ڈاکٹراے پی جے عبدالکلام

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
ڈاکٹراے پی جے عبدالکلام:
ایک شخصیت یاایک عہد

(مفتی) ناصرالدین مظاہری
استاذمظاہرعلوم (وقف) سہارنپور

ایک سیاہ دیوار پراستاذ نے ایک سیدھی لکیر کھینچ کر اپنے طالب علموں سے کہا کہ میری کھینچی ہوئی اس لکیر کو چھیڑے اور چھوے بغیر کون ہے جو لکیر کو چھوٹا کردے۔ طلبہ ایک دوسرے کامنہ تکنے لگے ،مسکرانے لگے کہ لکیرکو چھوئے بغیرکیونکرممکن ہے، اچانک اسی صف سے ایک طالب علم اٹھا،چاق کو ہاتھ میں لیا،بلیک بورڈکے قریب پہنچااور لکیر سے متصل ایک بڑی لکیر کھینچ دی ،اب پہلی ہی نظرمیں استاذکی لکیرچھوٹی اورطالب علم کی لکیربڑی نظرآرہی تھی۔

بالکل یہی حال ہمارے ملک میں نامورسائنس داں اے پی جے عبدالکلام کے ساتھ ہوا، کلام صاحب نے اپنے ملک کی تعمیروترقی کے لئے ایک ایسی لکیرکھینچی جس کے آگے باقی تمام لکیریں چھوٹی اوربونی نظرآنے لگیں۔

عام طورپرمیں نے یہی دیکھا ہے کہ لوگ اپنے ملک سے پہنچانے جاتے ہیں لیکن زندگی میں ایک شخصیت میں نے بھی ایسی پائی ہے جس سے ملک پہچاناجاتاتھا،جی ہاں یہ بالکل مبالغہ نہیں ہے کبھی کبھی انسان اتنی بلندیوں کوپاراور عبور کرلیتاہے کہ اس کی وجہ سے ملکوں ،مملکتوں اورملوکوں کوعالم گیرشہرت اورنیک نامی حاصل ہوتی ہے ،سربراہان مملکت بڑے فخرکے ساتھ اس ہستی کانام لیتے اوراپنے آپ کواس کی جانب منسوب کرتے ہیں۔
میزائیل مین جناب اے پی جے عبدالکلام کانام پچپن سے سنتااوراخبارات میں پڑھتا آرہا تھا،ان کی ہربڑی کامیابی ملک کی کامیابی مانی اورتصورکی جاتی تھی،وہ محسن الملک تھے ،ان کی ذات اوران کے عالی دماغ سے ملک کووہ دولت حاصل ہوئی ہے جس کوفراموش نہیں کیاجاسکتاہے ۔

یوں تو ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام منجھے ہوئے تعلیم یافتہ تھے،سائنس اورٹیکنالوجی میں ان کاپورے ملک میں کوئی ثانی توکیاپاسنگ بھی نہیں تھا،ہربڑا انسان ان کے سامنے پہنچتے ہی بونامحسوس ہوتاتھا،کوئی کتناہی بڑا قدرآوران کے سامنے پہنچ جائے کلام صاحب کاقدہی اونچانظر آتاتھا،کیونکہ انہوں نے اپنے جسم کونہیں ،اپنے قدکونہیں ملک کے قدکواونچا کیا تھا،انہوں نے اپنی شہرت،اپنی ڈگری،اپنی لیاقت اورقابلیت کاپرچارنہیں کیاتھاملک کاپرچار اورملک کانام دنیابھرمیں مشہور کیاکہ بڑے بڑے ماہرین نے دانتوں تلے انگلیاں دبالیں، کلام صاحب سب کچھ تھے صرف کلام نہیں تھے یعنی وہ زیادہ باتوں اورتقریروں کے قائل نہیں تھے ،وہ خاموشی کے ساتھ کام کرنے کے حق میں تھے ،ان کاکہناتھاکہ انسان کواپناکام کرتے رہناچاہئے پھرایک وقت ایسابھی آئے گاکہ اس کاکام ہی اس کی شہرت اورمقبولیت کی علامت اوردلیل بن جائے گا۔چنانچہ خودکلام صاحب سے ایک مرتبہ کسی نے پوچھاکہ آپ نے شادی کیوں نہیں کی،توکلام صاحب نے بڑاسادہ ساجواب دیاکہ جب میں نوعمرتھااس وقت لیبارٹری میں داخل ہوا،جب لیبارٹری سے باہر نکلاتوشادی کی عمرختم ہوچکی تھی۔بالکل ایساہی ہوتا ہے، ہرماہراورہراستاذاپنے آپ کومٹادیتاہے ،فناکردیتاہے،تیاگ دیتاتھاتب کہیں جاکرکامیابیاں ان کے قدم چومتی ہیں چنانچہ ابواسحاق الحوینی کا مشہورمقولہ ہے:العلم لایعطیک بعضہ حتی تعطیہ کلک۔علم اپناتھوڑاساحصہ بھی اس وقت تک آپ کے حوالے نہیں کرتاجب تک کہ آپ پورے طورپراپنے آپ کواس کے حوالے نہ کردیں۔
بالکل کیفیت اے پی جے عبدالکلام کے ساتھ پیش آئی ،ان کوشروع سے ہی ماحول ہی ایساملا کہ انھیں کھیل کودمیں لگنے کاموقع ہی نہیں ملا،بلکہ سچ کہتاہوں انھیں دورحاضرکے کھیلوں کے اگرنام معلوم ہوں گے توطریقہ اور ضابطہ توبالکل بھی نہیں معلوم ہوگا،کیونکہ ان کی زندگی جس ماحول میں گزری وہ الگ ہی دنیاتھی ،ہماری اِس زندگی میں کھان پان ہے،کوچہ وبازار ہیں، کھیل تماشے ہیں،کرکٹ وہاکی اورفٹ بال ہے،بیس بال اور باسکٹ بال ہے،ٹینس اور گولف ہے،کشتی اورتیراکی ہے،مکے بازی اوربلیئرڈ ہے،پولواوراسکوائش ہے، بیڈمنٹن اوروالی بال ہے، جمناسٹک اورٹیبل ٹینس ہے، تاش اورگلی ڈنڈا ہے،اتھلیٹکس اوراسکیٹنگ ہے اوربھی سیکڑوں اقسام ہیں جس میں دنیااپنے قیمتی وقت کوضائع کرکے خوش ہے لیکن ڈاکٹرکلام صاحب نے ان کھیلوں میں اپنے قیمتی وقت کوبالکل ضائع نہیں کیاکیونکہ ان کے پیش نظرپوراملک تھا،ان کے پیش نظرملک کاتحفظ تھا،وہ جانتے تھے کہ ملک محفوظ رہے گا،تب ہی ملک والے سکون کے ساتھ کھیل سکتے ہیں،انھیں معلوم تھاکہ ہرکھیل سے بڑا کھیل ہتھیار اور اوزارہیں،جن کے ہاتھ خالی ہوتے ہیں وہ بڑے شکاریوں کاشکارہوجاتے ہیں ،جن کے ہاتھ بھرے ہوتے ہیں وہ خودشکاری بن جاتے ہیں،کلام صاحب شکارہونے پرنہیں شکارکرنے پریقین رکھتے تھے ،وہ اس نبی کی امت میں پیداہوئے تھے جن کے گھرمیں چراغ میں ڈالنے کے لئے تیل نہیں تھااوران کے سرہانے دیوارپر نوتلواریں لٹک رہی تھیں۔