سنوسنو!!
اندازگفتگوکیاہے؟
(ناصرالدین مظاہری)
22/ذوالقعدۃ 1444ھ
بات اَن پڑھوں یا کم پڑھے لکھوں کی نہیں کر رہا ہوں بلکہ عالم وفاضل اور کئی کئی سال تدریس میں مصروف معزز و معظم اساتذۂ کرام کی کر رہاہوں، آپ خوداندازہ کریں اگرکوئی شخص کسی مدرسہ یا دانشگاہ میں استاذ ہو،طلبہ کی بڑی تعداد اس کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کررہی ہوتو ایسے خوش نصیب اساتذہ کی زبان اوران کے کردار و عمل سے بھی ’’تربیت یافتہ ‘‘ ہونے کا اظہار و احساس ہوناہی چاہئے۔
بہت سے اساتذہ کو دیکھاہے کہ جب وہ کسی طالب علم یاکسی چھوٹے کو پکارتے ہیں توان کے الفاظ یہ ہوتے ہیں۔
’’ابے او‘‘۔’’ہاں بے‘‘۔ ’’توکہاں جارہاہے‘‘۔ ’’تیراکیانام ہے؟‘‘۔ ’’تیرا باب کون ہے؟‘‘ ’’ابے تونے کچھ سمجھابھی یانہیں؟‘‘
یہ تومیں نے چندجملے ہی لکھے ہیں اس سے بھی گئے گزرے الفاظ سے مخاطب کرتے ہوئے آپ نے بھی بارہا سناہوگا۔
ذراغور کیجئے! ہرشخص کی اپنی عزت ہوتی ہے ، ہر شخص چاہتا ہے کہ اس کی عزت کی جائے،اس کوعزت سے پکاراجائے، اس کی عزت نفس مجروح نہ کی جائے، عزت دینے سے عزت ملتی ہے لیکن جاہلانہ ماحول،عامیانہ زندگی اور بزرگوں کی صحبت سے محرومی کے باعث ہم میں سے اکثریت کی عمریں ادھیڑ ہوچکی ہیں، بہت سوں نے تواپنی طبعی عمریں پوری کرلی ہیں ، ان ہی میں سے بعض کو اپنے بارے میں گمان ہے کہ وہ درس وتدریس کے باب میں نامور ہیں، بعض کوخوش فہمی ہے کہ وہ تقریر اور اسٹیج کے میدان میں لاثانی ہیں، کچھ کواپنے بارے میں غرہ ہے کہ وہ حدیث اور تفسیر کا درس مثالی دیتے ہیں ۔ ممکن ہے آپ کایہ سوچناصحیح ہو لیکن جناب ہمیں اس وقت بہت تکلیف ہوتی ہے جب آپ اپنے کسی چھوٹے یا بڑے کو ’’تو‘‘ سے پکارتے ہیں،’’تم ‘‘کہہ دیتے ہیں،’’ابے اورتبے‘‘ سے خطاب کرتے ہیں، ’’او‘‘ اور ’’اوئے ‘‘ جیسے عامیانہ جملے استعمال کرتے ہیں۔سامنے والابے وقوف نہیں ہے وہ آپ کے ان جملوں سے آپ کاحدود اربعہ معلوم کرلیتا ہے، وہ جان لیتاہے کہ آپ خاندانی اور شریف گھرانے کے فرد نہیں ہیں۔وہ سمجھ جاتاہے کہ آپ وہ چکنے گھڑے ہیں جن کو دیوبند اور سہارنپور جیسی عظیم دانشگاہوں میں تلمذ سے بھی کچھ حاصل نہیں ہوا، بڑے بڑے اساتذہ کی خدمت میں بیٹھ کر آپ نے اپنا بھی وقت ضائع کیا ہے اوران بڑوں کابھی قیمتی وقت برباد کردیا ہے۔
حضرت مولاناسعیدالرحمن اعظمی مدظلہ نے ایک دفعہ اپنے ایک چپراسی کو اس کی کسی غلطی پرغصہ میں ’’تم‘‘ کہہ دیا۔ ملازم کے جانے کے بعد حضرت مولانااعظمی کوتنبہ ہوا تو فوراً اس ملازم کو بلایا اورعاجزی کے ساتھ فرمایا:
’’بھائی! مجھے معاف کرنا میں نے غلطی سے آپ کو ’’تم‘‘ کہہ دیاہے؟‘‘
یہ واقعہ ہمیں بہت کچھ سوچنے کاموقع فراہم کرتاہے ،ہم اپنی روزمرہ زندگی میں بالکل ہی احساس اورخیال نہیں کرتے کہ ہمارے منہ سے کتنے جملے نکلے ہیں جنہوں نے کسی کے قلب نازک کوتڑپادیاہے،ہمارے کرداروعمل سے کتنی حرکات سرزد ہوئی ہیں جس سے کسی کی عزت نفس مجروح ہوئی ہے۔ہماری ایک ایک بات تولی جاتی ہے ، لکھی جاتی ہے،نامۂ اعمال میں بھی اوراپنے ماحول ومعاشرہ میں بھی۔
