سنوسنو!!
غبی بچوں کی تعلیم کامسئلہ
ناصرالدین مظاہری
(۱۹؍مئی ۲۰۲۳ء)
(۱۹؍مئی ۲۰۲۳ء)
ماشاءاللہ۔۔۔۔ انتہائی قابل غور تحریر ہے۔ اللہ توفیق عطا فرمائے آمینسنوسنو!!
غبی بچوں کی تعلیم کامسئلہناصرالدین مظاہری
(۱۹؍مئی ۲۰۲۳ء)
’’ڈنمارک کے شہر کوپن ہیگن کے مضافاتی علاقے میں کچرے سے توانائی پیدا کرنے کا سب سے بڑا پروجیکٹ لگایا گیا ہے جہاں یومیہ کی بنیادوں پر ہزاروں ٹن کچرا جلایا جاتا ہے۔اس کچرے سے جو توانائی پیدا کی جاتی ہے اس سے پورے شہر کی ضروریات پوری کرنے کے علاوہ دیگر مقامات پر بھی فراہم کی جاتی ہے‘‘۔(اے آروائی نیوز)
’’پنجاب حکومت نے لاہورمیں کوڑے سے بجلی بنانے کے منصوبے کومنظوری دے دی ہے،اس منصوبے کے تحت روزانہ ساڑھے بارہ سوٹن کوڑے سے ۵۵میگاواٹ بجلی پیداہوگی،ایک خبرکے مطابق لاہورمیں تقریباً۴۰؍ملین ٹن کوڑا موجودہے جب کہ روزانہ کی بنیادپرپانچ ہزارٹن مزیدجمع ہورہاہے‘‘(روزنامہ دنیا)
’’ بھارت میںکوڑے سے بجلی کی پیداوار کرنے والے تہ کھنڈ ویسٹ ٹو انرجی پلانٹ کا افتتاح کیاجاچکاہے،وزیراعظم نے دارالحکومت دہلی کو صفائی ستھرائی کے ذریعہ سے کوڑے کچرے سے پاک کرنے کا جو عزم لیا ہے،اس کی وجہ سے دہلی میںموجودکچرے کے پہاڑ اب رفتہ رفتہ کم ہوتے جارہے ہیں،کچرے کے انتظام کیلئے متعدد پلانٹ لگائے گئے ہیں،گٹر نظام چست درست کیا گیا ہے اور کچرے کو جمع کرنے کیلئے بھی ایک سائنٹفیک نیٹ ورک ملک بھر میں بنانے کا آغاز ہوا ہے،اس پلانٹ کے شروع ہونے سے دہلی میں ہر روز دو ہزار میٹرک ٹن کوڑے کو نمٹانے کی صلاحیت اور بڑھ جائے گی ساتھ ہی یہ پلانٹ 25 میگاواٹ تک سبز توانائی کی پیداوار بھی کرے گا‘‘
یہ تین مثالیں صرف اس لئے پیش کی گئی ہیں تاکہ میںاپنے مافی الضمیرکوبخوبی اداکرکے اپنی بات آپ تک پہنچانے میں کامیابی حاصل کرسکوں۔
ہرمدرسہ معیارچاہتاہے،قوم بھی معیاردیکھتی ہے،تعلیم معیاری ہو،مدرسہ کانظام تعلیم معیاری ہو،نصاب تعلیم معیاری ہو،کھانا،رہائش اوربودوباش معیاری ہو،یہ معیاربہت اچھی چیزہے،ہمیں اس سے اختلاف نہیں ہے،قوم بھی یہی چاہتی ہے کہ مدارس اوران کاپوراسسٹم معیاری ہو،اسی معیارکی وجہ سے مدارس اسلامیہ میں ابتدائی درجات کے طلبہ کوماہانہ اوروسطی اورنہائی درجات کے طلبہ کوسہ ماہی ، ششماہی اورسالانہ امتحانات سے گزرناپڑتاہے ،میں اِن امتحانات اورماہانہ جانچ کی تائیدکرتاہوں اورمشورہ دیتاہوں کہ ماہانہ امتحان کے علاوہ استاذکوبھی چاہئے کہ ہرہفتہ کوئی ایسی ترتیب بنائے کہ تمام بچے اپنی جانچ کے تعلق سے فکرمندرہیں ۔