کلام صاحب اپنے ملک کے تحفظ اورسالمیت کویقینی بناناچاہتے تھے ،انھیں یہ چیزکھائے جارہی تھی کہ ان کاملک مختلف قوتوں، طاقتوں،اسلحوں اور ہتھیاروں سے گھراہواہے ،ان کے پڑوس میں کچھ قوتیں ایسی ہیں جن کے پاس مہلک ہتھیار ہیں،وہ جانتے تھے کہ اینٹ کاجواب پتھرسے دینے کازمانہ ہے،انھیں اس بات کااحساس اورادراک تھاکہ دشمن کوزیر کرنے کے لئے خودکوزبر کرنا پڑے گا،دشمن سے زیادہ مہلک ہتھیار جب تک نہ ہوں گے دشمن پرقابوپانامشکل ہوگاچنانچہ یہ فکراورتڑپ لے کرکلام صاحب نے اپنے آپ کوبھلادیا،اپنے گھربارکوبھلادیا، اپنے دوست واحباب کوبھلادیا، عین نوعمری ونوجوانی میں جب ان کی مونچھیں نکلنی شروع ہوئی تھیں لیبارٹری میں داخل ہوگئے ،لیباٹری میں داخل ہونے کے بعدانھیں لگاکہ وہ ایک دنیاسے دوسری دنیامیں داخل ہوچکے ہیں،جہاں کوئی سیاست نہیں ہے،کوئی دنگانہیں ہے،کوئی منافرت نہیں ہے،کوئی کھیل تماشانہیں ہے،کوئی الیکشن اورٹینشن نہیں ہے بس ایک ہی دھن ہے ، ایک ہی فکرہے ،ایک ہی احساس ہے ایک ہی کرب اورخواب ہے کہ کس طرح ملک عزیزکوجدیدترین ہتھیاروں سے لیس کرکے ایک ایسی دنیاکے سامنے پیش کرسکیں جو سمندرکی اُن بڑی مچھلیوں کے مانندہیں جواپنی ہی جنس ،اپنی ہی قوم کی چھوٹی مچھلیوں کوبھی لقمہ ترسمجھ کرہضم کرجاتی ہیں۔کلام صاحب نے دیکھاتھانگاساکی کی تباہی کو،ہیروشیماکی بربادی کو،ویت نام کی دہشت کو،عراق کی وحشت کو،شام کی خون آشامی کو،مصرمیں گرجتے ،گزرتے جنگی جنونی طیاروں کو،لیباکے کھنڈرات کو،فلسطین کے آلام کو،جزیرۃ العرب کی غلامی اورکس مپرسی کو۔ان تمام حالات اورغلامانہ زندگی کے اثرات سے کلام صاحب اپنے ملک کوبچاناچاہتے تھے ،اوریہ اُسی وقت ممکن تھاجب بڑی لکیرکے بغل میں اس سے بڑی لکیرکھینچ دی جائے۔چنانچہ کلام صاحب کواللہ تعالیٰ نے کامیابیوں سے سرفرازفرمایا،کلام صاحب نے اپنے دل کوسمجھایاکہ سودائے عشق میں اک جان کے زیاں کوضیاع نہیں کہتے ، اک جان کی قربانی پرلاکھوں کروڑوں جانیں محفوظ ہوجائیں اس سے بڑی کامیابی کیاہوگی۔رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کاارشادہے خیرالناس من ینفع الناس،لوگوں میں سب سے بہترین انسان وہ ہے جس کی ذات سے لوگوں کوزیادہ فائدہ پہنچے۔آپ دیکھ لیجئے کلام صاحب کے اس کارنامہ اوراس قربانی سے پورے ملک کے سواارب لوگوں کوتحفظ نصیب ہواہے ۔
مجھے اس بات کابہت احساس ہے کہ ملک کے اتنے بڑے سائنس داں کی قبرایک ایسے علاقہ میں بنی ہوئی ہے جہاں کوئی یادگارنہیں بنائی گئی،جہاں کوئی نشان امتیازنہیں بنایاگیا،بلکہ کلام صاحب کی قبرعام لوگوں کی طرح بناکرچھوڑدی گئی ۔ہوناتویہ چاہئے تھاکہ وہاں کلام صاحب کی یادگارمیں ایک ایسامیوزیم بنایاجاتا،جس میں نئی نسلوں کی رہنمائی کے لئے کلام صاحب کی درجہ بدرجہ کامیابیوں کے مناظراورمظاہر ہوتے،کلام صاحب کی محنتوں کاعکس اور نقش دکھایاجاتا،ان کی کامیابیوں کے پیچھے کے اسباب اورعوامل بتائے جاتے تاکہ ہماری نئی نسل بھی ان ہی کے خطوط پرچل کرملک کے لئے تازہ دم ہوکرنئے دم اورخم کے ساتھ کچھ نیاکرگزرنے کی سوچ سکتی۔چراغ سے چراغ جلتے ہیں،کلام سے کلام پیدانہ ہوں گے توملک ترقی کی طرف نہیں تنزلی کی طرف پھسل جائے گا، کھسک جائے گا،پلیزملک کوبچائیے۔خانہ جنگی کوپنپنے کاموقع نہ دیجئے ۔امن اورسکون سے جوکام اورکارنامے انجام دئے جاسکتے ہیں وہ بے امنی اوربے چینی کے ماحول میں قطعی انجام نہیں جاسکتے۔
 
Top