سنوسنو!!
قربانی کے لئے کون سا جانورافضل ہے؟
(ناصرالدین مظاہری)
اسلام ایک مکمل دین ہے،اس کی اپنی مکمل تہذیب ہے،اسلام اپنے اندر دیگر ادیان و مذاہب کی رسم ورواج کو داخل ہونے نہیں دیتاہے،اسلام دوسروں کی مشابہت اور تشبہ سے بھی بچنے کی تلقین وہدایت کرتاہے۔اسلام دورنگی کاقائل نہیں ہے ،اسلام ایک خدا،ایک رسول،ایک کتاب اورایک شریعت والا مذہب ہے ،اس کی آمدسے دیگر ادیان ومذاہب منسوخ ہوچکے ہیں،ہمارے نبی نے تمام انبیاء کو، ہماری کتاب نے تمام کتب سماویہ کو،ہماری شریعت نے تمام شریعتوں کومنسوخ کرکے رکھ دیاہے۔اسلام ہی دین فطرت ہے ،اسی میں تمام لوگوں کی بھلائیاں اورامن اطمینان کی تمام ترخوبیاں موجودہیں،اسلام ہی آفاقی اورالٰہی مذہب ہے ، یہ مذہب ہرعبادت اورطاعت میں ’’خلوص‘‘کامطالبہ کرتاہے،اس کی جتنی بھی طاعات اورعبادات ہیں سبھی اسی اخلاص اورخلوص کے گردگھومتی ہیں۔
قربانی کوہی لے لیجئے اس میں بھی اللہ پاک کوریااورنفاق پسندنہیں ہے ،بلکہ جس نے بھی دکھاوے کے لئے قربانی کی وہ قربانی عنداللہ غیرمقبول بلکہ مردود ہے۔
قربانی کے جانوروں کے انتخاب میں بھی اسلام نے غریبوں کادھیان اورخیال رکھاہے کیونکہ یہ مذہب ہے ہی غریبوں کا،اس کی شروعات میں غریبوں کا خون پسینہ بہاہے،اس کی جڑوں میں اولوالعزم صحابہ کی محنتیں موجودہیں ،اسی لئے اِس آسمانی اورآفاقی مذہب میں تاقیام قیامت سرموانحراف اورتبدیلی ممکن نہیں ہے۔
اس کے اصول،اس کے ضابطے،ا س کے فرامین اورہدایات سب نقش کاالحجرہیں ،کسی بھی عبادت میں نفاق کا دخول وشمول زہر قاتل ہے۔قربانی کو ہی لے لیجئے یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وہ عظیم سنت ہے جونسل درنسل قیامت تک جاری رہے گی۔قربانی ہم سے ہمارے اخلاص اورخلوص کامطالبہ کرتی ہے ،قربانی گوشت کھانے کانام نہیں ہے بلکہ اللہ کی راہ میں اپنے جانورکاخون بہانے سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کاحصول ممکن ہوتاہے۔
بعض لوگ سستے سے سستامریل قسم کاجانور خریدنا چاہتے ہیں تاکہ اُن کے ذمہ سے ’’واجب‘‘ ادا ہوجائے حالانکہ قربانی کے جانور کا موٹا اور خوبصورت ہونا مستحبات میں شامل ہے ،دبلا پتلا مریل قسم کا جانور آپ پالنا پسندنہیں کرتے لیکن کمال ہے کہ اس کواللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنے پرآمادہ وتیار ہیں ،آپ اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے حصول کے لئے قربانی کررہے ہیں اپنے سرسے کوئی بوجھ یا کوئی مصیبت نہیں اتارہے ہیں، جو چیزاپنے لئے پسندکریں وہی چیز اللہ تعالی کے لئے بھی پسندکریں ،اس سلسلہ میں فقہ کاایک عام اصول یہ ہے :
البقرۃ افضل من الشاۃ فی الاضحیۃ اذا استویا فی القیمۃ ؛ لانہا أعظم وأکبر، والشاۃ افضل من سبع البقرۃ، واذا استویا فی القیمۃ، واللحم؛ لان الشاۃ افضل من سبع البقرۃ، وان استویا فی القیمۃ، واللحم؛ لان لحم الشاۃ أطیب، وان کان سبع البقرۃ أکثر لحماً، فسبع البقرۃ افضل، والاصل فی ہذا انہما اذا استویا فی اللحم والقیمۃ فاطیبہما لحماً أفضل، واذا اختلفا فی القیمۃ واللحم، والفاضل اولیٰ(المحیط البرہانی)۔
