ماں کی جدائی

محمد طلحہ

وفقہ اللہ
رکن
امی تمہارے بعد
ہر بار ہم
ایک دوسرے سے
آخری بار ملتے ہیں
زندگی بے یقینی کا
سایہ بن کر رہ گئی ہے
موت ہمارے نمبر
لگا چکی ہے
ہم تم سے
ملنے کی خاطر
اپنی اپنی باری کا
انتظار کرتے ہیں
زمین پر
اپنے دن شمار کرتے ہیں
ہمیں تم سے
کشید کیا گیا
ہمارے خون کے گروپ
اور دماغ کی بناوٹ میں
تمہیں بھر دیا گیا
اور دل کی جگہ
تمہیں رکھ دیا گیا
پھر اچانک تم ہم سے جدا ہو گئیں
اور ہمیں مبتلا کر دیا گیا
آنسوؤں کے کرب و بلا میں
اور ہم تم سے ملنے کے لیے
موت سے پیار کرنے لگے
اور انتظار کرنے لگے
کہ جب ہم جسم سے آزاد ہوں گے
تو تمہاری نرم اور دلگیر محبت کی
بانہوں میں تمہیں
بوسہ دے سکیں گے
تمہارے سینے سے لگ کر
ہنس اور رو سکیں گے
تمہاری خوب صورت آنکھوں سے
خود کو دیکھ سکیں گے
تمہارے ساتھ ہمیشہ کے لیے
جی سکیں گے
 

محمد طلحہ

وفقہ اللہ
رکن
ماں ۔۔۔۔۔۔۔۔
میں اس سے قیمتی شے کوئی کھو نہیں سکتا
عدیلؔ ماں کی جگہ کوئی ہو نہیں سکتا

اب اک رومال میرے ساتھ کا ہے
جو میری والدہ کے ہاتھ کا ہے

شام ڈھلے اک ویرانی سی ساتھ مرے گھر جاتی ہے
مجھ سے پوچھو اس کی حالت جس کی ماں مر جاتی ہے

جب تک ماتھا چوم کے رخصت کرنے والی زندہ تھی
دروازے کے باہر تک بھی منہ میں لقمہ ہوتا تھا

اس لیے چل نہ سکا کوئی بھی خنجر مجھ پر
میری شہ رگ پہ مری ماں کی دعا رکھی تھی

باپ زینہ ہے جو لے جاتا ہے اونچائی تک
ماں دعا ہے جو سدا سایہ فگن رہتی ہے

دور رہتی ہیں سدا اُ ن سے بلائیں ساحل
اپنے ماں باپ کی جو روز دعا لیتے ہیں

دعا کو ہاتھ اٹھاتے ہوئے لرزتا ہوں
کبھی دعا نہیں مانگی تھی ماں کے ہوتے ہوئے

چلتی پھرتی ہوئی آنکھوں سے اذاں دیکھی ہے
میں نے جنت تو نہیں دیکھی ہے ماں دیکھی ہے
 

محمد طلحہ

وفقہ اللہ
رکن
ماں کتنا خوبصورت اور شیریں لفظ ہے۔ کتنا پرسکون اور اطمینان سے بھرپور کتنا تحفظ بھرا۔ اس لفظ کی خوبصورتی اور کشش کا اندازہ اسے ہی ہو سکتا ہےجس نے ماں کی محبت اور چاہت کے ہلکورے لئے ہوں۔ ماں جیسی بلند ہستی اللہ کی قدرت کے کرشموں میں ایک انوکھا اور منفرد شاہکار ہے۔ اس کی عطا کردہ نعمتوں میں ایک عظیم نعمت ہے ۔ ماں کی صحیح قدر و قیمت کا اندازہ تبھی ہوتا ہے جب وہ دنیا کے رنج و غم سے بہت دور خاموش اور سنسان بستی میں منوں مٹی کے نیچے چلی جاتی ہے۔

