عازمین حج سے صاف صاف باتیں

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
سنوسنو!!
عازمین حج سے صاف صاف باتیں
ناصرالدین مظاہری
(۱۶؍مئی ۲۰۲۳ء)​

حج کے مبارک دن اورمبارک راتیں قریب سے قریب ترہوتی جارہی ہیں،عازمین حج کی بے قراریاں اوربے تابیاں بڑھتی جارہی ہیں، خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کوارض مقدس کے لئے قبول کرلیاگیاہے اورخوش نصیب ہیں وہ لوگ بھی جواپنے گھراوروطن میں رہتے ہوئے حرم محترم میں حاضری کی تمنائیں اورآرزوئیں اپنے دل میں بسائے ہوئے ہیں۔وہ جگہ ہے ہی ایسی کہ وہاں جانے کے لئے سعیدروحیں ہردم اورہمہ دم بے چین اوربے قراررہتی ہیں۔بہت سی بدنصیب روحیں ایسی بھی ہیں جووسعت ہونے کے باجودوہاں حاضری سے غافل ہیں ، بعض تواتنی بدنصیب ہیں کہ تصورسے ہی بدن پرجھرجھری طاری ہوجاتی ہے۔

مجھ سے میرے ایک کرم فرمانے مدینہ منورہ میں بیان کیاکہ ان کے ایک عزیزاپنے ایک دوست کوعمرے کے لئے اپنے ساتھ مکہ مکرمہ لائے،مکہ مکرمہ پہنچ کرسب سے پہلے ہوٹل پہنچے،وہ دوست مکہ مکرمہ پہنچ کرنہایت ہی بے چین اورمضمحل ہوگیا،اس کی بے چینی اوربے قراری اتنی بڑھی کہ اس نے اپنے ساتھی سے ہندوستان واپسی کی رٹ لگادی،وہ ساتھی سمجھاتے رہے ،مکہ مکرمہ کے فضائل اورمناقب بتاتے رہے لیکن اس کی توایک ہی رٹ تھی کہ نہیں مجھے ابھی واپس جاناہے ،ساتھی نے ہرچندکہاکہ ایک عمرہ ہی کرلو،کعبہ شریف کادیدارتوکرلولیکن وہ نہیں مانا،آخرکاراسی وقت جدہ پہنچ کر واپسی کاٹکٹ لیا اور’’لَوٹ کربدھواپنے گھرپہنچ گیا‘‘۔

اگرآپ تلاش کریں گے تواپنے اریب قریب اس قسم کے واقعات مزیدپاسکتے ہیں،میرامقصدایسے واقعات کااحصااورجمع کرنانہیں ہے بلکہ یہ
بتانامقصودہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادہے:

السعیدمن سعدفی سعدفی بطن امہ الشقی من شقی فی بطن امہ ۔نیک بخت اپنی ماں کے پیٹ سے پیداہوتاہے اوربدنصیب بھی اپنی ماں کے پیٹ سے پیداہوتاہے۔

سنوسنو!!

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادہے :

بچہ جب ماں کے پیٹ میں ہوتاہے تواللہ تعالیٰ فرشتے کے ذریعہ چارباتیں لکھوادیتے ہیں:عمل،رزق،اوروہ بدبخت ہوگایانیک بخت ہوگا۔

حدیث شریف کے الفاظ یہ ہیں جن کوامام بخاری ؒنے اپنی صحیح میں نقل کیاہے:

" ان احدکم یجمع خلقہ فی بطن امہ اربعین یوما، ثم یکون علقۃ مثل ذلک، ثم یکون مضغۃ مثل ذلک، ثم یبعث اللہ ملکا فیؤمر باربع کلمات، ویقال لہ: اکتب عملہ، ورزقہ، واجلہ، وشقی أو سعید، ثم ینفخ فیہ الروح، فان الرجل منکم لیعمل حتی ما یکون بینہ وبین الجنۃ الا ذراع، فیسبق علیہ کتابہ، فیعمل بعملاہل النار، ویعمل حتی ما یکون بینہ وبین النار الا ذراع، فیسبق علیہ الکتاب، فیعمل بعمل أہل الجنۃ "۔( بخاری )

حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کا ارشاد ہے:

فی آخر الزمان یکثرالحاج بالبیت یہون علیہم السفرویبسط علیہم الرزق ویر جعون محرومین مسلوبین۔

آخر زمانہ میں بیت اللہ کے حا جیوں کی کثرت ہوجائے گی ،ان کے لئے سفر کرنا آسان ہوجائے گا اور روزی بافراط ملے گی مگر وہ محروم اور چھنے ہوئے واپس ہوں گے۔

حدیث شریف کے الفاظ’’ویرجعون محرومین مسلوبین‘‘پرتوجہ کیجئے،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیافرماتے ہیں’’محروم اورچھنے ہوئے واپس ہوں گے‘‘گویاجانے سے پہلے کی حالت آنے کے بعدکی حالت سے بہترہوگی،کیونکہ جاتے وقت کم ازکواس کی محرومی اورحرماں نصیبی پرمہرتونہیں لگی تھی ، اسی لئے حضرت مولانامحمدقاسم نانوتویؒارشادفرمایاکرتے تھے :

’’ حجر اسود کسوٹی ہے ،اس کے چھونے سے انسان کی اصل حالت ظاہر ہوجاتی ہے ،اگر واقعی فطرۃً صالح(اور نیک)ہے تو حج کے بعد اعمال صالحہ کا اس پر غلبہ ہوگااور اگر فطرۃً (نالائق اور)طالع ہے محض تصنع(اوربناوٹ)سے نیک بنا ہوا ہے تو حج کے بعد اس پر اعمال سیئہ (برے اعمال)کا غلبہ ہوگا‘‘۔