اگر ضرورت مند لوگ زیادہ ہوں تو زیادہ گوشت والا جانور افضل ہے، ورنہ ایسا جانور جو فربہ اور موٹا ہو، اور اس کی قیمت زیادہ اور گوشت عمدہ ہو، تو وہ افضل ہے۔
اگر بڑے جانور گائے وغیرہ کے ساتویں حصہ کی قیمت اور بکری کی قیمت برابر اور گوشت بھی برابر ہے تو بکری خریدنا افضل ہے، پھر بھیڑ کی قربانی بکری سے، مادہ کی قربانی نر سے افضل ہے۔
جس قربانی کی قیمت زیادہ ہو، وہ بہتر ہے اور اگر دو جانوروں کی قیمت برابر ہو لیکن ایک کا گوشت زیادہ ہے تو وہی بہتر اور افضل ہے۔
درمختارمیں ہے:
’’الشاۃ افضل من سبع البقرۃ اذا استویا فی القیمۃ واللحم ، والکبش افضل من النعجۃ اذا استویا فیھما، والانثی من المعز افضل من التیس اذا استویا قیمۃ، والانثی من الابل والبقرۃ افضل ،حاوی،وفی الوھبانیۃ ان الانثی افضل من الذکر اذا استویا قیمۃ‘‘
بکری گائے کے ساتویں حصہ سے افضل ہے، جبکہ دونوں قیمت اور گوشت میں برابر ہوں اور مینڈھا، بھیڑسے افضل ہے جب کہ دونوں قیمت اورگوشت میں برابرہوں،اور بکری بکرے سے افضل ہے جب کہ دونوں قیمت میں برابر ہوں اوراونٹنی اورگائے (اونٹ اور بیل سے) افضل ہیں،حاوی اور وہبانیہ میں ہے کہ مادہ نر سے افضل ہے جبکہ دونوں قیمت میں برابر ہوں۔
(درمختار مع رد المحتار)
دارالعلوم دیوبندکے دارالافتاء کاارشادہے:
’’قربانی کرنے میں اخلاص اورغرباء کا فائدہ دونوں جانوروں میں سے جس جانور کی قربانی میں زیادہ ہو اس کی قربانی افضل ہے اور صورتِ مسئولہ میں بڑے جانور کی قربانی میں اخلاص کی بھی زیادتی ہے نیز غرباء اور نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور والدین واعزہ کے ثواب کا فائدہ بھی زیادہ ہے اس لیے بڑے جانوروں کی قربانی افضل ہے اور اس میں ثواب بھی ان شاء اللہ زیادہ ہوگا‘‘۔
فتاویٰ قاضی خان میں ہے کہ بعض فقہاء نے فرمایا:
’’جب بکری کی قیمت بدنہ (گائے،اونٹ)سے زیادہ ہو تو بکری افضل ہے کیونکہ بکری پوری کی پوری فرض کے طور پر ہوگی اور بدنہ کا ساتواں حصہ فرض کے طور پر ہوگا اور باقی نفل،اور جو چیز پوری فرض واقع ہو وہ زیادہ فضیلت والی ہوگی‘‘۔
شیخ ابو بکر محمد بن فضل رحمہ اللہ کاارشادہے:
’’بدنہ افضل ہے کیونکہ وہ بکری سے گوشت کے اعتبار سے زائد ہوتا ہے‘‘
(فتاوی قاضی خان)
شرح وہبانیہ میں ہے:
’’ساتواں حصہ جب زیادہ قیمت اور زیادہ گوشت والا ہو تو اس کے افضل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جب وہ زیادہ قیمت والا ہوگا تو زیادہ گوشت والا ہوگا اور جب وہ زیادہ گوشت والا ہوگا تو فقراء کے لئے زیادہ فائدہ مند اور زیادہ وسعت والا ہوگا اور اس دن وسعت مستحب ہے‘‘۔
اگرچہ مہنگائی کازمانہ ہے لیکن لن تنالوا البرحتی تنفقوامماتحبون کااصول تاقیامت جاری اورنافذ رہے گا۔ آپ پرقربانی واجب ہے توضرورکیجئے، نہیں واجب ہے تونہ کریں، شریعت نے اجازت دی ہے لیکن خواہ مخواہ کے حیلے بہانے نہ کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ کوایام اضحیہ میں قربانی کاخون بہانے سے زیادہ پسندیدہ کوئی عمل نہیں ہے۔
