با ادب بانصیب

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
سنوسنو!!

با ادب بانصیب

ناصرالدین مظاہری

استاذ محترم حضرت مولانا اطہر حسین اجراڑویؒ (برادر اصغر فقیہ اسلام حضرت مفتی مظفرحسین) طلبہ کی تعلیم و تربیت میں عجیب و غریب انداز اختیار کرتے تھے جو لوگ ان کو جانتے تھے وہ کہتے ہیں کہ مولانا بہت ہی نرم مزاج تھے اور جو نہیں جانتے وہ کہتے ہیں کہ مولانا بہت ہی گرم مزاج تھے۔یہ سچ بھی ہے اصول پرست انسان تھے،بے اصولی سے انھیں نفرت تھی، بد سلیقگی سے انھیں وحشت ہوتی تھی،عدم تربیت کا ہر پہلو ان کے مزاج کو مکدر کردیتا تھا اور حسن تربیت کا ہر انداز انھیں بھاجاتا تھا۔

ایک دن ایک طالب علم نے ان کے ساتھ گھر میں نماز پڑھی،نماز کے بعد مصلے کو سمیٹنے اور لپیٹنے کے لئے طالب علم آگے بڑھا،عام طور پر لوگ مصلے کو درمیان سے فولڈ کرکے چوکور کردیتے ہیں اس طالب علم نے بھی یہی کیا تو مولانا نے فرمایا کہ مصلے کو اس طرح کبھی نہیں لپیٹنا چاہئے کیونکہ اس طرح تو پیروں کے نیچے والا حصہ سجدے والے حصہ کے پاس پہنچ جاتا ہے صحیح طریقہ یہ ہے کہ مصلے کو بالکل کھڑا کھڑا درمیان سے موڑیں تو سجدہ والا حصہ پیروں والے حصہ کے پاس نہیں جاسکے گا۔

یہ فن اور یہ علم میں نے کہیں کسی کتاب میں نہیں دیکھا واقعی بزرگوں کی صحبتیں وہ دولت دے جاتی ہیں جو عام طورپر سیکڑوں صفحات کی ورق گردانی کے باوجود کتابیں نہیں دے پاتی ہیں۔

یہ واقعہ سوشل میڈیا پروائرل ہواتوبہت سے اصحاب واحباب نے اپنے والدین،اساتذہ یااپنے بزرگوں کے حوالے سے مضمون کی تائید وحمایت کی۔ چنانچہ مولانامحمدعلی نعیم رازی صاحب نے لکھاکہ :

’’ہمیں بھی یہی طریقہ حضرت مولانامحمدسعیدی صاحب مدظلہ نے سکھایاتھا‘‘

مولاناربانی صاحب نے لکھا:

’’ایک دفعہ حضرت مولانامحمدسعیدی صاحب کے ساتھ نمازپڑھنے کاموقع ملاتوانہوں نے اسی طرح مصلے کوسمیٹنے کی ہدایت کی‘‘

مولانامحمدشاکرصاحب نے شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدیونس جونپوریؒ کاحوالہ دیاکہ حضرت علیہ الرحمہ نے سبق کے دوران مصلے کوسمیٹنے کایہی طریقہ بتایاتھا۔

مولاناحنظلہ حنفی صاحب نے اپنے استاذمحترم حضرت مولانامفتی اسعدقاسم سنبھلی مدظلہ کے بارے میں بتایاکہ وہ اسی طرح مصلے کوسمیٹنے کی تلقین وہدایت کرتے تھے ۔

ایک اورصاحب نے اپنے مرشدگرامی حضرت مولانامحمدطلحہ صاحب نقشبندی کے حوالے سے لکھاکہ حضرت مدظلہ نے مجھے اسی طرح مصلے کوسمیٹنے کی تلقین اورنصیحت فرمائی تھی تب سے اسی پر عمل ہے ۔

محترم عارف اقبال صاحب نے اپنی والدہ ماجدہ کے بارے میں بتایاکہ ان کاہمیشہ یہی معمول رہالیکن کبھی وجہ دریافت کرنے کی نوبت نہیں آئی ۔

محترم صفدرعالم صاحب نے کہاکہ میں بھی کیف ماتفق موڑدیاکرتاتھالیکن ایک دفعہ جماعت میں جاناہواتووہاں ایک صاحب نے اسی طرح سے مصلے کوسمیٹنے کا طریقہ بتایااورتب سے اسی پرعمل ہے۔

ہمارے محترم ڈاکٹراصغرکمال صاحب دہلوی لکھتے ہیں :

’’پیاری پیاری باتیں اللہ کے پیارے بندوں تک پہنچانے کا کام جاری ہے ، وہ باتیں بیشک کہیں کتابوں میں بھی درج نظر نہیں آتیں جو آپ بزرگوں کی مجلس میں بیٹھ کر سیکھتے ہیں، اول الذکر طریقہ پر پہلے ہم بھی عمل کرتے تھے لیکن بزرگوں کی تنبیہ پر اسے ترک کردیا اور آخرالذکر طریقہ کو اپنالیا ، مصلی یا جا نماز کو یوں تہ کیا جائے پیروں والا حصہ سجدہ والے حصہ سے دور رہے یعنی سب سے پہلے لمبائی میں تہ کیا جائے پھر اسے جیسے چاہیں تہ کریں ۔ایک اور محفل میں یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ تسبیح صرف سیدھے ہاتھ پر ہی پڑھی جائے ، بائیں ہاتھ کا استعمال نہ کیا جائے کیونکہ وہ طہارت کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ‘‘

