سنوسنو!!
دینی مدارس کے طلبہ کاکھانا
ناصرالدین مظاہری
۹؍اگست ۲۰۲۳ء
شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدزکریامہاجرمدنیؒ اپنے عہدمیں مظاہرعلوم کے صرف شیخ الحدیث ہی نہیں تھے بلکہ یہاں کے نظام کاایک اہم ستون تھے،ان کے زمانے میں یہاں ان کے بعض اساتذہ کے سواکچھ توان کے رفقائے درس تھے ، کچھ خودان کے طلبہ تھے جوتدریس کی ذمہ داریاں انجام دے رہے تھے،یہاں کی مجلس شوریٰ کے بہت اراکین بھی ان کے مریدومسترشدتھے یعنی گویاحضرت شیخ اپنے وقت میں یہاں کے مدارالمہام تھے ،ان کادسترخوان بہت وسیع تھا،مفتی اعظم حضرت مولانامفتی سعیداحمداجراڑویؒ بھی ان کے شریک دسترخوان رہتے تھے لیکن اس طرح کہ اپنا کھانااپنے گھرسے پکواکرحضرت شیخ کے ساتھ شریک طعام ہوجاتے تھے ،اس کاتفصیلی ذکرخودحضرت شیخ نے اپنی تحریروں میں کیاہے ۔یہاں مجھے اسی دسترخوان کے تعلق سے ایک اہم بات کرنی ہے۔
ہوایہ کہ حضرت شیخ الحدیث نے مہمانوں کی کثرت کے پیش نظراپنا کھانا مدرسہ سے بھی قیمتاً جاری کرارکھاتھا،دسترخوان پرجب کھانے کے برتن کھلتے توایک فرق حضرت مفتی سعیداحمدؒ کومحسوس ہوتاوہ یہ کہ حضرت شیخ کاسالن کچھ عمدہ ہوتا،اس میں روغن کی مقدارکچھ زیادہ ہوتی ۔یہ سلسلہ کچھ ہی دن چلاکہ ایک دن حضرت مفتی صاحب نے حضرت شیخ سے عرض کیاکہ حضرت مطبخ والے تقسیم طعام میں سب کے ساتھ یکساں برتاؤ نہیں کرتے پھرخودہی توجہ دلائی کہ آپ کاکھانا جومطبخ سے آتاہے اس میں روغن کی مقدار زیادہ ہوتی ہے باقی تمام لوگوں کے سالن میں یہ مقدارنہیں ہوتی ہے ۔تناسنناتھاکہ حضرت شیخ پریشان ہوگئے ،متقی تھے،پرہیزگارتھے ،مدرسہ کے اہم ستون تھے، پوری دنیامیں ان کے تقویٰ اور تقدس کاچرچااورشہرہ تھا ،یہ چیزحضرت شیخ کے مزاج کے بالکل خلاف تھی کہ ان کے کھانے اورعام لوگوں کے کھانے میں کوئی امتیاز برتا جائے چنانچہ حضرت شیخ نے اسی دن اسی تاریخ کوایک پرچہ مطبخ کے نام لکھااورفرمایاکہ میراکھاناجوقیمتاً مطبخ سے جاری ہے وہ مستقلاً موقوف کردیاجائے۔
دورنہ جائیں قریب ہی کی بات ہے جامعہ اسلامیہ ریڑھی ضلع سہارنپورایک مرکزی ادارہ ہے ،اس کے مہتمم حضرت مولانامحمداخترقاسمی کاابھی ماضی قریب میں انتقال ہواہے ،وہ بھی اپناکھانامطبخ سے پیسے دے کرلیتے تھے تاکہ کھانے کی نگرانی بھی ہوتی رہے ،ایک طالب علم حضرت کابرتن لے کرمطبخ پہنچا،کھاناتقسیم ہورہاتھا، تقسیم کرنے والے باورچی نے کافی مقدارمیں ہڈیاں حضرت مہتمم صاحب کے برتن میں ڈال دیں،طالب علم نے اعتراض بھی کیاکہ ہڈیاں کیوں ڈال رہے ہو؟ مطبخ کے اس کارکن کاجواب سنئے کاش ایسے کارکنان ہرادارے ،ہرمدرسہ اورہرخیراتی تنظیم کومل جائیں ،جواب دیاکہ مہتمم صاحب کے برتن میں ہڈیاں اس لئے بھررہاہوں تاکہ انھیں پتہ چل جائے کہ قصائی گوشت کیسالارہاہے؟
مظاہرعلوم کے مہتمم حضرت مولاناسیدعبداللطیف پورقاضویؒ تومستقل مطبخ جاکرسالن چکھاکرتے تھے ،میں نے خودمفتی مظفرحسینؒ کودیکھاہے کہ وہ کبھی کبھی مطبخ جاتے اوروہیں بیٹھ کرسالن کھاکرچیک کرتے اوراس کی قیمت بھی مطبخ میں جمع کرکے آتے تھے۔
تقریباًپندرہ سال پہلے کی بات ہے ،ماہ رمضان المبارک شروع ہوتے ہی یہاں مظاہرعلوم وقف کے مطبخ میں چاول تبدیل ہوجاتا،پورے سال باریک چاول اوراس کی بریانی بنتی لیکن رمضان شروع ہوتے ہی موٹے چاول کی بریانی روزانہ بنتی اورمقیم طلبہ وعملہ کودی جاتی ۔
میں ان دنوں میں یہیں رہتاتھا،اتنے موٹے چاول کی بریانی حلق سے اتارنی مشکل ہوجاتی ،میں نے ایک درخواست بنام مہتمم مدرسہ حضرت مولانا محمدسعیدی مدظلہ کودی جس میں تفصیل سے چاول کے حالات لکھے اوریہ بھی لکھاکہ ماہ رمضان میں جب اللہ تعالیٰ رزق میں وسعت کردیتاہے یہاں مطبخ کے نگراں موٹے چاول دینے شروع کردیتے ہیں ۔ناظم صاحب نے نگران مطبخ مولانا نذیراحمد صاحب کوبلاکرتحقیق کی،انھوں نے میری تصدیق کی اوریہ بھی کہاکہ یہ معمول سابق سے چلاآرہاہے ،حضرت ناظم صاحب نے فرمایاکہ یہ معمول کوئی ایسامعمول نہیں ہے جس کونظیربنایاجائے اب سے ماہ رمضان میں شانداراوراعلیٰ کوالٹی کے چاول بنوائے جائیں اورچندے میں جوموٹے چاول آتے ہیں انھیں فروخت کرکے اچھے چاول خریدے جائیں۔تب سے الحمدللہ یہی عمل جاری ہے۔
یہ میں کوئی عجوبہ نہیں لکھ رہاہوں سچے واقعات ہیں ،پہلوں کے واقعات ہیں ،یہی واقعات ہمارے لئے نظیراورمثال ہیں ،یہی ہستیاں ہمارے لئے راہنماہیں۔
آج کل کے مہتمم حضرات ان واقعات کوپڑھ کراپنے گریبان میں جھانکنے کی کوشش کریں،اپنے اعمال کاجائزہ اپنے اسلاف کے اعمال اورمعمول سے کریں۔ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونے اورحساب وکتاب کایقین رہناچاہئے،اپنے زیراہتمام طلبہ کوکھاناکیسامل رہاہے اس پرکڑی نظراورنگرانی رہنی چاہئے ۔
سنوسنو!
سیدناعمررضی اللہ عنہ اپنی امارت میں پیٹ بھرکرکھانانہیں کھاپاتے تھے کیونکہ انھیں ہروقت یہ احساس ستاتاتھاکہ ان کے دورامارت میں کہیں کوئی شخص بھوکااورفاقے سے نہ ہو۔
یہ چیزیں ہمیں دعوت غوروفکردے رہی ہیں ،اگرمہتمم اپنے دسترخوان پردرجنوں قسم کے کھانے جمع کردیتاہے اوراسی کے زیراہتمام اسی کے مدرسہ کے طلبہ پانی جیسی دال ،غیرمعیاری چاول،سستااورسڑاہواگوشت وسبزی کھانے پرمجبورہیں توخوب یادرکھیں آپ کواس کابھی حساب دیناہوگا۔
اہل مدارس !اپنے اورطلبہ کے کھانے میں موازنہ ضرورکریں ،اپنے اورطلبہ کے درمیان فرق وامتیازکی جودیوارکھڑی کررکھی ہے اس دیوارکوگرانے کی کوشش کریں ورنہ کل جب نفسی نفسی کاعالم ہوگا،کوئی کسی کاپرسان حال نہ ہوگا،انبیائے کرام پربھی حیرانی اوراللہ تعالیٰ کے سامنے حاضری کاخوف طاری ہوگا،ذراسوچیں اگرطلبہ کی اتنی بڑی جماعت اورجمعیۃ ہمارے خلاف اللہ تعالیٰ کی عدالت میں مقدمہ دائرکردے گی توکون ہماری وکالت کرے گا،کس کے اندردم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سوال کاجواب دے سکے گا۔
حساب یسیرکی بے شک دعاکریں لیکن پہلے طلبہ کے لئے ہمدردی اورصلہ رحمی کاجذبہ اپنے اندرپیداکریں۔انصاف کریں۔ان کی قیام گاہوں، درسگاہوں، رہن سہن اورکھانے پینے ہرچیزکے آپ ہی ذمہ دارہیں اورآپ سے آپ کی ذمہ داری کے بارے میں ضرورسوال ہوگا۔الاکلکم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ۔
دینی مدارس کے طلبہ کاکھانا
ناصرالدین مظاہری
۹؍اگست ۲۰۲۳ء
شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدزکریامہاجرمدنیؒ اپنے عہدمیں مظاہرعلوم کے صرف شیخ الحدیث ہی نہیں تھے بلکہ یہاں کے نظام کاایک اہم ستون تھے،ان کے زمانے میں یہاں ان کے بعض اساتذہ کے سواکچھ توان کے رفقائے درس تھے ، کچھ خودان کے طلبہ تھے جوتدریس کی ذمہ داریاں انجام دے رہے تھے،یہاں کی مجلس شوریٰ کے بہت اراکین بھی ان کے مریدومسترشدتھے یعنی گویاحضرت شیخ اپنے وقت میں یہاں کے مدارالمہام تھے ،ان کادسترخوان بہت وسیع تھا،مفتی اعظم حضرت مولانامفتی سعیداحمداجراڑویؒ بھی ان کے شریک دسترخوان رہتے تھے لیکن اس طرح کہ اپنا کھانااپنے گھرسے پکواکرحضرت شیخ کے ساتھ شریک طعام ہوجاتے تھے ،اس کاتفصیلی ذکرخودحضرت شیخ نے اپنی تحریروں میں کیاہے ۔یہاں مجھے اسی دسترخوان کے تعلق سے ایک اہم بات کرنی ہے۔
ہوایہ کہ حضرت شیخ الحدیث نے مہمانوں کی کثرت کے پیش نظراپنا کھانا مدرسہ سے بھی قیمتاً جاری کرارکھاتھا،دسترخوان پرجب کھانے کے برتن کھلتے توایک فرق حضرت مفتی سعیداحمدؒ کومحسوس ہوتاوہ یہ کہ حضرت شیخ کاسالن کچھ عمدہ ہوتا،اس میں روغن کی مقدارکچھ زیادہ ہوتی ۔یہ سلسلہ کچھ ہی دن چلاکہ ایک دن حضرت مفتی صاحب نے حضرت شیخ سے عرض کیاکہ حضرت مطبخ والے تقسیم طعام میں سب کے ساتھ یکساں برتاؤ نہیں کرتے پھرخودہی توجہ دلائی کہ آپ کاکھانا جومطبخ سے آتاہے اس میں روغن کی مقدار زیادہ ہوتی ہے باقی تمام لوگوں کے سالن میں یہ مقدارنہیں ہوتی ہے ۔تناسنناتھاکہ حضرت شیخ پریشان ہوگئے ،متقی تھے،پرہیزگارتھے ،مدرسہ کے اہم ستون تھے، پوری دنیامیں ان کے تقویٰ اور تقدس کاچرچااورشہرہ تھا ،یہ چیزحضرت شیخ کے مزاج کے بالکل خلاف تھی کہ ان کے کھانے اورعام لوگوں کے کھانے میں کوئی امتیاز برتا جائے چنانچہ حضرت شیخ نے اسی دن اسی تاریخ کوایک پرچہ مطبخ کے نام لکھااورفرمایاکہ میراکھاناجوقیمتاً مطبخ سے جاری ہے وہ مستقلاً موقوف کردیاجائے۔
دورنہ جائیں قریب ہی کی بات ہے جامعہ اسلامیہ ریڑھی ضلع سہارنپورایک مرکزی ادارہ ہے ،اس کے مہتمم حضرت مولانامحمداخترقاسمی کاابھی ماضی قریب میں انتقال ہواہے ،وہ بھی اپناکھانامطبخ سے پیسے دے کرلیتے تھے تاکہ کھانے کی نگرانی بھی ہوتی رہے ،ایک طالب علم حضرت کابرتن لے کرمطبخ پہنچا،کھاناتقسیم ہورہاتھا، تقسیم کرنے والے باورچی نے کافی مقدارمیں ہڈیاں حضرت مہتمم صاحب کے برتن میں ڈال دیں،طالب علم نے اعتراض بھی کیاکہ ہڈیاں کیوں ڈال رہے ہو؟ مطبخ کے اس کارکن کاجواب سنئے کاش ایسے کارکنان ہرادارے ،ہرمدرسہ اورہرخیراتی تنظیم کومل جائیں ،جواب دیاکہ مہتمم صاحب کے برتن میں ہڈیاں اس لئے بھررہاہوں تاکہ انھیں پتہ چل جائے کہ قصائی گوشت کیسالارہاہے؟
مظاہرعلوم کے مہتمم حضرت مولاناسیدعبداللطیف پورقاضویؒ تومستقل مطبخ جاکرسالن چکھاکرتے تھے ،میں نے خودمفتی مظفرحسینؒ کودیکھاہے کہ وہ کبھی کبھی مطبخ جاتے اوروہیں بیٹھ کرسالن کھاکرچیک کرتے اوراس کی قیمت بھی مطبخ میں جمع کرکے آتے تھے۔