اس عظیم نعمت کی قدر اس کے بچھڑ جانے کے بعد زیادہ ہوتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پیدائش سے اب تک جتنی نعمتیں میسر تھیں وہ سب واپس لے لی گئیں
اماں کو ہم سے جدا ہوئے 6 سال بیت چکے ہیں لیکن یوں لگتا ہے ابھی کہیں سے اماں کی آواز آئے گی۔ ماں باپ نے خود مشکلات میں زندگی گزاری لیکن ہمیں اچھی تعلیم دلوائی اور بہترین تربیت کی ۔ الحمدللہ اماں نے اپنی زندگی میں ہماری تعلیم تربیت کا بہت خیال رکھا۔ آج ہم جو کچھ یا جس مقام پر ہیں اماں کی دعاؤں اور تربیت اور والد کی محنت کی وجہ سے ہی ہیں۔ اماں میرے لیے دعاؤں کی مشین تھیں ۔ میں جب بھی کسی خاص کام کے لیے خصوصی دعاؤں کی درخواست کرتا تو ان کے ہاتھ بلند ہو جاتے، سجدے لمبے ہو جاتے اور میرے کام ہوجاتے تھے۔ اکثر وہ کام جنہیں میں ناممکن سمجھتا تھا ۔ ہماری ابتدائی زندگی بہت کٹھن تھی اور ان کٹھن حالات میں بھی ہمارے والدین نے ہماری خواہشات پوری کیں۔ کبھی ہمیں احساس کمتری کا شکار نہ ہونے دیا لیکن اب احساس ہوتا ہے کہ ہماری خواہشات کو پورا کرنے لیئے ماں باپ نے نہ جانے اپنی کون کون سی خواہشات کا گلا گھونٹا ہوگا۔ مجھے بچپن کے کئی واقعات یاد ہیں جس میں سے ایک بہت دل ہلا دینے والا واقعہ کہ گھر میں بہت اچھا کھانا بنا تھا لیکن شاید اماں کو احساس ہوگیا کہ کھانا زیادہ نہیں کہ ہم تمام گھر والے کھالیں۔ اماں نے کھانا دینے سے پہلے ہی کہنا شروع کردیا کہ آج طبیعت بہت خراب محسوس ہورہی ہے، کچھ کھانے کو دل نہیں چاہ رہا ہے۔ تم لوگ کھانا کھا لو میں سوتی ہوں۔
میں اپنے والدین کی وفات کے بعد آج خود کو بہت ہی تنہا محسوس کرتا ہوں۔ گو کہ میرے قریب بہت سے محبت کرنے والے رشتے موجود ہیں لیکن ماں باپ کی محبت کا نعم البدل کوئی رشتہ نہیں ۔ حالت بیماری میں اماں کا پیشانی پر ہاتھ رکھ دینا۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ آب حیات پی لیا ہو۔ اب جب کہ محبت ، شفقت، پیار اور دعاؤں کا وہ باب مجھ پر ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا ہے اور مجھے اچھی طرح اندازہ ہے کہ میرے گرد اماں کی دعاؤں کا مضبوط حفاظتی حصار ٹوٹ چکا ہے۔ اس لئے اب بہت محتاط ہو کر چلتا ہوں۔ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے اپنے والدین کے ساتھ سب سے کم برس میرے ہی گزرے ۔ آج بھی شاید ہی کوئی دن ان کی یادوں کے بغیر گزرتا ہو۔ اللہ تعالی انہیں اپنے جوار رحمت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ہماری بہترین تربیت اور پرورش کرنے پر انہیں اجر عظیم عطا کرے۔ اور ان کی مغفرت فرمائے ۔ آمین
تری قبر پر رحمتوں کی گھٹا ہو
سدا اُس پہ طیبہ کی ٹھنڈی ہوا ہو
رہوں ساتھ میں تیرے کچھ اس طرح سے
تری یاد کا لمس میری دعا ہو
ہوا تیرے جانے پہ احساس مجھ کو
مری زندگی جیسے کوئی سزا ہو
نہیں آتی ہو خواب میں کچھ دنوں سے
مجھے یوں لگا جیسے مجھ سے خفا ہو
کہیں روٹھ جائے نہ جنت میری
قدم چوم لو ، حق نہ پھر بھی ادا ہو
عبادت ہے ہر اک گھڑی دوستو، جو
محبت سے ماں کی طرف دیکھنا ہو
جو ہوں دیکھنے والی آنکھیں ترے پاس
ترا حج تری ماں کی صورت ادا ہو
ترے پاس سارے خزانے ہیں ناداں
ترے ساتھ گر تیری ماں کی دعا ہو
دعا عاصمی کی یہی ہے خدا سے
کوئی ماں کسی سے نہ ہرگز جدا ہو
 
Top