زیدپور:
ناصرالدین مظاہری
تقریباً تیس سال پہلے میں نے مدرسہ امدادالعلوم زیدپورسے مظاہرعلوم سہارنپورکے لئے رخت سفرباندھاتھا،اب توخیرداڑھی میں سفیدی آگئی ہے لیکن وہاں سے چلتے وقت داڑھی نکلنی بھی شروع نہیں ہوئی تھی،میرے بچپن کے چھ سال اسی زیدپورکی پرسکون وپرفضاوادی میں گزرے ہیں،مجھے اب بھی وہاں کے محلوں کے نام یادہیں ،دکانداروں ،پان فروشوں،چائے والوں اورمحلہ مکھن کی بہاریں یادہیں،شیعوں کے امام باڑے،تعزیوں کے مناظراوربارہ ربیع الاول کے موقع پرعجیب وغریب فنکشن اورپروگرام یادہیں،دوپارٹیوں کے درمیان ’’اناردھنیا‘‘کاکھیل یادہے،اوراس سے طرفین کوپہنچنے والی ضربیں اورتکلیفیں بھی یادہیں،جی ہاں گرمیوں میں قلفی اورسردیوں میں آلوکی ٹکی والابھی یادہے ،جامع مسجدکے اوپری حصہ میں وضوخانے کی چھت پرصوفی جی کی دکان ہمارے لئے کسی مال سینٹرسے کم نہ تھی ،ضرورت کی ساری چیزیں وہیں سے دریافت اورپراپت ہوجاتی تھیں۔کیاماحول تھااورکیاانسانیت تھی ،پورازیدپورطلبہ کے لئے بھائی،بہن،والداورماں کاکرداراداکرتاتھا،میرے اساتذہ میں کچھ لوگ پان کے شوقین تھے ،ان کے لئے محلہ کے کچھ مخصوص گھروں سے پان لانے کی ذمہ داری بھی میری بھی تھی۔
زیدپورکے پاورلوم،دست کاری کی صنعت،کرگھے،سوت کاتنے کے لئے بڑے بڑے چرخے ،گھنٹہ والی مسجدکے پاس ڈاکٹراعجازاوران کے یہاں مفت میں دواعلاج بھی یادہے،مفت توخیرنہیں کہہ سکتے کیونکہ انھیں مدرسہ کی طرف سے حساب کردیاجاتاتھا۔صدرمدرس مولانامحمدیوسف اورمہتمم مولاناکفیل احمدؒدونوں ہیراتھے بلکہ میرے لئے ہیروتھے ،ان کی ہم طلبہ کے لئے ہمدردیاں اب تک یادہیں،مہتمم صاحب اصول کے توپکے تھے لیکن طلبہ سے بولتے ایسے تھے کہ گویامیں ان کاننھابیٹاہوں۔
مغرب کے بعداوپرہال میں طلبہ کاجمع ہونا،اردویاعربی میں گنتی ہونااوریہیں گنتیاں حاضری میں شمارہونا،مسنون دعاؤں کااجتماعی طورپرپڑھنااورسن سن کرہرطالب علم کویادہوجاناکیاتربیتی اندازتھے۔حضرت مولانامحمدعبداللہ قاسمی طلبہ کی تربیت کے لئے اپنے آپ کوقربان کئے ہوئے تھے ،حضرت مولانامحمدسلیم قاسمی تفسیراورترجمہ کے باب میں پورے زیدپورمیں شہرت پائے ہوئے تھے،حضرت مولانامفتی محمدیعقوب اورحضرت مولانامفتی نظام الدین فقہی موشگافیوں میں ایک دوسرے کوپچھاڑتے دکھائی دیتے تھے۔حضرت مفتی محمدنسیم لکھیم پوری کے لئے توہرکتاب ہاتھ کی چھڑی اورجیب کی گھڑی کی حیثیت رکھتی تھی ،عجیب جناتی انسان تھے اورممکن ہے کہ ان کے پاس جنات بھی ہوں کیونکہ ان کے ہاؤبھاؤ سے محسوس توضرورہوتاتھا،کسی ھرآسیب ہوتواسے اتاردیتے تھے،جناتی مکان میں عشروں اپنے بچوں کے ساتھ خوشی اورخرمی کے ساتھ رہے ۔