٭٭٭
قربانی کے لئے کون سا جانورافضل ہے؟
(ناصرالدین مظاہری)
اسلام ایک مکمل دین ہے،اس کی اپنی مکمل تہذیب ہے،اسلام اپنے اندر دیگر ادیان و مذاہب کی رسم ورواج کو داخل ہونے نہیں دیتاہے،اسلام دوسروں کی مشابہت اور تشبہ سے بھی بچنے کی تلقین وہدایت کرتاہے۔اسلام دورنگی کاقائل نہیں ہے ،اسلام ایک خدا،ایک رسول،ایک کتاب اورایک شریعت والا مذہب ہے ،اس کی آمدسے دیگر ادیان ومذاہب منسوخ ہوچکے ہیں،ہمارے نبی نے تمام انبیاء کو، ہماری کتاب نے تمام کتب سماویہ کو،ہماری شریعت نے تمام شریعتوں کومنسوخ کرکے رکھ دیاہے۔اسلام ہی دین فطرت ہے ،اسی میں تمام لوگوں کی بھلائیاں اورامن اطمینان کی تمام ترخوبیاں موجودہیں،اسلام ہی آفاقی اورالٰہی مذہب ہے ، یہ مذہب ہرعبادت اورطاعت میں ’’خلوص‘‘کامطالبہ کرتاہے،اس کی جتنی بھی طاعات اورعبادات ہیں سبھی اسی اخلاص اورخلوص کے گردگھومتی ہیں۔
قربانی کوہی لے لیجئے اس میں بھی اللہ پاک کوریااورنفاق پسندنہیں ہے ،بلکہ جس نے بھی دکھاوے کے لئے قربانی کی وہ قربانی عنداللہ غیرمقبول بلکہ مردود ہے۔
قربانی کے جانوروں کے انتخاب میں بھی اسلام نے غریبوں کادھیان اورخیال رکھاہے کیونکہ یہ مذہب ہے ہی غریبوں کا،اس کی شروعات میں غریبوں کا خون پسینہ بہاہے،اس کی جڑوں میں اولوالعزم صحابہ کی محنتیں موجودہیں ،اسی لئے اِس آسمانی اورآفاقی مذہب میں تاقیام قیامت سرموانحراف اورتبدیلی ممکن نہیں ہے۔
اس کے اصول،اس کے ضابطے،ا س کے فرامین اورہدایات سب نقش کاالحجرہیں ،کسی بھی عبادت میں نفاق کا دخول وشمول زہر قاتل ہے۔قربانی کو ہی لے لیجئے یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وہ عظیم سنت ہے جونسل درنسل قیامت تک جاری رہے گی۔قربانی ہم سے ہمارے اخلاص اورخلوص کامطالبہ کرتی ہے ،قربانی گوشت کھانے کانام نہیں ہے بلکہ اللہ کی راہ میں اپنے جانورکاخون بہانے سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کاحصول ممکن ہوتاہے۔
بعض لوگ سستے سے سستامریل قسم کاجانور خریدنا چاہتے ہیں تاکہ اُن کے ذمہ سے ’’واجب‘‘ ادا ہوجائے حالانکہ قربانی کے جانور کا موٹا اور خوبصورت ہونا مستحبات میں شامل ہے ،دبلا پتلا مریل قسم کا جانور آپ پالنا پسندنہیں کرتے لیکن کمال ہے کہ اس کواللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنے پرآمادہ وتیار ہیں ،آپ اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے حصول کے لئے قربانی کررہے ہیں اپنے سرسے کوئی بوجھ یا کوئی مصیبت نہیں اتارہے ہیں، جو چیزاپنے لئے پسندکریں وہی چیز اللہ تعالی کے لئے بھی پسندکریں ،اس سلسلہ میں فقہ کاایک عام اصول یہ ہے :
البقرۃ افضل من الشاۃ فی الاضحیۃ اذا استویا فی القیمۃ ؛ لانہا أعظم وأکبر، والشاۃ افضل من سبع البقرۃ، واذا استویا فی القیمۃ، واللحم؛ لان الشاۃ افضل من سبع البقرۃ، وان استویا فی القیمۃ، واللحم؛ لان لحم الشاۃ أطیب، وان کان سبع البقرۃ أکثر لحماً، فسبع البقرۃ افضل، والاصل فی ہذا انہما اذا استویا فی اللحم والقیمۃ فاطیبہما لحماً أفضل، واذا اختلفا فی القیمۃ واللحم، والفاضل اولیٰ(المحیط البرہانی)۔
