واردات دل

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
معزز اراکین الغزالی فورم و قارئین اکرام!
الغزالی انتطامیہ نے چند عرصہ قبل یہ فیصلہ کیا کہ ’’الغزالی لائبریری‘‘کے لیے اراکین الغزالی فورم کے مفید مضامین جو الغزالی فورم کی زینت بنے اور مقبول ہر خواص وعام ہوئے ان مضامین میں سے کچھ مضامین منتخب کرکے ایک خوبصورت کتابی شکل میں اراکین و قارئین اکرام کی خدمت میں پیش کیے جائیں۔
اس سلسلہ کو شروع کرتے ہوئے سب سے پہلے الغزالی فورم کے نہایت معزز ،الغزالی فورم کے شعبہ افتاء کے سربراہ،افکار قاسمی کے مدیر اعلیٰ،مدیر ماہنامہ آئینہ مظاہر العلوم،نگران اعلیٰ مجلہ نوائے خادم،استاد جامعہ مظاہر العلوم(وقف)سہارنپور حضرت مولانا مفتی ناصرالدین مظاہری صاحب دامت برکاتہم العالیہ کے منتخب مضامین پر مشتمل پہلی کتاب پی ڈی ایف کی شکل میں پیش کرنے کا فیصلہ ہوا۔
میں یہاں حضرت مولانا احمد قاسمی صاحب،حضرت مولانا مفتی ناصرالدین مظاہری صاحب کا مشکور ہوں کہ جنہوں نے اس سلسلہ کو شروع کرنے کی اجازت دی بلکہ مکمل تعاون بھی فراہم کیا۔
آٓج میرے لیے نہایت اعزاز کی بات ہے کہ مجھے یہ شرف حاصل ہورہاہے کہ میں اس کتاب کو اراکین وقارئین کرام کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہاہوں۔
vZJtCyj.jpg

آن لائن پڑھیں۔
(ڈاؤن لوڈنگ کے لیے نیچے فائل پر کلک کریں۔)
ہمیں آپ کی تجاویز و آراء کا انتظار رہے گا۔۔۔۔!​
 

Attachments

  • Wardat e Dil Mufti Nasir Mazahiri.pdf
    8.5 MB · مناظر: 12
Last edited:

عبدالاحد بستوی

وفقہ اللہ
رکن
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
معزز اراکین الغزالی فورم و قارئین اکرام!
الغزالی انتطامیہ نے چند عرصہ قبل یہ فیصلہ کیا کہ ’’الغزالی لائبریری‘‘کے لیے اراکین الغزالی فورم کے مفید مضامین جو الغزالی فورم کی زینت بنے اور مقبول ہر خواص وعام ہوئے ان مضامین میں سے کچھ مضامین منتخب کرکے ایک خوبصورت کتابی شکل میں اراکین و قارئین اکرام کی خدمت میں پیش کیے جائیں۔
اس سلسلہ کو شروع کرتے ہوئے سب سے پہلے الغزالی فورم کے نہایت معزز ،الغزالی فورم کے شعبہ افتاء کے سربراہ،افکار قاسمی کے مدیر اعلیٰ،مدیر ماہنامہ آئینہ مظاہر العلوم،نگران اعلیٰ مجلہ نوائے خادم،استاد جامعہ مظاہر العلوم(وقف)سہارنپور حضرت مولانا مفتی ناصرالدین مظاہری صاحب دامت برکاتہم العالیہ کے منتخب مضامین پر مشتمل پہلی کتاب پی ڈی ایف کی شکل میں پیش کرنے کا فیصلہ ہوا۔
میں یہاں حضرت مولانا احمد قاسمی صاحب،حضرت مولانا مفتی ناصرالدین مظاہری صاحب کا مشکور ہوں کہ جنہوں نے اس سلسلہ کو شروع کرنے کی اجازت دی بلکہ مکمل تعاون بھی فراہم کیا۔
آٓج میرے لیے نہایت اعزاز کی بات ہے کہ مجھے یہ شرف حاصل ہورہاہے کہ میں اس کتاب کو اراکین وقارئین کرام کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہاہوں۔
654 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں

آن لائن پڑھیں۔
(ڈاؤن لوڈنگ کے لیے نیچے فائل پر کلک کریں۔)
ہمیں آپ کی تجاویز و آراء کا انتظار رہے گا۔۔۔۔!​
ماشاءاللہ بہت خوب
اللہ تعالیٰ نافع بنائیں
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
نام کتاب: واردات دل
مجموعہ مضامین: مفتی ناصرالدین مظاہری
مرتب:مولانا داؤدالرحمن علی
صفحات:280 ناشر:الغزالی اردو فورم
واردات دل
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمدللہ رب العلمین والصلوۃ والسلام علی من اتبع الہدیٰ۔
واردات واردۃ کی جمع ہے ،جس کے معنی اپنے محل استعمال کی وجہ سے بدلتے رہتے ہیںچنانچہ منشی پریم چند نے پہلی بار اس لفظ کو بطور اسم استعمال کیا اور اپنے افسانوی مجموعہ کا نام ’’واردات ‘‘ رکھا تھا۔منشی پریم چند کی کتاب ان کی اپنی کہانیوں پرمشتمل ہے اس لئے وہاں پر ’’سرکزشت‘‘ کے معنی میں ہے۔ ریختہ نے اپنی ویب سائٹ پراس کے اور بھی کئی معنی لکھے ہیں مثلاً ماجرا،حال احوال،حالات،حالت جوکچھ دل پر بیتی ہو، پیش آنے والی باتیں،وہ حال جو آدمی پر گزرے۔اردو والے اس لفظ کو بطور واحد بھی استعمال کرتے ہیں ، مثلاً تھانے والے آپ کو کہتے دکھائی دیں گے کہ فلاں جگہ واردات ہوگئی ہے۔یا اس واردات کے پس پردہ فلاں فلاں محرکات تھے ۔ ریختہ نے کچھ مزید معنی بھی لکھے ہیں مثلاً سانحہ،حادثہ،دنگا،فساد،ہنگامہ،ناگہانی آفت،اہم وقوعہ ،واقعہ،وقوع جرم وغیرہ۔
اسی طرح واردات کواگرتصوف کی زبان اوراصطلاح میں دیکھاجائے تو وہاں اس کامطلب ہوتاہے وہ روحانی کیفیت جوصوفی یاسالک پروہبی طورپرگزرتی ہے یعنی باطنی مشاہدہ، قلبی کیفیت ۔
مفتی صاحب کواللہ تعالیٰ نے سیال قلم،اخاذذہن اورفعال جسم سے نوازا ہے ،وہ عمومابہت ہی لطیف اورباریک باتوں کوعنوان بناکرتفصیلی بات کرلیتے ہیں جس کے بارے میں عام انسان سوچتا ہی رہ جاتا ہے کہ اس بارے میں کوئی کیالکھے گا۔چنانچہ مفتی صاحب نے اپنی اس کتاب میں جلی عناوین اورموضوعات کواپنانے کے بجائے ذیلی عنوان کواختیار کیاہے ، مثال کے طور پرصفائی اور ادب ایک عنوان تھالیکن مفتی صاحب نے اس کے ذیلی عنوان ’’تھوکنا‘‘ کولیا اور ’’تھوکنے کا سلیقہ‘‘کے عنوان سے بڑاخوبصورت مضمون سپردقرطاس کردیا۔
’’واردات دل‘‘ کامطلب ہی یہی ہے کہ کتاب کوخواہ مخواہ طویل نہیں کیا گیا ہے ،مضامین کومستقل اختیارنہیں کیاگیا،اپنے ماحول اورمعاشرہ میں پیش آنے والے حالات اور حادثات خود ہی مفتی صاحب کوعنوان دیتے چلے جاتے ہیں چنانچہ انہوں نے لکھنوکے چارباغ ریلوے اسٹیشن کے سامنے کیلے کھاتے جارہے ایک شخص کی حرکت اورکیفیت کوبیان کرتے کرتے مضمون لکھ دیاورنہ عام طورپرلوگ عنوان لگاتے ہیں’’راستوں سے تکلیف دہ چیزوں کوہٹانا‘‘۔
