ووٹ اور ووٹر (حق رائے دہی اور رائے دہندگان)

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
امیر مملکت ؍سربراہِ حکومت کے انتخاب کے علاوہ دیگر انتخابی عہدوں(مجالس قانون ساز، کونسل وغیرہ) کے لیے ووٹ کے صحیح استعمال کو علماء و مفتیان کرام نے بڑی اہمیت دی ہے۔ علماء نے ووٹ کو ایک امانت قرار دیا ہے اور اسے صر ف اور صرف دیانت و امانت، عدل و قسط اور تقویٰ جیسی صفات سے متصف اور اچھے سیرت و کردار کے حامل امیدواروں کے حق میں استعمال کرنے نیز اس سلسلہ میں کسی بھی ترغیب و ترہیب ، لالچ، طمع اور رشوت سے اجتناب کو شرعی فریضہ قرار دیا ہے۔ ووٹ کی شرعی حیثیت کے بارے میں مفتی کفایت اللہ دہلوی
دیکھیے مفتی محمد کفایت اللہ دہلوی
کفایت المفتی
(جامع مؤلف: حفیظ الرحمٰن واصف)
(دہلی: مطبع نعمانی، ۱۳۹۷ھ؍ ۱۹۷۷ء)
جلد ۹: کتاب السیاسیات، فصل ہفتم، ص ۲۹۴۔۳۸۱۔

مفتی محمد شفیع اور مولانا محمد یوسف لدھیانوی نے تفصیل سے اظہار رائے کیا ہے۔ مفتی محمد شفیع کی رائے میں کسی امیدوارِ ممبری کو ووٹ دینے کی از روئے قرآن و حدیث چند حیثیتیں ہیں۔ایک حیثیت شہادت کی ہے کہ ووٹر جس شخص کو اپنا ووٹ دے رہا ہے اس کے متعلق اس کی شہادت دے رہا ہے کہ یہ شخص اس کام کی قابلیت بھی رکھتا ہے اور دیانت و امانت بھی۔ اور اگر واقع میں ا س شخص کے اندر یہ صفات نہیں ہیں، اور ووٹر یہ جانتے ہوئے اس کو ووٹ دیتا ہے تو وہ ایک جھوٹی شہادت ہے ، جو سخت کبیرہ گناہ اور وبال دنیا و آخرت ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت کا ذبہ کو شرک کے ساتھ کبائر بلکہ اکبر کبائرمیں شمار فرمایا ہے ۔ جس حلقہ میں چند امیدوار کھڑے ہوں اور ووٹر کو یہ معلوم ہے کہ قابلیت اور دیانت کے اعتبار سے فلاں فلاں آدمی قابلِ ترجیح ہے، تو اس کو چھوڑ کر کسی دوسرے کو ووٹ دینا اس اکبر کبائر میں اپنے آپ کو مبتلا کرنا ہے۔ اب ووٹ دینے والا اپنی آخرت اور انجام کو دیکھ کر ووٹ دے، محض رسمی مروت یا کسی طمع و خوف کی وجہ سے اپنے آپ کو اس وبال میں مبتلا نہ کرے ۔ ووٹ کی ایک شرعی حیثیت وکالت کی ہے کہ ووٹ دینے والا اس امیدوار کو اپنا نمائندہ اور وکیل بناتا ہے۔ لیکن اگر یہ وکالت اس کے کسی شخصی حق کے متعلق ہوتی ، اوراس کا نفع نقصان صرف اس کی ذات کو پہنچتا تو اس کا یہ خود ذمہ دار ہوتا، مگر یہاں ایسا نہیں کیونکہ یہ وکالت ایسے حقوق کے متعلق ہے جن میں اس کے ساتھ پوری قوم شریک ہے۔ اس لیے اگر کسی نااہل کو اپنی نمائندگی کے لئے ووٹ دے کر کامیاب بنایا تو پوری قوم کے حقوق کو پامال کرنے کا گناہ بھی اس کی گردن پر رہا۔ اگر امید وار بے دین و نااہل اور ظالم ہے تو اس کو ووٹ دینا سخت گناہ ہے، کیونکہ ووٹ دینا ایک امانت ہے، امانت کو جو اس کا اہل ہو اس کے حوالے کیا جائے
مفتی محمد شفیع
جواھر الفقہ
جلد ۵، ص۵۳۲۔۵۳۴
مولانا مفتی محمود
فتاویٰ مفتی محمود
جلد ۱۱، ص ۳۶۷۔۳۶۸، ۳۸۰

ان فتاویٰ میں امیدواروں کی طرف سے ووٹوں کے حصول کے لیے ناجائز ہتھکنڈے استعمال کرنے، ووٹروں کو دنیوی لالچ دینے، اسی طرح کسی امیدوار کا رقم لے کر دوسرے امیدوار کے حق میں دست بردار ہونے کو صریحاً ناجائز اور حرام قرار دیا گیا ہے۔ووٹروں کا ووٹ کے معاوضہ میں اپنی ذات کے لیے روپیہ لینا رشوت اور ناجائز بتایا گیا ہے
مفتی محمود
فتاویٰ مفتی محمود
جلد ۱۱، ص ۳۸۰۔

