سنوسنو!!
یوٹیوب چینل والوں سے گزارش
ناصرالدین مظاہری
(18/ذی الحجہ 1444ھ جمعہ)
دولت کی حرص اور طمع نے بہتوں کے نظرئے بدل دئے،سوچ کے پیمانے بدل دئے، کاروبار کی نوعیتیں بدل گئیں، جواز اور عدم جواز کا فرق مٹ گیا، حیلوں ، بہانوں اور تاویلوں نے طرح طرح کے گل کھلادئے،خود رو مفتیوں نے فتوے کے ساتھ تقوے کو بھی کاندھا دے دیا،نئے بال و پر نکال لئے ،رہی سہی کسر نیٹ نے پوری کردی،جس نے سچ پوچھو تو دنیا کو بے دست و پا کردیا بلکہ اپنے دام مدام میں اسیر و نخچیر کرلیا، خریداری کے لئے بینک نے کارڈ جاری کردئے،فنگر پرنٹ نے دھماکہ کردیا، سہولتوں نے انسان کو اپاہج بناکر رکھ دیا، پہلے جب آف لائن تنخواہ ملتی تھی جو ایک عجیب قسم کا سکون ملتا تھا ،جیب کا ابھار قلب کو اطمینان بخشتاتھا اب جب کہ ہرکام آن لائن ہوگیاہے تو روپے پیسے کی زیارت بھی مشکل ہوگئی ہے۔موبائل کی سہولت نے مزید آسانیاں پیدا کردی ہیں، موبائل موبائل نہیں رہا منی بینک ہوگیا ہے، جس کے پاس رنگین موبائل نہیں ہے اس کو اب جدید ترین سہولتوں سے محرومی کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔
ایک تو گوگل ہی کیا کم تھا چہ جائے کہ یوٹیوب نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔واللہ اس یوٹیوب نے فائدہ کم نقصان زیادہ پہنچایا ہے، یہ وہ فتنہ ہے جس کو زہد شکن کہہ سکتے ہیں،اچھی بھلی تقریریں سنتے سنتے اچانک کوئی بے پردہ محترمہ پردہ اسکرین پر نمودار ہوکر بدنظری میں مبتلا کرجاتی ہیں،علماء و صلحاء کے بیانات، آڈیوز اور ویڈیوز بھی نیٹ پر پہنچ چکے ہیں۔لاکھوں ایم بھی کا ڈاٹا روزآنہ نیٹ پر اپلوڈ ہورہاہے، کروڑوں پیچ نیٹ پر آئے دن پہنچائے جارہے ہیں۔ساز و مزامیر تو اس کی رگ رگ میں داخل و شامل ہے۔
نیٹ بھی موبائل کی طرح ہے یعنی اس سے فایدہ کم اٹھا رہے ہیں اور اس سے گناہ کرنے والے گناہ گار زیادہ ہورہے ہیں۔
اب تو سوشل میڈیا نے ہرایرے غیرے نتھو خیرے کو "صحافی " بنادیا ہے، نہ املاء درست نہ تلفظ درست نہ لہجہ درست،نہ اسلوب درست نہ مواد معیاری نہ مشمولات سنجیدہ پھر بھی یوٹیوبر بنے بیٹھے ہں، اپنے اپنے چینل کھولے جارہے ہیں اور جس طرح ٹی وی والے ٹی آر پی کے چکر میں بات کا بتنگڑ بناکر پیش کرتے ہیں بالکل اسی طرح سوشل میڈیا کے ایڈمن حضرات کمائی کے نئے نئے انداز واطوار اختیار کررہے ہیں،قطع نظر اس کے کہ اب تک یوٹیوب چینل پر اپنی ویڈیوز اپلوڈ کرنے کے تعلق سے فقہاء شش و پنج میں مبتلا ہیں لیکن یوٹیوب چینل والے دھڑا دھڑ چٹپٹے ، اٹپٹے اچنبھے،خوف زدہ کرنے والے ، فتنہ اور پریشانی بڑھانے و پھیلانے والے عناوین متعین کرتے ہیں جس سے سراسیمگی پھیل جائے،عنوان پڑھ کر ناظرین پوری خبر پڑھنے کے لئے مجبور ہوجائیں۔
اگر آپ دھیان دیں تو یوٹیوب چینل والے اکثر حضرات جاندار کی چلتی پھرتی ویڈیوز بناتے اور اپلوڈ کرتے ہیں، چینل والے افراد پیسے بٹورنے کے لئے ایسی سرخیاں اور ایسے عنوان لگاتے ہیں کہ لگتاہے بیت بڑی تباہی آنے والی ہے مثلا:
