سنوسنو!!
قربانی کامداربھی نیت پرموقوف ہے
ناصرالدین مظاہری
تمبور ضلع سیتاپور جارہاتھا، درمیان میں ایک کشتی سے گزرنا ہوتاہے، میں کشتی کے اندر تھا،لوگوں کا ایک ہجوم بھی سوار تھا،ایک صاحب کبھی اِدھر ہوتے تھے کبھی اُدھر ہوتے تھے ،ملاح نے ڈپٹ کرکہا:
’’ چپ چاپ اپنی جگہ بیٹھے رہو کیا کشتی ڈبونے کاارادہ ہے ؟‘‘
میں نے پوچھاکہ کیاایک شخص کے بس میں ہے کہ اتنی بڑی کشتی کوڈبوسکے؟ملاح نے جواب دیا:
’’ جی ہاں جس طرح تالاب کی ایک گندی اورسڑی مچھلی تمام مچھلیوں کابیڑہ غرق کرسکتی ہے ،ماچس کی ایک تیلی پورے پورے محلے کوجلاکر خاکسترکرسکتی ہے، جہازکاایک پائلٹ تمام سواریوں کی جان کوخطرے میں ڈال سکتا ہے بالکل اسی طرح ایک شخص کے اچھل کودسے پوری کشتی غرقاب ہوجاتی ہے‘‘۔
بالکل یہی حال قربانی کے جانورکابھی ہے ،قربانی کاجانورپاک اورحلال کمائی کاہے،اس کے حصہ داروں کی کمائی بھی حلال ہے،ایام بھی قربانی کے ہیں لیکن کسی ایک کی نیت کے بگاڑاورفسادکے باعث پوری قربانی کابیڑہ غرق ہوسکتاہے۔
آپ نے اپنے اساتذہ سے،بڑوں سے،واعظین سے،اماموں اور خطیبوں سے،مقررین اورمفکرین سے بارہاایک مشہورومعروف حدیث شریف سنی ہوگی ’’اِنماالأعمال بالنیات‘‘عمل کادارومدارنیتوں پرموقوف ہے۔یہ اصول کسی ایک چیزکے بارے میں نہیں ہے بلکہ یہ ایک عام اصول ہے جس کااطلاق تمام تردینی کاموں اوردینی امورپر ہوتاہے۔
عیدقرباں بالکل قریب ہے،اس عیدمیں گوشت کی فراوانی ہوتی ہے، ہر مسلمان گوشت پسندکرتاہے ،گوشت کھانا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی ہے اس لئے مٔومن کے دونوں ہاتھوں میں لڈوہیں گوشت کاگوشت اورثواب کاثواب۔
چھوٹے جانوروں کی قربانی ہو یابڑے کی دونوں کے بارے میں ایک بات نہایت سنجیدگی اورادب کے ساتھ کہناچاہتاہوں کہ اگرخدانخواستہ قربانی کے سلسلہ میں آپ کی نیت محض گوشت حاصل کرناہے توپھرآپ کی قربانی ضائع اوربیکارہے ، اگرچہ یہ گوشت آپ کے لئے حلال ہے لیکن قربانی کاوجوب ساقط نہیں ہواہے اب بھی باقی ہے ،جن لوگوں کی نیت میں فتورہو،اللہ تعالیٰ کی رضامقصودنہ ہوتوایسی قربانی عنداللہ قابل قبول نہیں ہے ۔ درمختارمیں ہے:ان کان شریک الستۃ نصرانیاأ و مریدا اللحم لم یجز عن واحد منہم لان الاراقۃ لاتتجزأ۔ (کتاب الاضحیۃ)
اسی طرح بڑے کی قربانی میں سات حصے ہوتے ہیں ،ان ساتوں حصہ داروں میں سے اگرکسی ایک کی نیت بھی غلط ہے یانیت میں فسادہے ،چاہے ناموری کی نیت ہو،شہرت کی نیت ہو،دکھاوے کی نیت ہویاگوشت کی نیت ہو توایسی قربانی بھی ضائع اورقابل قبول نہیں ہے ،ایک حصہ دار کی وجہ سے بقیہ تمام حصہ داروں کی قربانی ضائع اوربے کارہوجاتی ہے۔
