اُٹھانا – بوجہ اُٹھانا
اس کے لیے
حمل، ناء ( نوء)، وزر، اثار (ثور)، اقلّ، بعث، انشر، انشز، التقط اور
لقح کے الفاظ آئے ہیں۔
1: حمل
بوجھ اٹھانے کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اس کا استعمال عام ہے اور مادی اور معنوی دونوں کے لیے مستعمل ہے۔ مثلاً :
مادی بوجھ اٹھانے کے لیے خواہ یہ ظاہری ہو یا باطنی جیسے ماں کا اپنے پیٹ میں بچہ کا بوجھ اٹھانا یا درخت کا اپنے پھل کا یا بادل کا اپنے پانی کا بوجھ اٹھاتا۔ غرض یہ لفظ ہر طرح مستعمل ہے۔ ارشاد باری ہے:
فَلَمَّا تَغَشّٰٮهَا حَمَلَتۡ حَمۡلاً خَفِيۡفًا فَمَرَّتۡ بِهٖ (سورۃ الاعراف آیت 189)
سو جب وہ اسکے پاس جاتا ہے تو اسے ہلکا سا حمل رہ جاتا ہے اور وہ اسکے ساتھ چلتی پھرتی ہے۔
معنوی بوجھ اٹھانے کے لیے:
وَعَنَتِ الۡوُجُوۡهُ لِلۡحَىِّ الۡقَيُّوۡمِؕ وَقَدۡ خَابَ مَنۡ حَمَلَ ظُلۡمًا (سورۃ طہ آیت 111)
اور (سب) چہرے اس ہمیشہ زندہ (اور) قائم رہنے والے (رب) کے حضور جھک جائیں گے، اور بیشک وہ شخص نامراد ہوگا جس نے ظلم کا بوجھ اٹھا لیا
اور
حمل علی بمعنی کسی پر بوجھ لادنا اور
حمّل بوجھ اٹھوانا کے معنوں میں آتا ہے۔ جیسے فرمایا:
رَبَّنَا وَلَا تَحۡمِلۡ عَلَيۡنَاۤ اِصۡرًا كَمَا حَمَلۡتَهٗ عَلَى الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِنَا (سورۃ بقرۃ آیت 286)
اے پروردگار ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈالیو جیسا تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا
2: ناء
(ینوء) کے معنی سخت محنت کرنا اور مشقت سے بوجھ اٹھانا (م ن) زیادہ بوجھ ہونے کی وجہ سے مشکل سے اٹھانا یا اٹھا سکنا (م ا) ارشاد باری ہے:
اِنَّ قَارُوۡنَ كَانَ مِنۡ قَوۡمِ مُوۡسَىٰ فَبَغٰى عَلَيۡهِمۡ وَاٰتَيۡنٰهُ مِنَ الۡكُنُوۡزِ مَاۤ اِنَّ مَفَاتِحَهٗ لَـتَـنُوۡٓاُ بِالۡعُصۡبَةِ اُولِىۡ الۡقُوَّةِ (سورۃ القصص آیت 76)
بیشک قارون موسٰی (علیہ السلام) کی قوم سے تھا پھر اس نے لوگوں پر سرکشی کی اور ہم نے اسے اس قدر خزانے عطا کئے تھے کہ اس کی کنجیاں (اٹھانا) ایک بڑی طاقتور جماعت کو دشوار ہوتا تھا
3: وزر
جب کوئی شخص اپنا کپڑا پھیلا کر اس میں اپنا بوجھ رکھ کر اٹھاتا اور چل دیتا ہے تو یہی
وزر کا صحیح مفہوم ہے۔ اسی لیے
ذنب یعنی گناہ کو
وزر کہتے ہیں یعنی وہ شخص اپنے کیے ہوئے گناہ کا بوجھ اٹھا لیتا ہے۔ (م ل) گویا
وزر کا استعمال عموماً گناہوں کے بار گراں اٹھانے کے لیے آتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَهُمۡ يَحۡمِلُوۡنَ اَوۡزَارَهُمۡ عَلٰى ظُهُوۡرِهِمۡؕ اَلَا سَآءَ مَا يَزِرُوۡنَ (سورۃ الانعام آیت 31)
اور وہ اپنے اعمال کے بوجھ اپنی پیٹھوں پر اٹھائے ہوئے ہونگے۔ دیکھو جو بوجھ یہ اٹھا رہے ہیں بہت برا ہے۔
4: اثار
(ثور) ثار کے معنی کسی چیز کے اوپر اٹھنا ہیں (م ل) اور
آثار کا لفظ اوپر اٹھانے کے لیے آتا ہے۔ اگر یہ لفظ زمین سے تعلق ہو تو اس کے معنی ہل جوتنا ہوتا ہے کہ اس سے زمین کو اوپر اٹھاتے ہیں۔ اور بالعموم اس لفظ کا استعمال ہواؤں اور دریاؤں کو اوپر اٹھانے کے لیے ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