حضرت تھانویؒ نے اپنی کتاب اصلاح ظاہرمیں اس ملفوظ کو نقل کرنے کے بعد ارشاد فرمایا ہے:

’’یہی وجہ سے خطرہ کی اور اس خطرہ کا علاج یہ ہے کہ حاجی زمانۂ حج میں اللہ تعالیٰ سے اپنے اصلاح حال کی خوب دعا کرے۔ دل سے اعمال صالحہ کے شوق کی دعا کرے اور حج کے بعد اعمال صالحہ کا خوب اہتمام کرے‘‘۔

حج کوئی سند اورڈگری نہیں ہے کہ اس کو کرنے سے آدمی سند یافتہ ہوجائیگا ، بلکہ حج بھی اسلام کاایک اہم رکن ہے ،ایک فرض ہے ،جس فرض کی ادائیگی بلندی ٔ درجات کاباعث اورعند اللہ مسئولیت سے بچنے کا ذریعہ ہے ۔

آج کے دورمیں حج کے نام پر طرح طرح کی بدعات وخرافات جنم لے رہی ہیں ،حج بیت اللہ کے لئے روانگی سے پہلے اپنے عزیزو ں ، دوستوں اورحلقۂ یاراں کوباقاعدہ دعوت نامے بھیجے جاتے ہیں ،انہیں بلایا جاتا ہے، طرح طرح کی تیاریاںکی جاتی ہیں ،شامیانے ،ٹینٹ اورکھانے پینے کا پر تکلف اہتمام ہوتا ہے ، مستورات بھی بنی ٹھنی ،میک اپ سے لدی بے پردہ گھومتی نظر آتی ہیں ،بے پردہ خواتین پر مشتمل کارواںہوائی اڈہ ، ریلوے اسٹیشن یابس اسٹینڈ تک ساتھ جاتا ہے ، فوٹو گرافری ہوتی ہے،محرم اورنامحرم کے فوٹو کھینچے جاتے ہیںویڈیو کیسٹیںتیار کی جاتی ہیں جنہیںاپنے اورپرائے لوگ کمپیوٹراسکرین پر دیکھتے ہیں ،جن لوگوں کو ایسے مواقع پرعازمین حج کے ساتھ ایسی جگہوںپر جانے کاموقع ملاہے ان سے اس بے پردگی کی تصدیق کی جاسکتی ہے ۔

کیا کبھی ہم نے سوچا کہ ایک فرض کی ادائیگی کے لئے اللہ اوراس کے رسول کی کتنی نافرمانیاں اورلعنتیں ہمارے گلے پڑگئی ہیں ،حاجی کے گلے میں پھو لوںاور روپیوں کے ہاربھی ڈالے جاتے ہیں انہیں بند لفافے پیش کئے جاتے ہیں ، اوراس منظر کو دیکھ کر یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ کوئی حاجی نہیں ہے بلکہ کسی بارات کا دولہاہے ۔

پڑھے لکھے طبقہ میں بھی یہ وباپھیلتی جارہی ہے کہ حاجی کے فریضہ ٔ حج کی ادائیگی سے پہلے اور بعدباقاعدہ جلسہ منعقد کرکے’’ سپاس نامے ‘‘ پڑھے جارہے ہیں۔

حج کے ارکان کو ٹھیک ٹھیک ادا کرنے کے بعدبھی اللہ سے یہ امید اورتوقع رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے قبول فرمالے تو بڑی بات ہے ورنہ خدا معلوم ہر سال کتنے لوگ حج کرتے ہیں اوران میں سے اکثر کے حج کو قبولیت نصیب نہیں ہوتی ۔

کسی بھی فرض کی ادائیگی کے لئے خشوع وخضوع ،انابت الی اللہ ، تقویٰ وبندگی اوررجوعِ الٰہی کی صفات حسنہ سے دور رَہ کر محض ارکان کی ادائیگی پر ہمار ازیادہ ترانحصار اورمدار رہ گیا ہے ،ریانے خلوص کی جگہ پر قبضہ کرلیا ،نفاق جڑ پکڑگیا ،خوف وخشیت کو ہم نے سلام کرلیا ،نتیجہ یہ ہو اکہ اپنی عبادات پر عُجب ،غرور ، تکبراوردکھاوا جیسی بری صفات پیدا ہوگئیں،ایک آدمی زندگی بھرنماز پڑھتا رہے پھر بھی اس کو ’’نماز ی ‘‘کہہ کر نہیں پکار ا جاتا ،ایک آدمی تاحیات روزہ رکھتا رہے پھر بھی اس کو’’ روزہ دار‘‘ نہیں کہاجاتا ، ایک شخص ہمیشہ زکوۃ اداکرتے رہے مگر اسے بھی ’’زکوتی‘‘ نہیں کہاجاتا لیکن اگر کوئی شخص صرف ایک بارحج کرلے تو اسے’’ الحاج ‘‘’’زائر حرم‘‘ اور’’حاجی ‘‘جیسے القاب دے دئے جاتے ہیں حالانکہ شریعت میںحج سے زیادہ نماز کی تاکید اوراس کو ادا نہ کرنے پر سخت ترین وعیدیں سنائی گئی ہیں ،لیکن لوگوں نے اپنے قول وعمل سے حج ہی کو اشرف العبادات بنادیا ہے ؟
 
Top