دارالعلوم دیوبندکے دارالافتاء سے کسی سائل نے اسی سلسلہ میںسوال کیاتومفتیان کرام کاجواب تھا:
’’قربانی کے جانور میں جتنے شرکاء ہیں سب کی نیت قربت ہی کی ہونی چاہیے ‘‘
اسی طرح ایک اورمستفتی کے سوال کاجواب دیاگیا:
’’قربانی کے حصوں میں شریک افراد میں سے اگر کسی ایک کی بھی نیت قربانی و عقیقہ کے علاوہ ہے یا صرف پیسہ کمانے کی نیت ہے تو دیگر افراد کی قربانی بھی صحیح نہ ہوگی‘‘۔
ایک اورمفتی صاحب نے ایک سائل کے جواب میں فرمایا:
’’اگر قربانی کے جانور میں کسی نے صرف گوشت حاصل کرنے کی نیت کی ، قربانی ادا کرنے یا ثواب کی نیت نہیں کی تو ایسی صورت میں قربانی صحیح نہیں ہوگی، ایسا آدمی اگر مال دار ہے تو اس پر قربانی کے ایام میں ایک اور قربانی کرنا لازم ہوگا‘‘۔
مزیدفرمایاکہ
’’ایسا شخص اگر مشترکہ قربانی میں حصہ لے تو جان بوجھ کر ایسے آدمی کو بڑے جانور میں شریک کرنے کی صورت میں کسی بھی شریک کی قربانی صحیح نہیں ہوگی‘‘۔
میرے دوست مفتی محمدشاکرنثارمدنی قاسمی اعظمی سے کسی نے اس بابت پوچھاتوجواب دیا:
’’قربانی کے بڑے جانور میں ایک یا ایک سے زائد لوگ صرف گوشت کھانے کے ارادے سے شرکت کریں، واجب یا نفلی قربانی کی نیت نہ ہو تو بقیہ لوگوں کی قربانی بھی صحیح نہیں ہوگی، اس لئے بڑے جانور میں اگر کئی لوگ شریک ہوں تو ایک دوسرے کی نیت معلوم کرلینی چاہئے۔
اسی طرح اگرنیت گوشت کی نہیں بھی تھی لیکن سستی شہرت، ریاکاری، دکھاوا، نمودونمائش کے لئے قربانی کی گئی توایسی قربانی بھی عنداللہ قابل قبول نہیں ہے۔بلکہ شرکاء حضرات کوپہلے ہی سے تحقیق کرلینی چاہئے ۔
لہٰذا محلے داروں یا رشتے داروں کو دکھانے کے لیے بڑا جانور خریدنا یا اس لئے قربانی کرنا کہ اگر میں نے قربانی نہیں کی، تو لوگ میرے بارے میں کیا کہیں گے یا اس نیت سے مہنگا جانور خریدنا کہ بچے خوش ہو جائیں گے، یاد رکھیئے! ان اعمال سے قربانی اور پیسے تو ضائع ہو ہی جائیں گے، البتہ آخرت میں غیر اللہ کیلئے عمل کرنے پر سخت پکڑ اور عذاب کا اندیشہ بھی ہے‘‘۔
کسی سے اس کی نیت پوچھناتوفتنہ کوجنم دے سکتاہے، بہترہے کہ تمام شرکاء کے سامنے یہ مسئلہ تفصیل کے ساتھ بیان کردیاجائے اوراس سے بھی بہترہے کہ ائمہ حضرات قربانی سے پہلے ہی اپنے مواعظ اورتقاریرمیں یہ مسئلہ بیان کردیں تاکہ لوگوں کواپنی نیتوں میں اصلاح کاوقت مل سکے اورقربانی بھی جائزاورقبول ہوسکے۔