مسئلہ ہوشیاراورہونہاربچوں کانہیں ہے مسئلہ غبی اورکندذہن بچوں کاہے،یہ تعداداگرچہ کم ہے لیکن ہے ہرجگہ ،یہ بچے اگرامتحان میں فیل ہوگئے توان کانام مدرسہ سے کٹ جاتاہے،کسی مدرسہ میں داخلہ لیناچاہااورکچھ بتانہیں سکے توبھی ان کاداخلہ نہیں ہوتاہے،بلکہ امتحان میں کامیابیوں پرہی طلبہ کی امداداوران کیلئے رعایتوں کاانحصارہے۔
کندذہن بچوں کی طرف سے عمومی طورپرہم سب بے فکرہیں ،غبی طلبہ کی بڑی تعدادکوبالکل بے یارومددگارچھوڑدیا جاتا ہے،جب تک یہ کندذہن بچے مدارس اورتعلیم گاہوں میں رہتے ہیں اپنے اساتذہ اوراپنے ساتھیوں کا طنز،حوصلہ شکن جملوں اورمستقبل شکن حملوں سے دوچاررہتے ہیں اورپھرجب اپنے گھرپہنچتے ہیں تووہاں بھی والدین کی کڑوی کسیلی باتوں ،بھائیوں اوربہنوں کے تمسخراوربے کارونکما ہونے کے طعنوں سے کبیدہ اوربددل ہوکراپنے بارے میں یہ تصورکرلیتے ہیں کہ میرااس دنیامیں کوئی کام اورمقام ہی نہیں ہے۔اس تصورکے بعدایسے ایسے واقعات جنم لیتے ہیں جن کومیں لکھنااورآپ پڑھنابھی نہیں چاہیں گے۔
آپ خودسوچیں جن طلبہ کوہم نے نکمااورناکارہ سمجھ کراپنے ماحول اوراداروں سے دورپھینک دیاہے اب ان کے مستقبل کاکون ذمہ دار ہے،اگرقوم کے بڑے بڑے لوگ اسی طرح کرتے رہے رفتہ رفتہ ہماراماحول اورمعاشرہ کس قدرتعفن اورسڑاندکاشکارہوجائے گا۔
ایک طرف توکوڑے کرکٹ اورکچرے سے بجلی جیسی قیمتی چیزپیداکی جارہی ہے دوسری طرف انسانوں کی ایک بڑی تعدادکو’’نکمے‘‘ہونے کی سنددی جارہی ہے۔کیااس حساس مسئلہ میں ہم حق پرہیں اورکیااس بارے میں ہم سے اللہ تعالیٰ کے یہاں پوچھ نہیں ہوگی؟افحسبتم انماخلقناکم عبثا‘‘اس آیت کامخاطب اگرچہ کفارہیں لیکن سوال ہم سے بھی ہوسکتاہے کہ تم جس بڑی تعدادکوناکارہ اورنکماسمجھ رہے تھے،اس کوہم نے اپنی عبادت کے لئے پیدافرمایاتھا ،تم نے ہمارے مقصدتخلیق پرکس حدتک عمل کیاہے ،جس تعدادکوتم نے احساس کمتری میں مبتلاکرکے معاشرے کاعضومعطل بنادیا، کیاتم نے ان کوہمارے مقصدتخلیق سے بھی واقف کرایاہے یانہیں،کیاتم نے انھیں عالم فاضل ،علامہ ،فہامہ نہ سہی کم ازکم نمازروزے اورفرض عبادات کی ادایگی کا طریقہ اورتعلیم تودی ہوتی؟کیاتم نے انھیں مساجدسے محبت اورنمازوں کی تعلیم میں رغبت دلائی تھی ، ان کوپیش آنے والے امتحانات اورآزمائشوں سے واقف اورآگاہ کرایاتھا ۔کیاان کواس لائق بنایاتھا کہ وہ اپنے مقصدتخلیق میں پورے اترسکیں؟
اگراللہ تعالیٰ نے ہم سے سوال کرلیاکہ تمہیں کس نے حق دیاتھاکہ میری پیدافرمودہ اِس اشرف المخلوقات کو’’عبث ‘‘اور’’بیکارمحض‘‘ سمجھو؟توہمارے پاس کیاجواب ہوگا؟