اس کتاب کاپہلا مضمون بالکل ہی اچھوتا اور چونکا دینے والاہے ’’آگ اور چراغ بجھانے کاحکم‘‘اور پھر مفتی صاحب نے اس عنوان پرصرف اپنا درد دل کھول کرسامنے نہیں رکھا بلکہ احادیث رسول سے اپنے اس مضمون کو مدلل اورمکمل بھی کیا۔لوگ عیادت اورتعزیت کے باب میں مبالغہ آرائی کرنے لگے ہیں،کسی کے انتقال پرجب بھی کسی کوموقع ملتاہے تعزیت کے لئے پہنچ جاتاہے ،یہ طریقہ اسلام کانہیں ہے ،اسلام میں تعزیت کوصرف تین دنوں میں سمیٹ دیاگیاہے اس کے بعدصرف ایصال ثواب اوردعائے مغفرت کی جاسکتی ہے تعزیت نہیں۔اسی طرح عیادت کے سلسلہ میں افراط اورتفریط اورسنت نبوی سے اعراض وانحراف کے مناظرآئے دن دیکھنے کوملتے ہیں ،مفتی صاحب نے ان دونوں پرنہ صرف خامہ فرسائی کی بلکہ دونوں کے عنوان اتنے چست اوراتنے برمحل لکھے کہ لطف آگیا، ’’تعزیت کی تعزیت‘‘ اور’’ عیادت کی عیادت‘‘۔دورحاضرمیں ارتداداپنی تمام ترخطرناکیوں اور زہرناکیوں کے ساتھ پھیلتاجارہاہے ،مرتدین کی جماعت اسلامی تعلیمات سے محروم ہے یا پھرغیرمسلموں سے عشق ومعاشقہ کے جال اورفریب میں مبتلاہے ،کفارکی جماعت میں منصوبہ بندسازشیں جگ ظاہرہیں اوردوسری طرف مسلمانوں کی کاہلی اورغفلت ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ،مفتی صاحب نے عنوان ایسا باندھا ہے کہ پورامفہوم سامنے آجاتاہے ’’ارتدادظہرالفساد‘‘۔شادی بیاہ کے مواقع پر رسوم اور فضولیات میں قیمتی وقت اور بے پناہ دولت ضائع کی جارہی ہے ، اسی سلسلہ کی پہلی کڑی ہے وہ رقعہ یا پرچہ جس پرتاریخ درج ہوتی ہے اس کو’’لال خط ‘‘کانام دیا جاتاہے ،مفتی صاحب نے ’’لال خط‘‘ ہی کوعنوان بنادیا اوراپنے کرب وقلق کوقارئین کے سامنے پیش کیاہے۔
قبریں توہرجگہ ہوتی ہیں لیکن دہلی تاریخی قبروں کاشہرہے ،مفتی صاحب نے بڑاہی خوبصورت عنوان دیاہے ’’دہلی میں قبریں قبروں میں دہلی‘‘ آپ خود فیصلہ کیجئے کہ قاری جب ایساعنوان دیکھے گا تو پڑھنے کے لئے اس کی طبیعت مچل جائے گی۔
کتاب کے بعض عناوین پرمزید نظر ڈالیں، لوگوں سے حسب مراتب گفتگو، گفتگوکامعیار،معدہ اورمائدہ،قاسمی اورندوی،پانی کہاں مررہاہے،دم توڑتی پرانی قدریں،ہم خاندانی لوگ ہیں، بنیاد کاپتھر، سڑکوں کاناجائز استعمال، رکوع پانے کے لئے دوڑنا، مسلمان مساجداورجوتے وغیرہ اتنے اہم،حساس اورخوبصورت مضامین ہیں کہ قاری جب پڑھناشروع کرتاہے توکتاب رکھنابھول جاتاہے ۔ان کی چست تعبیرات، عمدہ مترادفات، چھوٹے چھوٹے جملوں میں بڑی بڑی باتیں،بڑے بڑے واقعات کوجملوں میں بیان کرنے کافن اورہنر،عجیب وغریب انداز میں بات شروع کرکے ایسے موڑ پرمضمون ختم کرناکہ قاری ہل من مزید کاطالب ہوجائے۔ان کے ہرمضمون پڑھ کراندازہ ہوتاہے کہ مفتی صاحب نے مجھ دیکھ کریہ مضمون لکھاہے ، ہرقاری کایہ فیصلہ کہ ان باتوں کی طرف تومیں نے دھیان ہی نہیں دیاتھا۔
