پھولوں کے گرتے آنسو
محمدداؤدالرحمن علی
آپ نے دنیا کے اندر کئی طرح کے پھول دیکھے ہونگے۔ رنگ برنگے،خوبصورت ، خوشبودار پھولوں کی اقسام دیکھی ہونگی۔ ہر پھول کی الگ الگ خوشبو سے بھی استفادہ کیا ہوگا۔ ان پھولوں کو آپ نے اپنے گھر کے باغیچے میں خوبصورتی کے لیے لگائے ہونگے۔ کسی مہمان کو بطور استقبال بھی دیے ہونگے۔
اس سب کے باجود کیا آپ نے کبھی ”پھولوں“ کو روتے دیکھا۔؟ رب کے سامنے مانگتے دیکھا۔؟ التجائیں کرتے دیکھا۔؟ آس لگاتے دیکھا۔۔۔؟
اگر نہیں دیکھا تو آئیں میں آپ کو ان خوبصورت پھولوں کے ملک میں لیے چلتا ہوں۔
یہ ملک کوئی اور نہیں بلکہ وہ میرا ، آپ کا ، بلکہ ہم سب کا پیارا ”فلسطین“ہے۔ جہاں ہمارا قبلہ اول ہے۔ جہاں کی سرزمین بابرکت ہے۔ جہاں کی زمین کو حشر کی زمین قرار دیا گیا۔ جس زمین کو ”سرزمین انبیاء“ کہا گیا۔ جس سر زمین پر فخر دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ”امام الانبیاء“ کا منصب عطا کیا گیا۔ جس سرزمین سے میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معراج پر لے جایا گیا۔
اسی سر زمین پر آج کل آپ کو ننھے ننھے پھول نظر آئیں گے۔ کہیں آپ کو مسکراتے ہوئے، کہیں آپ کو زخم لگے ہوئے تو کہیں آپ کو یہ پھول کفن میں لپٹے ہوئے نظر آئیں۔
کہیں یہ پھول اپنوں کو ڈھونڈتے ملینگے، کہیں وہ اپنوں کو یاد کررہے ہونگے، کہیں وہ سیسہ پلائی بنی دیوار ہونگے اور کہیں لفظ ”ماں“ پکار رہے ہونگے۔
کہیں آپ کو اپنوں کے جنازے اٹھاتے ہوئے ملینگے ، تو کہیں آپ کو رب کے حضور دعاؤں یا التجاؤں میں ملینگے۔
کہیں یہ پھول اپنوں کو گلے لگا رہے ہونگے ، کہیں ماں کی آنچل میں یہ نظارے دیکھ رہے ہونگے۔ کہیں بہن کو اپنی حیثیت کے مطابق پناہ دیتے ہوئے اور کہیں اپنے والد کو آسودہ خاک کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔
یہ ایسے پھول ہیں جو نہ تو کسی حکمران کو نظر آتے ہیں ، نہ کسی این جی او کو نظر آتے ہیں اور نہ دنیا میں مگن شخص کو نظر آتے ہیں۔
کیوں۔۔۔؟
کیونکہ ایک تو یہ مسلمان ہیں دوم یہ ”اقصی“ کے ابابیل ہیں۔
اس لیے ہر حکمران کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ اسی لیے قلم بند ہیں ، سپر پاور بیان بازی پر ہیں ، میڈیا کو دکھائی نہیں دیتا ، عدالتیں کی آنکھوں پر ویسے پٹی بندھی ہوئی ہے۔
آپ لوگوں نے پھولوں سے خوشبو کو محسوس کیا ہوگاپر خون نہیں ۔
آئیں آپ کو اس سرزمین پر ان پھولوں سے خون نکلتا ہوا دکھاؤں ، آئیں پھولوں اپنے خون سے زمین لال کرتے ہوئے دکھاؤں، آئیں ان پھولوں کو اپنے خون سے اپنی سر زمین سینچتے ہوئے دکھاؤں۔
آؤ غیرت مند لوگو تمہیں ان پھولوں کو آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاکر تمہارے لیے دعائیں کرتا دکھاؤں ۔
آؤ ان کی وہ دعائیں سناؤں شاید تمہیں غیرت آجائے، شاید ان کی آواز تم تک پہنچ جائے۔
ہے ہمت تو سنو
ایک پھول نے آخری لمحات میں کہا:
”رب سے جاکر سب کہونگی۔“
اور سنو
دوسرے پھول نے کہا:
”کل قیامت کے دن رب کے سامنے مسلمانوں تمہارا گریبان پکڑوں گا۔“
