انبیاء و علماء کی سر زمین کی پکار
محمدداؤدالرحمن علی
دنیا کے اندر بہت سے خطے ایسے ہیں جو کسی نہ کسی وجہ سے مشہور ہیں۔ برف کے اعتبار سے انٹارکٹیکا اور جنگلات کے حساب سے افریقہ مشہور ہے۔ اسی طرح اس ارض پر ایک خطہ ایسا بھی ہے جس کو ’’سرزمین انبیاء‘‘ کہا جاتا ہے۔اس مقدس و بابرکت سرزمین کو ’’فلسطین‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔اس سرزمین پر بہت سے انبیاء علیھم السلام مبعوث ہوئے،اسی سر زمین پر انبیاء علیھم السلام نے علم توحید کو بلند کیا۔اسی سر زمین پرانبیاء علیھم السلام نے اپنی اپنی قوموں کو دعوت ’’اسلام‘‘ دی۔عراق سے اسی سرزمین کی طرف حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہجرت فرمائی۔اسی سر زمین پرحضرت اسحاق علیہ السلام اور آپ کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السلام نے دعوت کا فریضہ سر انجام دیا۔بعد ازاں حضرت یعقوب علیہ السلام ،حضرت یوسف علیہ السلام کی طرف مصر منتقل ہوئے جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام مبعوث ہوئے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کو لیکر اس سر زمین کی طرف عازم ہوئے ۔ اس وقت اس سرزمین پر ایک جابر قوم کا قبضہ تھا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو جہاد کے ذریعے اس سرزمین کو فتح کا حکم دیا۔قوم نے انکار کردیاجس پر انہیں میدان تیہ میں چالیس سال تک سرگرداں رہنے کی سزا ملی۔ اسی دوران حضرت موسیٰ علیہ السلام اس دنیا سے پردہ فرماگئے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کی قیادت میں بنو اسرائیل نے اس مقدس سر زمین کو فتح کیا۔
اسی مقدس سر زمین پر حضرت داؤدعلیہ السلام کو نبوت کا تاج پہنایا گیا،اسی سر زمین پر حضرت سلیمان علیہ السلام کو نبوت و بادشاہت عطاہوئی ۔ایسی بادشاہت عطا ہوئی جو نہ پہلے کسی کو عطا ہوئی اور نہ ایسی بادشاہت عطا ہوگی۔حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنی حکومت کے شیان شان مسجد اقصیٰ کی تعمیر فرمائی۔
حضرت زکریا علیہ السلام اور آپ کے بیٹے حضرت یحییٰ علیہ السلام بھی اسی مبارک سرزمین کی طرف مبعوث فرماگئے ۔حضرت زکریا علیہ السلام کے زمانے میں ہی حضرت مریم پیدا ہوئیں اور ان کے بطن سے بن باپ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے۔بنو اسرائیل کو دعوت دیتے رہے۔جب یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کی سازش کی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان کی طرف اٹھالیا۔ایک وقت آئے گا جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اسی مابرک سر زمین پر اُتارا جائے گا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اسی سر زمین پر عدل و انصاف قائم کرینگے۔
