عمر میں اضافہ ممکن ہے؟
مومن ہر لمحہ اپنی موت کو یاد رکھتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے:
كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ۔ ۔’’ہر جان نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے‘‘۔(سورة آل عمران )
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں موت کواَجَل سے تعبیر فرمایا ہے،اَجَل کے معنی ہیں:کسی چیز کا مقررہ وقت، جو کسی قیمت پر نہ ٹلے۔
إِنَّ أَجَلَ اللَّهِ إِذَا جَاءَ لَا يُؤَخَّرُ ۖ۔۔۔ ’’بے شک جب اللہ کی طرف سے (موت کا) مقررہ وقت آ جاتا ہے تو وہ ٹلتا نہیں ہے‘‘ ﴿٤﴾ سورة نوح
وَلَن يُؤَخِّرَ اللَّهُ نَفْسًا إِذَا جَاءَ أَجَلُهَا ۚ۔۔۔ ’’اور اللہ ہرگز کسی شخص کو مہلت نہیں دیتا جب اس کی موت کا وقت آجاتا ہے‘‘ ﴿١١﴾ سورة المنافقون
أَيْنَمَا تَكُونُوا يُدْرِككُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنتُمْ فِي بُرُوجٍ مُّشَيَّدَةٍ ۗ۔۔۔ ’’پس جان لو! تم جہاں کہیں بھی ہوگے موت تمہیں آن پکڑے گی اگرچہ تم مضبوط قلعوں میں ہی ہو‘‘﴿٧٨﴾ سورة النساء
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا اور فرمایا:لکھو! قلم نے عرض کیا: کیا لکھوں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:تقدیر لکھو جو کچھ ہو چکا ہے اور جو ہمیشہ تک ہونے والا ہے‘‘۔ (ترمذی: 2155 )
لہذا اللہ تعالیٰ نے قلم کی پیدائش سے لے کر قیامت كے دن تک کی ہر چیز کو لوحِ محفوظ میں لکھ رکھا ہے۔اور رسول اکرم ﷺ نے ہمیں یہ بھی خبر دی ہے کہ: ’’اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین کی تخلیق سے پچاس ہزار برس پہلے مخلوقات کی تقدیر کو لکھا، اس وقت اللہ کا عرش پانی پر تھا‘‘ ۔ (صحيح مسلم: 2653)
اور آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے:’’ تمہاری پیدائش کی تیاری تمہاری ماں کے پیٹ میں چالیس دنوں تک (نطفہ کی صورت میں) کی جاتی ہے، اتنی ہی دنوں تک پھر ایک بستہ (منجمد ) خون کے صورت اختیار کیے رہتا ہے اور پھر وہ اتنے ہی دنوں تک ایک مضغہ گوشت رہتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ بھیجتا ہے اور اسے چار باتوں (کے لکھنے) کا حکم دیتا ہے۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ ’’ اس کے عمل، اس کا رزق، اس کی مدت زندگی اور یہ کہ بد ہے یا نیک، لکھ لے‘‘۔ (صحیح بخاری: 3208، صحیح مسلم: 2643)
مندرجہ بالا آیات و احادیث اور ان جیسی دیگر آیات و احادیث مبارکہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہر متنفس کے موت کا وقت مقرر ہے لیکن دوسری طرف لمبی عمر کی دعا کرنا بھی جائز اور احسن ہے۔ لہذا یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر لمبی عمر کی دعا یا بد دعا کے کیا معنی ہیں، جبکہ موت کا وقت مقرر ہے اور کیا عمر میں اضافہ ممکن ہے؟
یا پھر یہ جو حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’دعا کے سوا کوئی چیز تقدیر کو نہیں ٹالتی اور نیکی کے سوا کوئی چیز عمر میں اضافہ نہیں کرتی ‘‘۔ (سنن ترمذي: 2139، سنن ابن ماجہ: 90)
یا یہ کہ’’ جس شخص کو یہ بات پسند ہو کہ اس کی روزی میں فراخی اور اس کی عمر میں تاخیر (یعنی اضافہ) کیا جائے تو اسے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے‘‘۔ (صحيح مسلم: 2557)، (صحیح بخاری : 944)
تو پھر دعا، نیکی اور صلہ رحمی کرنے سے عمر میں اضافہ کیونکر ہوتا ہے، جبکہ قرآنی آیات و احادیث کے مطابق موت کا وقت مقرر ہونا ثابت ہے۔ اس عقدہ کو وا کرنے کے لیے تقدیر کو سمجھنا ضروری ہے۔ تقدیر لغت کے اعتبار سے ’’اندازہ‘‘ کرنے کو کہتے ہیں، جب کہ شرعی اصطلاح کے اعتبار سے تقدیر اللہ تعالیٰ کے اس علم اور فیصلہ کو کہتے ہیں جو اس کائنات اور اس کی تمام مخلوقات کے بارے میں اس کے وجود میں آنے سے پہلے طے کیا جاچکا ہے۔