اگر ضرورت مند لوگ زیادہ ہوں تو زیادہ گوشت والا جانور افضل ہے، ورنہ ایسا جانور جو فربہ اور موٹا ہو، اور اس کی قیمت زیادہ اور گوشت عمدہ ہو، تو وہ افضل ہے۔
اگر بڑے جانور گائے وغیرہ کے ساتویں حصہ کی قیمت اور بکری کی قیمت برابر اور گوشت بھی برابر ہے تو بکری خریدنا افضل ہے، پھر بھیڑ کی قربانی بکری سے، مادہ کی قربانی نر سے افضل ہے۔
جس قربانی کی قیمت زیادہ ہو، وہ بہتر ہے اور اگر دو جانوروں کی قیمت برابر ہو لیکن ایک کا گوشت زیادہ ہے تو وہی بہتر اور افضل ہے۔
درمختارمیں ہے:
’’الشاۃ افضل من سبع البقرۃ اذا استویا فی القیمۃ واللحم ، والکبش افضل من النعجۃ اذا استویا فیھما، والانثی من المعز افضل من التیس اذا استویا قیمۃ، والانثی من الابل والبقرۃ افضل ،حاوی،وفی الوھبانیۃ ان الانثی افضل من الذکر اذا استویا قیمۃ‘‘
بکری گائے کے ساتویں حصہ سے افضل ہے، جبکہ دونوں قیمت اور گوشت میں برابر ہوں اور مینڈھا، بھیڑسے افضل ہے جب کہ دونوں قیمت اورگوشت میں برابرہوں،اور بکری بکرے سے افضل ہے جب کہ دونوں قیمت میں برابر ہوں اوراونٹنی اورگائے (اونٹ اور بیل سے) افضل ہیں،حاوی اور وہبانیہ میں ہے کہ مادہ نر سے افضل ہے جبکہ دونوں قیمت میں برابر ہوں۔
(درمختار مع رد المحتار)
دارالعلوم دیوبندکے دارالافتاء کاارشادہے:
’’قربانی کرنے میں اخلاص اورغرباء کا فائدہ دونوں جانوروں میں سے جس جانور کی قربانی میں زیادہ ہو اس کی قربانی افضل ہے اور صورتِ مسئولہ میں بڑے جانور کی قربانی میں اخلاص کی بھی زیادتی ہے نیز غرباء اور نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور والدین واعزہ کے ثواب کا فائدہ بھی زیادہ ہے اس لیے بڑے جانوروں کی قربانی افضل ہے اور اس میں ثواب بھی ان شاء اللہ زیادہ ہوگا‘‘۔
فتاویٰ قاضی خان میں ہے کہ بعض فقہاء نے فرمایا:
’’جب بکری کی قیمت بدنہ (گائے،اونٹ)سے زیادہ ہو تو بکری افضل ہے کیونکہ بکری پوری کی پوری فرض کے طور پر ہوگی اور بدنہ کا ساتواں حصہ فرض کے طور پر ہوگا اور باقی نفل،اور جو چیز پوری فرض واقع ہو وہ زیادہ فضیلت والی ہوگی‘‘۔
شیخ ابو بکر محمد بن فضل رحمہ اللہ کاارشادہے:
’’بدنہ افضل ہے کیونکہ وہ بکری سے گوشت کے اعتبار سے زائد ہوتا ہے‘‘
(فتاوی قاضی خان)
شرح وہبانیہ میں ہے:
’’ساتواں حصہ جب زیادہ قیمت اور زیادہ گوشت والا ہو تو اس کے افضل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جب وہ زیادہ قیمت والا ہوگا تو زیادہ گوشت والا ہوگا اور جب وہ زیادہ گوشت والا ہوگا تو فقراء کے لئے زیادہ فائدہ مند اور زیادہ وسعت والا ہوگا اور اس دن وسعت مستحب ہے‘‘۔
اگرچہ مہنگائی کازمانہ ہے لیکن لن تنالوا البرحتی تنفقوامماتحبون کااصول تاقیامت جاری اورنافذ رہے گا۔ آپ پرقربانی واجب ہے توضرورکیجئے، نہیں واجب ہے تونہ کریں، شریعت نے اجازت دی ہے لیکن خواہ مخواہ کے حیلے بہانے نہ کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ کوایام اضحیہ میں قربانی کاخون بہانے سے زیادہ پسندیدہ کوئی عمل نہیں ہے۔
٭٭٭