"بھارتی مسلمانوں کے بارے میں مودی نے یہ کیا کہہ دیا"
"وزیراعلی یوگی نے عید سے ٹھیک پہلے سنادیا اپنا فیصلہ"
"سعودی ولی عہد کا سب سے بڑا اعلان"
"عازمین حج کے ساتھ ہوگیا کھیلا"
"بھارتی مسلمان اب کیا کریں گے؟"
اور جب آپ ویڈیوز دیکھنا شروع کریں تو شروع میں کئی منٹ تک تمہید کو گھما پھرا کر پریشان کیا جاتاہے۔الگ الگ الفاظ میں تمہید کو طویل کیاجاتا ہے کیونکہ بات تو کچھ ہوتی نہیں ہے بس بات کا بتنگڑ تو بنانا ہی پڑے گا ورنہ ویڈیو کے وقت کا نشانہ پورا نہیں ہوگا اور کمائی کے لئے وقت کی بھی تحدید ہوتی ہے۔
سبھی جانتے ہیں کہ شرعی نقطۂ نظر سے افواہیں پھیلانا فتنہ وفساد کو جنم دیتا ہے اور فتنہ قتل سے زیادہ سنگین جرم ہے۔
قرآنِ میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
وَاِذَا جَاۗءَھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِہٖ وَلَوْ رَدُّوْہُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَاِلٰٓى اُولِي الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْۢبِطُوْنَہٗ مِنْھُمْ وَلَوْلَا فَضْلُ اللہِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُہٗ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطٰنَ اِلَّا قَلِيْلًا (سورہ نساء)
اور جب اُن کو کوئی بات امن یا خطرے کی پہنچتی ہے تو وہ اسے پھیلا دیتے ہیں۔ اگر یہ اس کو رسول اور اپنے اولوالامر کے پاس پہنچا دیں تو وہ بات ایسے لوگوں کے علم میں آجائے جو ان کے درمیان اس بات کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ بات کی تہہ تک پہنچ جائیں اور صحیح نتیجہ اخذ کرسکیں۔ اگر تم پر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تھوڑے سے لوگوں کے سوا تم شیطان کے پیچھے لگ جاتے۔
آپ تاریخ کا مطالعہ کیجیے تو دیکھیں گے کہ افواہیں پھیلانے والے صرف منافقین ہوتے تھے ،وہی فتنوں کو جنم دیتے تھے،وہی ماحول اور معاشرہ کو گندہ و پراگندہ کرنے کے درپے رہتے تھے،وہی لڑائیاں لگواتے اور لگائی بجھائی کرتے تھے،منافقین کے سارے کام آج کل میڈیا والے کررہے ہیں پھر چاہے سوشل میڈیا ہو، الیکٹرانک میدیا ہو یا پرنٹ میڈیا ہو۔
میں نے بعض سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا والوں سے کہا بھی کہ آپ لوگ سادہ اور سمپل چیز کو بیان کرتے کرتے اتنی سراسیمگی کیوں پھیلا دیتے ہیں؟انھوں نے جواب دیا کہ مسئلہ ٹی آر پی کا ہے جس طرح شوروم میں بہت سی اشیاء کو سجا سجا کر رکھاجاتا ہے اور خریدار ان کو دیکھ کر خریداری پر مجبور ہوجاتا ہے بالکل اسی طرح چینل کے مالکان نئی نویلی خوبرو نازک اندام خوش گلو وخوش ادا لڑکیاں رکھتے ہیں تاکہ منچلے لوگ اپنی آنکھیں بھی سینکتے رہیں اور ان کے دیدار کے چکر میں ہماری ٹی آرپی بڑھتی رہے۔اور اگر ہم سرخیوں سے ہی قارئین پر سحر اور جادو نہ کرسکے تو ہمارا تو پورا سیٹ اپ برباد ہو جائے گا اور لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔
آپ خود دیکھ لیجیے ڈیبیٹ کرنے والے افراد میں سے صرف اینکر ہوتی یا ہوتا ہے جو پوری تیاری کے ساتھ پردے پرآتی ہے باقی سارے ہی لوگ بلا تیاری کے پہنچتے ہیں ،اب آپ سمجھ سکتے ہیں حاوی کون ہوگا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"کَفٰی بِالْمَرءِ اِثْمًااَنْ یُحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ (ابوداؤد) گناہ کے لیے یہ بات کافی ہے کہ انسان ہرسنی سنائی بات بیان کرنے لگے"۔
ٹی وی والے جانبدارانہ خبریں دیتے ہیں، سوشل میڈیائی مفکرین کا بھی یہی حال ہے۔
یہ لوگ پہلے سے طے کئے ہوئے ہیں کہ کس کو نیچا دکھانا ہے کس کو اوپر اٹھانا ہے،کس کے عیوب ونقائص اجاگر کرنے ہیں اور کس پر پردہ پوشی کرنی ہے،کس شخصیت کی پگڑی اچھالنے سے فالوورز بڑھیں گے، کس کی کون سی دکھتی رگ ہے،کس کی کیا کمزوری ہے، بس ان کو ذرا سا سرا مل جائے رائی کا پہاڑ یا بات کا بتنگڑ بنانا ان کی عادت اور مہارت ہے۔
الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا میں بس معمولی سا فرق یہ ہے کہ ٹی وی والے فوری طور پر آگ لگا دیتے ہیں اور سوشل میڈیا والے آہستہ آہستہ آگ لگاتے ہیں۔
دور حاضر میں ٹی وی ہو یا سوشل میڈیا،پرنٹ میڈیا ہو یا مذہب کے نام پر ہنگامہ آرائیاں ان سب چیزوں سے امن میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ امن و امان تباہ وبرباد ہوجاتاہے۔جتنے منہ اتنی بولیاں، جتنے دماغ اتنے مشورے،جیسی غذائیں ویسے اثرات،جیسی تربیت ویسے ثمرات اسی لئے حضرت علامہ نووی کا ارشاد ہے:
"جاننا چاہئے کہ ہرمکلف انسان کے لئے مناسب ہے کہ وہ ہر قسم کی گفتگو سے اپنی زبان کی حفاظت کرے، صرف وہ گفتگو کرے جس میں مصلحت واضح ہو، اور جہاں مصلحت کے اعتبار سے بولنا اور خاموش رہنا دونوں برابر ہوں تو پھر خاموش رہنا سنت ہے۔ اس لئے کہ بعض دفعہ جائز گفتگو بھی حرام یا مکروہ تک پہنچا دیتی ہے اور ایسا عام طورپر ہوتا ہے اور سلامتی کے برابر کوئی چیز نہیں"۔(ریاض الصالحین)
اس بات پر اہل سخن،مقررین، لیڈران، ٹی وی چینلوں کے ایڈیٹران، یوٹیوبران،صحافی برادران اگر سنجیدگی سے عمل پیرا ہوجائیں تو کم از کم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس وعدے اور ضمانت میں شامل ہوسکتے ہیں جس کے بارے میں ارشاد نبوی ہے:
" جو شخص مجھ کو ضمانت دے دے دو چیزوں کی، ایک جو اس کے جبڑوں کے درمیان ہے اور ایک چیز جو اس کے پیروں کے درمیان ہے، میں اس کو جنت کی ضمانت دیتا ہوں‘‘۔ (بخاری)
اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہم اپنی اول فول اور بے وقت کی بکواس سے اللہ اور رسول اللہ کی خوشنودی حاصل نہیں کررہے ہیں بلکہ ہم اپنی زبان سے ماحول اور معاشرہ میں وہ آگ لگارہے ہیں جس کو شروع تو آپ نے کیا ہے لیکن ختم خدا جانے کب ہوگی۔