مجھے معاف فرمایاجائے اس باب میں ہم سے ناقابل معافی جرم سرزد ہورہاہے،ہم اپنے ماحول اورمعاشرہ کے ہونہاربچوں پرتواپنی صلاحیتیں صرف کرکے اچھاکام کررہے ہیں لیکن کندذہن اورغبی بچوں کی تعلیم وتربیت کے لئے ہمارے پاس کوئی مستقل نصاب اورنظام نہیں ہے۔نہ ہی کبھی کسی مدرسہ کاہم نے کوئی ایسااعلان واشتہارپڑھاہے جس نے خم ٹھونک کوایسی بڑی تعدادکواپنے یہاں لانے اوربلانے کی کوشش کی ہو؟
کیایسانہیں ہوسکتاکہ کوئی ایک مدرسہ اللہ کانام لے کراعلان کرے کہ کند ذہن اورغبی بچے احساس کمتری کاشکارنہ ہوں،کسی ادارہ میں آپ کاداخلہ نہیں ہوسکاہے تومایوس کیوں؟ ہمارے ادارے کے دروازے ایسے تمام بچوں کے لئے کھلے ہوئے ہیں ،ہم نے ماہرین نفسیات اساتذہ کی خدمات حاصل کی ہیں ،یہ اساتذہ کم سے کم نصاب کے ذریعہ آپ کواس لائق بنانے کی کوشش کریں گے کہ کم ازکم آپ گردن اٹھاکراپنے ماحول اورمعاشرے میں باعزت زندگی گزارسکیں،ہم آپ کواذان ،نماز،روزہ اور فرض عبادات کی ایسی تعلیم دیں گے کہ آپ اپنے آپ کوبالکل بے روزگار نہیں سمجھیں گے ،ہم آپ کی تربیت اس اندازمیں کریں گے کہ آپ کے اندرخوداعتمادی پیداہوسکے،آپ پوری قوم کی امامت کرسکیں،نمازجنازہ پڑھاسکیں،باعزت روزگاراورحلال کاروبارکرسکیں۔کیونکہ عزت کی دوروٹیاں ذلت کے حلوے پراٹھے اورمرغ ومسلم سے بہترہوتی ہیں۔
مجھے کسی مدرسہ یا ادارہ کے تعلق سے کوئی اطلاع نہیں ہے کہ کندذہن بچوں کولے کرکوئی اجلاس یاپروگرام کیاگیاہو،کوئی سیمیناریاکوئی سمپوزیم منعقدہواہو، آخرکیوں؟
۱۹۶۳؍ میں امریکہ کے نیویارک میں بچوں کے والدین کا ایک اجلاس ہوا تھا،یہ اجلاس ایسے ہی کندذہن بچوں کے مسائل اوران کے تدارک پرمشتمل تھا،اجلاس میں مختلف امورزیربحث آئے اورلائے گئے ،بچے کیسے اپنے اسباق یادکرسکتے ہیں،سمجھنے کی دشواریوں کوکس طرح حل کیاجاناچاہئے،املاء میں درپیش مشکلات کوکس طرح دورکیاجائے،ان کے اندراحساس کمتری کونکال کراحساس برتری اورخوداعتمادی کیسے پیداکی جائے ۔اس پروگرام میں یہ بھی طے ہواتھاکہ ایسے بچوں کا کسی دوسرے بچے سے ہرگز موازنہ نہ کیاجائے، ہر وقت ڈانٹ ڈپٹ نہ کی جائے۔طنزیہ یا نفرت کالہجہ اختیار نہ کریں اور خاص طور پر ان کی شخصیت کو ہرگز نظر انداز اورعزت نفس کومجروح نہ کریں۔
یہ اجلاس ان لوگوں نے منعقدکیاتھاجن کوہم خاطرمیں نہیں لاتے،جودینی تعلیم توکیادین سے ہی کوسوں دورہیں ،جن کے کانوں تک اسلام کاپیغام اورجن کے دلوں تک ایمان نہیں پہنچ سکا۔وہ اپنے کندذہن بچوں کے لئے اس قدر فکرمندہیں اورہم جوصاحب دین وشریعت ہیں،حامل قرآن وتصوف ہیں افسوس کہ ہمارا طرزاورہمارا کردارصفراورزیرونظرآتاہے۔وہ اپنے مقصدکوپانے کے لئے کچرے سے سونانکالنے کی تگ ودومیں مضطرب اوربے قرارہیں اورہم اپنے بچوں کوناکارہ اورنکمابنانے کے لئے کوشاں اورکمربستہ ہیں۔