ہمارے انڈین عازمین کی اکثریت اس وقت حج بیت اللہ کے لئے پابہ رکاب ہوتی ہے جس وقت ان کی کمر خمیدہ، ان کی عمر بوسیدہ، ان کے پیر لرزید، ان کا پورا جسم بلکہ جوڑ جوڑ درد کرنے لگتاہے۔ اس پر بھی مستزاد یہ کہ سامان اکل و شرب اور اسباب عیش و راحت اتنا لاد لے جاتے ہیں کہ دو دو قلی بھی کم ہیں ۔ سوچیں عمرکے اس مرحلہ میں جب خود کسی سامان سے کم نہیں ہوتے اتنے سامان کا کیا فایدہ ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء اتنی کہ ظہرانہ اور عشائیہ بھی اسی سے کریں تو بھی بچ جائے۔
پھر یہ بزرگ ڈائننگ ہال میں اپنا اصلی رنگ دکھاتے اور جماتے ہیں کھانے کی ہمت تو دو روٹی کی نہیں ہے لیکن نیت ان کی پلیٹ سے ظاہر ہوتی ہے۔ صحیح سالم روٹیاں، ثابت انڈے، عمدہ چاول بے تکلف پلیٹ میں بچاکر اٹھ جاتے ہیں اور خدا نخواستہ کسی چیز کی کمی واقع ہوجائے تو آسمان سر پر اور ٹور والے بے چارے کو جوتوں کی نوک پر رکھ دیتے ہیں ۔
میں نے وہاں کھانے کے لئے لڑتے جھگڑتے دیکھاہے۔یہ بھی دیکھاہے کہ بجائے چائے کے چھوٹے گلاس میں چائے پینے کے پانی کے بڑے گلاس میں چائے نکال لی یعنی دوسروں کا حق اللہ تعالی کے گھر میں بھی مارنے کی عادت نہیں گئی۔
بعض تو کمرے یا ہوٹل کے مصلے میں ہی نمازیں ادا کرتے اور آرام فرماتے رہتے ہیں تو پھر وہاں جانے کی کیا ضرورت تھی؟ کھانے کے لئے اتاؤلے اور باؤلے لوگ نوے ہزار نوسو ننانوے نمازوں کا نقصان ہر نماز میں کرتے ہیں۔
عازمین حج کو اب تربیت حج کے دوران کھانے پینے کی عملی مشق بھی کرانی پڑے گی کیا؟
آپ ہوٹل سے نماز کے لئے حرمین شریفین کی طرف نکل پڑے ہیں تو اب دکانوں، ریستورانوں میں کیوں گھس گئے کیا یہ نماز سے زیادہ ضروری ہے؟
بعض لوگ اپنی عام دہاتی آوارہ زبان وہاں بھی استعمال کرتے دیکھے گئے ہیں خوب سمجھ لیجیے وہاں ایک گالی ایک لاکھ گالی بن سکتی ہیں جیسے ایک نماز ایک لاکھ نماز بن جاتی ہے۔
صبر، ضبط، تحمل، ایٹار، صلہ رحمی، کظم غیظ ، حلم، مروت، محبت، انسانیت، شرافت، تعلق مع اللہ ، عبادت ، ریاضت اور رونے گڑ گڑانے کی جگہ ہے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ۔
(ناصرالدین مظاہری)
پھر یہ بزرگ ڈائننگ ہال میں اپنا اصلی رنگ دکھاتے اور جماتے ہیں کھانے کی ہمت تو دو روٹی کی نہیں ہے لیکن نیت ان کی پلیٹ سے ظاہر ہوتی ہے۔ صحیح سالم روٹیاں، ثابت انڈے، عمدہ چاول بے تکلف پلیٹ میں بچاکر اٹھ جاتے ہیں اور خدا نخواستہ کسی چیز کی کمی واقع ہوجائے تو آسمان سر پر اور ٹور والے بے چارے کو جوتوں کی نوک پر رکھ دیتے ہیں ۔
میں نے وہاں کھانے کے لئے لڑتے جھگڑتے دیکھاہے۔یہ بھی دیکھاہے کہ بجائے چائے کے چھوٹے گلاس میں چائے پینے کے پانی کے بڑے گلاس میں چائے نکال لی یعنی دوسروں کا حق اللہ تعالی کے گھر میں بھی مارنے کی عادت نہیں گئی۔
بعض تو کمرے یا ہوٹل کے مصلے میں ہی نمازیں ادا کرتے اور آرام فرماتے رہتے ہیں تو پھر وہاں جانے کی کیا ضرورت تھی؟ کھانے کے لئے اتاؤلے اور باؤلے لوگ نوے ہزار نوسو ننانوے نمازوں کا نقصان ہر نماز میں کرتے ہیں۔
عازمین حج کو اب تربیت حج کے دوران کھانے پینے کی عملی مشق بھی کرانی پڑے گی کیا؟
آپ ہوٹل سے نماز کے لئے حرمین شریفین کی طرف نکل پڑے ہیں تو اب دکانوں، ریستورانوں میں کیوں گھس گئے کیا یہ نماز سے زیادہ ضروری ہے؟
بعض لوگ اپنی عام دہاتی آوارہ زبان وہاں بھی استعمال کرتے دیکھے گئے ہیں خوب سمجھ لیجیے وہاں ایک گالی ایک لاکھ گالی بن سکتی ہیں جیسے ایک نماز ایک لاکھ نماز بن جاتی ہے۔
صبر، ضبط، تحمل، ایٹار، صلہ رحمی، کظم غیظ ، حلم، مروت، محبت، انسانیت، شرافت، تعلق مع اللہ ، عبادت ، ریاضت اور رونے گڑ گڑانے کی جگہ ہے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ۔
(ناصرالدین مظاہری)