نبوت کا سلسلہ نبی کریم ﷺ کی ذات گرامی پر آکر مکمل ہوا۔آپﷺ مکہ میں پیدا ہوئے اور آپﷺ کو نبوت بھی مکہ میں عطا کی گئی۔لیکن اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو اس سرزمین کی سیر کرائی اور اسی مبارک سر زمین پر آپﷺ کو امام الانبیاء علیھم السلام کا منصب عطا کیا گیا۔
اسی طرح یہ سرزمین انبیاء علیھم السلام کے وارثین ’’علماء‘‘ کا بھی مسکن رہاہے۔وہ علماء جو اسی سرزمین پر پیدا ہوئے اور علمی دنیا کے بے تاج بادشاہ قرار پائے۔
امام محمد بن ادریس الشافعیؒ اسی سرزمین کے شہر ’’غزہ‘‘ میں پیدا ہوئے۔چار معروف فقہی مذاہب میں’’شافعی مذہب‘‘ کی نسبت انہی کی طرف ہوتی ہے۔
حافظ ابن حجر عسقلانیؒ اسی سرزمین کے مغربی ساحل میں واقع شہر’’عسقلان ‘‘میں پیدا ہوئے۔
فقہاء حنابلہ کے مشہورعالم اور حنابلہ کی کتاب ’’المغنی ‘‘کے مصنف امام ابن قدامہ المقدسیؒ اسی سر زمین کی ایک بستی ’’نابلس‘‘میں پیدا ہوئے۔
مشہور محدث ،کتاب’’عمدۃ الاحکام‘‘کے مصنف الحافظ عبدالغنی بن عبدالواحد المقدسی بھی اسی سر زمین سے تعلق رکھتے تھے۔
علماء حنابلہ کےمشہور عالم دین’’الآداب الشریعہ‘‘کے مؤلف امام ابن مفلح المقدسیؒ اسی سرزمین ے تعلق رکھتے تھے۔
نامور حنبلی عالم’’الانصاف فی معرفتہ الراجح من الخلاف‘‘کے مصنف امام علاؤالدین المرداویؒ اسی سر زمین سے تعلق رکھتے تھے۔
شارح صحیح البخاری امام احمد بن حسین الرملیؒ اسی سرزمین کے شہر ’’رملۃ‘‘ میں پیدا ہوئے۔
ان کے علاوہ فاتح اندلس موسیٰ بن نصیر جن کی دعوت پر طارق بن زیادؒ اسلام لائے اور اسلامی فوج کے کمانڈر بنے کا تعلق بھی اسی سرزمین سے تھا۔
یہ تمام باتیں اس بات کی دلیل ہیں کہ یہ ارض مقدس انبیاء علیھم السلام اور ان کے پیروں کاروں کا ہی مسکن رہا۔یہ ارض پاک مسلمانوں کا تھا ،مسلمانوں کا ہے اور مسلمانوں کا ہی رہے گا۔
یہ ارض مقدس ان کا ہے جنہوں نے انبیاء علیھم السلام کی دوتِ توحید کو قبول کیا اور اسی پر عمل پیرا رہے۔
ایک وقت تھا کہ اس پاک سرزمین سے انبیاء کرام علیھم السلام کی دعوت و تبلیغ کا فریضہ سر انجام دیا۔
اسی سر زمین نے علماء کو وجود بخشا ۔ اسی سر زمین سے علم کے چشمے پھوٹے ، اسی سر زمین سے تو حید کی صدائیں بلند ہوئیں ۔
آج وہ وقت ہے یہ پاک سرزمین پکار رہی ہے۔ یہ سرزمین امت مسلمہ کی طرف دیکھ رہی ہے۔ یہ سرزمین آس لگائے بیٹھی ہے۔ یہ سرزمین جھجھوڑ رہی ہے۔ یہ سرزمین آواز دے رہی ہے ، یہ سرزمین آنسو ٹپکا رہی ہے۔
اس پاک سرزمین کی جانب متوجہ ہو جاؤ ، اس پاک سرزمین کی آواز کو محسوس کرو ، اس پاک سرزمین کے پیغام پر کان دھرو ، اس پاک سرزمین کی حفاظت کرو۔
انبیاء علیھم السلام ، علماء ، اسلامک کمانڈرز نے اسی پاک سرزمین نے ہمیں پیغام دیا تھا کہ
یہ سرزمین مسلمانوں کی تھی، مسلمانوں کی ہے اور مسلمانوں کی ہی رہے گی۔
ایک بات یاد رکھنا! اگر آج آپ نے اس سرزمین کی پکار نہ سنا تو ایک دن تمہارے پیروں کے نیچے کی زمین با وجود وسعت کے تنگ کردی جائے گی۔

