مدرسہ کے قریب تالاب کے کنارے ایک صاحب رہتے ہیں نام ہے ان کاحافظ شکیل احمد،میرے طالب علمی کے زمانے میں ان کاگھر’’پان‘‘کامرکزبناہواتھا،ان کی اہلیہ کاتحمل بھی عجیب تھاکہ دن میں کئی کئی بارپان کے لئے ہم ان کے گھرجاتے تھے اوروہ ماتھے پرشکن لائے بغیرجھٹ سے پان تیارکرکے حوالہ کردیتی تھیں،مولانامحمدایوب قاسمی ،مفتی نسیم احمد،قاری محی الدین اورکبھی کبھی مفتی نظام الدین سمیت کئی لوگ پان کے شوقین اوردلدادہ وشیداتھے ،ان ہی دلدادگان ِپان کے حکم پرکبھی میں ،کبھی عبدالقدیرلکھیم پوری اورکبھی عطاؤالرحمن بھاگلپوری پان لانے کی ذمہ داری انجام دیتے تھے ۔
خوب یادہے محلہ مکھن (میم پرپیش اورکاف کے نیچے زیرہے)میں ایک پان فروش رہاکرتاتھا،اس کاکانام شایدمداربخش تھا،یہ صاحب پان کے کھوکھے میں جلوہ فرمارہتے تھے ،چھوٹاساپان کاکھوکھا،اسی میں پان اوراس کاسامان اوراسی سامان کے درمیان ایک دبلاپتلانحیف ولاغرادھیڑعمرشخص ،اس کابدن اکہرا،اس کارنگ گورالیکن بڑھتی عمرکے ساتھ تقریباًپکاہوگیاتھاوہ خودہی ہروقت پان کھاتارہتاتھا،کبھی اس کے منہ سے پان نہیں ختم ہوتاتھا،ادھرپان ختم ہواادھرپان کی دوسری گلوری منہ میں پہنچ گئی۔اس کے دانت پان کھاتے کھاتے تقریباًگھس چکے تھے،دانتوں کی رنگت پہلے لال اورپھربعدمیں کالی ہوچکی تھی،چہرہ سپاٹ،اس کی آوازکھٹاک،اس کالہجہ رسیلا،اس کااندازمنموہن،اس کی دکان گلرنگ،اس کے پانوں کاذائقہ خداجانے،اس کی تمباکواللہ کی پناہ،اس کی پھرتی ماشا اللہ،اس کی چستی سبجان اللہ،پان کی کٹنگ کااندازواہ واہ،ہمارے سہارنپورمیں توسبھی لوگ ایک ہی پان کاپتہ استعمال کرتے ہیں لیکن وہا ں میرے زمانے میں ایک پتے کے دوحصہ کرکے برابررکھ کردونوں پرمشترکہ ومطلوبہ مصالحہ لگاکربڑی ہی خوبصورتی کے ساتھ پان کوموڑکرایک کاغذمیں لپیٹ دیتاتھا،ہمیں پڑھنے سے زیادہ گھومنے میں مزہ آتاتھا،چاہتے تھے کہ کوئی استاذپان ،خوان یاپکوان کے لئے کہیں بھیج دے۔
وہیں صوفی ابرارکاایک ہوٹل تھا،یہ ہوٹل اپنی ساخت اوربناوٹ کے اعتبارسے توکشادہ تھالیکن اس کی میزیں کالی،اس کی تپائیاں سیاہ ،اس کے اندرکارنگ اورکلرکوئلہ اورلکڑی جلانے کی وجہ سے بالکل کالاہوچکاتھا،دیواریں کالی،چائے کی ہانڈی کالی،کیتلی کالی ،چائے بنانے والابھی کالا،لیکن چائے کاذائقہ شیریں،لوگ ان کی دکان پرآتے تھے اورخوب شکم سیرہوکرجاتے تھے،وہیں قریب میں ایک مدرسہ تھا،نالے کے متصل ،نام تھامدرسہ نورالعلوم ،یہ مدرسہ مولانامحمداکبرصاحبؒ چلاتے تھے ،پتہ نہیں مدرسہ چلاتے تھے یا خودبخودچلتاتھا،زندگی میں چھ سالہ قیام کے دوران شایدایک آدھ باراندرجانے کی نوبت آئی وہ بھی اس وجہ سے کہ وہاں میرے گاؤں کے ایک ساتھی زیرتعلیم تھے ۔
محلہ مکھن محلہ کم بازارزیادہ تھا،قصبہ کی دکانیں یہاں خوب جمتی تھیں،ایک کشادہ مسجدبھی ہے ،اس مسجدکے علاقہ میں پان،جلیبی،لسی وغیرہ کی دکانیں شام ہوتے ہی جم جاتی تھیں۔شائقین آتے اورلطف اندوزہوتے تھے،صوفی ابرارکی دکان پرایک اردوکااخباربھی آتاتھایہ اخبارشائقین کی آمدکاذریعہ بھی بنتاتھا،لوگ چائے اورچاٹ کے لئے آتے تھے اورپورااخبارچاٹ کرجاتے تھے۔ان کی اس کالی کلوٹی دکان میں ایک ہی چیزسفیدملتی تھی اوروہ تھادودھ۔