قربانی کامداربھی نیت پرموقوف ہے
ناصرالدین مظاہری
تمبور ضلع سیتاپور جارہاتھا، درمیان میں ایک کشتی سے گزرنا ہوتاہے، میں کشتی کے اندر تھا،لوگوں کا ایک ہجوم بھی سوار تھا،ایک صاحب کبھی اِدھر ہوتے تھے کبھی اُدھر ہوتے تھے ،ملاح نے ڈپٹ کرکہا:
’’ چپ چاپ اپنی جگہ بیٹھے رہو کیا کشتی ڈبونے کاارادہ ہے ؟‘‘
میں نے پوچھاکہ کیاایک شخص کے بس میں ہے کہ اتنی بڑی کشتی کوڈبوسکے؟ملاح نے جواب دیا:
’’ جی ہاں جس طرح تالاب کی ایک گندی اورسڑی مچھلی تمام مچھلیوں کابیڑہ غرق کرسکتی ہے ،ماچس کی ایک تیلی پورے پورے محلے کوجلاکر خاکسترکرسکتی ہے، جہازکاایک پائلٹ تمام سواریوں کی جان کوخطرے میں ڈال سکتا ہے بالکل اسی طرح ایک شخص کے اچھل کودسے پوری کشتی غرقاب ہوجاتی ہے‘‘۔
بالکل یہی حال قربانی کے جانورکابھی ہے ،قربانی کاجانورپاک اورحلال کمائی کاہے،اس کے حصہ داروں کی کمائی بھی حلال ہے،ایام بھی قربانی کے ہیں لیکن کسی ایک کی نیت کے بگاڑاورفسادکے باعث پوری قربانی کابیڑہ غرق ہوسکتاہے۔
آپ نے اپنے اساتذہ سے،بڑوں سے،واعظین سے،اماموں اور خطیبوں سے،مقررین اورمفکرین سے بارہاایک مشہورومعروف حدیث شریف سنی ہوگی ’’اِنماالأعمال بالنیات‘‘عمل کادارومدارنیتوں پرموقوف ہے۔یہ اصول کسی ایک چیزکے بارے میں نہیں ہے بلکہ یہ ایک عام اصول ہے جس کااطلاق تمام تردینی کاموں اوردینی امورپر ہوتاہے۔
عیدقرباں بالکل قریب ہے،اس عیدمیں گوشت کی فراوانی ہوتی ہے، ہر مسلمان گوشت پسندکرتاہے ،گوشت کھانا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی ہے اس لئے مٔومن کے دونوں ہاتھوں میں لڈوہیں گوشت کاگوشت اورثواب کاثواب۔
چھوٹے جانوروں کی قربانی ہو یابڑے کی دونوں کے بارے میں ایک بات نہایت سنجیدگی اورادب کے ساتھ کہناچاہتاہوں کہ اگرخدانخواستہ قربانی کے سلسلہ میں آپ کی نیت محض گوشت حاصل کرناہے توپھرآپ کی قربانی ضائع اوربیکارہے ، اگرچہ یہ گوشت آپ کے لئے حلال ہے لیکن قربانی کاوجوب ساقط نہیں ہواہے اب بھی باقی ہے ،جن لوگوں کی نیت میں فتورہو،اللہ تعالیٰ کی رضامقصودنہ ہوتوایسی قربانی عنداللہ قابل قبول نہیں ہے ۔ درمختارمیں ہے:ان کان شریک الستۃ نصرانیاأ و مریدا اللحم لم یجز عن واحد منہم لان الاراقۃ لاتتجزأ۔ (کتاب الاضحیۃ)
اسی طرح بڑے کی قربانی میں سات حصے ہوتے ہیں ،ان ساتوں حصہ داروں میں سے اگرکسی ایک کی نیت بھی غلط ہے یانیت میں فسادہے ،چاہے ناموری کی نیت ہو،شہرت کی نیت ہو،دکھاوے کی نیت ہویاگوشت کی نیت ہو توایسی قربانی بھی ضائع اورقابل قبول نہیں ہے ،ایک حصہ دار کی وجہ سے بقیہ تمام حصہ داروں کی قربانی ضائع اوربے کارہوجاتی ہے۔