اللہ تعالیٰ کااراشادہے:
’’انسان اپنے منہ سے کوئی لفظ نکال نہیں پاتاہے مگریہ کہ اس کے پاس (لکھنے والا)نگہبان ونگران تیارہے‘‘(ق)
اورسورۂ انفطارمیں ارشادہے :
’’یقیناً تم پرنگہبان ،عزت والے،لکھنے والے مقررہیں، جوکچھ تم کرتے ہووہ جانتے ہیں‘‘
لغات کی کتابوں میں ’’ابے اور تبے‘‘ کی زبان کامطلب تلاش کرکے دیکھئے وہاں لکھاہواہے :
’’بازاری بول چال، ناشائستہ گفتگو، بدتہذیبی کے کلمات‘‘
اب ہم اپنے بارے میں اندازہ ہی نہیں بلکہ یقین کرسکتے ہیں کہ ہمارا شمار کس طبقہ میں کیاجانا چاہئے۔
منشی انوارحسین تسلیم کامشہور شعرہے:
یوں پکارے ہیں مجھے کوچۂ جاناں والے
ادھرآبے،ابے او چاک گریباں والے
ظاہرہے کوچۂ جاناں والوں کابھی یہ خطاب پسندیدہ نہیں ہے۔
ہر ایک بات پہ کہتے ہوتم کہ توکیاہے؟
تمہی بتاؤکہ یہ انداز گفتگو کیاہے
اشراف کے گھروں میں جاکر دیکھئے بڑے بوڑھے لوگ اب بھی اپنے کم سن اورکم عمر بچوں کو’’آپ اورجناب‘‘سے مخاطب کرتے ہیں ۔یہی نہیں ان اشراف کے اریب قریب زندگی بسرکرنے والے حضرات بھی محروم نہیں رہتے ،چنانچہ ایک واقعہ سناتاچلوں:
مجھ سے حضرت مولانا مفتی مظفرالاسلام تھانوی نے بیان کیاکہ ان کے بعض واقف کارلکھنؤ گئے،رکشہ والے سے منزل تک چلنے کی بات کی،اجرت میں اتفاق رائے نہیں ہوسکا توایک ساتھی نے برجستہ کہا ’’اورکیا لے گا‘‘ وہ رکشہ والا کہنے لگاکہ آپ میرے رکشہ میں جائیں یانہ جائیں یہ آپ کی مرضی ہے لیکن کم سے کم گالی تونہ دیں۔
حضرت مولانامحمداسعداللہ ناظم مظاہرعلوم کادور دورہ تھا،مجلس میں کسی نے حضرت مولانا مفتی مظفر حسینؒ کاذکر کیااورنام کے ساتھ مفتی نہیں لگایا توحضرت مولانا محمد اسعداللہؒ نے خفگی اور ناراضی کااظہارکرتے ہوئے فرمایا:
’’کیسے لوگ ہیں جواتنے بڑے عالم کوبغیرمفتی کے پکارتے ہیں‘‘
ہمیں غور کرنا چاہئے کہ ہم اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات اورہدایات کے مطابق کس قدر عمل پیرا ہیں،ہمیں رسول اللہ کے ارشادگرامی من کان یؤمن باللّٰہ والیوم الآخرفلیقل خیراأولیصمت (جوشخص اللہ اورآخرت کے دن پرایمان رکھتاہے اس کوچاہئے کہ یاتوبھلائی کی بات کہے یاخاموش رہے) پرکتناعمل کیاہے؟من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ (جس کی زبان اورہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں) پرکبھی عمل کی کوشش کی ہے یانہیں؟ان دمائکم وأموالکم وأعراضکم بینکم حرام (ایک مسلمان کے لئے دوسرے مسلمان کاخون ،مال اوراس کی عزت وآبروقابل احترام ہیں)پرکتناعمل کیاہے؟کیابات ہے کہ شرمگاہ اورزبان کے کچے ہی سب سے زیادہ عذاب جہنم کے مستحق ہیں؟شرم گاہ اورزبان کی حفاظت کرنے والوں کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیوں جنت کی ضمانت دی ہے؟۔
سوچئے اور غور کیجئے کیونکہ ابھی سوچنے اور غورکرنے کاوقت اللہ تعالیٰ نے دیاہواہے ،ممکن ہے ہمیں تنبہ اور اپنی غلطی کااحساس ہوجائے ۔ع
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات
اندازگفتگوکیاہے؟
(ناصرالدین مظاہری)
22/ذوالقعدۃ 1444ھ
بات اَن پڑھوں یا کم پڑھے لکھوں کی نہیں کر رہا ہوں بلکہ عالم وفاضل اور کئی کئی سال تدریس میں مصروف معزز و معظم اساتذۂ کرام کی کر رہاہوں، آپ خوداندازہ کریں اگرکوئی شخص کسی مدرسہ یا دانشگاہ میں استاذ ہو،طلبہ کی بڑی تعداد اس کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کررہی ہوتو ایسے خوش نصیب اساتذہ کی زبان اوران کے کردار و عمل سے بھی ’’تربیت یافتہ ‘‘ ہونے کا اظہار و احساس ہوناہی چاہئے۔
بہت سے اساتذہ کو دیکھاہے کہ جب وہ کسی طالب علم یاکسی چھوٹے کو پکارتے ہیں توان کے الفاظ یہ ہوتے ہیں۔
’’ابے او‘‘۔’’ہاں بے‘‘۔ ’’توکہاں جارہاہے‘‘۔ ’’تیراکیانام ہے؟‘‘۔ ’’تیرا باب کون ہے؟‘‘ ’’ابے تونے کچھ سمجھابھی یانہیں؟‘‘
یہ تومیں نے چندجملے ہی لکھے ہیں اس سے بھی گئے گزرے الفاظ سے مخاطب کرتے ہوئے آپ نے بھی بارہا سناہوگا۔
ذراغور کیجئے! ہرشخص کی اپنی عزت ہوتی ہے ، ہر شخص چاہتا ہے کہ اس کی عزت کی جائے،اس کوعزت سے پکاراجائے، اس کی عزت نفس مجروح نہ کی جائے، عزت دینے سے عزت ملتی ہے لیکن جاہلانہ ماحول،عامیانہ زندگی اور بزرگوں کی صحبت سے محرومی کے باعث ہم میں سے اکثریت کی عمریں ادھیڑ ہوچکی ہیں، بہت سوں نے تواپنی طبعی عمریں پوری کرلی ہیں ، ان ہی میں سے بعض کو اپنے بارے میں گمان ہے کہ وہ درس وتدریس کے باب میں نامور ہیں، بعض کوخوش فہمی ہے کہ وہ تقریر اور اسٹیج کے میدان میں لاثانی ہیں، کچھ کواپنے بارے میں غرہ ہے کہ وہ حدیث اور تفسیر کا درس مثالی دیتے ہیں ۔ ممکن ہے آپ کایہ سوچناصحیح ہو لیکن جناب ہمیں اس وقت بہت تکلیف ہوتی ہے جب آپ اپنے کسی چھوٹے یا بڑے کو ’’تو‘‘ سے پکارتے ہیں،’’تم ‘‘کہہ دیتے ہیں،’’ابے اورتبے‘‘ سے خطاب کرتے ہیں، ’’او‘‘ اور ’’اوئے ‘‘ جیسے عامیانہ جملے استعمال کرتے ہیں۔سامنے والابے وقوف نہیں ہے وہ آپ کے ان جملوں سے آپ کاحدود اربعہ معلوم کرلیتا ہے، وہ جان لیتاہے کہ آپ خاندانی اور شریف گھرانے کے فرد نہیں ہیں۔وہ سمجھ جاتاہے کہ آپ وہ چکنے گھڑے ہیں جن کو دیوبند اور سہارنپور جیسی عظیم دانشگاہوں میں تلمذ سے بھی کچھ حاصل نہیں ہوا، بڑے بڑے اساتذہ کی خدمت میں بیٹھ کر آپ نے اپنا بھی وقت ضائع کیا ہے اوران بڑوں کابھی قیمتی وقت برباد کردیا ہے۔
حضرت مولاناسعیدالرحمن اعظمی مدظلہ نے ایک دفعہ اپنے ایک چپراسی کو اس کی کسی غلطی پرغصہ میں ’’تم‘‘ کہہ دیا۔ ملازم کے جانے کے بعد حضرت مولانااعظمی کوتنبہ ہوا تو فوراً اس ملازم کو بلایا اورعاجزی کے ساتھ فرمایا:
’’بھائی! مجھے معاف کرنا میں نے غلطی سے آپ کو ’’تم‘‘ کہہ دیاہے؟‘‘
یہ واقعہ ہمیں بہت کچھ سوچنے کاموقع فراہم کرتاہے ،ہم اپنی روزمرہ زندگی میں بالکل ہی احساس اورخیال نہیں کرتے کہ ہمارے منہ سے کتنے جملے نکلے ہیں جنہوں نے کسی کے قلب نازک کوتڑپادیاہے،ہمارے کرداروعمل سے کتنی حرکات سرزد ہوئی ہیں جس سے کسی کی عزت نفس مجروح ہوئی ہے۔ہماری ایک ایک بات تولی جاتی ہے ، لکھی جاتی ہے،نامۂ اعمال میں بھی اوراپنے ماحول ومعاشرہ میں بھی۔