مفتی صاحب نے’’ سنوسنو‘‘ کے نام سے فیس بک پر ایک سلسلہ عیدسے پہلے شروع کیا تھا،چندہی قسطیں فیس بک پرآئی تھیں کہ لوگوں میں ہلچل مچ گئی تھی ،ان کے مضامین کولوگ عمل کی نیت سے پڑھتے ہیں، بہت سے مدارس میں ان کے مضامین پرطلبہ ہفتہ واری تقریریں سیکھتے ہیں،کچھ مدارس میں میں نے ان کے مضامین کے فریم لگے دیکھے ہیں ،یہ تمام چیزیں بتاتی ہیں کہ مفتی صاحب دل سے لکھتے ہیں،ان کادرد دل لفظوںکارنگ اور جملوں کاآہنگ بن کرکاغذی پیرہن میں نظرآتاہے۔
مفتی صاحب ابھی ماشائ اللہ نوجوان ہیں لیکن ان کی تحریریں پڑھ کرعام قاری محسوس کرتاہے کہ مفتی صاحب عمردرازہیں،کیونکہ ان کی متانت اورسنجیدگی لئے ہوئے تحریریں اپنااثراورتأثرچھوڑجاتی ہیں،وہ لکھتے ہیں توڈوب کرلکھتے ہیں،بولتے ہیں توبھی دل سے بولتے ہیں ،ان کی تحریروں اورتقریروں میں درد ہوتاہے،کرب ہوتاہے،کسک ہوتی ہے،معاشرہ میں پھیل رہی بے راہ روی کاجوالہ مکھی ان کی تحریروںمیں جھلکتاہے اوراسی وجہ سے قاری جب پڑھتاہے تواسے لگتاہے کہ ’’میں نے یہ جاناکہ گویایہ بھی میرے دل میں ہے‘‘کیونکہ مفتی صاحب کی ہربات دل سے نکلتی ہے اوریہ حقیقت سبھی کوتسلیم ہے کہ ’’دل سے جوبات نکلتی ہے اثرکرتی ہے‘‘۔
’’سنوسنو‘‘کے ابتدائی مضامین سے ہی لوگوں نے ان کوجمع کرناشروع کردیاتھا،بہت سے لوگوں نے ان مضامین کی پی ڈی ایف بنابناکروائرل کرناشروع کردیاتھا،لوگوں کی طلب بڑھتی رہی،ملکی حدودسے باہربھی یہ طلب محسوس کی گئی،پوری دنیامیں ان کے اردو مضامین شوق سے پڑھے جاتے ہیں ،چنانچہ لاہورکے مولاناداؤدالرحمن علی صاحب نے کمرہمت باندھی اورمفتی صاحب کے مضامین کوجمع کرناشروع کیا،ظاہرہے بہت سے مضامین ان تک نہیں پہنچے لیکن جوکچھ پہنچے وہ بھی اتنے کافی تھے کہ انہوں نے ان کوسلیقہ سے جمع کرکے آیات اوراحادیث کی تخریج کاکام لگن اورمحنت سے کیا،پھرجامعہ عثمانیہ لاہورکے مہتمم حضرت مولاناخادم حسین مدظلہ نے اس کتاب پرحرف تائیدوتصدیق ثبت کرکے اس کوسنداعتمادعنایت فرمائی اوراس طرح ’’یہ تھے اکابرمظاہر‘‘کی طرح یہ کتاب بھی پہلی بارمملکت خدادادسے پی ڈی ایف کی شکل میں سوشل میڈیاپروائرل ہوئی،ایک ہی دن میں یہ کتاب کئی ہزارگروپوں،ٹیلی گرام چینلوں اورویب سائٹوں پرپہنچ چکی ہے ۔
ان کی ایک کتاب ’’یہ تھے اکابر مظاہر‘‘گزشتہ سال ۲۰۲۲میں بھارت میں سب سے زیادہ مقبول کتاب بن کرابھری تھی ،تھوڑے ہی دنوں میں دوایڈیشن بھارت میں اوردوہی ایڈیشن مملکت خدادادمیں شائع ہوگئے تھے۔
مجھے امیدہے کہ ان کی یہ کتاب بھی علمی حلقوں میں دادتحسن وآفرین حاصل کرے گی۔اللہ تعالیٰ کتاب کوقبول فرمائے۔ناصروناشرکے لئے صدقہ جاریہ بنائے۔
والسلام
(یکے ازشاگردان مفتی ناصرالدین مظاہری)
احقرمجیب الرحمن مظاہری سہارنپوری
خادم التدریس دارالعلوم سہارنپوریوپی
یکم ذوالقعدہ ۱۴۴۴ھ
 
Top