اللّٰهُ الَّذِىۡ يُرۡسِلُ الرِّيٰحَ فَتُثِيۡرُ سَحَابًا فَيَبۡسُطُهٗ فِىۡ السَّمَآءِ كَيۡفَ يَشَآءُ وَيَجۡعَلُهٗ كِسَفًا (سورۃ الروم آیت 48)
اللہ ہی تو ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے تو وہ بادل کو ابھارتی ہیں۔ پھر اللہ اسکو جس طرح چاہتا ہے آسمان میں پھیلا دیتا اور تہ بہ تہ کر دیتا ہے پھر تم دیکھتے ہو کہ اسکے بیچ میں سے بارش کی بوندیں نکلنے لگتی ہیں۔
5: اقلّ
قلّ بنیادی طور پر دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ (۱) کم ہونا (۲) بلند ہونا اور
اقلّ بمعنی کسی چیز کو اٹھانا اور بلند کرنا (منجد) اور
اقلّ آثار سے زیادہ ابلغ ہے۔ یعنی ہواؤں کا بارش سے لدے ہوئے بوجھل بادلوں کو معمولی اور حقیر سمجھ کر اٹھائے لیے پھرنا (مف) چنانچہ درج ذیل آیت بھی اس بات کی وضاحت کر رہی ہے :
وَهُوَ الَّذِىۡ يُرۡسِلُ الرِّيٰحَ بُشۡرًۢا بَيۡنَ يَدَىۡ رَحۡمَتِهٖؕ حَتّٰۤى اِذَاۤ اَقَلَّتۡ سَحَابًا ثِقَالاً سُقۡنٰهُ لِبَلَدٍ مَّيِّتٍ (سورۃ الاعراف ایت 57)
اور وہی تو ہے جو اپنی رحمت یعنی بارش سے پہلے ہواؤں کو خوشخبری بنا کر بھیجتا ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ بھاری بھاری بادلوں کو اٹھا لاتی ہیں تو ہم اس کو ایک مری ہوئی بستی کی طرف ہانک دیتے ہیں۔
6: بعث
بنیادی طور پر اس میں دو معنی پائے جاتے ہیں (1) ابھارنا۔ (2) اٹھانا تنہا روانہ کرنا (منجد) کبھی تو بیک وقت یہ لفظ دونوں معنوں میں کبھی الگ الگ کسی ایک معنی میں استعمال ہوتا ہے، کہا جاتا ہے
بعثت البعير جس کے معنی ہیں اونٹ کو اٹھانا اور آزاد کر دینا۔ اس وقت ہمارے زیر بحث اس کے پہلے معنی ہیں اگر اس لفظ کا استعمال مردوں سے متعلق ہو تو بھی اس میں دونوں معنی پائے جاتے ہیں یعنی مردوں کو زندہ کر کے اٹھانا اور میدان محشر کی طرف چلا نا۔ مثلاً :
وَّاَنَّ السَّاعَةَ اٰتِيَةٌ لَّا رَيۡبَ فِيۡهَاۙ وَاَنَّ اللّٰهَ يَـبۡعَثُ مَنۡ فِىۡ الۡقُبُوۡرِ (سورۃ حج آیت 7)
اور بیشک قیامت آنے والی ہے اس میں کوئی شک نہیں اور یقیناً اﷲ ان لوگوں کو زندہ کر کے اٹھا دے گا جو قبروں میں ہوں گے
پھر یہ لفظ نیند سے اٹھانے کے لیے بھی (یعنی صرف پہلے معنی میں) استعمال ہوا ہے۔ کیونکہ نیند بھی ایک ہلکی قسم کی موت ہی ہوتی ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَكَذٰلِكَ بَعَثۡنٰهُمۡ لِيَتَسَآءَلُوۡا بَيۡنَهُمۡ (سورۃ کہف آیت 19)
اور اسی طرح ہم نے انکو اٹھایا تاکہ آپس میں ایک دوسرے سے دریافت کریں۔
7: انشر
نشر کے بنیادی معنی پھیلاتا ہیں اور اس کی ضد
طوی یعنی لپیٹنا ہے ۔
نَشَرْتُ الكِتاب یعنی میں نے کتاب کو کھولا یا پھیلایا اور
طویتہ کے معنی کتاب کو لپیٹ دیا یا بند کر دیا (م ل) جیسا کہ قرآن کریم میں ہے :
وَاِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتۡ (سورۃ التکویر آیت 10)
اور جب اَعمال نامے کھول دیئے جائیں گے
اور
نشر الميت نشورا کے معنی میت کے از سر زندہ ہونے کے ہیں (مف)
والَیهِ النشور کے معنی اللہ کے پاس ہی قبروں سے نکل کر جانا ہے۔ اس میں زندہ ہونا، اٹھنا اور پھیلنا سب معنی پائے جاتے ہیں۔ اسی سے انشر فعل متعدی ہے۔ ارشاد باری ہے:
ثُمَّ اَمَاتَهٗ فَاَقۡبَرَهٗۙ ثُمَّ اِذَا شَآءَ اَنۡشَرَهٗؕ (سورۃ عبس آیت 22،21)
پھر اسے موت دی، پھر اسے قبر میں (دفن) کر دیا گیا پھر جب وہ چاہے گا اسے (دوبارہ زندہ کر کے) کھڑا کرے گا
8: انشز
نشز کے بنیادی معنی ارتفاع، اٹھان، ابھار کے ہیں۔ خصوصاً جب کسی چیز میں یہ اٹھان تحرک اور ہیجان کا نتیجہ ہو۔ (غ ق)
نشز الرجل کا معنی بیٹھے ہوئے آدمی کا اٹھ کھڑا ہونا ہے (منجد) اسی سے
انشز فعل متعدی ہے ۔ قرآن میں ہے
وَانْظُرۡ اِلٰى حِمَارِكَ وَلِنَجۡعَلَكَ اٰيَةً لِّلنَّاسِ وَانْظُرۡ اِلَى الۡعِظَامِ كَيۡفَ نُـنۡشِزُهَا ثُمَّ نَكۡسُوۡهَا لَحۡمًا (سورۃ بقرۃ آیت 259)
ور اپنے گدھے کو بھی دیکھو جو مرا پڑا ہے غرض ان باتوں سے یہ ہے کہ ہم تم کو لوگوں کے لئے اپنی قدرت کی نشانی بنائیں اور ہاں گدھے کی ہڈیوں کو دیکھو کہ ہم ان کو کسطرح جوڑے دیتے اور ان پر کس طرح گوشت پوست چڑھائے دیتے ہیں۔
یہاں
انشز استعمال کرنے کا معنی ہے کہ ان ہڈیوں میں تحرک اور ہیجان پیدا ہوا ۔ وہ آپس میں جڑنے لگیں اور گدھے کا پنجر کھڑا ہوگیا ۔
9: التقط
لقطہ کے معنی زمین سے کسی چیز کا اٹھانا اور
لقطہ اس چیز کو کہتے ہیں جو زمین پر گری پڑی دستیاب ہو اور اس کا مالک معلوم نہ ہو (منجد) اسی سے
التقط مشتق ہے جس کے معنی ہیں زمین سے کسی ایسی گری پڑی چیز کا اٹھانا جس کے مالک کا علم نہ ہو ۔ قرآن میں ہے:
قَالَ قَآٮِٕلٌ مِّنۡهُمۡ لَا تَقۡتُلُوۡا يُوۡسُفَ وَاَلۡقُوۡهُ فِىۡ غَيٰبَتِ الۡجُـبِّ يَلۡتَقِطۡهُ بَعۡضُ السَّيَّارَةِ اِنۡ كُنۡتُمۡ فٰعِلِيۡنَ (سورۃ یوسف آیت 10)
ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا کہ یوسف کو جان سے نہ مارو۔ کسی اندھے کنویں میں ڈال دو کہ کوئی راہ گیر اسے نکال کر کسی دوسرے ملک میں لے جائے گا۔ اگر تم کو کرنا ہی ہے تو یوں کرو۔
10: لقح
یہ لفظ باطنی قسم کے بوجھ اٹھانے سے مخصوص ہے
لقحة الناقة بمعنی اونٹنی حاملہ ہو گئی (مف) پھر یہ لفظ ہواؤں سے بھی متعلق ہے جو نر درخت سے تخم لے جا کر مادہ درخت میں تخم ریزی کرتی ہیں یا وہ ہوائیں جو بارش کا بوجھ اٹھائے پھرتی ہیں۔ ارشاد باری ہے:
وَاَرۡسَلۡنَا الرِّيٰحَ لَوَاقِحَ فَاَنۡزَلۡنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَسۡقَيۡنٰكُمُوۡهُۚ وَمَاۤ اَنۡتُمۡ لَهٗ بِخٰزِنِيۡنَ (سورۃ الحجر آیت 22)
اور ہم ہواؤں کو بادلوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے بھیجتے ہیں پھر ہم آسمان کی جانب سے پانی اتارتے ہیں پھر ہم اسے تم ہی کو پلاتے ہیں اور تم اس کے خزانے رکھنے والے نہیں ہو
نیز دیکھیے بلند کرنا۔
ماحصل :
- حمل: بوجھ اٹھانے کے لیے خواہ مادی ہو یا معنوی عام ہے۔
- ناء: زیادہ بوجھ جو بہ مشقت اٹھایا جا سکے۔ بوجھ کو بہ مشقت اٹھانا۔
- اثار: ہواؤں کا بادلوں کو اٹھانے کے لیے۔
- وزر: عموماً گناہ کا بوجھ اٹھانے کے لیے آتا ہے۔
- اقلّ: بادلوں کا بوجھ معمولی سمجھ کر اٹھانے کے لیے۔
- بعث: مردوں کو اٹھانے کے لیے۔
- انشر: مردوں کو اٹھا کر پھیلانے کے لیے۔
- انشز: کسی چیز میں تحرک پیدا کر کے اٹھانے کے لیے۔
- التقط: کسی گری پڑی چیز کو اٹھانے کے لیے۔
- لقح: باطنی قسم کا بوجھ اٹھانے کے لیے مخصوص ہے۔