یہ سب باتیں مصلے کے تعلق سے ہیں اب اگرکوئی اسی مصلے کوبنیادبناکر مسجدکی صف تک پہنچ جائے تواس میں راقم الحروف کاکوئی قصورنہیں ہے اوراگرکوئی ان باتوں کو’’تکلف بے جا‘‘سے تعبیرکرے تواس سے میری تحریرپریابزرگوں کے اِن واقعات پر کوئی فرق نہیں پڑتاہے ۔

مجھے توبزرگوں کی صحبتوں سے ایسی ایسی چیزیں ملی ہیں کہ لکھنے پرآؤں توپورامضمون تیارہوجائے لیکن یہاں اس کاموقع نہیں ہے بس چلتے چلتے ایک واقعہ پڑھتے چلئے!

چندسال پہلے کی بات ہے حضرت مولانااللہ یارخان صاحب ؒکے خلیفہ اورمسترشدحضرت احسن بیگ صاحب مظاہرعلوم وقف سہارنپور تشریف لائے، حضرت مولانااطہرحسینؒ کے چھوٹے صاحب زادے مولانااحمدیوشع سعیدی صاحب نے حضرت کے لئے کپ میں چائے نکالی، حضرت کی حسب منشاء کپ میں چینی ڈال کرچمچ کوہلاناشروع کیاتاکہ چینی تحلیل ہوجائے، اچانک حضرت احسن بیگ مدظلہ نے مولانااحمدیوشع کوٹوکااورفرمایا:

’’میری جان! چینی کوچائے میں توگھل ہی جاناہے اس میں آپ سنت کوشامل کرلیجئے اورچائے کے چمچ کوبائیں طرف سے شروع کرنے کے بجائے دائیں طرف سے شروع کیجئے اس سے دونوں فائدے حاصل ہوجائیں گے چینی بھی گھل جائے گی اورسنت پرعمل بھی ہوجائے گا۔

مجھے یادآیامدرسہ مظاہرعلوم (وقف)سہارنپورکے ایک استاذتھے حضرت مولاناسیدظریف احمدپورقاضویؒ وہ ہمیشہ اپنے گھرسے مدرسہ تک پیدل سفرکرتے تھے اوردائیں جانب چلتے تھے ۔خودمیرے استاذ حضرت مولانا عشیق احمدؒ بھی دائیں جانب چلنے کوترجیح دیتے تھے ۔اب یہ الگ بحث ہے کہ جن ملکوں میں بائیں جانب چلناضروری قراردیاجاچکاہے وہاں کیاحکم ہے ۔میں تواُس وقت کی بات کرتاہوں اوراُن کی بات کرتاہوں جن کے زمانے میں نہ تو آج جیسا ٹریفک تھا نہ آج جیسی بھیڑبھاڑتھی نہ آج کی طرح گاڑیاں اورموٹریں تھیں ۔

بہرحال ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ ہم ہرچیزمیں سنت نبوی کاخیال رکھیں،دائیں کوبائیں پربہرحال فوقیت حاصل ہے البتہ بے شمارجگہیں اورمواقع ایسے ہیں جہاں بائیں کاخیال رکھناپڑتاہے اس سلسلہ میں مجھے علامہ ابن الحاج مالکی ؒکی بات بہت اچھی لگی وہ فرماتے ہیں :

’’ انسان کے جائز اعمال تین طرح کے ہیں واجب ، مستحب اورمباح ،حدیث شریف میں طہور سے جنس واجبات کی طرف ، ترجل سے جنس مندوبات کی طرف اور تنعل سے جنس مباحات کی طرف اشارہ ہے ، گویا واجبات ،مباحات اورمستحبات میں دا ہنی جانب سے شروعات کرنا سنت نبوی ہے‘‘۔

کھانے پینے ،مسجد یا گھر میں داخل ہونے، وضواورکپڑے پہننے،صف میں پہلے داہنی جانب کھڑے ہونے،ناخن کاٹنے، سرمونڈنے، اذان میں پہلے داہنی جانب مڑنے،میت کوغسل دینے میں داہنی جانب کاخیال رکھنے ،کھانے پینے کی تقسیم میں بھی دائیں کاخیال ولحاظ رکھنے ،طواف کرنے، مسجد میں دا ہنی جانب بیٹھنے،داہنی آنکھ میں پہلے سرمہ لگانے ،مونچھ تراشنے،موئے زیر بغل صاف کرنے، مصافحہ کرنے،حجر اسودکو بوسہ دینے ،رمی جمار کرنے تک میں دائیں سے شروع کرناکہیں سنت ہے اورکہیں توواجب ہے۔

ہمارے اعمال ہماری نیتوں کے ساتھ چلتے ہیں توہمیں بھی اپنی نیتوں کوسنت کے مطابق رکھنے کی ہرممکن کوشش کرنی چاہئے۔
 
Top