دنیا کے اندر بہت سے خطے ایسے ہیں جو کسی نہ کسی وجہ سے مشہور ہیں۔ برف کے اعتبار سے انٹارکٹیکا اور جنگلات کے حساب سے افریقہ مشہور ہے۔ اسی طرح اس ارض پر ایک خطہ ایسا بھی ہے جس کو ’’سرزمین انبیاء‘‘ کہا جاتا ہے۔اس مقدس و بابرکت سرزمین کو ’’فلسطین‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔اس سرزمین پر بہت سے انبیاء علیھم السلام مبعوث ہوئے،اسی سر زمین پر انبیاء علیھم السلام نے علم توحید کو بلند کیا۔اسی سر زمین پرانبیاء علیھم السلام نے اپنی اپنی قوموں کو دعوت ’’اسلام‘‘ دی۔عراق سے اسی سرزمین کی طرف حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہجرت فرمائی۔اسی سر زمین پرحضرت اسحاق علیہ السلام اور آپ کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السلام نے دعوت کا فریضہ سر انجام دیا۔بعد ازاں حضرت یعقوب علیہ السلام ،حضرت یوسف علیہ السلام کی طرف مصر منتقل ہوئے جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام مبعوث ہوئے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کو لیکر اس سر زمین کی طرف عازم ہوئے ۔ اس وقت اس سرزمین پر ایک جابر قوم کا قبضہ تھا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو جہاد کے ذریعے اس سرزمین کو فتح کا حکم دیا۔قوم نے انکار کردیاجس پر انہیں میدان تیہ میں چالیس سال تک سرگرداں رہنے کی سزا ملی۔ اسی دوران حضرت موسیٰ علیہ السلام اس دنیا سے پردہ فرماگئے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کی قیادت میں بنو اسرائیل نے اس مقدس سر زمین کو فتح کیا۔
اسی مقدس سر زمین پر حضرت داؤدعلیہ السلام کو نبوت کا تاج پہنایا گیا،اسی سر زمین پر حضرت سلیمان علیہ السلام کو نبوت و بادشاہت عطاہوئی ۔ایسی بادشاہت عطا ہوئی جو نہ پہلے کسی کو عطا ہوئی اور نہ ایسی بادشاہت عطا ہوگی۔حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنی حکومت کے شیان شان مسجد اقصیٰ کی تعمیر فرمائی۔
حضرت زکریا علیہ السلام اور آپ کے بیٹے حضرت یحییٰ علیہ السلام بھی اسی مبارک سرزمین کی طرف مبعوث فرماگئے ۔حضرت زکریا علیہ السلام کے زمانے میں ہی حضرت مریم پیدا ہوئیں اور ان کے بطن سے بن باپ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے۔بنو اسرائیل کو دعوت دیتے رہے۔جب یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کی سازش کی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان کی طرف اٹھالیا۔ایک وقت آئے گا جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اسی مابرک سر زمین پر اُتارا جائے گا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اسی سر زمین پر عدل و انصاف قائم کرینگے۔