ہمت ہے تو صرف صحافت نام کی کرنے والو تم بھی سمجھ لو ۔ ہر تصویر کھینچنا ضروری نہیں ہوتا اور ہر تصویر خبر نہیں ہوتی۔
ایک پھول نے ایسی صورت حال میں کہا تھا:
”انکل! میری تصویر مت کھینچو میں حجاب میں نہیں ہوں۔“
دنیا سے غربت ختم کرنے والو، فنگشن کے نام پر کھانا ضائع کرنے والو، اپنے دسترخوان پر طرح طرح کے پکوان سجاکر دعوت اُڑانے والو
ایک پھول کی دعا دل تھام کر سنو۔
”یااللہ!مجھے جنت بلالو، کم از کم کھانا تو کھالوں گا۔“
ان دعاؤں کو پڑھ کر اگر غیرت نہیں آئی تو محلات چھوڑو چند لمحے ان کے ساتھ رہ کر دیکھو ، تب بھی غیرت نہ آئے تو ڈوب مرو۔
یاد رکھو! بادشاہی ہمیشہ نہیں رہنی ، ریشم کے بستر ہمیشہ نہیں رہنے، تمہاری دنیا کی دولت ہمیشہ نہیں رہنی۔
اگر آج تمہاری زبانیں بند رہیں ، اگر آج تم موت کے خوف سے ان کے لیے اقدامات نہیں کرتے تو ایک دن آئے گا کہ تم بھی اسی میں شامل کردیے جاؤ گے۔
پھر پکارو گے تمہاری کوئی نہیں سنے گا۔
مسلمان کا خون بھی اسی طرح خون ہے جس طرح تمہارا خون ہے۔ مسلمان کے بچے ویسے ہی ہیں جیسے تمہارے بچے ہیں۔ مسلمان بھی اس دنیا میں ویسے جیتا ہے جیسے تم جیتے ہو۔
عبرت حاصل کرو ورنہ ایک دن تم عبرت کا نشان بنا دیے جاؤ گے۔
آج اگر ان پھولوں کے لیے آواز نہ اٹھائی گئی تو ذہن نشین کرلو، تمہاری کوئی آواز نہیں سنے گا۔
اگر آج ان پھولوں کی حفاظت نہ کی گئی تو وقت آئے گا کہ تمہارے بچوں کی حفاظت بھی نہیں کی جائے گی۔
اٹھو! آگے بڑھو ، خدا تمہاری مدد نصرت کرے گا۔
نوٹ:اس مضمون کی پی ڈی ایف حاصل کرنے کے لیے درج ذیل فائل پر کلک کریں۔

آپ نے دنیا کے اندر کئی طرح کے پھول دیکھے ہونگے۔ رنگ برنگے،خوبصورت ، خوشبودار پھولوں کی اقسام دیکھی ہونگی۔ ہر پھول کی الگ الگ خوشبو سے بھی استفادہ کیا ہوگا۔ ان پھولوں کو آپ نے اپنے گھر کے باغیچے میں خوبصورتی کے لیے لگائے ہونگے۔ کسی مہمان کو بطور استقبال بھی دیے ہونگے۔
اس سب کے باجود کیا آپ نے کبھی ”پھولوں“ کو روتے دیکھا۔؟ رب کے سامنے مانگتے دیکھا۔؟ التجائیں کرتے دیکھا۔؟ آس لگاتے دیکھا۔۔۔؟
اگر نہیں دیکھا تو آئیں میں آپ کو ان خوبصورت پھولوں کے ملک میں لیے چلتا ہوں۔
یہ ملک کوئی اور نہیں بلکہ وہ میرا ، آپ کا ، بلکہ ہم سب کا پیارا ”فلسطین“ہے۔ جہاں ہمارا قبلہ اول ہے۔ جہاں کی سرزمین بابرکت ہے۔ جہاں کی زمین کو حشر کی زمین قرار دیا گیا۔ جس زمین کو ”سرزمین انبیاء“ کہا گیا۔ جس سر زمین پر فخر دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ”امام الانبیاء“ کا منصب عطا کیا گیا۔ جس سرزمین سے میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معراج پر لے جایا گیا۔
اسی سر زمین پر آج کل آپ کو ننھے ننھے پھول نظر آئیں گے۔ کہیں آپ کو مسکراتے ہوئے، کہیں آپ کو زخم لگے ہوئے تو کہیں آپ کو یہ پھول کفن میں لپٹے ہوئے نظر آئیں۔
کہیں یہ پھول اپنوں کو ڈھونڈتے ملینگے، کہیں وہ اپنوں کو یاد کررہے ہونگے، کہیں وہ سیسہ پلائی بنی دیوار ہونگے اور کہیں لفظ ”ماں“ پکار رہے ہونگے۔
کہیں آپ کو اپنوں کے جنازے اٹھاتے ہوئے ملینگے ، تو کہیں آپ کو رب کے حضور دعاؤں یا التجاؤں میں ملینگے۔
کہیں یہ پھول اپنوں کو گلے لگا رہے ہونگے ، کہیں ماں کی آنچل میں یہ نظارے دیکھ رہے ہونگے۔ کہیں بہن کو اپنی حیثیت کے مطابق پناہ دیتے ہوئے اور کہیں اپنے والد کو آسودہ خاک کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔
یہ ایسے پھول ہیں جو نہ تو کسی حکمران کو نظر آتے ہیں ، نہ کسی این جی او کو نظر آتے ہیں اور نہ دنیا میں مگن شخص کو نظر آتے ہیں۔
کیوں۔۔۔؟
کیونکہ ایک تو یہ مسلمان ہیں دوم یہ ”اقصی“ کے ابابیل ہیں۔
اس لیے ہر حکمران کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ اسی لیے قلم بند ہیں ، سپر پاور بیان بازی پر ہیں ، میڈیا کو دکھائی نہیں دیتا ، عدالتیں کی آنکھوں پر ویسے پٹی بندھی ہوئی ہے۔
آپ لوگوں نے پھولوں سے خوشبو کو محسوس کیا ہوگاپر خون نہیں ۔
آئیں آپ کو اس سرزمین پر ان پھولوں سے خون نکلتا ہوا دکھاؤں ، آئیں پھولوں اپنے خون سے زمین لال کرتے ہوئے دکھاؤں، آئیں ان پھولوں کو اپنے خون سے اپنی سر زمین سینچتے ہوئے دکھاؤں۔
آؤ غیرت مند لوگو تمہیں ان پھولوں کو آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاکر تمہارے لیے دعائیں کرتا دکھاؤں ۔
آؤ ان کی وہ دعائیں سناؤں شاید تمہیں غیرت آجائے، شاید ان کی آواز تم تک پہنچ جائے۔
ہے ہمت تو سنو
ایک پھول نے آخری لمحات میں کہا:
”رب سے جاکر سب کہونگی۔“
اور سنو
دوسرے پھول نے کہا:
”کل قیامت کے دن رب کے سامنے مسلمانوں تمہارا گریبان پکڑوں گا۔“
ہمت ہے تو صرف صحافت نام کی کرنے والو تم بھی سمجھ لو ۔ ہر تصویر کھینچنا ضروری نہیں ہوتا اور ہر تصویر خبر نہیں ہوتی۔
ایک پھول نے ایسی صورت حال میں کہا تھا:
”انکل! میری تصویر مت کھینچو میں حجاب میں نہیں ہوں۔“
دنیا سے غربت ختم کرنے والو، فنگشن کے نام پر کھانا ضائع کرنے والو، اپنے دسترخوان پر طرح طرح کے پکوان سجاکر دعوت اُڑانے والو
ایک پھول کی دعا دل تھام کر سنو۔
”یااللہ!مجھے جنت بلالو، کم از کم کھانا تو کھالوں گا۔“
ان دعاؤں کو پڑھ کر اگر غیرت نہیں آئی تو محلات چھوڑو چند لمحے ان کے ساتھ رہ کر دیکھو ، تب بھی غیرت نہ آئے تو ڈوب مرو۔
یاد رکھو! بادشاہی ہمیشہ نہیں رہنی ، ریشم کے بستر ہمیشہ نہیں رہنے، تمہاری دنیا کی دولت ہمیشہ نہیں رہنی۔
اگر آج تمہاری زبانیں بند رہیں ، اگر آج تم موت کے خوف سے ان کے لیے اقدامات نہیں کرتے تو ایک دن آئے گا کہ تم بھی اسی میں شامل کردیے جاؤ گے۔
پھر پکارو گے تمہاری کوئی نہیں سنے گا۔
مسلمان کا خون بھی اسی طرح خون ہے جس طرح تمہارا خون ہے۔ مسلمان کے بچے ویسے ہی ہیں جیسے تمہارے بچے ہیں۔ مسلمان بھی اس دنیا میں ویسے جیتا ہے جیسے تم جیتے ہو۔
عبرت حاصل کرو ورنہ ایک دن تم عبرت کا نشان بنا دیے جاؤ گے۔
آج اگر ان پھولوں کے لیے آواز نہ اٹھائی گئی تو ذہن نشین کرلو، تمہاری کوئی آواز نہیں سنے گا۔
اگر آج ان پھولوں کی حفاظت نہ کی گئی تو وقت آئے گا کہ تمہارے بچوں کی حفاظت بھی نہیں کی جائے گی۔
اٹھو! آگے بڑھو ، خدا تمہاری مدد نصرت کرے گا۔
نوٹ:اس مضمون کی پی ڈی ایف حاصل کرنے کے لیے درج ذیل فائل پر کلک کریں۔
Attachments
Last edited: