سنوسنو!
بہو اور،بیٹیوں پرقربانی کاحکم
ناصرالدین مظاہری
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
ایام قربانی (یعنی ۱۰؍ تا ۱۲ ؍ذی الحجہ) انسان کا کوئی بھی عمل اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قربانی کے جانور کا خون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں ہے اور قیامت کے روز قربانی کا یہ جانور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے سینگوں، بالوں اورکُھروں سمیت حاضر ہوگا اور بلاشبہ قربانی کے جانور کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبولیت کا درجہ پالیتا ہے ،تو اے مومنو!خوش دِلی سے قربان کیا کرو۔ (ترمذی)
قربانی واجب ہونے کا نصاب وہی ہے جو صدقۂ فطر کے واجب ہونے کا نصاب ہے، یعنی جس عاقل، بالغ ، مقیم ، مسلمان مرد یا عورت کی ملکیت میں قربانی کے ایام میں قرض کی رقم منہا کرنے بعد ساڑھے سات تولہ سونا، یا ساڑھے باون تولہ چاندی، یا اس کی قیمت کے برابر رقم ہو، یا تجارت کا سامان، یا ضرورت سے زائد اتنا سامان موجود ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو، یا ان میں سے کوئی ایک چیز یا ان پانچ چیزوں میں سے بعض کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہوتو ایسے مرد وعورت پر قربانی واجب ہے۔قربانی واجب ہونے کے لیے نصاب کے مال ، رقم یا ضرورت سے زائد سامان پر سال گزرنا شرط نہیں ہے اور تجارتی ہونا بھی شرط نہیں ہے، ذی الحجہ کی بارہویں تاریخ کے سورج غروب ہونے سے پہلے اگر نصاب کا مالک ہوجائے تو ایسے شخص پرقربانی واجب ہے۔(دارالافتاء جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن )
عورتیں مخلص ہوتی ہیں،نیک اورشریف ہوتی ہیں،دین اوردینی تعلیمات پرعمل کے سلسلہ میں پیش پیش رہتی ہیں،صدقہ وخیرات کے معاملہ میں بھی ان کی غیرت وحمیت قابل رشک ہوتی ہے ،عورتوں کی سخاوت اورفیاضی کے واقعات سے کتابیں بھری ہوئی ہیں لیکن قربانی کے سلسلہ میں عورتوں سے عموماً غفلت ہوتی ہے،عورتیں اپنے مہراوراپنے جیب خرچ کوپس اندازکرکے صاحبِ نصاب بھی ہوجاتی ہیں اورانھیں بتایابھی نہیں جاتاہے کہ وہ جس مال کی مالک ہیں اس کی مالیت اتنی ہوچکی ہے کہ شرعاصاحب نصاب ہوچکی ہیں اوراب نہ صرف قربانی واجب ہوگئی ہے بلکہ سال گزرنے اورقرض نہ ہونے کی صورت میں زکوۃ بھی فرض ہوچکی ہے۔
آج کے دورمیں لوگ مہربہت زیادہ مقررکرتے ہیں عموماً اتنا مہرمقرر کرتے ہیں کہ عورت نکاح والے دن ہی صاحب نصاب ہوجاتی ہے ۔شوہراپناحساب کتاب کرکے زکوۃ بھی دیتاہے ،صدقہ فطربھی اداکرتا ہے اورقربانی بھی لیکن اپنی بیوی کی طرف سے غافل رہتاہے اوربیوی بھی ہوش کے ناخن نہیں لیتی ہے۔
زکوۃ اورقربانی سے پہلوتہی نہیں کرنی چاہئے ،حیلے بہانے نہیں تراشنے چاہئیں بلکہ خوش دلی کے ساتھ زکوۃ اداکرنی چاہئے ،قربانی بھی کرنی چاہئے ،دیکھنے میں آتاہے کہ جب عورتوں سے اُن کے مہراوراُن کی اپنی ذاتی رقم کاحساب کتاب کیاجائے اورصاحب نصاب ہونے پرانھیں بتایاجائے کہ تمہارے اوپرقربانی بھی واجب ہے اورزکوۃ بھی فرض ہے تووہ آناکانی کرتی ہیں۔اپنے مال کامالک اپنے شوہرکوبتاکرشوہرکوہی جرم کے کٹہرے میں لاکھڑا کرتی ہیں ،بسااوقات شوہربھی بیوی کے مال سے اپنی لاتعلقی ظاہرکرتے ہیں تاکہ بیوی کی طرف سے زکوۃ سے بچا جاسکے۔اِن حیلوں بہانوں سے کام نہیں چلے گا۔اللہ تعالی ہرچیزدیکھ رہاہے ،اسی نے ہمیں مال دیاہے، وہ ہمارے ایک ایک رازسے واقف ہے ،کل میزان عدل اورعدالت کے کٹہرے میں اگرہم سے ہمارے اِن حیلوں اوربہانوں کی بابت سوال ہوگیا توہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہوگا۔
بہوؤں اورشادی شدہ بہنوں کے پاس جوزیورمہرکے علاوہ ہے اگر شوہر نے مالک بنادیا ہے تو پھر یہ آپ کا ہی زیور ہے، آپ ہی اس کی مالک ہیں۔ ویسے بھی جو زیور لڑکی والے یا سسرال والے دلہن کو دیتیہیں وہ اُس کی مالک ہوتی ہیں۔ شوہر اس کو واپس نہیں لے سکتا۔
حضرت مولانامفتی عبدالقیوم ہزاروی سے کسی عورت نے زکوۃ اورقربانی کے بارے میں پوچھاتومفتی صاحب نے فرمایا:
’’ آپ کے پاس سونا ساڑھے سات تولے ہے تو آپ صاحب نصاب ہیں۔ آپ پر قربانی واجب ہے، پیسے نہیں ہیں تو سونا بیچ کر قربانی دیں۔ جب تک آپ صاحب نصاب ہیں آپ پر قربانی واجب ہے۔ خاوند اپنی قربانی کرے گا، آپ اپنی الگ کریں گی۔ شوہر اگر اپنی طرف سے کرنے کے ساتھ ایک آپ کی طرف سے کر دے تو آپ کوثواب ملے گا‘‘۔
دارالافتاء دارالعلوم دیوبندسے ایک صاحب نے پوچھا:
’’میری بیوی کی ملکیت میں سونا اور کچھ زیورات ہیں جس کی میں زکاۃ دیتاہوں، کیا ان زیورات کی مالیت پر قربانی واجب ہوگی‘‘
اس جواب دیاگیاکہ: جی ہاں اِن زیورات کی مالیت پر قربانی واجب ہوگی۔
اسی طرح ایک صاحب نے اپنی والدہ اوراپنی اہلیہ کے بارے میں پوچھا:
’’میرے والد گھر کے سربراہ ہیں، انہوں نے اپنی کمائی سے میری والدہ کو سونے کا ایک سیٹ دیا ہے جس کی مالیت تقریبا دو؍ لاکھ روپے ہے، اسی طرح میں نے بھی اپنی کمائی سے اپنی بیوی کو ایک سیٹ دیا ہے، یہ دونوں خواتین ہاوس وائف ہیں اور خود کماتی نہیں ہیں، مجھے یہ پوچھنا ہے کہ کیا ان دونوں پر قربانی واجب ہے؟
ارباب دارالافتاء جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن نے اس کاجواب دیاکہ
’’مذکورہ صورت میں اگر سیٹوں کی مقدار ساڑھے سات تولہ سونے سے کم ہے اور ان دونوں خواتین کے پاس کچھ نقدی بھی ہے تو دونوں پر قربانی واجب ہے، البتہ اگر آپ کے والد اور آپ ان کی طرف سے قربانی کرلیں تب بھی ان کا واجب ادا ہوجائے گا،اور اگر زیور کی مقدار ساڑھے سات تولہ سے کم ہے اور ان کے پاس نقدی بھی نہیں ہے تو ان پر قربانی واجب نہیں‘‘۔
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی سے ایک صاحب نے استفتاء کیا:
’’ہمارے گھر میں ہم سب لوگ شروع ہی سے ایک ساتھ اتفاق سے رہ رہے ہیں۔ گھر کی تمام تر ذمے داری خرچ، صدقہ، فطرہ اور قربانی وغیرہ بھی گھر کا ذمے دار فرد مشترک طور پر کرتا ہے۔دریافت طلب امر یہ ہے کہ جس طرح ہمارے گھر کے مردوں پر قربانی واجب ہے اسی طرح ہماری عورتوں پر بھی واجب ہے یا نہیں؟ جب کہ صورت حال یہ ہے کہ گھر میں موجود ہر عورت کے پاس ساڑھے سات تولے سونا اور استعمال کے کپڑے کم از کم 20جوڑے اور کچھ نہ کچھ نقد رقم بھی ہر وقت موجود رہتی ہے۔ مذکورہ بالا صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے بتائیں کہ آیا اس حالت میں عورتوں پر بھی قربانی واجب ہے؟اور وجوب کی صورت میں عورت خود قربانی کرے یا گھر کے ذمے دار فرد کے ذمے کردے ،کیوں کہ ہمارا گھر مشترک ہے‘‘۔