نبوت کا سلسلہ نبی کریم ﷺ کی ذات گرامی پر آکر مکمل ہوا۔آپﷺ مکہ میں پیدا ہوئے اور آپﷺ کو نبوت بھی مکہ میں عطا کی گئی۔لیکن اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو اس سرزمین کی سیر کرائی اور اسی مبارک سر زمین پر آپﷺ کو امام الانبیاء علیھم السلام کا منصب عطا کیا گیا۔
اسی طرح یہ سرزمین انبیاء علیھم السلام کے وارثین ’’علماء‘‘ کا بھی مسکن رہاہے۔وہ علماء جو اسی سرزمین پر پیدا ہوئے اور علمی دنیا کے بے تاج بادشاہ قرار پائے۔
امام محمد بن ادریس الشافعیؒ اسی سرزمین کے شہر ’’غزہ‘‘ میں پیدا ہوئے۔چار معروف فقہی مذاہب میں’’شافعی مذہب‘‘ کی نسبت انہی کی طرف ہوتی ہے۔
حافظ ابن حجر عسقلانیؒ اسی سرزمین کے مغربی ساحل میں واقع شہر’’عسقلان ‘‘میں پیدا ہوئے۔
فقہاء حنابلہ کے مشہورعالم اور حنابلہ کی کتاب ’’المغنی ‘‘کے مصنف امام ابن قدامہ المقدسیؒ اسی سر زمین کی ایک بستی ’’نابلس‘‘میں پیدا ہوئے۔
مشہور محدث ،کتاب’’عمدۃ الاحکام‘‘کے مصنف الحافظ عبدالغنی بن عبدالواحد المقدسی بھی اسی سر زمین سے تعلق رکھتے تھے۔
علماء حنابلہ کےمشہور عالم دین’’الآداب الشریعہ‘‘کے مؤلف امام ابن مفلح المقدسیؒ اسی سرزمین ے تعلق رکھتے تھے۔
نامور حنبلی عالم’’الانصاف فی معرفتہ الراجح من الخلاف‘‘کے مصنف امام علاؤالدین المرداویؒ اسی سر زمین سے تعلق رکھتے تھے۔
شارح صحیح البخاری امام احمد بن حسین الرملیؒ اسی سرزمین کے شہر ’’رملۃ‘‘ میں پیدا ہوئے۔
ان کے علاوہ فاتح اندلس موسیٰ بن نصیر جن کی دعوت پر طارق بن زیادؒ اسلام لائے اور اسلامی فوج کے کمانڈر بنے کا تعلق بھی اسی سرزمین سے تھا۔
یہ تمام باتیں اس بات کی دلیل ہیں کہ یہ ارض مقدس انبیاء علیھم السلام اور ان کے پیروں کاروں کا ہی مسکن رہا۔یہ ارض پاک مسلمانوں کا تھا ،مسلمانوں کا ہے اور مسلمانوں کا ہی رہے گا۔
یہ ارض مقدس ان کا ہے جنہوں نے انبیاء علیھم السلام کی دوتِ توحید کو قبول کیا اور اسی پر عمل پیرا رہے۔
ایک وقت تھا کہ اس پاک سرزمین سے انبیاء کرام علیھم السلام کی دعوت و تبلیغ کا فریضہ سر انجام دیا۔
اسی سر زمین نے علماء کو وجود بخشا ۔ اسی سر زمین سے علم کے چشمے پھوٹے ، اسی سر زمین سے تو حید کی صدائیں بلند ہوئیں ۔
آج وہ وقت ہے یہ پاک سرزمین پکار رہی ہے۔ یہ سرزمین امت مسلمہ کی طرف دیکھ رہی ہے۔ یہ سرزمین آس لگائے بیٹھی ہے۔ یہ سرزمین جھجھوڑ رہی ہے۔ یہ سرزمین آواز دے رہی ہے ، یہ سرزمین آنسو ٹپکا رہی ہے۔
اس پاک سرزمین کی جانب متوجہ ہو جاؤ ، اس پاک سرزمین کی آواز کو محسوس کرو ، اس پاک سرزمین کے پیغام پر کان دھرو ، اس پاک سرزمین کی حفاظت کرو۔
انبیاء علیھم السلام ، علماء ، اسلامک کمانڈرز نے اسی پاک سرزمین نے ہمیں پیغام دیا تھا کہ
یہ سرزمین مسلمانوں کی تھی، مسلمانوں کی ہے اور مسلمانوں کی ہی رہے گی۔
ایک بات یاد رکھنا! اگر آج آپ نے اس سرزمین کی پکار نہ سنا تو ایک دن تمہارے پیروں کے نیچے کی زمین با وجود وسعت کے تنگ کردی جائے گی۔