نکاح کی استطاعت رکھنے والے افراد کے لیے عمومی احوال میں نکاح کرنا سنت ہے
اس لیے حسبِ وسعت اسباب میسر آنے کی صورت میں نکاح کرنا چاہیے
یہ ایمان کی تکمیل اور پاک دامنی کے حصول کا ذریعہ ہے
اور نبی کریم ﷺ کی سنت ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کوآدھا ایمان بھی قرار دیا ہے
”اِذَا تَزَوَّجَ الْعَبْدُ اِسْتَکْمَلَ نِصْفَ الدِّیْنِ فَلْیَتَّقِ فِیْ النِّصْفِ الْبَاقِیْ“
جو کوئی نکاح کرتاہے تو وہ آدھا ایمان مکمل کرلیتاہے اور باقی آدھے دین میں اللہ سے ڈرتا رہے۔
نکاح انبیاء کرام کی بھی سنت ہے۔ ارشاد ربانی ہے
”وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلاً مِّنْ قَبْلِکَ وَجَعَلْنَا لَہُمْ اَزْوَاجًا وَّ ذُرِّیَّةً“
(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) ہم نے آپ سے پہلے یقینا رسول بھیجے اورانہیں بیویوں اور اولاد سے بھی نوازا
اس ارشاد ربانی سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء کرام بھی صاحبِ اہل وعیال رہے ہیں۔
ارشاد نبوی اس طرح ہے حضرت ابوایوب انصاری فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا رسولوں کی چار سنتیں ہیں:
(۱) شرم و حیاکا خیال
(۲)مسواک کا اہتمام
(۳) عطر کا استعمال
(۴) نکاح کا التزام(۴)۔
اس لیے حسبِ وسعت اسباب میسر آنے کی صورت میں نکاح کرنا چاہیے
یہ ایمان کی تکمیل اور پاک دامنی کے حصول کا ذریعہ ہے
اور نبی کریم ﷺ کی سنت ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کوآدھا ایمان بھی قرار دیا ہے
”اِذَا تَزَوَّجَ الْعَبْدُ اِسْتَکْمَلَ نِصْفَ الدِّیْنِ فَلْیَتَّقِ فِیْ النِّصْفِ الْبَاقِیْ“
جو کوئی نکاح کرتاہے تو وہ آدھا ایمان مکمل کرلیتاہے اور باقی آدھے دین میں اللہ سے ڈرتا رہے۔
نکاح انبیاء کرام کی بھی سنت ہے۔ ارشاد ربانی ہے
”وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلاً مِّنْ قَبْلِکَ وَجَعَلْنَا لَہُمْ اَزْوَاجًا وَّ ذُرِّیَّةً“
(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) ہم نے آپ سے پہلے یقینا رسول بھیجے اورانہیں بیویوں اور اولاد سے بھی نوازا
اس ارشاد ربانی سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء کرام بھی صاحبِ اہل وعیال رہے ہیں۔
ارشاد نبوی اس طرح ہے حضرت ابوایوب انصاری فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا رسولوں کی چار سنتیں ہیں:
(۱) شرم و حیاکا خیال
(۲)مسواک کا اہتمام
(۳) عطر کا استعمال
(۴) نکاح کا التزام(۴)۔