اس کاجواب دیاگیاکہ:
’’عورت اگر خود صاحب نصاب ہو تو اس پر قربانی واجب ہے، چاہے وہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ۔ بیان کردہ صورت میں چوں کہ گھر کی تمام عورتیں صاحب نصاب ہیں، لہٰذا ہر ایک کے ذمے الگ الگ قربانی واجب ہے۔ چنانچہ گھر کے ذمے دار کو چاہیے کہ ان کی طرف سے بھی قربانی کا اہتمام کرے‘‘۔
بعض تجددپسند،روشن خیال افرادقربانی کے موقع پر شورمچانے لگتے ہیں کہ قربانی کی رقم کسی غریب ،یتیم ،مسکین یابیوہ کودیدی جائے توزیادہ ثواب ملے گا۔ یاد رکھیں اس قسم کے بہانے اورحیلے شیطانی وساوس کے سواکچھ بھی نہیں ہیں۔ آپ ان غرباء کی مددکریں،یتیموں کی کفالت سے کسی نے منع نہیں کیاہے لیکن مددکے نام پرقربانی کوہی چھوڑدینانص کی صریح مخالفت ہے اورموجب گناہ ہے۔
اسی طرح بعض مرداورعورتیں سمجھتی ہیں کہ گھرمیں ایک بکرایابڑے کاایک حصہ سب کے لئے کافی ہوگیاایساہرگزنہیں ہے ،تمام صاحبانِ نصاب مردوخواتین کواپنی اپنی طرف سے قربانی کرناضروری ہے۔
دوسرے کی طرف سے قربانی کرنے کے لئے اجازت ضروری ہے ورنہ اس پر قربانی کاوجوب باقی رہے گا۔
اسی طرح قربانی صرف ایام اضحیہ میں ہی اداہوگی بعدمیں چاہے آپ سوجانورراہ خدامیں قربان کردیں قربانی ادانہیں ہوگی۔
بہو اور،بیٹیوں پرقربانی کاحکم
ناصرالدین مظاہری
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
ایام قربانی (یعنی ۱۰؍ تا ۱۲ ؍ذی الحجہ) انسان کا کوئی بھی عمل اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قربانی کے جانور کا خون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں ہے اور قیامت کے روز قربانی کا یہ جانور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے سینگوں، بالوں اورکُھروں سمیت حاضر ہوگا اور بلاشبہ قربانی کے جانور کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبولیت کا درجہ پالیتا ہے ،تو اے مومنو!خوش دِلی سے قربان کیا کرو۔ (ترمذی)
قربانی واجب ہونے کا نصاب وہی ہے جو صدقۂ فطر کے واجب ہونے کا نصاب ہے، یعنی جس عاقل، بالغ ، مقیم ، مسلمان مرد یا عورت کی ملکیت میں قربانی کے ایام میں قرض کی رقم منہا کرنے بعد ساڑھے سات تولہ سونا، یا ساڑھے باون تولہ چاندی، یا اس کی قیمت کے برابر رقم ہو، یا تجارت کا سامان، یا ضرورت سے زائد اتنا سامان موجود ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو، یا ان میں سے کوئی ایک چیز یا ان پانچ چیزوں میں سے بعض کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہوتو ایسے مرد وعورت پر قربانی واجب ہے۔قربانی واجب ہونے کے لیے نصاب کے مال ، رقم یا ضرورت سے زائد سامان پر سال گزرنا شرط نہیں ہے اور تجارتی ہونا بھی شرط نہیں ہے، ذی الحجہ کی بارہویں تاریخ کے سورج غروب ہونے سے پہلے اگر نصاب کا مالک ہوجائے تو ایسے شخص پرقربانی واجب ہے۔(دارالافتاء جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن )
عورتیں مخلص ہوتی ہیں،نیک اورشریف ہوتی ہیں،دین اوردینی تعلیمات پرعمل کے سلسلہ میں پیش پیش رہتی ہیں،صدقہ وخیرات کے معاملہ میں بھی ان کی غیرت وحمیت قابل رشک ہوتی ہے ،عورتوں کی سخاوت اورفیاضی کے واقعات سے کتابیں بھری ہوئی ہیں لیکن قربانی کے سلسلہ میں عورتوں سے عموماً غفلت ہوتی ہے،عورتیں اپنے مہراوراپنے جیب خرچ کوپس اندازکرکے صاحبِ نصاب بھی ہوجاتی ہیں اورانھیں بتایابھی نہیں جاتاہے کہ وہ جس مال کی مالک ہیں اس کی مالیت اتنی ہوچکی ہے کہ شرعاصاحب نصاب ہوچکی ہیں اوراب نہ صرف قربانی واجب ہوگئی ہے بلکہ سال گزرنے اورقرض نہ ہونے کی صورت میں زکوۃ بھی فرض ہوچکی ہے۔
آج کے دورمیں لوگ مہربہت زیادہ مقررکرتے ہیں عموماً اتنا مہرمقرر کرتے ہیں کہ عورت نکاح والے دن ہی صاحب نصاب ہوجاتی ہے ۔شوہراپناحساب کتاب کرکے زکوۃ بھی دیتاہے ،صدقہ فطربھی اداکرتا ہے اورقربانی بھی لیکن اپنی بیوی کی طرف سے غافل رہتاہے اوربیوی بھی ہوش کے ناخن نہیں لیتی ہے۔
زکوۃ اورقربانی سے پہلوتہی نہیں کرنی چاہئے ،حیلے بہانے نہیں تراشنے چاہئیں بلکہ خوش دلی کے ساتھ زکوۃ اداکرنی چاہئے ،قربانی بھی کرنی چاہئے ،دیکھنے میں آتاہے کہ جب عورتوں سے اُن کے مہراوراُن کی اپنی ذاتی رقم کاحساب کتاب کیاجائے اورصاحب نصاب ہونے پرانھیں بتایاجائے کہ تمہارے اوپرقربانی بھی واجب ہے اورزکوۃ بھی فرض ہے تووہ آناکانی کرتی ہیں۔اپنے مال کامالک اپنے شوہرکوبتاکرشوہرکوہی جرم کے کٹہرے میں لاکھڑا کرتی ہیں ،بسااوقات شوہربھی بیوی کے مال سے اپنی لاتعلقی ظاہرکرتے ہیں تاکہ بیوی کی طرف سے زکوۃ سے بچا جاسکے۔اِن حیلوں بہانوں سے کام نہیں چلے گا۔اللہ تعالی ہرچیزدیکھ رہاہے ،اسی نے ہمیں مال دیاہے، وہ ہمارے ایک ایک رازسے واقف ہے ،کل میزان عدل اورعدالت کے کٹہرے میں اگرہم سے ہمارے اِن حیلوں اوربہانوں کی بابت سوال ہوگیا توہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہوگا۔
بہوؤں اورشادی شدہ بہنوں کے پاس جوزیورمہرکے علاوہ ہے اگر شوہر نے مالک بنادیا ہے تو پھر یہ آپ کا ہی زیور ہے، آپ ہی اس کی مالک ہیں۔ ویسے بھی جو زیور لڑکی والے یا سسرال والے دلہن کو دیتیہیں وہ اُس کی مالک ہوتی ہیں۔ شوہر اس کو واپس نہیں لے سکتا۔
حضرت مولانامفتی عبدالقیوم ہزاروی سے کسی عورت نے زکوۃ اورقربانی کے بارے میں پوچھاتومفتی صاحب نے فرمایا:
’’ آپ کے پاس سونا ساڑھے سات تولے ہے تو آپ صاحب نصاب ہیں۔ آپ پر قربانی واجب ہے، پیسے نہیں ہیں تو سونا بیچ کر قربانی دیں۔ جب تک آپ صاحب نصاب ہیں آپ پر قربانی واجب ہے۔ خاوند اپنی قربانی کرے گا، آپ اپنی الگ کریں گی۔ شوہر اگر اپنی طرف سے کرنے کے ساتھ ایک آپ کی طرف سے کر دے تو آپ کوثواب ملے گا‘‘۔
دارالافتاء دارالعلوم دیوبندسے ایک صاحب نے پوچھا:
’’میری بیوی کی ملکیت میں سونا اور کچھ زیورات ہیں جس کی میں زکاۃ دیتاہوں، کیا ان زیورات کی مالیت پر قربانی واجب ہوگی‘‘
اس جواب دیاگیاکہ: جی ہاں اِن زیورات کی مالیت پر قربانی واجب ہوگی۔