دیوبند مکتب فکر کے مفتیان کرام امیدواروں کے مسلک و عقیدہ کو بھی بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ چنانچہ ان کے نزدیک ’’شیعہ کو ووٹ دینا سخت گناہ ہے۔ جس شخص کے مرزائی ہونے کے شواہد موجود ہوں، اس کو ووٹ دینا قطعاً جائز نہیں۔ ووٹروں پر لازم ہے کہ مرزائی کے بجائے کسی مسلمان کو منتخب کیا جائے‘‘
فتاویٰ مفتی محمود
جلد ۱۱، ص ۳۶۶۔۳۶۷، ۳۶۹،۳۷۰، ۳۷۵۔۳۷۷، ۳۸۰۔

اس موضوع پر فتاویٰ کا خلاصہ یہ کہ انتخابات میں ووٹ کی شرعی حیثیت کم از کم ایک شہادت کی ہے جس کا چھپانا بھی حرام ہے اور اس میں جھوٹ بولنا بھی حرام ، اس پر کو ئی معاوضہ لینا بھی حرام، اس کو محض ایک سیاسی ہار جیت اور دنیا کا کھیل سمجھنا بڑی بھاری غلطی ہے۔ ووٹر جس امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں، شرعاً وہ اس کے بارے میں اس امر کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ شخص اپنے نظریے اور علم اور عمل اور دیانت داری کی رو سے اس کام کا اہل اور دوسرے امیدواروں سے بہتر ہے، جس کام اور منصب کے لیے یہ انتخابات ہو رہے ہیں
مفتی محمد شفیع
جواہر الفقہ، جلد ۵، ص ۵۳۵۔



عورت کا حق ووٹ (حق رائے دہی)​



پاکستان و ہند کے مجموعہ ہائے فتاویٰ میں اس موضوع پر بہت ہی کم فتاویٰ ملتے ہیں۔ البتہ مفتی محمو د نے ، جو پاکستان کی انتخابی سیاست میں طویل عرصے تک سرگرم عمل رہے، اپنے ایک فتویٰ میں اس پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ ان کی رائے میں دینی و ملی مصالح کا اگر تقاضا ہو تو عورت کو حق رائے دہی تفویض کیا جا سکتا اور وہ اپنے اس حق کو استعمال کر سکتی ہے۔ ’’عورتوں کا ووٹ بنانا جائز ہے، ضروری نہیں۔ اور اگر دینی مفاد کے پیشِ نظر ہو تو وہ اپنا ووٹ بے پردگی سے بچتے ہوئے استعمال کر سکتی ہے۔ اور اگر کوئی اہم دینی مصلحت پیش نظر نہ ہو تو عورتوں کے لیے ووٹ کا استعمال کرنا قباحت سے خالی نہیں‘‘

مولانا مفتی محمود
فتاویٰ مفتی محمود، جلد۱۱، ص۳۶۹۔


ووٹر کی اہلیت کے شرائط​



ووٹ کی اہمیت کے پیش نظر علماء نے ووٹرکی اہلیت کے شرائط بھی مقرر کیے ہیں۔ ان کی رائے میں ووٹر کیے لیے ضروری ہے کہ وہ کھوٹے اور کھرے، نیک اور بد میں تمیز کا شعور رکھتا ہو تاکہ نیک اور صالح نیز اہل اور فرض شناس افراد قیادت کے منصب کے لیے منتخب ہوں۔ اہل حدیث عالم مفتی عبدالستار الحماد کی رائے میں جس طرح ’’ سربراہ مملکت کے لیے ضروری ہے کہ وہ کبائر سے گریزاں اور اس کا ماضی داغ دار نہ ہو، اسی طرح ووٹر کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ صاحب شعور اور کھرے کھوٹے کی تمیز کر سکتا ہو۔ کسی کو نمائندہ بنانے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے متعلق اس قدر لیاقت ، معاملات کو سلجھانے اور اختلافات کو نمٹانے کی صلاحیت رکھنے کی گواہی دینا ہے۔ اس لیے گواہی دینے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اچھے برے کے درمیان تمیز کر سکتا ہو اور امیدوار کے کردار کو اچھی طرح جانتا ہو اگر ان باتوں کا خیال نہ رکھا گیا تو فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق جب معاملات کی بھاگ ڈور نالائقوں کے سپرد کر دی جائے تو قیامت کا انتظار کرنا‘‘

ابو محمد حافظ عبدالستار الحماد
فتاویٰ اصحاب الحدیث
(لاہور: مکتبہ اسلامیہ، ۷۰۰۲ء)
ص ۴۵۸۔ ۴۵۹۔
 
Top