قاری محی الدین ،قاری ادریس،قاری علی حیدر،حافظ محمدعثمان یہ لوگ فرشتوں کی ایک جماعت کے رکن ہی تھے ،پاک وپاکیزہ زندگی،حافظ محمدعثمان کودیکھ کرتوخدایادآتاتھا،ایسانورانی چہرہ یاتووہاں دیکھایایہاں دیوبندمیں قاری محمدعثمان منصورپوری کاچہرہ دیکھا۔
ہائے ہائے ایک ایک کرکے مجھے وہاں کی گلیاں،گلیوں ،نہریں ،تالاب اورتالاب کے کنارے بنے مدرسہ کے مطبخ اوراس کے قریب میں بنی عیدگاہ اورتالاب کے وسط میں ہرے بھرے درخت اوراس کی خوبصورتی سب کچھ یادہے ۔
یادنہ رہتااگرزیدپوروالے اتنی محبت سے نہ نوازتے۔زیدپوروالوں کاشکریہ اداکرنے کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔بس دعائیں ہیں اللہ آپ سب کودارین کی خوشیاں مقدرفرمائے۔
زیدپورکے پاورلوم،دست کاری کی صنعت،کرگھے،سوت کاتنے کے لئے بڑے بڑے چرخے ،گھنٹہ والی مسجدکے پاس ڈاکٹراعجازاوران کے یہاں مفت میں دواعلاج بھی یادہے،مفت توخیرنہیں کہہ سکتے کیونکہ انھیں مدرسہ کی طرف سے حساب کردیاجاتاتھا۔صدرمدرس مولانامحمدیوسف اورمہتمم مولاناکفیل احمدؒدونوں ہیراتھے بلکہ میرے لئے ہیروتھے ،ان کی ہم طلبہ کے لئے ہمدردیاں اب تک یادہیں،مہتمم صاحب اصول کے توپکے تھے لیکن طلبہ سے بولتے ایسے تھے کہ گویامیں ان کاننھابیٹاہوں۔
مغرب کے بعداوپرہال میں طلبہ کاجمع ہونا،اردویاعربی میں گنتی ہونااوریہیں گنتیاں حاضری میں شمارہونا،مسنون دعاؤں کااجتماعی طورپرپڑھنااورسن سن کرہرطالب علم کویادہوجاناکیاتربیتی اندازتھے۔حضرت مولانامحمدعبداللہ قاسمی طلبہ کی تربیت کے لئے اپنے آپ کوقربان کئے ہوئے تھے ،حضرت مولانامحمدسلیم قاسمی تفسیراورترجمہ کے باب میں پورے زیدپورمیں شہرت پائے ہوئے تھے،حضرت مولانامفتی محمدیعقوب اورحضرت مولانامفتی نظام الدین فقہی موشگافیوں میں ایک دوسرے کوپچھاڑتے دکھائی دیتے تھے۔حضرت مفتی محمدنسیم لکھیم پوری کے لئے توہرکتاب ہاتھ کی چھڑی اورجیب کی گھڑی کی حیثیت رکھتی تھی ،عجیب جناتی انسان تھے اورممکن ہے کہ ان کے پاس جنات بھی ہوں کیونکہ ان کے ہاؤبھاؤ سے محسوس توضرورہوتاتھا،کسی ھرآسیب ہوتواسے اتاردیتے تھے،جناتی مکان میں عشروں اپنے بچوں کے ساتھ خوشی اورخرمی کے ساتھ رہے ۔
قاری محی الدین ،قاری ادریس،قاری علی حیدر،حافظ محمدعثمان یہ لوگ فرشتوں کی ایک جماعت کے رکن ہی تھے ،پاک وپاکیزہ زندگی،حافظ محمدعثمان کودیکھ کرتوخدایادآتاتھا،ایسانورانی چہرہ یاتووہاں دیکھایایہاں دیوبندمیں قاری محمدعثمان منصورپوری کاچہرہ دیکھا۔
ہائے ہائے ایک ایک کرکے مجھے وہاں کی گلیاں،گلیوں ،نہریں ،تالاب اورتالاب کے کنارے بنے مدرسہ کے مطبخ اوراس کے قریب میں بنی عیدگاہ اورتالاب کے وسط میں ہرے بھرے درخت اوراس کی خوبصورتی سب کچھ یادہے ۔
یادنہ رہتااگرزیدپوروالے اتنی محبت سے نہ نوازتے۔زیدپوروالوں کاشکریہ اداکرنے کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔بس دعائیں ہیں اللہ آپ سب کودارین کی خوشیاں مقدرفرمائے۔