اسی لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لاتکثروا الکلام بغیر ذکراللہ فإن کثرۃ الکلام بغیر ذکر اللہ تعالی قسوۃ للقلب! وإن أبعد الناس من اللہ القلب القاسي‘‘
اللہ کے ذکر کے علاوہ زیادہ باتیں نہ کیا کرو اس لئے کہ اللہ کے ذکر کے علاوہ زیادہ باتیں دل کی سختی ہے، اور لوگوں میں اللہ سے سب سے زیادہ دور سخت دل (والا آدمی) ہے۔ (سنن ترمذی)
اپنی آڈیو یا ویڈیو سے اگر اچھا کام نہ کرسکیں تو کم سے کم ایسے کام بھی نہ کریں جو نقض امن کا باعث ہوں،جس سے خون کے دریا اور آگ کے سمندر عبور کرنے پڑیں۔جس زبان یا قلم سے ہنستے بستے شہر جل کر خاک و خاکستر ہو جائیں اس کی تمام تر ذمہ داری فتنہ پھیلانے والے کے سر ہے کیونکہ اس نے برائی کی وہ خشت اول اور داغ بیل ڈالی ہے جس کی لپٹیں اور شعائیں دور تک جائیں گی۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے ایک دن نبی کریم ﷺ سے (ان کی دوسری بیوی سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کی بابت) عرض کیا: آپ کے لئے صفیہ کا ایسا ایسا ہونا کافی ہے۔ بعض راویوں نے کہا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی مراد یہ تھی کہ وہ پستہ قد ہیں تو آپ ﷺ نے (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے) فرمایا:
’’لقد قلت کلمۃً لو مج بھا البحر لمزجتہ‘‘
تم نے ایسی بات کہی ہے کہ اگر اسے سمندر کے پانی میں ملا دیا جائے تو وہ اس کا ذائقہ بدل ڈالے۔ (ابوداؤد)
اب آپ بعض یوٹیوب چینل والوں کی ہفوات اور بکواس پر دھیان دیں بعضے کتنے غلط القاب اور الفاظ استعمال کرتے ہیں بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ کس قدر گالیاں دیتے ہیں کہ سنجیدہ حضرات کو ایسی ویڈیوز سے نفرت ہوجاتی ہے۔بعض تو اشاروں اشاروں میں وہ باتیں کہہ جاتے ہیں جن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔
’’من حسن اسلام المرء ترکہ مالا یعنیہ‘‘
فضول باتوں کو چھوڑدینا، آدمی کے اسلام کی اچھائی کی دلیل ہے۔(مؤطا امام مالک)
کیا ضرورت ہے بکواس کرنے کی آپ کو اللہ تعالی نے اچھا علم دیا ہے،شرعی اور ملکی قوانین سے آپ واقف ہیں،عوام کو آپ کی باتوں پر اعتماد ہے یا آپ کی باتیں اتنی اہم ہیں کہ لوگ سنجیدگی کے ساتھ نہ صرف سنیں گے بلکہ عمل پیرا بھی ہوں گے تو بھی آپ اپنے کسی ماہر مشیر سے مشورہ ضرور کرلیں کیونکہ آپ سے کہیں زیادہ قابل وفاضل لوگ موجود ہیں۔
بہرحال ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال افعال اور سیرت حسنہ کے مطابق زندگی گزارنی چاہیے اسی میں ہمارے لئے بھلائیاں مقدر ہیں۔
بلاضرورت ہمیں زبان ہلانے سے منع کیا گیا ہے، اسی طرح قلم کو بھی سنبھال کر رکھنا ضروری ہے۔قدم قسم اور قلم تینوں چیزیں بہت سوچ سمجھ کر اٹھانی چاہئیں۔