دارالعلوم دیوبندکے دارالافتاء سے کسی سائل نے اسی سلسلہ میںسوال کیاتومفتیان کرام کاجواب تھا:
’’قربانی کے جانور میں جتنے شرکاء ہیں سب کی نیت قربت ہی کی ہونی چاہیے ‘‘
اسی طرح ایک اورمستفتی کے سوال کاجواب دیاگیا:
’’قربانی کے حصوں میں شریک افراد میں سے اگر کسی ایک کی بھی نیت قربانی و عقیقہ کے علاوہ ہے یا صرف پیسہ کمانے کی نیت ہے تو دیگر افراد کی قربانی بھی صحیح نہ ہوگی‘‘۔
ایک اورمفتی صاحب نے ایک سائل کے جواب میں فرمایا:
’’اگر قربانی کے جانور میں کسی نے صرف گوشت حاصل کرنے کی نیت کی ، قربانی ادا کرنے یا ثواب کی نیت نہیں کی تو ایسی صورت میں قربانی صحیح نہیں ہوگی، ایسا آدمی اگر مال دار ہے تو اس پر قربانی کے ایام میں ایک اور قربانی کرنا لازم ہوگا‘‘۔
مزیدفرمایاکہ
’’ایسا شخص اگر مشترکہ قربانی میں حصہ لے تو جان بوجھ کر ایسے آدمی کو بڑے جانور میں شریک کرنے کی صورت میں کسی بھی شریک کی قربانی صحیح نہیں ہوگی‘‘۔
میرے دوست مفتی محمدشاکرنثارمدنی قاسمی اعظمی سے کسی نے اس بابت پوچھاتوجواب دیا:
’’قربانی کے بڑے جانور میں ایک یا ایک سے زائد لوگ صرف گوشت کھانے کے ارادے سے شرکت کریں، واجب یا نفلی قربانی کی نیت نہ ہو تو بقیہ لوگوں کی قربانی بھی صحیح نہیں ہوگی، اس لئے بڑے جانور میں اگر کئی لوگ شریک ہوں تو ایک دوسرے کی نیت معلوم کرلینی چاہئے۔
اسی طرح اگرنیت گوشت کی نہیں بھی تھی لیکن سستی شہرت، ریاکاری، دکھاوا، نمودونمائش کے لئے قربانی کی گئی توایسی قربانی بھی عنداللہ قابل قبول نہیں ہے۔بلکہ شرکاء حضرات کوپہلے ہی سے تحقیق کرلینی چاہئے ۔
لہٰذا محلے داروں یا رشتے داروں کو دکھانے کے لیے بڑا جانور خریدنا یا اس لئے قربانی کرنا کہ اگر میں نے قربانی نہیں کی، تو لوگ میرے بارے میں کیا کہیں گے یا اس نیت سے مہنگا جانور خریدنا کہ بچے خوش ہو جائیں گے، یاد رکھیئے! ان اعمال سے قربانی اور پیسے تو ضائع ہو ہی جائیں گے، البتہ آخرت میں غیر اللہ کیلئے عمل کرنے پر سخت پکڑ اور عذاب کا اندیشہ بھی ہے‘‘۔
کسی سے اس کی نیت پوچھناتوفتنہ کوجنم دے سکتاہے، بہترہے کہ تمام شرکاء کے سامنے یہ مسئلہ تفصیل کے ساتھ بیان کردیاجائے اوراس سے بھی بہترہے کہ ائمہ حضرات قربانی سے پہلے ہی اپنے مواعظ اورتقاریرمیں یہ مسئلہ بیان کردیں تاکہ لوگوں کواپنی نیتوں میں اصلاح کاوقت مل سکے اورقربانی بھی جائزاورقبول ہوسکے۔