تقریباًپندرہ سال پہلے کی بات ہے ،ماہ رمضان المبارک شروع ہوتے ہی یہاں مظاہرعلوم وقف کے مطبخ میں چاول تبدیل ہوجاتا،پورے سال باریک چاول اوراس کی بریانی بنتی لیکن رمضان شروع ہوتے ہی موٹے چاول کی بریانی روزانہ بنتی اورمقیم طلبہ وعملہ کودی جاتی ۔
میں ان دنوں میں یہیں رہتاتھا،اتنے موٹے چاول کی بریانی حلق سے اتارنی مشکل ہوجاتی ،میں نے ایک درخواست بنام مہتمم مدرسہ حضرت مولانا محمدسعیدی مدظلہ کودی جس میں تفصیل سے چاول کے حالات لکھے اوریہ بھی لکھاکہ ماہ رمضان میں جب اللہ تعالیٰ رزق میں وسعت کردیتاہے یہاں مطبخ کے نگراں موٹے چاول دینے شروع کردیتے ہیں ۔ناظم صاحب نے نگران مطبخ مولانا نذیراحمد صاحب کوبلاکرتحقیق کی،انھوں نے میری تصدیق کی اوریہ بھی کہاکہ یہ معمول سابق سے چلاآرہاہے ،حضرت ناظم صاحب نے فرمایاکہ یہ معمول کوئی ایسامعمول نہیں ہے جس کونظیربنایاجائے اب سے ماہ رمضان میں شانداراوراعلیٰ کوالٹی کے چاول بنوائے جائیں اورچندے میں جوموٹے چاول آتے ہیں انھیں فروخت کرکے اچھے چاول خریدے جائیں۔تب سے الحمدللہ یہی عمل جاری ہے۔
یہ میں کوئی عجوبہ نہیں لکھ رہاہوں سچے واقعات ہیں ،پہلوں کے واقعات ہیں ،یہی واقعات ہمارے لئے نظیراورمثال ہیں ،یہی ہستیاں ہمارے لئے راہنماہیں۔
آج کل کے مہتمم حضرات ان واقعات کوپڑھ کراپنے گریبان میں جھانکنے کی کوشش کریں،اپنے اعمال کاجائزہ اپنے اسلاف کے اعمال اورمعمول سے کریں۔ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونے اورحساب وکتاب کایقین رہناچاہئے،اپنے زیراہتمام طلبہ کوکھاناکیسامل رہاہے اس پرکڑی نظراورنگرانی رہنی چاہئے ۔
سنوسنو!
سیدناعمررضی اللہ عنہ اپنی امارت میں پیٹ بھرکرکھانانہیں کھاپاتے تھے کیونکہ انھیں ہروقت یہ احساس ستاتاتھاکہ ان کے دورامارت میں کہیں کوئی شخص بھوکااورفاقے سے نہ ہو۔
یہ چیزیں ہمیں دعوت غوروفکردے رہی ہیں ،اگرمہتمم اپنے دسترخوان پردرجنوں قسم کے کھانے جمع کردیتاہے اوراسی کے زیراہتمام اسی کے مدرسہ کے طلبہ پانی جیسی دال ،غیرمعیاری چاول،سستااورسڑاہواگوشت وسبزی کھانے پرمجبورہیں توخوب یادرکھیں آپ کواس کابھی حساب دیناہوگا۔
اہل مدارس !اپنے اورطلبہ کے کھانے میں موازنہ ضرورکریں ،اپنے اورطلبہ کے درمیان فرق وامتیازکی جودیوارکھڑی کررکھی ہے اس دیوارکوگرانے کی کوشش کریں ورنہ کل جب نفسی نفسی کاعالم ہوگا،کوئی کسی کاپرسان حال نہ ہوگا،انبیائے کرام پربھی حیرانی اوراللہ تعالیٰ کے سامنے حاضری کاخوف طاری ہوگا،ذراسوچیں اگرطلبہ کی اتنی بڑی جماعت اورجمعیۃ ہمارے خلاف اللہ تعالیٰ کی عدالت میں مقدمہ دائرکردے گی توکون ہماری وکالت کرے گا،کس کے اندردم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سوال کاجواب دے سکے گا۔
حساب یسیرکی بے شک دعاکریں لیکن پہلے طلبہ کے لئے ہمدردی اورصلہ رحمی کاجذبہ اپنے اندرپیداکریں۔انصاف کریں۔ان کی قیام گاہوں، درسگاہوں، رہن سہن اورکھانے پینے ہرچیزکے آپ ہی ذمہ دارہیں اورآپ سے آپ کی ذمہ داری کے بارے میں ضرورسوال ہوگا۔الاکلکم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ۔