تقدیر کی دو اقسام ہیں: (1) تقدیرمبرم اور (2) تقدیر معلق۔
«تقدیر مبرم» تو حق تعالیٰ کا اٹل فیصلہ ہوتا ہے جو چیز پیش آنے والی ہوتی ہے اس میں کچھ بھی تغیر و تبدل ممکن نہیں ہے۔مگر «تقدیر معلق» میں بعض اسباب کی بنا پر تغیر و تبدل بھی ہوتا رہتا ہے۔ اس میں دو جہت ہوتی ہیں، مثلاً فلاں کام کیا تو تقدیر بدل جائے گی ورنہ نہیں بدلے گی۔
حدیث میں جس تقدیر کا دعا سے بدل جانے کا کہا گیا ہے وہ تقدیر معلق ہے، اس سے تقدیر مبرم مراد نہیں ہے۔ لہذا دعا یا بد دعا سے عمر میں جو زیادتی یا کمی ہوتی ہے وہ بھی تقدیر معلق کے زمرے میں آتی ہے۔
اور عمر میں زیادتی کے مفہوم میں علما کی مختلف تصریحات ہیں، جن میں سے تین اقوال درج ذیل ہیں:
پہلا قول : عمر میں برکت کا ہونا، جس کی زندگی میں برکت ہوتی ہے وہ اپنی محدود زندگی میں دوسروں کی نسبت بہت زیادہ نیک اعمال کر لیتا ہے۔
دوسرا قول : عمر کا درحقیقت طویل ہونا وہ یہ کہ کوئی شخص اپنے ہم عصر کی نسبت لمبی عمر پائے، مثلاً فی زمانہ لوگوں کی عمر 60 -70 سال ہے تو اب جو شخص 100 سال تک زندہ رہا تو اس کی عمر میں زیادتی ہوئی۔
تیسرا قول : مرنے کے بعد ذکر خیر کا پایا جانا، جب کوئی شخص ایسا صدقۂ جاریہ کر جاتا ہے جس کی وجہ سے اس کے مرنے کے بعد بھی لوگ اس کا ذکر خیر کرتے ہیں۔
بہر حال صرف لمبی عمر کسی انسان کے لیے خیر کی ضامن نہیں ہے الاّ یہ کہ وہ شخص اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور عمل دونوں میں اچھا ہو۔ لیکن جس کے اعمال اچھے نہیں ہوں گے اس کی لمبی عمر اس کے لیے کوئی خیر و برکت نہیں لائے گی بلکہ یہ اس کے لیے دنیا میں فتنے اور آخرت میں عذاب باعث ہوگا۔ جیسا کہ جب پوچھا گیا کہ لوگوں میں سے سب سے زیادہ بد تر شخص کون ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جس کی عمر لمبی ہو اور عمل برا ہو‘‘۔ (سنن ترمذي: 2330)
اور فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِّأَنفُسِهِمْ ۚ إِنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدَادُوا إِثْمًا ۚ وَلَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ (١٧٨) سورة آل عمران
’’اور کافر یہ گمان ہرگز نہ کریں کہ ہم جو انہیں مہلت دے رہے ہیں (یہ) ان کے حق میں بہتر ہے، ہم تو (یہ)مہلت انہیں صرف اس لیے دے رہے ہیں کہ وہ گناہ میں اور بڑھ جائیں، اور ان کے لیے (بالآخر) ذلّت انگیز عذاب ہے‘‘
ان کافروں کو اللہ تعالیٰ نے ڈھیل دی ہوئی ہے کہ انھیں رزقِ وافر، عافیت ، درازیٔ عمر اور بیوی بچے عطا کر رکھے ہیں لیکن اس میں ان کے لیے کوئی بھلائی نہیں ہے بلکہ یہ ان کے لیے باعثِ فتنہ ہے۔ اللہ کی پناہ! کہ اس فراوانی سے وہ مزید گناہوں میں گِھر جائیں گے۔ طیبی رحمہ اللہ کہتے ہیں: اوقات اور گھڑیاں تاجر کے بنیادی سرمائے (پونجی) کی طرح ہیں پس، چاہیے کہ تجارت اس طرح کی جائے کہ حصولِ نفع کا باعث ہو، سرمایہ جتنا بڑھتا جائے گا نفع بھی زیادہ ہوتا جائے گا، جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق زندگی بسر کرے وہ کامیاب ہو گا اور فلاح پائے گا اور جس نے اپنا سرمایہ ضائع کیا وہ نفع نہیں پائے گا اور سخت گھاٹے میں رہے گا۔
لہذا گھاٹے سے بچنے کے لیے ہر بندۂ مومن کو اپنی عمر سے مکمل فائدہ اٹھانے میں حریص ہونا چاہیے اور اسے خیر و عافیت والی لمبی عمر کی دعا مانگنے کے ساتھ ساتھ عمر میں اضافہ کرنے والے اعمال یعنی نیکی اور صلہ رحمی بھی کرتے رہنا چاہیے، تاکہ اس کا بڑھاپا بابرکت و باسعادت ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
ماخوذ: کتاب
بابرکت و باسعادت بڑھاپا، اس کتاب کی پرنٹیڈ ہارڈ کاپیاں موجود ہیں جولینا چاہتے ہوں وہ مجھ سے رابطہ کرسکتے ہیں ، واٹس اپ 03262366183 پر۔