اسی طرح ایک صاحب نے اپنی والدہ اوراپنی اہلیہ کے بارے میں پوچھا:
’’میرے والد گھر کے سربراہ ہیں، انہوں نے اپنی کمائی سے میری والدہ کو سونے کا ایک سیٹ دیا ہے جس کی مالیت تقریبا دو؍ لاکھ روپے ہے، اسی طرح میں نے بھی اپنی کمائی سے اپنی بیوی کو ایک سیٹ دیا ہے، یہ دونوں خواتین ہاوس وائف ہیں اور خود کماتی نہیں ہیں، مجھے یہ پوچھنا ہے کہ کیا ان دونوں پر قربانی واجب ہے؟
ارباب دارالافتاء جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن نے اس کاجواب دیاکہ
’’مذکورہ صورت میں اگر سیٹوں کی مقدار ساڑھے سات تولہ سونے سے کم ہے اور ان دونوں خواتین کے پاس کچھ نقدی بھی ہے تو دونوں پر قربانی واجب ہے، البتہ اگر آپ کے والد اور آپ ان کی طرف سے قربانی کرلیں تب بھی ان کا واجب ادا ہوجائے گا،اور اگر زیور کی مقدار ساڑھے سات تولہ سے کم ہے اور ان کے پاس نقدی بھی نہیں ہے تو ان پر قربانی واجب نہیں‘‘۔
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی سے ایک صاحب نے استفتاء کیا:
’’ہمارے گھر میں ہم سب لوگ شروع ہی سے ایک ساتھ اتفاق سے رہ رہے ہیں۔ گھر کی تمام تر ذمے داری خرچ، صدقہ، فطرہ اور قربانی وغیرہ بھی گھر کا ذمے دار فرد مشترک طور پر کرتا ہے۔دریافت طلب امر یہ ہے کہ جس طرح ہمارے گھر کے مردوں پر قربانی واجب ہے اسی طرح ہماری عورتوں پر بھی واجب ہے یا نہیں؟ جب کہ صورت حال یہ ہے کہ گھر میں موجود ہر عورت کے پاس ساڑھے سات تولے سونا اور استعمال کے کپڑے کم از کم 20جوڑے اور کچھ نہ کچھ نقد رقم بھی ہر وقت موجود رہتی ہے۔ مذکورہ بالا صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے بتائیں کہ آیا اس حالت میں عورتوں پر بھی قربانی واجب ہے؟اور وجوب کی صورت میں عورت خود قربانی کرے یا گھر کے ذمے دار فرد کے ذمے کردے ،کیوں کہ ہمارا گھر مشترک ہے‘‘۔
اس کاجواب دیاگیاکہ:
’’عورت اگر خود صاحب نصاب ہو تو اس پر قربانی واجب ہے، چاہے وہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ۔ بیان کردہ صورت میں چوں کہ گھر کی تمام عورتیں صاحب نصاب ہیں، لہٰذا ہر ایک کے ذمے الگ الگ قربانی واجب ہے۔ چنانچہ گھر کے ذمے دار کو چاہیے کہ ان کی طرف سے بھی قربانی کا اہتمام کرے‘‘۔
بعض تجددپسند،روشن خیال افرادقربانی کے موقع پر شورمچانے لگتے ہیں کہ قربانی کی رقم کسی غریب ،یتیم ،مسکین یابیوہ کودیدی جائے توزیادہ ثواب ملے گا۔ یاد رکھیں اس قسم کے بہانے اورحیلے شیطانی وساوس کے سواکچھ بھی نہیں ہیں۔ آپ ان غرباء کی مددکریں،یتیموں کی کفالت سے کسی نے منع نہیں کیاہے لیکن مددکے نام پرقربانی کوہی چھوڑدینانص کی صریح مخالفت ہے اورموجب گناہ ہے۔
اسی طرح بعض مرداورعورتیں سمجھتی ہیں کہ گھرمیں ایک بکرایابڑے کاایک حصہ سب کے لئے کافی ہوگیاایساہرگزنہیں ہے ،تمام صاحبانِ نصاب مردوخواتین کواپنی اپنی طرف سے قربانی کرناضروری ہے۔
دوسرے کی طرف سے قربانی کرنے کے لئے اجازت ضروری ہے ورنہ اس پر قربانی کاوجوب باقی رہے گا۔
اسی طرح قربانی صرف ایام اضحیہ میں ہی اداہوگی بعدمیں چاہے آپ سوجانورراہ خدامیں قربان کردیں قربانی ادانہیں ہوگی۔