی فیصلہ کیجئے کہ امت میں سدھار اورصالح افکارکیسے پیداہوں گے۔
نئی نسل کاتواوربھی براحال ہے ،اسے نشے کی لت لگ چکی ہے،فلمیں اس کی زندگی کابیڑہ غرق کرچکی ہیں،سودی کاروبارمیں گلے تک دھنس چکاہے،حرام کاری اورحرام خوری کی دلدل میں پھنس چکاہے،کفرسے قریب اورایمان سے دورہوتا چلا جارہا ہے،پجاریوں سے قریب اورمولویوں سے دورہوتاجارہاہے،نورکی وادی سے نکل کرظلمات کے سمندروں میں سکون کامتلاشی ہے،ایک رب کوناراض کرکے ہزاروں کروڑوں کوراضی کرنے کے جتن کررہاہے۔جب سے مسجدیں خالی ہوئی ہیں تب سے جیل خانے اوراسپتال بھرگئے ہیں۔http://www.algazali.org/index.php?threads/22173/