اللہ تعالیٰ کااراشادہے:
’’انسان اپنے منہ سے کوئی لفظ نکال نہیں پاتاہے مگریہ کہ اس کے پاس (لکھنے والا)نگہبان ونگران تیارہے‘‘(ق)
اورسورۂ انفطارمیں ارشادہے :
’’یقیناً تم پرنگہبان ،عزت والے،لکھنے والے مقررہیں، جوکچھ تم کرتے ہووہ جانتے ہیں‘‘
لغات کی کتابوں میں ’’ابے اور تبے‘‘ کی زبان کامطلب تلاش کرکے دیکھئے وہاں لکھاہواہے :
’’بازاری بول چال، ناشائستہ گفتگو، بدتہذیبی کے کلمات‘‘
اب ہم اپنے بارے میں اندازہ ہی نہیں بلکہ یقین کرسکتے ہیں کہ ہمارا شمار کس طبقہ میں کیاجانا چاہئے۔
منشی انوارحسین تسلیم کامشہور شعرہے:
یوں پکارے ہیں مجھے کوچۂ جاناں والے
ادھرآبے،ابے او چاک گریباں والے
ظاہرہے کوچۂ جاناں والوں کابھی یہ خطاب پسندیدہ نہیں ہے۔
ہر ایک بات پہ کہتے ہوتم کہ توکیاہے؟
تمہی بتاؤکہ یہ انداز گفتگو کیاہے
اشراف کے گھروں میں جاکر دیکھئے بڑے بوڑھے لوگ اب بھی اپنے کم سن اورکم عمر بچوں کو’’آپ اورجناب‘‘سے مخاطب کرتے ہیں ۔یہی نہیں ان اشراف کے اریب قریب زندگی بسرکرنے والے حضرات بھی محروم نہیں رہتے ،چنانچہ ایک واقعہ سناتاچلوں:
مجھ سے حضرت مولانا مفتی مظفرالاسلام تھانوی نے بیان کیاکہ ان کے بعض واقف کارلکھنؤ گئے،رکشہ والے سے منزل تک چلنے کی بات کی،اجرت میں اتفاق رائے نہیں ہوسکا توایک ساتھی نے برجستہ کہا ’’اورکیا لے گا‘‘ وہ رکشہ والا کہنے لگاکہ آپ میرے رکشہ میں جائیں یانہ جائیں یہ آپ کی مرضی ہے لیکن کم سے کم گالی تونہ دیں۔
حضرت مولانامحمداسعداللہ ناظم مظاہرعلوم کادور دورہ تھا،مجلس میں کسی نے حضرت مولانا مفتی مظفر حسینؒ کاذکر کیااورنام کے ساتھ مفتی نہیں لگایا توحضرت مولانا محمد اسعداللہؒ نے خفگی اور ناراضی کااظہارکرتے ہوئے فرمایا:
’’کیسے لوگ ہیں جواتنے بڑے عالم کوبغیرمفتی کے پکارتے ہیں‘‘
ہمیں غور کرنا چاہئے کہ ہم اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات اورہدایات کے مطابق کس قدر عمل پیرا ہیں،ہمیں رسول اللہ کے ارشادگرامی من کان یؤمن باللّٰہ والیوم الآخرفلیقل خیراأولیصمت (جوشخص اللہ اورآخرت کے دن پرایمان رکھتاہے اس کوچاہئے کہ یاتوبھلائی کی بات کہے یاخاموش رہے) پرکتناعمل کیاہے؟من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ (جس کی زبان اورہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں) پرکبھی عمل کی کوشش کی ہے یانہیں؟ان دمائکم وأموالکم وأعراضکم بینکم حرام (ایک مسلمان کے لئے دوسرے مسلمان کاخون ،مال اوراس کی عزت وآبروقابل احترام ہیں)پرکتناعمل کیاہے؟کیابات ہے کہ شرمگاہ اورزبان کے کچے ہی سب سے زیادہ عذاب جہنم کے مستحق ہیں؟شرم گاہ اورزبان کی حفاظت کرنے والوں کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیوں جنت کی ضمانت دی ہے؟۔
سوچئے اور غور کیجئے کیونکہ ابھی سوچنے اور غورکرنے کاوقت اللہ تعالیٰ نے دیاہواہے ،ممکن ہے ہمیں تنبہ اور اپنی غلطی کااحساس ہوجائے ۔ع
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات