کتاب: بابرکت و باسعادت بڑھاپا

محمد اجمل خان

وفقہ اللہ
رکن
معزز قارئین! واضح رہے کہ کہ یہاں کتاب ’’بابرکت و باسعادت بڑھاپا‘‘ سے جو مضامین پیش کیے جارہے ہیں وہ کتاب کے مطابق ترتیب وار اور مکمل نہیں ہیں۔ مکمل ترتیب وار مضامین پڑھنے کے لیے آپ پرنٹیڈ کتاب حاصل کرسکتے ہیں۔ واٹس اپ نمبر 03262366183 پر ربطہ کرکے کتب حاصل کرسکتے ہیں۔
 

محمد اجمل خان

وفقہ اللہ
رکن
زندگی میں برکت قرآن سے

زندگی میں حصول برکت کی تیسری شرط ہے قرآن مجید سے استفادہ حاصل کرنا ہے۔
تمام انسانیت کے لیے اس زمین کے اوپر اور آسمان کے نیچے قرآن مجید سے بڑی کوئی دولت نہیں اور نہ ہی اس سے عظیم تر کوئی نعمت ہے۔ قرآن مجید برکتوں کا خزانہ ہے۔ اس کی برکتوں کا اندازہ اس بات سے کیجيے کہ یہ ہمارے بابرکت رب کا بابرکت کلام ہے۔ اس بابرکت کلام کا نزول ایک بابرکت رات (شبِ قدر) میں ہوا:

حم (١) وَالْكِتَابِ الْمُبِينِ (٢) إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ ۚ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ (٣) سورة الدخان
’’حم ، قسم ہے اِس کتاب مبین کی کہ ہم نے اِسے ایک بڑی خیر و برکت والی رات میں نازل کیا ہے،کیونکہ ہم لوگوں کو متنبہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے‘‘

اس پیغام کو لانے والے روح الامین ہیں جو کہ تمام فرشتوں میں بزرگ اور اللہ کے سب سے مقرب ہیں۔

وَإِنَّهُ لَتَنزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ ‎﴿١٩٢﴾‏ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ ‎﴿١٩٣﴾‏ عَلَىٰ قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنذِرِينَ ‎﴿١٩٤﴾‏ سورة الشعراء
’’اور بیشک یہ (قرآن) رب العالمین کا اتارا ہوا ہے ، اسے امانت دار فرشتہ لے کر آیا ہے ، آپ کے قلبِ (انور) پر تاکہ آپ ڈر سنانے والوں میں سے ہو جائیں ‘‘

روئے زمین کے سب سے مبارک خطے میں (مکہ معظمہ اور مدینۃ المنورہ) میں اس قرآن مجید کا نزول ہوا۔

إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِّلْعَالَمِينَ (٩٦) سورة آل عمران
’’بیشک سب سے پہلا گھر جو لوگوں (کی عبادت) کے لیے بنایا گیا وہی ہے جو مکہّ میں ہے، برکت والا ہے اور سارے جہان والوں کے لیے (مرکزِ) ہدایت ہے‘‘

اور مدینہ کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مدینہ محترم ومکرم ہے عیر اور ثور (مدینہ کی دو پہاڑیاں) کے درمیان۔ (سنن ابي داود: 2034)

مدینہ منورہ کے بابرکت شہر ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں سب سے عظیم اور بابرکت ہستی (ﷺ) کا روضۂ اقدس ہے جہاں سے برکتوں کے چشمے ہر وقت پھوٹتے رہتے ہیں۔ ہر نبی کا ایک حرم ہوتا ہے اور مدینہ منورہ کو اللہ کے پیارے نبی ﷺ کے حرم ہونے کا اعجاز حاصل ہے۔

اس قرآن مجید کا نزول انس و جن میں اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ محبوب اور سب سے بابرکت ہستی (ﷺ) کے قلب اطہر پر ہوا۔ دنیا و آخرت دونوں جہانوں میں تمام انس و جن کی کامیابی اور خیر و برکت اسی بابرکت ہستی (ﷺ) کی اسوۂ حسنہ کو اپنانے اور اسی بابرکت ہستی (ﷺ) کی اطاعت و اتباع کرنے میں ہی ہے۔ اسی طرح جس انسان کا قلب بھی اس قرآن مجید کو قبول کرے گا وہ دنیا و آخرت کی بے شمار خیر و برکت حاصل کرے گا، جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے:

وَهَـٰذَا كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ(١٥٥) سورة الأنعام
’’اور یہ کتاب جو ہم نے نازل کی ہے بڑی خیر وبرکت والی ہے، سو اس کا اتباع کرو اور (اللہ سے) ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے‘‘

قرآن مجید سے دو طریقوں سے برکت حاصل کی جاتی ہے:
  1. عمومی طور پر پور اقرآن مجید ہی برکتوں کا خزانہ ہے اور
  2. خصوصی طور پر اس کی بعض آیات اور بعض سورتیں بابرکت ہیں،
قرآن کریم سے برکت حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے حقوق کو سمجھا جائے اور انہیں ادا کیا جائے۔ قرآن کریم کے ہم پر درج ذیل حقوق ہیں۔

پہلا حق: اس پر ایمان لانا ہے۔ قرآن پر ایمان لانے میں اس کے کلام الٰہی ماننا اور اس کے کلام الٰہی ہونے میں ذرہ برابر بھی شک نہ کرنا، اسے عدل وانصاف پر مبنی سمجھنا، اس کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام جاننا، اس کے اوامر کا بجا لانا اور نواہی سے بچنا اور اس کی ہر بات کی تصدیق کرنا شامل ہے۔

افسوس کہ آج مسلمانوں کی اکثریت قرآن پر کامل ایمان نہیں رکھتی کیونکہ اگر قرآن پر ہم مسلمانوں کا ایمان کامل ہوتا تو ہمارا عمل بھی قرآن کے مطابق ہوتا لیکن ایسا نہیں ہے ۔ اس لیے ہماری زندگی قرآن کی حقیقی برکتوں سے محروم ہے۔

دوسرا حق: اس کی تلاوت کرنا اور اسے پڑھنا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں اپنے پیارے حبیب ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا ۔۔ (٤) سورة المزمل
’’اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر (اور واضح کر کے) پڑھا کیجيے!‘‘

قرآن کریم مومن کا اپنے رب سے ملاقات اور باتیں کرنے کا ذریعہ ہے، اس کی روح کی غذا اور اس کے لیے ہدایت و بشارت ہے، اپنے ایمان کو تر و تازہ رکھنے کا اور مصائب و مشکلات کے مقابے کے لیے اس کا سب سے موثر ہتھیار ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ مِن رَّبِّكَ بِالْحَقِّ لِيُثَبِّتَ الَّذِينَ آمَنُوا وَهُدًى وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِينَ (١٠٢) سورة النحل
’’ فرما دیجیے: اس (قرآن) کو روحُ القدس (جبرئیل علیہ السلام) نے آپ کے رب کی طرف سے حق کے ساتھ اتارا ہے تاکہ ایمان والوں کو ثابت قدم رکھے اور (یہ) مسلمانوں کے لیے ہدایت اور بشارت ہے‘‘

تیسرا حق: قرآن پڑھ کر اس کے مطابق عمل کرنا ہے، جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے:

وَهَـٰذَا كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ(١٥٥) سورة الأنعام
’’اور یہ کتاب جو ہم نے نازل کی ہے بڑی خیر وبرکت والی ہے، سو اس کی پیروی کرو اور (اللہ سے) ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے‘‘

قرآن پڑھ کر اس پر عمل نہ کرنے والا ایسا ہی ہے جیسا کہ اس نے قرآن پڑھا ہی نہیں۔ لہذا برکت اسی کی زندگی میں ہوتی ہے جس کا عمل قرآن کے امر و نہی کے مطابق ہوتا ہے۔

چوتھا حق: اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ قرآن کو سمجھ کر اور غور و فکر کے ساتھ پڑھا جائے۔

کِتٰبٌ اَنۡزَلۡنٰہُ اِلَیۡکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوۡۤا اٰیٰتِہٖ وَ لِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ ﴿۲۹﴾ (٢٩) سورة ص
’’یہ کتاب برکت والی ہے جسے ہم نے آپ کی طرف نازل فرمایا ہے تاکہ دانش مند لوگ اس کی آیتوں میں غور و فکر کریں اور نصیحت حاصل کریں‘‘

قرآن مجید پر ایمان لانے کا حق جاننے اور سمجھنے والے وہی لوگ ہیں جو قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں، اس کی معنی و مطلب سمجھنے کے لیے اسے پڑھتے ہیں، اس کی آیتوں میں غور و فکر کرتے ہوئے اس سے صحیح نصیحت و ہدایت حاصل کرتے ہیں پھر اس کے مطابق صحیح عمل بھی کرتے ہیں۔ ایسے لوگ « أُولُو الْأَلْبَابِ۔ ۔ ۔ اہلِ عقل و فہم اور دانشمند ہیں »۔ ایسے ہی لوگوں کی زندگی ہی بابرکت ہوتی ہے ۔

پانچواں حق : یہ « أُولُو الْأَلْبَابِ ۔ ۔ ۔ اہلِ عقل و فہم اور دانشمند» قرآن کو سیکھنے اور سمجھنے کے بعد اسے اپنے تک ہی محدود نہیں رکھتے بلکہ اسے دوسروں تک پہنچانے کا کام بھی کرتے ہیں جو کہ قرآن کا پانچواں حق ہے یعنی قرآن کا پانچواں حق اس کی تبلیغ کرنا ہے ۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے: « بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً ۔ ۔ ۔ میرا پیغام لوگوں کو پہنچاؤ! خواہ ایک آیت ہی کیوں نہ ہو»۔ (صحيح البخاري:3461)

یہ قرآن کریم کے حقوق ہیں جو بندہ ان حقوق کو جتنا زیادہ ادا کرے گا اس کی زندگی میں اتنی ہی زیادہ برکت ہوگی۔ قرآن کریم اللہ تبارک و تعالیٰ کا مبارک کلام اور روئے زمین پر سب سے زیادہ مبارک کتاب ہے۔ اسے نازل ہی اس لیے کیا گیا ہے کہ لوگ اس سے برکت حاصل کریں۔

لیکن آج کا مسلمان! افسوس کہ آج کا مسلمان اس بابرکت کتاب سے برکت حاصل کرنے کا طریقہ ہی نہیں جانتا۔ وہ اس عظیم کتاب کا احترام تو کرتا ہے لیکن اس سے برکت حاصل کرنے کے معاملے میں بدعات میں پڑا ہوا ہے۔ آج کے مسلمان کو کسی کے مرنے پر ہی قرآن کی یاد آتی ہے۔ کوئی مر جائے تو عزیز و اقارب اور مدرسے کے بچوں سے قرآن ختم کروا کر مرحوم کو ثواب پہنچایا جاتا ہے۔ نئے مکان میں منتقل ہونے سے پہلے یا نئی دوکان کا افتتاح کرتے وقت مدرسے کے بچوں سے قرآن پڑھوا کر برکت حاصل کی جاتی ہے۔ بیٹی کے جہیز میں قرآن کا نسخہ دینا اور رخصتی کے وقت سرپر قرآن پکڑ کر رخصت کرنا بابرکت سمجھا جاتا ہے۔ ہر مسلمان کے گھر میں قرآن پاک کا ایک نسخہ غلاف میں لپٹا الماری کے سب سے اوپر خانے میں ضرور رکھا ہوتا ہے، جو بوقت ضرورت حصولِ برکت کے لیے کھول کر پڑھا یا چوما جاتا ہے۔ بعض لوگ روزانہ اپنے کاروبار، دوکان پر جانے سے پہلے اسی طرح برکت حاصل کرتے ہیں تو بعض اپنے کاروبار میں برکت کے لیے کسی حافظ یا قاری کو بلا کر اپنی دوکان میں روزانہ صبح قرآن کی تلاوت کرواتے ہیں۔ اب تو یہ اور بھی آسان ہوگیا ہے کہ بس موبائل پر تھوڑی دیر کے لیے کسی قاری کی تلاوت لگا لو اور کچھ لوگوں کو بعض قرآنی آیات واٹس اپ کردو، بس برکت حاصل ہو گئی۔

قرآن سے برکت حاصل کرنے کے یہ سارے باطل طریقے ہیں۔ قرآن سے برکت حاصل ہوگی اس کے مندرجہ بالا پانچ حقوق ادا کرنے سے یعنی اس پر ایمان لانے، اس کی تلاوت کرنے، اس کی آیتوں کے معنی و مطلب سمجھ کر اس کے مطابق عمل کرنے اور اس میں غور و فکر کرکے اس سے نصیحت حاصل کرنے سے۔

سیدنا عبداللہ بن مسعود ﷛ فرماتے ہیں یہ قرآن اللہ کا دسترخوان ہے تم اس کے دسترخوان سے جہاں تک استفادہ حاصل کرسکتے ہو کرو۔ یہ قرآن اللہ کی رسی ہے اور واضح کرنے والا نور ہے اور نفع دینے والی شفا ہے جو اس کے ذریعے تمسک کرے گا اس کے لیے پناہ ہے اور جو اس کی پیروی کرے گا اس کے لیے نجات ہے وہ شخص گمراہ نہیں ہوگا کہ اس کے پیچھے جایا جائے اور ٹیڑھا نہیں ہوگا کہ اسے سیدھا کیا جائے اس کے عجائب کبھی ختم نہیں ہوں گے اور بکثرت استعمال سے یہ پرانا نہیں ہوگا تم اس کی تلاوت کرو اللہ تمہیں اس کی تلاوت کے ہر ایک حرف کے عوض میں دس نیکیاں عطا کرے گا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے بلکہ الف، لام، میم میں سے ہر ایک حرف کے عوض دس نیکیاں ملیں گی۔ [سنن دارمی (اردو) ۔ جلد دوم ۔ كتاب فضائل القرآن۔ حدیث 3358]

آج مسلمانوں کی اکثریت قرآن مجید کی تلاوت تو کرتی ہی نہیں اور جو لوگ قرآن مجید کی تلاوت کرتے اور پڑھتے ہیں ان میں بھی اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جن کو قرآن کی معنی و مطلب سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ ایسے کتنے حفاظ ہیں جو سورۃ الاخلاص کی معنی تک نہیں جانتے، پھر عام مسلمانوں کا قرآن مجید سے عدم دلچسپی اور بے رغبتی کا کیا رونا؟

آج صرف ثواب حاصل کرنے کے لیے قرآن مجید کی تلاوت کی جاتی ہے۔ بے شک صرف تلاوت کرنے کا بھی ثواب ہے اور اس کا اجر ہر تلاوت کرنے والے کو ضرور ملے گا ۔ لیکن صرف تلاوت کرنے سے قرآن کریم کے مکمل حقوق ادا نہیں ہوتے۔ لہٰذا جب قرآن کے پورے حقوق ادا نہیں ہوں گے تو ہم قرآن کی حقیقی برکات سے کیسے فیض یاب ہوں گے اور ہماری زندگی میں برکتیں کیسے آئیں گی اور ہمارا بڑھاپا کیسے بابرکت و باسعات بنے گا؟ .آج ہم مسلمانوں کی زندگی میں جو بے برکتی ہے اس کی اہم وجہ قرآن مجید کی تعلیمات سے دوری اور بے عملی ہے۔ ابھی زندگی ختم نہیں ہوئی، ابھی صرف بڑھاپا آیا ہے۔ ابھی وقت ہے کہ ہم سب قرآن سے جڑ جائیں، اس کے مطابق اپنی زندگی سنوار لیں اور اپنی زندگی کو بابرکت بنا لیں۔ ایسے کتنے ہی بوڑھے ہیں جو عمر کے آخری ایام میں قرآن سیکھنا شروع کرتے ہیں اور قرآن کے حافظ و قاری بن جاتے ہیں، اس کے ترجمہ و تفسیر پڑھتے ہیں، اس کی آیتوں کی معنی و مفاہیم سمجھتے ہیں، اس کے مطابق عمل کرتے ہیں اور اس کے پیغام کو دوسروں تک پہنچانے کا کام بھی کرتے ہیں جس کی برکت سے اللہ تعالیٰ انہیں عمر کے آخری ایام میں ایسے نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرماتے ہیں جو ان کی دنیا و آخرت کو برکتوں سے بھر دیتا ہے اور ان کے بڑھاپے کو بابرکت اور خوشگوار بنا دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ایسی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعادت بڑھاپا، اس کتاب کی پرنٹیڈ ہارڈ کاپیاں موجود ہیں جولینا چاہتے ہوں وہ مجھ سے رابطہ کرسکتے ہیں ، واٹس اپ 03262366183 پر۔
۔
 

محمد اجمل خان

وفقہ اللہ
رکن
زندگی میں برکت ذکر الٰہی سے

وَلَذِكْرُ اللَّـهِ أَكْبَرُ ۗ --- ’’اور بے شک اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے‘‘ --- ﴿٤٥﴾‏ سورة العنكبوت

قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ہمیں ذکر الٰہی کی کثرت کرنے کا حکم دیا گیا ہے، یہاں تک کہ جہاد کے وقت بھی ذکر الٰہی سے غافل نہیں رہنا بلکہ اللہ کا ذکر کثرت سے کرتے رہنا ہے، جیسا کہ فرمایا:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا وَاذْكُرُوا اللَّـهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (٤٥) سورة الأنفال
”اے ایمان والو! جب کسی (دشمن) گروہ سے مقابلہ کرو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو کہ شاید اسی طرح کامیابی حاصل کرلو“

اسی طرح حج کے ارکان ادا کرکے جب بندہ تھکا ماندہ ہوتا ہے تب بھی غفلت نہیں برتنا بلکہ اس وقت بھی ذکر الٰہی کی کثرت کرنے کا حکم دیا گیا ہے:

فَإِذَا قَضَيْتُم مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللَّـهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا ۗ﴿٢٠٠﴾‏ سورة البقرة
’’پھر جب اپنے حج کے ارکان ادا کر چکو، تو جس طرح پہلے اپنے آبا و اجداد کا ذکر کرتے تھے، اُس طرح اب اللہ کا ذکر کرو، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر‘‘

اسی طرح ایک اور مقام پر حکم دیا گیا:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللَّهَ ذِكْرًا كَثِيرًا ‎ --- ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ کا ذکر کثرت سے کیا کرو ‘‘﴿٤١﴾‏ سورة الأحزاب

بندہ اور اس کے رب کے درمیان تعلق صرف صبح و شام کی اذکار اور نماز، روزہ، عمرہ و حج جیسی عبادات تک محدود نہیں ہے کہ ان سب کو بجا لانے کے بعد بقیہ وقت میں وہ اپنے رب سے غافل رہے اور بغیر کسی قید وضبط کے جو چاہے کرتا رہے، بلکہ عابد و معبود کے درمیان سچا تعلق یہ ہے کہ بندہ جہاں کہیں بھی ہو اپنے رب کو یاد کرتا رہے اور اس کی یہ یاد اسے اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی کا پابند رکھنے والی اور اس کی بشری کمزوری پر متنبہ کرنے والی ہو اور اسے پیش آنے والی کسی بھی پریشانی کے وقت اپنے خالق سے رجوع کرنے پر معین و مددگار ہو۔

دینِ اسلام نے ہر مسلمان کو کثرت سے ذکر الٰہی کرنے کی ترغیب اسی لیے دی ہے کہ بندے کا اپنے رب سے نہایت ہی مضبوط تعلق قائم رہے تاکہ اس کا دل پاک رہے، اس کا ضمیر زندہ رہے، اس کے نفس کا تزکیہ ہوتا رہے اور وہ اپنے رب سے مدد و توفیق طلب کرتا رہے۔

روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ سے جب ایک بوڑھے دیہاتی آدمی نے کہا کہ: یا رسول اللہ! خیر کے دروازے بہت زیادہ ہیں اور میں ان سب کو بجا لانے سے قاصر ہوں، اس لیے آپ ﷺ مجھے ایسی چیز بتا دیجیے جس کو مضبوطی سے پکڑ لوں، لمبی بات نہ فرمائیں کہ میں بھول جاؤں۔ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں: اسلام کے احکام و قوانین تو بہت ہیں، آپ ﷺ مجھے بس ایسی چیز بتا دیجیے جس کو میں مضبوطی سے پکڑ لوں، کیونکہ میں بوڑھا ہو چکا ہوں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: تمہاری زبان ہمیشہ ذکر الٰہی سے تر رہنی چاہیے۔ (سنن ترمذي: 3375، ابن ماجة: 3793)

قربان جائیے صحابہ کرام ﷢ اجمعین پر جنہوں نے آنحضور ﷺ سے ہر چھوٹی بڑی بات پوچھ کر ہمارے لیے کتنی آسانیاں پیدا فرما دی ہیں اور کتنے خیر کے دروازے کھولے ہیں۔ بڑھاپے میں انسان کے قویٰ کمزور پڑ جاتے ہیں، لہذا وہ لمبی نفلی نمازیں اور دیگر کار خیر کرنے سے قاصر رہتا ہے تو ایسے میں فرمانِ رسول اللہ ﷺ کے مطابق صرف اپنی زبان کو ذکر الٰہی سے تر رکھ کر وہ سارے خیرات و برکات حاصل کرسکتا ہے بلکہ قیامت کے دن سب سے اونچا اور برتر درجہ بھی حاصل کرسکتا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابوالدرداء ﷛ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں وہ عمل نہ بتاؤں جو تمہارے اعمال میں سب سے بہتر عمل ہو، اور تمہارے مالک کو سب سے زیادہ محبوب ہو، اور تمہارے درجات سب سے بلند کرنے والا ہو، اور تمہارے لیے سونا چاندی خرچ کرنے اور دشمن سے ایسی جنگ کرنے سے کہ تم ان کی گردنیں مارو اور وہ تمہاری گردنیں ماریں سے بہتر ہو؟، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ کون سا عمل ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ اللہ کا ذکر ہے۔ (سنن ترمذي: 3377، سنن ابن ماجہ: 3790)

جو لوگ جوانی سے ہی ذکر الٰہی میں مشغول رہتے ہیں وہ تو بڑے خوش نصیب ہیں لیکن جو لوگ اپنی جوانی لہو و لعب میں برباد کرکے اب بڑھاپے میں پہنچ چکے ہیں اور اپنی موت اور عذاب قبر و حشر کو قریب آتا دیکھ کر خوفزدہ ہیں، تو ان کے لیے ذکر الٰہی بہت بڑا سہارا ہے کیونکہ معاذ بن جبل رضی الله عنہ کہتے ہیں: اللہ کے ذکر سے بڑھ کر اللہ کے عذاب سے بچانے والی کوئی اور چیز نہیں ہے۔ (سنن ترمذي: 3377، سنن ابن ماجہ: 3790)

اور اس پر مغفرت اور اجر عظیم کی بشارت ہے:

وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا ‎﴿٣٥﴾‏ سورة الأحزاب
’’اور بکثرت اللہ کا ذکر کرنے والے اور ذکر کرنے والیاں، ان سب کے لیے اللہ تعالیٰ نے (وسیع) مغفرت اور اجر عظیم تیار کر رکھا ہے‘‘

اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے لوگوں میں شامل فرمائے اور اپنا ذکر، شکر اور اپنی بہترین عبادت کے سلسلہ میں ہماری مدد فرمائے۔ آمین
 

محمد اجمل خان

وفقہ اللہ
رکن
زندگی میں برکت توبہ و استغفار سے

زندگی کے اچھے دن یعنی جوانی جو کہ رب کی اطاعت و عبادت کرنے کے سنہرے دن تھے گزر چکے ہیں۔ اُن ایام کو اپنے رب کی نافرمانیوں میں گزار کر گناہ و معاصی کی غلاظت کے ساتھ ہم سب اب بڑھاپے کو پہنچ چکے ہیں۔ اب تکلیف دہ بڑھاپا ہے اور بڑھاپے کی مایوسی، بے بسی و بے چارگی ہے اور اس کے آگے موت ہے۔ زندگی میں کتنے سپنے دیکھے تھے، سب سپنے چکناچور ہو چکے ہیں۔ زندگی میں بہت کچھ کرنا چاہا تھا لیکن کچھ کر نہ پائے۔ دنیا کی خاطر اپنے رب کو ناراض کیا۔ رب کی اطاعت و فرمانبرداری جیسی کرنی تھی ویسی نہیں کی۔ اب دنیا ہاتھ سے جا چکی ہے لیکن ابھی موت نہیں آئی، اب بھی وقت ہے ندامت کے آنسو بہانے کا اپنے گناہوں پر نادم اور شرمندہ ہونے کا کیونکہ اس سے بہتر اپنے گناہوں سے توبہ کرنے کا کوئی اور طریقہ نہیں، یہی تو سچی توبہ ہے۔

اللہ کے پیارے رسول ﷺ نے یہی فرمایا: « النَّدَمُ تَوْبَةٌ ۔ ۔ ۔ ندامت (شرمندگی) توبہ ہے»۔ (سنن ابن ماجہ: 4252)

بڑھاپے میں تو یوں بھی ایک مومن کا دل گناہوں کی طرف مائل نہیں ہوتا۔ لہذا گناہوں پر خوفِ الٰہی سے ندامت کے آنسو بہانا اور گناہ و معصیت چھوڑ کر رب کی سچی بندگی کی طرف پلٹ جانا آسان ہے۔

سیدہ عائشہ صدیقہ ﷝ سے روایت ہے، نبی کریم ﷺ نے آپ ﷝ سے فرمایا: اگر تو واقعی گناہ کا ارتکاب کر بیٹھی ہے تو اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کر اور اس کی طرف توبہ کر، کیونکہ کسی گناہ سے توبہ کرنے کا طریقہ اس پر ندامت کا اظہار اور اس سے استغفار کرنا ہے۔ (سلسلہ احادیث صحیحہ: 2250)

عام طور پر ہم مسلمان دونوں الفاظ یعنی توبہ و استغفار کو ایک ساتھ کہتے ہیں، تو توبہ کے معنے تو خوف الٰہی اور ندامت کے ساتھ گناہ و نافرمانی چھوڑ کر رب سے رجوع کرنے کے ہیں جبکہ استغفار گناہ و نافرمانی پر رب تعالٰی سے معافی مانگنے اور اور ان کے برے اثرات سے محفوظ رہنے کی دعا مانگنا ہے۔ گویا « توبہ و استغفار »ایک ساتھ بولنے کا مطلب ہوا گناہ چھوڑ کر اپنے رب کی اطاعت و فرمانبرداری اختیار کرنا اور اُن گناہوں پر اللہ تعالٰی سے معافی بھی مانگنا۔ توبہ و استغفار اس لیے بھی ایک ساتھ بولے جاتے ہیں کہ جس وقت بندہ کسی گناہ پر نادم ہوکر اسے چھوڑنے کا فیصلہ کر لیتا ہے تو یہاں ایک دوسری چیز بھی لازم آتی ہے کہ اس نے جو گناہ کیا تھا، اس پر اللہ تعالیٰ سے بخشش کی دعا کرے ۔ اس لیے بھی یہ دونوں الفاظ کو ایک ساتھ کہا جاتا ہے لیکن دونوں میں فرق ہے۔ قرآن و سنت میں یہ دونوں الفاظ کبھی ایک ساتھ آئے ہیں اور کبھی الگ الگ۔

توبہ و استغفار کا اصل فرق یہ ہے کہ توبہ صرف توبہ کرنے والے فرد کی ذات سے وابسطہ ہے جبکہ استغفار بندہ خود اپنے لئے، اپنے والدین، عزیز و اقارب، آباؤ اجداد اور حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر قیامت تک آنے والے تمام مومن مومنات کیلئے کرسکتا ہے اور ایسا کرنا بھی چاہئے، ہمیں اسی کی تعلیم دی گئی ہے اور ہم سب دعا کرتے ہیں:

رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ ‎﴿٤١﴾ سورة ابراهيم
’’اے میرے پروردگار! مجھے، میرے والدین اور سب ایمان والوں کو اس دن معاف فرمانا جس دن حساب لیا جائے گا ‘‘

اس آیت میں حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر قیامت تک آنے والے تمام مومنین و مومنات کیلئے استغفار کرنا سکھایا گیا ہے۔ دین اسلام کی یہ کتنی بڑی نعمت ہے کہ ایک بندۂ مومن اپنے پہلے اور اپنے بعد میں آنے والی نسلوں کی دعاؤں میں شامل رہتا ہے۔

توبہ و استغفار وہ عظیم عبادت ہے جو بنی نوع انسان کو سب سے پہلے سکھائی گئی۔ حضرت آدم علیہ السلام نے سب سے پہلے اپنے رب سے توبہ و استغفار ہی کرنا سیکھا۔

فَتَلَقَّىٰ آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ ‎(٣٧) سورة البقرة
”پھر آدم (علیہ السلام) نے اپنے رب سے (عاجزی اور معافی کے) چند کلمات سیکھ لئے پس اللہ نے ان کی توبہ قبول فرما لی، بیشک وہی بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے“

اور حضرت آدم علیہ السلام نے جن الفاظ میں استغفار کرنا سیکھا وہ یہ ہیں:

قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ ‎(٢٣) سورة الأعراف
”دونوں نے عرض کیا: اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی کی؛ اور اگر تو نے ہم کو نہ بخشا اور ہم پر رحم (نہ) فرمایا تو ہم یقیناً نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے “

تمام انبیاء علیہ السلام خود بھی ساری زندگی توبہ و استغفار کرتے رہے اور اپنی اپنی امت کو بھی توبہ و استغفار کرنا سکھایا۔ ہمارے پیارے نبی رحمت اللعالمین ﷺ معصوم عن الخطا ہونے کے باوجود روزانہ سو مرتبہ استغفار کیا کرتے تھے۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر﷟ بیان کرتے ہیں: ہم شمار کرتے کہ رسول اللہ ﷺ مجلس میں سو مرتبہ (استغفار) کرتے: رَبِّ اغْفِرْلِيْ وَتُبْ عَلَیَّ اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الْغَفُوْرُ ۔ ۔ ۔ اے میرے رب ! مجھے معاف فرما اور مجھ پر رجوع فرما، یقیناً تو بہت رجوع فرمانے والا، بخشنے والا ہے۔ (سنن ابی داود: 1516، )

سیدہ عائشہ ﷝ نے بیان کیا کہ جب سے آیت « إذا جاء نصر الله والفتح‏ » نازل ہوئی تھی تو رسول اللہ ﷺ نے کوئی نماز ایسی نہیں پڑھی جس میں آپ یہ دعا نہ کرتے ہوں «سُبْحَانَكَ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي‏‏ ۔ پاک ہے تیری ذات، اے ہمارے رب! اور تیرے ہی لیے تعریف ہے، اے اللہ میری مغفرت فرما دے» ۔ (صحيح البخاري: 4967)

بعض روایات میں ذیل کی دعائیں بھی آئی ہیں:

« سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ »
« سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَ بِحَمْدِكَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِى »
« سُبْحَانَكَ وَ بِحَمْدِكَ أَسْتَغْفِرُكَ و َأَتُوبُ إِلَيْكَ »
« سُبْحَانَكَ رَبِّى وَ بِحَمْدِكَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِى »

رسول اللہ ﷺ گناہوں سے پاک ہونے کے باوجود سورة النصر میں دیئے گیے اللہ تعالٰی کے حکم کی تعمیل میں اور اپنی امت کو تعلیم دینے کے لیے اپنی وفات سے چند ماہ قبل استغفار کی کثرت کی، لہذا ہر مومن بندے کو بڑھاپے میں استغفار کی کثرت کرنی چاہئے۔ اس سے ایک تو آپ ﷺ کی سنت پر عمل کرنے کا ثواب بھی ملے گا اور ساتھ ہی ہماری مغفرت بھی ہوجائے گی، ان شاء اللہ ۔ یہ ہمارے بڑھاپے کو بابرکت و باسعادت بنانے کا بہترین نسخہ ہے۔ اگر ہم نے اب بھی اس نسخے پر عمل نہیں کیا تو پھر کب کریں گے ؟ جبکہ ہمارا رب ہمیں ہر آن اپنی بخشش اور جنت کی طرف بلا رہا ہے:

وَسَارِعُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ (١٣٣) سورة آل عمران
’’اور اپنے رب کی بخشش اور جنت کی طرف تیزی سے بڑھو‘‘

ہم دنیاوی مال و دولت کے پیچھے لگ کر اپنی جوانی کے مبارک دن ضائع کر چکے ہیں۔ اب بڑھاپے کے چند دن باقی ہیں، تو آئیے ان دنوں میں استغفار کی کثرت سے اپنے بڑھاپے کو بابرکت و باسعادت بنائیں۔

وَمَن يَعْمَلْ سُوءًا أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللَّهَ يَجِدِ اللَّهَ غَفُورًا رَّحِيمًا ‎(١١٠) سورة النساء
’’اور جو شخص کسی برائی کا ارتکاب کرے یا اپنے نفس پر ظلم کرے، وہ پھر اللہ سے بخشش طلب کرے تو وہ اللہ کو بہت بخشنے والا، نہایت مہربان پائے گا‘‘

جو لوگ کتاب ’’بابرکت و باسعادت بڑھاپا‘‘ لینا چاہتے ہیں وہ 0326 2366183 پر واٹس اپ کریں اور کتاب لے کر اپنی زندگی اور بڑھاپے کو بابرکت بنائیں۔
#بابرکت_زندگی #بابرکت_و_باسعادت #بڑھاپا
.
 

محمد اجمل خان

وفقہ اللہ
رکن
زندگی میں برکت دعاسے

زندگی میں برکت حاصل کرنے والے اعمال میں دعا کا ایک خاص مقام ہے۔ عام لفظوں میں اللہ تعالیٰ کو مدد اور حاجت روائی کے لیے پکارنا، اللہ تعالیٰ سے مانگنا، فریاد و التجا کرنا دعا کہلاتا ہے۔

دعا کرنا انسانی جبلت میں شامل ہے۔ دنیا کا ہر انسان اپنے اپنے عقیدے کے مطابق دعا کرتا ہے۔ شیطان کے پجاری شیطان کو اور رحمٰن کے بندے رحمٰن کو اپنی دعاؤں میں پکارتے ہیں۔ کافر و مشرک بھی دعا کرتے ہیں۔ مشرک اپنی دعاؤں میں غیر اللہ سے التجا و فریاد کرکے اور انہیں اپنی مدد و استعانت کے لیے پکار کر شرک کا ارتکاب کرتے ہیں۔

يَدْعُو مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَضُرُّهُ وَمَا لَا يَنفَعُهُ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الضَّلَالُ الْبَعِيدُ ‎﴿١٢﴾‏ يَدْعُو لَمَن ضَرُّهُ أَقْرَبُ مِن نَّفْعِهِ ۚ لَبِئْسَ الْمَوْلَىٰ وَلَبِئْسَ الْعَشِيرُ ‎﴿١٣﴾‏ سورة الحج
’’اللہ تعالیٰ کے سوا انہیں پکارتے ہیں جو نہ انہیں نقصان پہنچا سکیں نہ نفع، یہ ہے گمراہی کی انتہا ، اسے پکارتے ہیں جس کا نقصان اس کے نفع سے زیاده قریب ہے، یقیناً برے والی ہیں اور برے ساتھی‘‘

وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّن يَدْعُو مِن دُونِ اللَّهِ مَن لَّا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَن دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ ‎(٥) سورة الأحقاف
’’اور بڑا گمراہ ہے وہ شخص جو اللہ کو چھوڑ کر ان کو پکارے جو قیامت تک اس کو جواب نہیں دے سکتے بلکہ وہ تو ان کی دعا و پکار سے ہی بے خبر ہیں ‘‘

غیر اللہ سے دعا و فریاد کرنا اور انہیں اپنی مدد و استعانت کے لیے پکارنا بدترین گمراہی اور شرک ہے، بڑھاپے میں پہنچ کر بھی جنہیں یہ بات سمجھ میں نہیں آئی، تو وہ اب کب سمجھیں گے؟ اب تو قبر میں جانے کا وقت ہے۔ روح کے حلق میں پھنستے ہی توبہ کا دروازہ بند ہوجائے گا تو اس شرک کی بنا پرجہنم ٹھکانہ بنے گا۔ جبکہ ہمیں تو حکم دیا گیا ہے:

وَلَا تَدْعُ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ ۖ فَإِن فَعَلْتَ فَإِنَّكَ إِذًا مِّنَ الظَّالِمِينَ ‎(١٠٦) سورة يونس
’’اور اللہ کو چھوڑ کر کسی ایسی ہستی کو نہ پکارو جو تمہیں نہ فائدہ پہنچا سکتی ہے نہ نقصان، اگر تم نے ایسا کیا تو ظالموں میں سے ہوجاؤ گے‘‘

دعا میں شرک جیسی بدترین گمراہی سے بچنے کے لیے دعا مانگتے ہوئے ہمیں بہت احتیاط کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: «الدُّعَاءُ هُوَ الْعِبَادَةُ ۔ ۔ ’’دعا ہی عبادت ہے‘‘ »۔ (سنن ترمذي: 3372)
پس جب دعا عبادت ہے تو دعا صرف اللہ تعالیٰ سے ہی مانگنی چاہیے۔

وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ﴿٣٦﴾‏‏ سورة النساء
’’ اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ بناؤ ‘‘

اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو دعا کی غرض سے پکارنا شرک اکبر میں شمار ہوگا کیونکہ دعا عبادت ہے اور عبادت صرف اللہ کے لیے ہے۔

إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ ۚوَمَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرَىٰ إِثْمًا عَظِيمًا ‎(٤٨) سورة النساء
’’(اور) بے شک اللہ اس بات کو معاف نہیں کرسکتا کہ اس کا شریک قرار دیا جائے اور اس کے علاوہ جس (گناہ) کو چاہے بخش سکتا ہے اور جو بھی اس کا شریک بنائے گا (تو) اس نے بہت بڑا گناہ کیا‘‘

لیکن افسوس کہ کتنے لوگ ہیں جو بڑھاپے میں پہنچ کر بھی اس بات کو نہیں سمجھتے اور بڑھاپے میں دعا کی خیر و برکت حاصل کرنے کے بجائے غیر اللہ سے دعا و فریاد کرکے اپنی آخرت کو ہمیشہ کے لیے برباد کر لیتے ہیں۔ جان لیجیے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی عبادت میں کسی اور کو شریک کرتا ہے تواس کے اعمال ضائع ہو جاتے ہیں اور وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنمی ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ اپنے نیکو کار اور برگزیدہ بندوں کے بارے میں بیان کرنے کے بعد فرمایا ہے:

وَلَوْ أَشْرَكُوا لَحَبِطَ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ (٨٨) سورة الأنعام
’’اور اگر یہ لوگ بھی شرک کرتے تو یقیناً ان کے بھی سارے اعمال ضائع ہوجاتے‘‘

ذرا غور کیجيے کہ یہ کتنا بڑا خسارہ ہے کہ ایک انسان یہ سمجھتے ہوئے دعا و فریاد کرے کہ اس کی نجات ہوجائے گی جبکہ اسی (شرکیہ) دعا سے اس کے سارے نیک اعمال حبط اور باطل ہو جائیں اور وہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں جا گرے۔ افسوس کہ فرقہ پرستی لوگوں کو یہ بات سمجھنے نہیں دیتی۔ اپنے مخالف فرقے کو نیچا دکھانے کے لیے فرقہ پرستوں نے قرآن و سنت کے منہج سے ہٹ کر خود ساختہ دعائیں بنائے اور غیر اللہ سے براہ راست یا کسی قبر والے کے وسیلے سے دعا، مدد و استعانت مانگنے کے دلائل پیش کئے۔ اس طرح وہ لوگ خود بھی بدترین گمراہی میں جا گرے اور عوام الناس کو بھی گمراہ کیا۔

قرآن و سنت میں دعاؤں کا ایک مجموعہ موجود ہے۔ دعا کرنے یا مانگنے سے پہلے اپنی دعا کو یا کسی کی بنائی ہوئی دعا کو قرآن و سنت کے ان دعاؤں کے معیار پر پرکھیے، اگر وہ دعا قرآن و سنت کی دعاؤں کے معیار پر پوری اترتی ہو تو اس دعا کو اپنے زبان پر لائیے ورنہ اسے اپنی زبان پر کبھی نہیں لائیے۔ شرکیہ دعا ؤں سے بچنے کا یہ بہتر طریقہ ہے۔

قرآن و سنت میں کوئی بھی دعا ایسی نہیں ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو مخاطب کیا گیا ہو، پھر یہ گمراہی کے سوا اور کیا ہے کہ دعا میں اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر غیر اللہ کو مخاطب کیا جائے۔ لہذا جو لوگ نبی کریم ﷺ کی اطاعت و اتباع کرنے کی بجائے ان سے دعا و فریاد کرتے ہیں، اہل قبور سے رزق، اولاد اور مرادیں مانگتے ہیں، خود ساختہ اقطاب وابدال، پیروں و فقیروں، مجذوبوں اور باباؤں وغیرہ کو اپنا ملجا و ماویٰ اور مشکل کشا یا حاجت روا سمجھتے ہیں اور یا رسول اللہ ﷺ ۔ ۔ ۔، یا علی ۔ ۔ ۔، یا غوث اعظم ۔ ۔ ۔ ، یا خواجہ ۔ ۔ ۔، یا داتا ۔ ۔ ۔ وغیرہ کے الفاظ سے دعائیں کرتے ہیں وہ لوگ بدترین گمراہی میں ہیں۔ ایسے لوگوں کو فوری توبہ کرنی چاہیے۔

وَهُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَعْفُو عَنِ السَّيِّئَاتِ وَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ ‎﴿٢٥﴾‏ سورة الشورى
’’اور وہی (اللہ) ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور ان کے گناہ معاف کر دیتا ہے اور جو تم کرتے ہو (وہ سب) جانتا ہے‘‘

ملک الموت کے آنے سے پہلے تک توبہ کا دروازہ کھلا ہے۔ ہمیں اپنے اعمال و افعال اور دعاؤں پر غور کرنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ کہیں ہم کسی طرح کی شرک و بدعات کا ارتکاب تو نہیں کر رہے ہیں، اگر ایسا ہے تو ہمیں اللہ تعالیٰ کے حضور فوری توبہ کرنی چاہیے اور شرک و بدعات کی آلودگی سے اپنے آپ کو بالکل پاک کرنا چاہیے۔

إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ ‎(٢٢٢) سورة البقرة
’’بیشک ﷲ بہت توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے اور بہت پاک رہنے والوں سے (بھی) محبت کرتا ہے‘‘

اس آیت میں اللہ سبحانہ و تعالٰی نے پہلے توبہ کرنے والوں سے محبت کرنے کا ذکر فرمایا ہے اور چونکہ توبہ کرنے والے توبہ کرکے شرک و بدعات اور دیگر گناہوں سے پاک ہوجاتے ہیں، لہذا اللہ تعالٰی نے ایسے پاکباز لوگوں سے محبت کرنے کا ذکر بھی فرما دیا۔

دُعا ایک عظیم عبادت ہے جس کی عظمت و فضیلت پر بکثرت آیاتِ کریمہ اور احادیثِ طیبہ موجود ہیں۔ دُعا اللہ تعالیٰ سے ہماری محبت کے اِظہار، اُس کی شانِ اُلوہیت کے حضور ہماری عبدیت کی علامت، اُس کے علم و قدرت و عطا پر ہمارے توکل و اعتماد کا مظہر اور اُس کی ذاتِ پاک پر ہمارے ایمان کا اقرار و ثبوت ہے۔ دعا عبادات کا خلاصہ، انسانی حاجات اور جذبات کا مرقع، بندے اور اس کے رب کے درمیان لطیف مگر مضبوط واسطہ، اللہ تعالیٰ کے مزید انعامات کا حصول اور نقصانات سے بچنے کا ذریعہ ہے۔ اس سے ضمیر کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے اور پریشانیوں سے چھٹکارا ملتا ہے۔ اس لیے دعا انتہائی خلوص نیت، مکمل یکسوئی و توجہ اور اصرار و تکرار کے ساتھ کرنی چاہیے۔ ارض و سماء کے مالک کا حکم ہے کہ اس سے براہ راست مانگا جائے۔ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کی دعاؤں میں بندے کو اپنے رب سے براہ راست مانگنا سکھایا گیا ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کو فرمایا تھا: تم جب مانگو تو اللہ تعالیٰ سے مانگو اور جب بھی مدد چاہو تو صرف اللہ تعالیٰ سے مدد چاہو۔ (سنن ترمذی: 2516)

اپنی دعاؤں میں صرف اپنے رب کو مخاطب کیجيے، جو بھی مانگنا ہو اپنے رب سے ہی مانگیے۔

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ کے نزدیک دعا سے زیادہ معزز و مکرم کوئی چیز (عبادت میں) نہیں ہے۔(سنن ترمذي: 3370)

اور یہ بھی فرمایا کہ:دعا عبادت کا مغز (حاصل و نچوڑ) ہے۔ (سنن ترمذي: 3371)

اور بعض سلف سے منقول ہے کہ :

» » »اطاعت گزاری ہی ہر خیر کا سرچشمہ ہے اور تمام خیرو برکات دعا میں پوشیدہ ہیں« « «

لہذا زندگی میں خیر و برکت اور صحت و عافیت دعا کرکے ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔ بڑھاپے میں چونکہ زیادہ محنت و مشقت والی عبادات کرنا ممکن نہیں رہتا تو ایسے میں زیادہ سے زیادہ دعا کرکے ہم اپنی نیکیوں میں اضافہ اور اپنے رب کو راضی کرسکتے ہیں۔ دعا کرنے کی کوئی وقت یا جگہ مختص کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ دعا کرنے پر اللہ تعالیٰ بڑے ثواب سے نوازتا ہے۔ دعا نفع بخش دواؤں میں سے ہے۔ دعا مصیبت، تکالیف اور پریشانی کو قریب آنے نہیں دیتی، اگر آجائے تو انہیں دور کرتی ہے یا ان میں کمی کرتی ہے۔ دعا کے ذریعے خاص اور عام تمام قسم کے مطالبات و حاجات پورے کروائے جا سکتے ہیں، چاہے ان کا تعلق دنیا سے ہو یا دین سے، زندگی سے ہو یا موت کے وقت سے یا موت کے بعد سے۔

حضرت معاذ ﷛ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تدبیر و احتیاط تقدیر سے نہیں بچا سکتی، البتہ دعاء نازل شدہ اور آئندہ نازل ہونے والے مصائب و تکالیف سے فائدہ پہنچاتی ہے، لہٰذا اے اللہ کے بندو! دعا کو اپنے اوپر لازم کرلو ۔ (مسند احمد : 22044)

جس طرح حضرت یقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کو مصر میں داخل ہونے کے معاملے میں احتیاط برتنے کو کہا اور انہوں نے احتیاط کی بھی لیکن یہ احتیاط کرنا انہیں تقدیر سے نہیں بچا سکی۔

سیدنا سلمان ﷛ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تقدیر کو دعا ہی ٹال سکتی ہے اور عمر میں نیکی سے ہی اضافہ ہوسکتا ہے۔ (سلسلہ احاديث صحيحہ ترقیم البانی: 154)

دعا ہی وہ عظیم دروازہ ہے جہاں سے بنی نوع انسان کی اور تمام مخلوقات کی مشکل کشائی اور حاجت روائی ہوتی ہے۔ مخلوقات کی ضروریات لا تعداد ہیں اور انہیں جاننے والی ذات صرف اور صرف ان کا خالق ہے، وہی تمام مخلوقات کی ضروریات کو پوری کرسکتا ہے، وہی ہر سائل کی حاجت روائی کرتا ہے، ہر امیدوار کی امیدیں پوری کرتا ہے، ہر پکارنے والے کی پکار سنتا ہے۔فرمایا ہے:

وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ ‎(١٨٦) سورة البقرة
’’اور جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں سوال کریں، تو اُنہیں بتا دیں کہ بے شک میں ان سے قریب ہی ہوں، پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے تو میں اُس کی پکار سنتا ہوں اور جواب دیتا ہوں۔ لہٰذا انہیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں، شاید کہ وہ راہ راست پالیں ‘‘

کتنے پیار بھرے انداز ہیں ہمارے رب کے، فرمایا: ’’بے شک میں ان سے قریب ہی ہوں، پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے تو میں اُس کی پکار سنتا ہوں اور جواب (بھی) دیتا ہوں‘‘۔ کیا غیر اللہ میں سے بھی کوئی ایسا ہے جو کسی کی پکار کا جواب دیتا ہو؟ افسوس کہ پھر بھی لوگ اپنی دعاؤں میں غیر اللہ کو پکارتے ہیں!

جان لیجیے کہ اپنے رب کو پکارنا، اپنے رب سے دعا و فریاد کرنا بڑی عزت اور عظمت والا عمل ہے کیونکہ دعا عبدیت کا مظہراتم ہے۔ دعا کرنے والا اللہ رب العزت کی عظمت و کبریائی کو جانتا ہے اور اپنے عاجز ہونے کا علم بھی اسے ہوتا ہے۔ لہذا وہ عاجزی و انکساری کے ساتھ اپنے رب کے حضور دعا و فریاد کرکے اپنے رب کی محبت و قربت حاصل کر لیتا ہے۔ اسی وجہ سے دعا مانگنے والا بندہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑی عزت کا مستحق ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندہ کے مانگنے سے خوشی ہوتی ہے اور دعا نہ کرنا ایک قسم کا استغناء اور کبر ہے جو اللہ تعالیٰ کو ہرگز پسند نہیں، اسی لیے جو شخص دعا نہیں مانگتا اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہوتا ہے۔

وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ ‎(٦٠) سورة غافر
’’اور تمہارا رب فرماتا ہے کہ تم مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا اور جو لوگ میری عبادت (یعنی دعا کرنے) سے تکبر کرتے ہیں وہ عنقریب ذلیل و خوار ہوکر جہنم میں داخل ہوں گے ‘‘

اللہ بہت ہی بزرگ اور برتر ہے، جب بندہ اللہ سے مانگتا ہے تو اللہ اس کی دعا کو قبول کرتا ہے اور اس کی عاجزی پر ثواب دیتا ہے۔ سلمانؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تمہارا رب بہت باحیاء اور کریم (کرم والا) ہے، جب اس کا بندہ اس کے سامنے اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتا ہے تو انہیں خالی لوٹاتے ہوئے اسے اپنے بندے سے شرم آتی ہے“ ۔ (أبو داود: 1488)

جب ایک عام بندہ اللہ تعالیٰ کے سامنے ہاتھ اٹھاتا ہے تو ہمارا باحیاء اور کرم والا رب اس کا ہاتھ خالی نہیں لوٹاتا، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک کانپتا لرزتا نحیف و لاغر بوڑھا ہاتھ دعا کے لیے اٹھے اور رب تعالیٰ کی بخشش و کرم جوش نہ مارے؟۔ لہذا اپنے بڑھاپے کے باعث کانپتے ہوئے ہاتھوں کو اٹھا کر دعا کیجيے، یقین جانئے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو خالی ہاتھ نہیں لوٹائے گا۔

اب بڑھاپے میں ہمارے پاس کثرت سے دعائیں کرنے کے سوا رکھا ہی کیا ہے۔ لہذا ہمیں زیادہ سے زیادہ دعائیں کرنی چاہیے اور دعا میں اچھی اور صحیح دعا مانگنے کی توفیق بھی ماگنی چاہیے کیونکہ ’’جسے دعا کرنے کی توفیق دی گئی اس کےلئے رحمت کے دروزے کھول دئیے گئے‘‘۔ (سنن ترمذي: 3548)

دعا کیجیے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے لیے یہ رحمت کے دروازے کھول دے اور ہمیں دعا مانگنے اور دعا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
(ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعادت بڑھاپا، اس کتاب کی پرنٹیڈ ہارڈ کاپیاں موجود ہیں جولینا چاہتے ہوں وہ مجھ سے رابطہ کرسکتے ہیں۔
 

محمد اجمل خان

وفقہ اللہ
رکن

تمام مسلمانوں کے لیے دعائیں کرنا

اگر میں یہ کہوں کہ ہمارے آباؤ اجداد کی تعداد ایک ارب سے تجاوز کرتی ہے تو شاید آپ ہنس دیں اور اسے مضحکہ خیز سمجھیں۔ لیکن حقیقت یہی ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کے آباو اجداد کی تعداد اربوں میں ہے۔ تو آئیے آج ہم اپنے آباؤ اجداد کا حساب لگاتے ہیں اور دیکھتے ہیں ہماری رگوں میں کتنے لوگوں کا لہو محو گردش ہے۔

1 ۔ ۔ باپ ماں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔تعداد -- 2 - - - - - - 1^2
2 ۔ ۔ دادا دادی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔تعداد -- 4 - - - - - - 2^2
3 ۔ ۔ پڑ دادا پڑ دادی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔تعداد -- 8 - - - - - - 3^2
4 ۔ ۔ سگڑ دادا سگڑ دادی (1) ۔ ۔ ۔ ۔تعداد -- 16 - - - - - 4^2
5 ۔ ۔ سگڑ دادا سگڑ دادی (2) ۔ ۔ ۔ ۔تعداد -- 32 - - - - - 5^2
6 ۔ ۔ سگڑ دادا سگڑ دادی (3) ۔ ۔ ۔ ۔تعداد -- 64 - - - - - 6^2
7 ۔ ۔سگڑ دادا سگڑ دادی (4) ۔ ۔ ۔ تعداد -- 128 - - - - 7^2
8 ۔ ۔سگڑ دادا سگڑ دادی (5) ۔ ۔ ۔ تعداد -- 256 - - - - 8^2
9 ۔ ۔سگڑ دادا سگڑ دادی (6) ۔ ۔ ۔ تعداد -- 512 - - - - 9^2
10 ۔ سگڑ دادا سگڑ دادی (7) ۔ ۔ ۔ تعداد -- 1024 - - - 10^2
11 ۔ سگڑ دادا سگڑ دادی (8) ۔ ۔ ۔ تعداد -- 2048 - - - 11^2
اس طرح اگر پیچھے چلتے ہوئے 30 ویں سگڑ دادا سگڑ دادی تک جائیں تو
33۔ ۔سگڑ دادا سگڑ دادی (30) ۔ ۔ تعداد۔ 8,589,934,592 - - - 33^2

ہمارے آباؤ اجداد کی تعداد بنتی ہے 33^2 = 8.6 بلین یعنی 8 ارب 60 کروڑجو کہ دنیا کی موجودہ آبادی سے بھی زیادہ ہوئی۔ اگر کزنز کے درمیان شادی کا حساب لگالیں تو یہ تعداد کچھ کم ہو جائے گی، تو اسے آدھا کر لیتے ہیں تب بھی یہ تعداد 4 ارب 30 کروڑ کی بنتی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے جیسے ایک انسان کی پیدائش کے پیچھے کتنے بے شمار لوگوں نے اپنا کردار ادا کیا ہے اور ہم پر ہمارے اتنے زیادہ آباؤاجداد کے احسانات ہیں جنہیں ہم گن بھی نہیں سکتے۔

ذرا غور کیجيے کہ اگر ہمارے یہ بے شمار آباؤاجداد آج زندہ ہوتے تو ہم کتنے مشکل میں پڑ جاتے۔ ہم کس کس کا حق ادا کرتے جبکہ آج ہم اپنے حقیقی والدین کے حقوق ادا کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ ایک بار اور تصور کیجيے کہ اگر ہمارے یہ سارے آباؤاجداد آج زندہ ہوتے تو کیا ہوتا؟ تو ہر طرف بستر پر پڑے دکھ درد سے کراہتے، پاخانہ پیشاب کرتے، کھانستے اور تھوکتے، ضعیف و لاغر، چلنے پھرنے اٹھنے بیٹھنے سے قاصر، بولنے اور سننے سے معذور صرف بوڑھے ہی بوڑھے نظر آتے اور دنیا میں زندگی مفلوج ہوکر رہ جاتی۔

ایک دفعہ ایک بادشاہ نے اپنے وزیر کے ساتھ اپنی وسیع سلطنت کے بارے میں خوش گپی کرتے ہوئے کہا: کاش! کہ موت نہ ہوتی۔ تو وزیر نے مسکراتے ہوئے جواب دیا: حضور والا! اگر موت نہ ہوتی تو یہ سلطنت آپ تک کیسے پہنچتی؟ یہ موت ہی تو ہے جس کے ذریعہ یہ بادشاہی اور یہ نعمتیں آپ تک پہنچی ہیں، ورنہ یہ وسیع سلطنت آپ کے آباؤ اجداد تک ہی محدود رہتی۔

موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ ہمیں بھی مرنا ہے اور اس دنیا سے جانا ہے۔ جس طرح ہمارے اربوں آباؤاجداد موت کو گلے لگا کر اس دنیا سے رخصت ہوگئے اور ہمارے لیے یہ نعمتوں سے بھری دنیا چھوڑ گئے اسی طرح ہمیں بھی اپنی آئندہ نسلوں کی بقا کے لیے اس دنیا سے جانا ہے۔

موت ہے تو زندگی ہے۔ موت کی وجہ سے ہی دنیا میں زندگی رواں دواں ہے۔ موت اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ موت سے اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ اور تمام مخلوقات پر اس کی مکمل تسلط کا پتہ چلتا ہے۔ جب کوئی بوڑھا ہوجائے تو ناکارہ ہونے سے پہلے اچھی اور آسان موت کا آجانا اللہ تعالیٰ کی بڑی رحمت ہے، جس کی دعا ہم سب کو کرنی چاہیے اور ارذل العمر سے پناہ مانگنا چاہیے۔

موت رحمت ہونے کے ساتھ ساتھ نعمت بھی ہے۔ موت دنیاوی زندگی کی انتہا اور اخروی زندگی کی ابتدا ہے۔ موت مومن کے لیے جنت کا دروازہ ہے لیکن اس کے لیے موت کو یاد رکھنا اور اس کی تیاری کرنا ضروری ہے۔

عقل مند شخص موت سے پہلے موت کی تیاری کرتا ہے ،اپنے آپ کو قبر کے لیے تیار کرتا ہے، اپنی قبر کو ایمان کی روشنی سے منور کرتا ہے اور اسے نیک اعمال سے بھر دیتا ہے تا کہ اس کی قبر جنت کا باغیچہ بن جائے اور اس کے ساتھ ساتھ ایسے اعمال بھی کرتا ہے جس کا اجر و ثواب اسے موت کے بعد بھی تا قیامت ملتا رہے۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:آدمی جب مر جاتا ہے تو اس کا عمل موقوف ہو جاتا ہے مگر تین چیزوں کا ثواب جاری رہتا ہے: (1) ایک صدقۂ جاریہ کا، (2) دوسرے علم کا جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں، اور (3) تیسرے نیک و صالح اولاد جو دعا کرے اس کے لیے۔ (صحيح مسلم: 1631)

اسلام ایک ایسا بابرکت دین ہے جس کی برکتوں کی کوئی انتہا نہیں۔ ہم جتنا اس کی برکتوں پر غور کرتے ہیں اتنا ہی اس کی برکتیں وسیع تر ہوتی جاتی ہیں۔ جہاں اس دین پر زندہ رہنے والے اس کی برکتیں سمیٹتے ہیں وہیں اس دین پر چلتے ہوئے دنیا سے گزر جانے والے مومن بندے کو بھی اس کی برکتیں احاطہ کیے رہتی ہیں۔ اوپر دیے گئے حساب کے مطابق ہمارے اربوں آباؤاجداد اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ان میں سے کتنوں کو ان کے کیے گئے صدقۂ جاریہ کا ثواب اب بھی مل رہا ہے لیکن ان میں جو مومن تھے ہماری دعاؤں میں آج بھی وہ سب شامل ہیں۔ یہ دین اسلام کی برکت ہے کہ جب ہم دعا کرتے ہیں:
---------------1---------------
رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ ‎(١٠) سورة الحشر
’’ اے ہمارے پروردگار ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے ہیں اور ایمان داروں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ (اور دشمنی) نہ ڈال، اے ہمارے رب بیشک تو شفقت ومہربانی کرنے والا ہے‘‘

رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ (٤١) سورة ابراهيم
’’اے ہمارے رب مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو اور تمام مومنوں کو جس دن حساب قائم ہوگا‘‘

اَللّٰهُمَّ اغْفِرْلَنَا وَلِوَالِدَيْنَا وَ لِلْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ
’’اے اللہ! تو ہمیں ہمارے والدین اور تمام مومن مردوں اور عورتوں کو بخش دے‘‘

اللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِیْ وَلِکُلِّ مُؤْمِنٍ وَّمُؤْمِنَۃٍ
’’اےاللہ! میری اور تمام مومن ومومِنہ کی مغفِرت فرما‘‘

تو ہم حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر دنیا میں آنے والے آخری مومن تک کو اپنی ان دعاؤں میں یا اس جیسی دوسری دعاؤں میں شامل کرتے ہیں، اور اس طرح ان تمام گزرے ہوئے اور آنے والے مومنین کی دعائیں بھی ہم تک پہنچتی رہیں گی، ان شاء اللہ تعالیٰ ۔
---------------2---------------
اسی طرح رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے اور کہے:

التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
’’تمام زبانی، بدنی، اور مالی عبادات اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں، اے نبی! آپ پر سلام ہو اور اﷲ کی رحمت اور برکتیں ہوں، سلامتی ہو ہم پر اور اللہ تعالیٰ کے تمام نیک بندوں پر، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺاس کے بندے اور رسول ہیں‘‘ ، تو زمین و آسمان میں موجود اللہ کے ہر نیک و صالح بندے کو یہ دعا پہنچتی ہے۔ (صحيح البخاري: 1202)

اس طرح ہر مومن بندے کی نماز میں اور نماز کے بعد کی گئی دعاؤں میں ہم بھی شامل ہو جاتے ہیں اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک نماز پڑھی جاتی رہے گی۔ لہذا جو نماز نہیں پڑھتے وہ اس خیر و برکت سے محروم رہتے ہیں۔
---------------3---------------
اسی طرح جب ہم کسی کی نماز جنازہ ادا کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں:

اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِحَيِّنَا وَمَيِّتِنَا وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا وَصَغِيْرِنَا وَکَبِيْرِنَا وَذَکَرِنَا وَاُنْثَانَا. اَللّٰهُمَّ مَنْ اَحْيَيْتَه مِنَّا فَاَحْيِه عَلَی الْاِسْلَامِ وَمَنْ تَوَفَّيْتَه مِنَّا فَتَوَفَّه عَلَی الإِيْمَانِ
’’اے اللہ تو بخش دے ہمارے زندوں اور ہمارے مردوں کو، اور ہمارے حاضر اور ہمارے غائب کو اور ہمارے چھوٹوں اور ہمارے بڑوں کو اور ہمارے مردوں اور ہماری عورتوں کو۔ اے اللہ! ہم میں سے جسے تو زندہ رکھے تو اسے اسلام پر زندہ رکھ اور ہم میں سے جسے تو موت دے تو اسے ایمان پر موت دے‘‘ ۔

تو اس دعا میں ہم (1) زندہ (2) مردہ (3) حاضر (4) غائب (5) چھوٹے (6) بڑے (7) مرد و (8) عورت یعنی ان آٹھ قسم کی لوگوں کو اپنی دعا میں شامل کرتے ہیں یعنی نماز جنازہ میں صرف میت کے لیے ہم دعا نہیں کرتے بلکہ ان تمام مسلمانوں کے لیے دعا کرتے ہیں جو حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر اب تک اس دنیا میں آچکے ہیں اور آئندہ قیامت تک اس دنیا میں آنے والے ہیں اور اسی طرح ہمارے مرنے کے بعد جب بھی کسی کا جنازہ پڑھا جائے گا تو اس میں ہماری بخشش کی دعا بھی کی جائے گی اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔

یہ دعا بہت عظیم اور شاندار ہے، جو سامنے موجود میت کے علاوہ مسلمانوں میں سے زندہ و مردہ، چھوٹے و بڑے ،مرد و عورت ،اور موجود و غائب سب کو شامل ہے ؛ کیونکہ محتاج و ضرورت مند صرف مرنے والا یا مرنے والی ہی نہیں بلکہ سب ہی محتاج و ضرورت مند ہیں اور اللہ کی مغفرت، معافی اور اس کی رحمت کی سبھی کو ضرورت ہے ۔
---------------4---------------
جب ہم مسلمانوں کے کسی قبرستان میں جاتے ہیں یا اس کے قریب سے گزرتے ہیں تب بھی تمام مرحوم مومنین و مسلمین کے لیے سلامتی اور عافیت کی دعا کرتے ہیں:

اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الدِّيَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُسْلِمِيْنَ، وَإِنْ شَاءَ اللهُ بِكُمْ لَاحِقُوْنَ، أَسْأَلُ اللهَ لَنَا وَلَكُمُ الْعَافِيَةَ - - - ’’ اے گھروں کے مومن اور مسلمان مکینوں تم پر سلامتی ہو، اور ان شاء اللہ ہم بھی تم سے ملنے والے ہیں، میں اللہ تعالیٰ سے اپنے اور تمہارے لیے عافیت کا طلب گار ہوں ‘‘۔ (صحيح مسلم: 975)
اسی طرح ہماری موت کے بعد ہماری قبروں کے قریب سے گزرنے والے اللہ کے مومن بندے بھی ہمارے لیے دعائیں کریں گے اور یہ سلسلہ بھی تا قیامت جاری رہے گا، ان شاء اللہ۔
---------------5---------------
اور سب سے بڑی بات یہ کہ جب ہم درود ابراہیمی کے ذریعے اپنے پیارے نبی کریم ﷺ پر اللہ تعالیٰ سے رحمتیں اور برکتیں بھیجنے کی دعا کرتے ہیں تو اس میں بھی ساری کی ساری امت محمدیہ ﷺشامل ہوتی ہے کیونکہ ساری کی ساری امت محمدیہ ﷺ اٰل محمد ﷺہے، توآئیے درود بھیجیں اپنے نبی ﷺ پر اور اس میں شامل کریں آل محمد ﷺ کو:

ٱللَّٰهُمَّ صَلِّ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَعَلَىٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَعَلَىٰ اٰلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
ٱللَّٰهُمَّ بَارِكْ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَعَلَىٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَعَلَىٰ اٰلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ


’’اے ﷲ! رحمتیں نازل فرما حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور ان کی اٰل پر، جس طرح تونے رحمتیں نازل کیں حضرت ابراہیم علیہ السلام پر اور ان کی آل پر، بے شک تو تعریف کا مستحق بڑی بزرگی والا ہے۔ اے ﷲ! تو برکتیں نازل فرما حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور ان کی آل پر، جس طرح تونے برکتیں نازل فرمائیں حضرت ابراہیم علیہ السلام پر اور ان کی آل پر، بے شک تو تعریف کا مستحق بڑی بزرگی والا ہے‘‘ ۔

تمام مسلمان مردوں اور عورتوں کے لیے دنیا اور آخرت کی بھلائی کے لیے دعا کرنا ایک ایسا عمل ہے جس کی برکات اور فضائل بہت وسیع ہیں۔ اپنے بڑھاپے کو بابرکت و باسعادت بنانے کے لیے اپنے بوڑھے لرزتے ہاتھوں کو اٹھا کر دعائیں کیجيے اور اپنی دعاؤں میں حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر قیامت تک آنے والے تمام مومن و مومنات اور مسلم و مسلمات کو شامل کرلیجیے، اس طرح آپ خود بھی ان سب لوگوں کی دعاؤں میں شامل رہیں گے جن میں انبیاء، صدیقین، شہداء ، صالحین اور ہر امت کے اچھے لوگ بھی ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور ہمار بڑھاپا بابرکت و باسعادت بنائے۔ ہماری مغفرت فرمائے، ہمارے والدین کی مغفرت فرمائے اور تمام مسلمانوں کی مغفرت فرمائے۔ ہمارے اولاد کو نیک اور صالح بنائے اور ہماری آئندہ آنے والی نسلوں کو ہمارے لیے صدقۂ جاریہ بنائے۔ آمین۔
(ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعادت بڑھاپا، اس کتاب کی پرنٹیڈ ہارڈ کاپیاں موجود ہیں جولینا چاہتے ہوں وہ مجھ سے رابطہ کرسکتے ہیں۔
 

محمد اجمل خان

وفقہ اللہ
رکن
معزز قارئین! واضح رہے کہ کہ یہاں کتاب ’’بابرکت و باسعادت بڑھاپا‘‘ سے جو مضامین پیش کیے جارہے ہیں وہ کتاب کے مطابق ترتیب وار اور مکمل نہیں ہیں۔ مکمل ترتیب وار مضامین پڑھنے کے لیے آپ پرنٹیڈ کتاب حاصل کرسکتے ہیں۔
 

محمد اجمل خان

وفقہ اللہ
رکن
حجت اور عذر ختم کرنے والی عمر

ساٹھ سال کی عمر لمبی عمر ہے۔ جو ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ گیا وہ لمبی عمر پا گیا۔ ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : میری امت کی عمریں ساٹھ اور ستر کے درمیان ہوں گی اور تھوڑے ہی لوگ ایسے ہوں گے جو اس حد کو پار کریں گے۔ )ترمذی: 3550، ابن ماجہ: 4236)

اور سیدنا انس بن مالک ﷛ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میری امت کے کم ہی لوگ ستر (برس کی عمر) تک پہنچیں گے۔ (سلسلہ احاديث صحيحہ ترقیم البانی: 1517)

اپنے رب کو پہچاننے کے لیے، اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنے کے لیے، دین اسلام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے لیے ساٹھ سال ایک طویل عرصہ ہے۔ اس لیے جو لوگ ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان بندوں کے عذر، حجت اور بہانے کو ختم کر دیتا ہے۔ جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ ’’ اللہ تعالیٰ نے اس آدمی کے لیے عذر کا کوئی موقع باقی نہیں رکھا جس کو ساٹھ برس تک (دنیا میں) مہلت دی‘‘ ۔ (صحيح البخاري:6419)

اس حدیث میں اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے خلاف حجت رکھتا ہے اور یہ اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو عقل دی، انہیں سمجھ عطا کی، ان میں اپنے رسول بھیجے اور اپنا کلام ہدایت نازل کیا اور اپنے رسول ﷺ کی سنت کو محفوظ کیا جو ہمیشہ رہے گی۔ اللہ تعالیٰ اپنے حجت کی دلیل دیتے ہوئے قرآن مجید میں فرماتا ہے:

وَمَن نُّعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ ۖ أَفَلَا يَعْقِلُونَ ‎(٦٨) سورة يس
’’جس شخص کو ہم لمبی عمر دیتے ہیں اس کی ساخت کو ہم الٹ ہی دیتے ہیں، کیا (یہ حالات دیکھ کر) انہیں عقل نہیں آتی؟‘‘

اب جس شخص کو اللہ تعالیٰ ساٹھ سال تک کی لمبی عمر عطا کر دیتا ہے اور اتنے طویل زمانہ تک اس کو مہلت دے دیتا ہے، اس کے باوجود وہ اپنے خالق حقیقی کو نہیں پہچان پاتا اور رب کریم کی طرف رجوع نہیں کرتا، توبہ کرکے گناہوں سے باز نہیں آتا تو اب اس کے لیے عذر خواہی کا وہ کون سا موقع رہ گیا ہے جس کے سہارے وہ قیامت کے دن اپنے رب سے عفو و بخشش کی امید رکھتا ہے۔

اگر کوئی جوان شخص گناہ و معصیت اور بے عملی کی راہ اختیار کیے ہوئے ہے تو وہ کہہ سکتا ہے کہ جب بڑھاپا آئے گا تو اپنی بدعملیوں اور اپنے گناہوں سے توبہ کر لوں گا اور اپنی زندگی کےآخری حصہ کو اللہ کی رضا جوئی اور اس کی عبادت میں صرف کروں گا، لیکن جو شخص بڑھاپے کی منزل میں پہنچ چکا ہے تو اب یہ اس کے پاس توبہ وانابت اور نیک عمل کرنے کا آخری موقع ہے، اگر اب بھی وہ بے عملی اور گناہوں کی روش پر چلتا رہا تو کل اللہ تعالیٰ کو کیا جواب دے گا؟

ہائے! کتنے بدنصیب ہیں وہ لوگ جو عمر کے آخری منزل پر پہنچ کر بھی گناہ و معصیت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اس بڑھاپے میں بھی جب کہ موت ان کے سر پر کھڑی ہے، انہیں گناہ و معصیت کی زندگی سے توبہ کرکے اپنے رحیم و کریم پروردگار کا دامن عفو و کرم پکڑ لینے کی توفیق نہیں ہوتی۔ پھر جب اسی حالت میں موت انہیں آ دبوچے گی اور یہ لوگ جہنم میں جا گریں گے تو اللہ تعالیٰ کے حضور معذرتیں پیش کریں گے، وہاں کہا جائے گا کہ ’’اے کفر اختیار کرنے والو! آج معذرتیں پیش نہ کرو، تمہیں تو ویسا ہی بدلہ دیا جا رہا ہے جیسے تم عمل کر رہے تھے‘‘ (٧) سورة التحريم

پھر جب لمبی عمر پانے والے کفار کا جہنم کے درد ناک عذاب جھیلنے کے سوا اور کچھ نہ بن پڑے گا: ’’تو وه لوگ اس میں چلائیں گے، چیخ چیخ کر کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار! ہم کو نکال لے ہم اچھے کام کریں گے برخلاف ان کاموں کے جو کیا کرتے تھے، (اللہ تعالیٰ کہے گا) کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی تھی کہ جس کو سمجھنا ہوتا وه سمجھ سکتا اور تمہارے پاس ڈرانے والا بھی پہنچا تھا، سو مزه چکھو کہ (ایسے) ظالموں کا کوئی مددگار نہیں‘‘۔(٣٧) سورة فاطر

یہاں اس آیت میں جو فرمایا: ’’کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی تھی کہ جس کو سمجھنا ہوتا وه سمجھ سکتا اور تمہارے پاس ڈرانے والابھی پہنچا تھا ‘‘، اگرچہ یہ خطاب کفار کو ہے مگر سب کو نصیحت کرنا مقصود ہے اس لیے کہ اصل علت غفلت ہے جس میں آج مسلمان بھی پڑے ہوئے ہیں۔

جب انسان بوڑھا ہوجاتا ہے تب اس کے پاس بہت تھوڑا سرمایہ (وقت) باقی رہتا ہے، وہ بھی نہ جانے کب ختم ہوجائے۔ لہذا بوڑھے شخص پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ واجب ہے کہ وہ برابر اپنے پروردگار کی بارگاہ میں عذر خواہی اور توبہ و استغفار، تسبیح و تہلیل، دعا و درود کی کثرت کرتا رہے اور اس میں قطعاً کوئی کمی و کوتاہی نہ کرے۔ جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَّصُوحًا عَسَىٰ رَبُّكُمْ أَن يُكَفِّرَ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ ‎(٨) سورة التحريم
’’اے ایمان والو! اللہ کے حضور توبہ کرو، سچی توبہ، امید ہے کہ وہ تمہاری برائیاں تم سے دور کر دے گا ‘‘

یہاں اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو مخاطب کیا ہے اور انہیں خالص توبہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ لہذا ایمان والوں کو خالص توبہ ہی کرنا چاہیے۔ بڑھاپے میں خالص توبہ کرنا تو بہت آسان ہے کہ اس عمر میں گناہ کی طرف یوں بھی میلان کم ہوتا ہے پھر گناہ کرنے کے اسباب بھی کم ہوتے ہیں اور زندگی کے ایام بھی ختم ہونے کے قریب ہوتے ہیں۔ لہذا انتظار نہ کرے، ندامت کے آنسو بہائے اور سچی توبہ کرلے کہ ناجانے کب روح حلق میں آ پھنسے، اور توبہ کی قبولیت کا وقت ختم ہوجائے۔

بڑھاپے کی وجہ سے عمر رسیدہ لوگوں کی اکثریت چڑچڑے پن کا شکار رہتی ہے، جس کی وجہ سے ان کے لیے ان کے گھر کا ماحول سازگار نہیں ہوتا جبکہ ریٹائرمنٹ اور بڑھاپے کی وجہ سے گھر میں رہنا بھی ان کی مجبوری ہوتی ہے۔ چڑچڑے پن سے بچنے اور اپنے گھر کے ماحول کو ساز گار رکھنے کے لیے ایسے لوگوں کا ہمہ وقت عبادت میں مصروف رہنا بہت ضروری ہے۔ جو بزرگ لوگ اپنا زیادہ تر وقت خدمت خلق میں اور مسجدوں میں گزارتے ہیں وہ چڑچڑے پن اور بد مزاجی سے محفوظ رہتے ہیں، ان کے مزاج اور کردار میں شائستگی پائی جاتی ہے اور ان کے اخلاق بھی درست رہتے ہیں، سو اس طرح وہ بابرکت و باسعادت بڑھاپا پالیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
(ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعادت بڑھاپا، اس کتاب کی پرنٹیڈ ہارڈ کاپیاں موجود ہیں جولینا چاہتے ہوں وہ مجھ سے رابطہ کرسکتے ہیں ، واٹس اپ 03262366183 پر۔
 

محمد اجمل خان

وفقہ اللہ
رکن
بڑھاپے کی علامت : سفید بال

سر یا داڑھی میں پہلے سفید بال کا نمودار ہوجانا بڑھاپے کی علامت ہے۔ اس اشارے کے ملتے ہی انسان کو سنبھل جانا چاہیے اور سمجھ لینا چاہیے کہ موت اب قریب آگئی ہے اور الله سبحانہ وتعالیٰ کے سامنے پیش ہونے کا وقت بس آیا ہی چاہتا ہے۔ لہذا اب اسے عبادات اور توبہ و استغفار کی کثرت کرنی چاہیے، گناہ اور نافرمانی سے دور رہنا چاہیے اور اپنی آخرت کو بچانے کی فکر میں لگ جانا چاہیے۔

پھر جب سفید بالوں کے ساتھ ساتھ ’’ اگر کسی کی عمر ساٹھ سال کو بھی پہنچ جائے تو اس آدمی کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور عذر پیش کرنے کا قطعی کوئی موقع باقی نہیں رہتا‘‘ ۔ (صحيح البخاري:6419)

اب بھی اگر وہ اپنی آخرت کی تیاری نہیں کرتا تو (اسے سوچنا چاہیے کہ) وہ کس بنا پر آخرت کے عذاب الیم سے بچنے کی توقع رکھتا ہے۔ ویسے بھی اگر انسان کے اندر اللہ کا ڈر و خوف ہو تو سر یا داڑھی کا پہلا سفید بال ہی انسان کو لہو و لعب کی مشغولیت اور گناہوں کے ارتکاب سے باز رکھنے کے لیے کافی ہے۔ خَشِیَت اِلٰہی سے انسان کے اندر تواضع و انکساری پیدا ہوتی ہے اور انسان غرور اور نفسانی شہوات میں مبتلا ہونے سے بچ جاتا ہے۔
 

محمد اجمل خان

وفقہ اللہ
رکن
سفید بال: مومن کا وقار

دنیا میں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پہلے لوگوں کے بال سفید نہیں ہوا کرتے تھے۔ آپ علیہ السلام سب سے پہلے شخص تھے جنہوں نے سفید بال دیکھے، چنانچہ آپ علیہ السلام نے عرض کیا کہ میرے پروردگار ! یہ کیا ہے؟ رب تعالیٰ کا جواب آیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) یہ وقار ہے، یعنی یہ (سفید بال) اس بڑھاپے کی علامت ہے جو علم و دانش میں اضافہ کا باعث اور عز و وقار کا ذریعہ ہے اور اس کی وجہ سے انسان لہو و لعب کی مشغولیت اور گناہوں کے ارتکاب سے باز رہتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا کہ پروردگار ! یہ تو تیری بڑی نعمت ہے۔ لہٰذا میرے وقار میں اضافہ فرما۔ (الادب المفرد: 1250، مشكوة المصابيح: 4488)
(ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعادت بڑھاپا، مؤلف: محمد اجمل خان) ۔پرنٹیڈ کتاب مؤلف سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
 

محمد اجمل خان

وفقہ اللہ
رکن
مومن کا نور : سفید بال

لہذا سفید بال بندۂ مومن کے بڑھاپے کی علامت، عز و وقار کا ذریعہ اور اس کا نور ہے، نبی اکرم ﷺ نے مسلمان کو سفید بال اکھاڑنے سے منع فرمایا ہے، چاہے وہ اس کے سر کے بال ہوں یا داڑھی کے ہوں یا جسم کے کسی اور حصے کے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’سفید بالوں کو مت اکھاڑو کیونکہ یہ مسلمان کا نور ہے جس مسلمان کے بال حالت اسلام میں سفید ہوتے ہیں اس کے ہر بال پر ایک نیکی لکھی جاتی ہے ایک درجہ بلند کیا جاتا ہے اور ایک گناہ معاف کردیا جاتا ہے‘‘ ۔ (مسند احمد : 6675)

سفید بالوں کو بڑھاپے کی نورانیت کا سبب اس اعتبار سے فرمایا گیا ہے کہ سر یا داڑھی پر سفید بال کے آنے سے بڑھاپا کُھل کر ظاہر ہو جاتا ہے جو کہ بندۂ مومن کی قدر و منزلت، عزت و توقیر، عظمت و وقعت اور تحمل و بردباری میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سوال کے جواب میں سفید بال یعنی بڑھاپے کو وقار سے تعبیر فرمایا ہے۔ وقار دراصل ایک ایسا وصف ہے جو انسان کو گناہ و فسق اور بے حیائی کی باتوں سے روکتا ہے اور توبہ و طاعات کی طرف مائل کرتا ہے، اس اعتبار سے یہ وصف انسان میں اس نور کو پیدا کرتا ہے جو پل صراط کی تاریکی کو چیرتا ہوا آگے آگے چلے گا، جیسا کہ فرمایا گیا ہے:

يَسْعَىٰ نُورُهُم بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِم ﴿١٢﴾‏ سورة الحديد
’’اُن کا نور اُن کے آگے اور اُن کی دائیں جانب تیزی سے چل رہا ہوگا‘‘

لہٰذا اس توجیہ کی روشنی میں بڑھاپے کے نور سے قیامت کے دن کا نور بھی مراد ہے۔ (و اللہ اعلم)

(ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعادت بڑھاپا، مؤلف: محمد اجمل خان) ۔پرنٹیڈ کتاب مؤلف سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
۔
 

محمد اجمل خان

وفقہ اللہ
رکن
سفید بالوں کو چننا یا خضاب لگانا

سفید بالوں کو چننا مکروہ ہے جبکہ سفید بال پر خضاب لگانا جائز ہے۔ عبداللہ بن عمر ﷠کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ: ’’بڑھاپے (بال کی سفیدی) کا رنگ بدلو اور یہود کی مشابہت اختیار نہ کرو‘‘۔ (سنن نسائي: 5076)
اور آپ ﷺ نے یہ حکم فرمایا:’’ دونوں (‏‏‏‏داڑھی اور سر) کے بالوں کا رنگ بدل دو اور سیاہ رنگ سے اجتناب کرو‘‘۔ (سلسلہ احاديث صحيحہ، ترقیم البانی: 496)
لہذا سیاہ رنگ سے اجتناب کرتے ہوئے داڑھی اور سر کے بالوں کا رنگ بدلنے کے لیے مہندی اور کتم بہتر ہے۔ جیسا کہ رسول ﷺ نے فرمایا ہے کہ: ’’سب سے بہتر چیز جس سے تم بڑھاپے کا رنگ بدلو مہندی اور کتم (نیل) سے‘‘۔ (سنن ابي داود: 4205)
‏‏‏‏ سیدنا ثابت ﷛ سے روایت ہے، حضرت انس ﷛ سے پوچھا گیا کہ رسول اللہ ﷺ نے خضاب کیا تھا؟ انہوں نے کہا: ’’اگر میں چاہتا تو آپ ﷺ کے سر کے سفید بال گن لیتا، آپ ﷺ نے خضاب نہیں کیا، البتہ ابوبکر ﷛ نے خضاب کیا مہندی اور نیل سے، اور عمر ﷛ نے خضاب کیا صرف مہندی سے‘‘۔ (صحيح مسلم: 2341)
سیدنا عبداللہ بن عمر ﷟ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے سفید ہونے والے بال تقریباً بیس تھے۔ (سلسلہ احاديث صحيحہ، ترقیم البانی: 2096)

اگرچہ نبی کریم ﷺ کو بالوں کو رنگنے کی ضرورت پیش نہیں آئی کیونکہ آپ ﷺ کے بہت کم (تقریباً بیس) بال سفید ہوئے تھے لیکن آپ ﷺ نے داڑھی اور سر کے بال اگر سفید ہو جائیں تو ان کو رنگنے کا حکم دیا ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس پر عمل بھی کروایا تھا۔

رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں یہود خضاب کا استعمال نہیں کرتے تھے۔ لہٰذا ان کی مخالفت میں اسے استعمال کرنے کا حکم دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ سلف میں اس کا استعمال کثرت سے پایا گیا۔ چنانچہ اسلاف کی سوانح لکھنے والوں میں سے بعض سوانح نگاروں نے اس کی بھی تصریح کی ہے کہ فلاں خضاب کا استعمال کرتے تھے اور فلاں نہیں کرتے تھے، فلاں مہندی سے کرتے تھے تو فلاں کتم سے کرتے تھے۔
فی زمانہ (سیاہ رنگ کے علاوہ) جو بھی جدید ہیئر کلر یا خضاب دستیاب ہے عمر کے اعتبار سے جو مناسب ہو اس کا استعمال کرنا جائز ہے لیکن خضاب کرکے کسی کو دھوکہ دینا مقصود نہ ہو، مثلاً بعض مردوں کا سیاہ خضاب کرکے عمر چھپا کر شادی کرنا وغیرہ۔

سیاہ خضاب کرنا یوں بھی جائز نہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ: ’’آخر زمانے میں ایسے لوگ آئیں گے جو کبوتر کے پپوٹوں کی طرح سیاہ خضاب لگائیں گے وہ جنت کی بو تک نہ پائیں گے‘‘۔ ( النسائی : 5078)
خلاصہ کلام یہ کہ ’’سفید بال مسلمان کے چہرے کا نور ہے‘‘۔ (سلسلہ احاديث صحيحہ ، ترقیم البانی: 1244)

لہذا کوئی نادان ہی اس نور کو ضائع کرنے یعنی اکھاڑ پھینکنے کا سوچے گا یا اس نور پر کالا سیاہ خضاب لگا کر اس کی روشنی کو ختم کرے گا یا اس نور کے چہرے پر ہوتے ہوئے گناہوں میں ملوث ہوگا۔ لیکن افسوس کہ آج کتنے بدنصیب بوڑھے ہیں جو سر اور چہرے پر سفید بالوں کے ہوتے ہوئے بھی انتہائی گھناؤنی برائیوں میں ملوث ہیں۔ کاش! ایسے لوگ جانتے کہ بڑھاپے میں گناہ کرنا جوانی کے گناہ سے زیادہ مہلک ہے کیونکہ بڑھاپے کی طویل عمر کے مشاہدات و تجربات کی بنا پر انسان اچھائی و برائی کو مکمل طور پر سمجھ جاتا ہے اور اس عمر میں گناہوں پر ابھارنے والے جذبات بھی سرد پڑجاتے ہیں، پھر بھی اگر کوئی گناہوں میں ملوث ہو تو ان گناہوں پر عذاب کی شدت بھی زیادہ ہوگی۔ جیسا کہ ’’ بوڑھا ہونے کے باوجود اگر کوئی زنا کرے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نہ اس سے بات کریں گے اور نہ ہی اس کو گناہوں سے پاک کریں گے نہ ہی اس کی طرف نظر رحمت سے دیکھیں گے اور اس کو درد ناک عذاب ہوگا‘‘۔ (مختصر صحيح مسلم: 1787)

بعض لوگ ایک موضوع اور من گھڑت قول کہ «اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ سفید داڑھی والوں کو عذاب دیتے ہوئے مجھے شرم آتی ہے» کو حدیث سمجھتے ہیں اور اکثر اپنی تحریر وں اور تقریروں میں اس من گھڑت قول کو پیش کرکے سفید ریش بوڑھوں کو خوش کرتے ہیں، تو واضح ہو کہ اس طرح کے اقوال کا محدثین نے انکار کیا ہے اور ان کو موضوعات میں شمار کیا ہے۔ لہذا اس طرح کی من گھڑت باتوں سے خوش ہونے کی بجائے لوگوں کو چاہیے کہ اپنے گناہ و معصیت پر نظر رکھیں، اپنے رب سے مغفرت اور بخشش طلب کرتے رہیں اور زندگی کے جو ایام باقی بچے ہیں اس میں ہر طرح کے گناہ و فسق اور بے حیائی کی باتوں سے بچتے ہوئے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری میں بقیہ زندگی بسر کریں، زیادہ سے زیادہ عبادات کرکے اپنے رب کو راضی کریں اور اپنے بڑھاپے کے نور کو بچانے اور بڑھانے کی فکر کریں تب ہی یہ بڑھاپا بابرکت و باسعادت ہوگا اور آخرت میں ’’ اُن کا (یہ) نور اُن کے آگے اور اُن کے دائیں جانب تیزی سے چل رہا ہوگا‘‘۔ (12) سورة الحديد
(ان شاء اللہ)
(ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعادت بڑھاپا، مؤلف: محمد اجمل خان) ۔پرنٹیڈ کتاب مؤلف سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
 

محمد اجمل خان

وفقہ اللہ
رکن
معزز قارئین! واضح رہے کہ کہ یہاں کتاب ’’بابرکت و باسعادت بڑھاپا‘‘ سے جو مضامین پیش کیے جارہے ہیں وہ کتاب کے مطابق ترتیب وار اور مکمل نہیں ہیں۔ مکمل ترتیب وار مضامین پڑھنے کے لیے آپ پرنٹیڈ کتاب 03262366183 پر واٹس اپ کرکے حاصل کرسکتے ہیں
 

محمد اجمل خان

وفقہ اللہ
رکن
لمبی عمر، اچھے اخلاق اور نیک اعمال

يَا أَيُّهَا الْإِنسَانُ إِنَّكَ كَادِحٌ إِلَىٰ رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلَاقِيهِ (٦) سورة الإنشقاق
’’اے انسان، تو کشاں کشاں اپنے رب کی طرف چلا جا رہا ہے، اور اُس سے ملنے والا ہے ‘‘۔
پیدا ہوتے ہی انسان کا اس کے رب کی طرف واپسی کا سفر شروع ہو جاتا ہے لیکن انسان مرتے دم تک لمبی عمر کی آس لگائے زندہ رہتا ہے۔ لہذا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’آدمی بوڑھا ہو جاتا ہے لیکن اس کی دو خواہشیں جوان رہتی ہیں: ایک مال کی ہوس دوسری لمبی عمر کی تمنا‘‘۔ (سنن ترمذي:2455)

زیادہ جینے کی تمنا ہر انسان کی جبلت میں شامل ہے۔ لمبی عمر جہاں کافر و مشرک کے عذاب میں اضافہ کرتی ہے وہیں مومن کو گناہوں سے پاک صاف ہونے اور جہنم کے عذاب سے بچنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ اس لیے بندۂ مومن کے لیے لمبی عمر کی امید رکھنا کوئی بری بات نہیں کیونکہ ایک مسلمان کا دنیا میں راس المال اور سب سے قیمتی سرمایہ اس کا وقت ہی ہے جس کی بنیاد پر وہ زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کرسکتا ہے اور امت کے بہترین لوگوں میں شامل ہو سکتا ہے۔

جیسا کہ سیدنا جابر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا: ’’ کیا میں تمہیں تمہارے بہترین لوگوں کی خبر نہ دوں؟ تم میں افضل لوگ وہ ہیں جن کی عمریں سب سے زیادہ لمبی اور اعمال انتہائی نیک ہوں‘‘۔(سلسلہ احادیث صحیحہ، ترقيم الباني: 1298)

اسی طرح ایک موقع پر رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام سے فرمایا کہ کیا میں تمہیں بتاؤں کہ تم میں بہترین لوگ کون ہیں؟ صحابہؓ نے عرض کیا: ہاں ضرور بتائیں، فرمایا: ’’ تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو لمبی عمر والے ہیں اور جن کے اخلاق اچھے ہیں‘‘۔ (مسنداحمد:٩٢٣٥)

اَخلاق جمع ہے خلق کی جس کا معنی ہے رویہ، برتاؤ، عادت، خصلت، طور طریقے وغیرہ۔ یعنی لوگوں کے ساتھ اچھے رویے یا اچھے برتاؤ یا اچھی عادات کو حسن اَخلاق کہا جاتا ہے۔

حقیقت میں حسن اَخلاق کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ اس میں متعدد نیک اعمال شامل ہیں۔ چند اعمال یہ ہیں:

حرام سے بچنا، حلال حاصل کرنا، اہل وعیال پر خرچ میں کشادگی کرنا، بھلائی کے کام کرنا، بھلائی کا حکم دینا، برائی سے بچنا، برائی کو روکنا، جاہلوں سے اعراض کرنا، حقوق العباد کی ادائیگی کرنا، قطع تعلق کرنے والے سے صلہ رحمی کرنا، محروم کرنے والے کو عطا کرنا، کسی کو تکلیف نہ دینا، نرم مزاجی، بردباری، غصے کے وقت خود پر قابو پالینا، غصہ پی جانا، عفو و درگزر سے کام لینا، لوگوں سے خندہ پیشانی سے ملنا، مسلمان بھائی کے لیے مسکرانا، مسلمانوں کی خیر خواہی کرنا، مسلمانوں کو کھانا کھلانا، مسلمانوں کو لباس پہنانا، پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنا، مشقتوں کو برداشت کرنا، لوگوں میں صلح کروانا، مظلوم کی مدد کرنا، ظالم کو اس کے ظلم سے روکنا، مسلمانوں کے لیے دعائے مغفرت کرنا، کسی کی پریشانی دور کرنا، کمزوروں کی کفالت کرنا، چھوٹوں پر شفقت کرنا، بڑوں کا احترام کرنا، علماء کا ادب کرنا، وغیرہ وغیرہ۔اور یہ بات عیاں ہے کہ یہ سارے نیک اعمال بڑھاپے میں پہنچ کر یک دم نہیں ہو سکتے، ان کے لیے بچپن کی تربیت اور جوانی کے عمل و ریاضت اور نیک صحبت ضروری ہیں۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ کا فارسی میں ایک قول بہت مشہور ہے:«صحبت صالح ترا صالح کند، صحبت طالح ترا طالح کند» ’’یعنی انسان نیک انسانوں کی صحبت میں نیکی سیکھتا ہے اور برے لوگوں کی صحبت میں بُرائی سیکھتا ہے‘‘۔

جوانی سے ان اعمال کو احسن طریقے سے انجام دینے والے ہی بڑھاپے میں پہنچ کر اپنے حسن اخلاق کا ثبوت دے سکتے ہیں۔
«جس کی جوانی جہالت میں گزری ہو، بڑھاپا اسے اُس جہالت سے نکال نہیں پاتا اور نہ ہی اسے بڑھاپے کی خیر و برکت حاصل ہوتی ہے»، اِلَّا مَنْ رَّحِمَ اللّٰہُ
اس لیے اگر جوانی سے ہی نیک اعمال کے ذریعے اپنے اخلاق و کردار کو درست نہ رکھا گیا ہو تو بڑھاپے میں پہنچ کر حسن اخلاق کا ثبوت دینا ممکن نہیں ہوتا اور نہ ہی امت کے بہترین لوگوں میں شامل ہونا ممکن ہوسکتا ہے۔ کیونکہ بڑھاپے میں اکثر لوگ جب سٹھیا جاتے ہیں تو ان کا خود پر کوئی کنٹرول نہیں رہتا، وہ چڑچڑے پن کا شکار ہوجاتے ہیں، ان کا مزاج بگڑ جاتا ہے جس میں شائستگی کی جگہ بد مزاجی و بد خلقی سرایت کرجاتی ہے جس کی وجہ سے بات بے بات گھر والوں کے ساتھ سختی اور بد اخلاقی سے پیش آتے ہیں، پھر گھر کے باہر بھی یہی رویہ رہتا ہے۔ جبکہ مومن کا یہ شیوہ نہیں، مومن تو اپنے اچھے اخلاق کی بنیاد پر اپنے نیکیوں کا پلہ بھاری کرنے کی فکر میں رہتا ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے: ’’میزان میں رکھی جانے والی چیزوں میں سے اخلاق حسنہ سے بڑھ کر کوئی چیز وزنی نہیں ہے، اور اخلاق حسنہ کا حامل اس کی بدولت روزہ دار اور نمازی کے درجہ تک پہنچ جائے گا‘‘۔ (سنن ترمذي: 2003)

لہذا بڑھاپے کو بابرکت و باسعادت اور خوشگوار بنانے کے لیے کسی سے الجھنے کی بجائے اپنا اخلاق درست رکھیے، کثرت سے نیک اعمال کیجیے اور ساتھ ہی دعا بھی کرتے رہیے:

اللَّهُمَّ كَمَا أَحْسَنْتَ خَلْقِي، فَحَسِّنْ خُلُقِي ۔۔۔ ’’اے اللہ! جیسے تو نے میری صورت اچھی بنائی ہے ویسے ہی میرے اخلاق کو بھی اچھا کر دے‘‘۔(مسند احمد: ٢٤٣٩٢)
(ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعادت بڑھاپا، مؤلف: محمد اجمل خان) ۔پرنٹیڈ کتابیں موجود ہیں جو مؤلف سے 03262366183 پر واٹس اپ کرکے حاصل کرسکتے ہیں۔
 

محمد اجمل خان

وفقہ اللہ
رکن
لمبی عمر، بہترین لوگ

یہ دنیا فانی ہے۔ یہاں جو پیدا ہوا ہے اسے ایک نہ ایک دن مرنا ہے۔ اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں ہے۔ پھر بھی یہاں ہر شخص لمبی عمر کا خواہاں ہے۔ لیکن لمبی عمر کی تمنا رکھنے والوں کے مقاصد الگ الگ ہوتے ہیں۔ آخرت کا انکار کرنے والے یا اس سے غافل رہنے والے دنیا کی ساری لذتوں سے لطف اندوزی اور تادیر عیش و عشرت کی زندگی بسر کرنے کے لیے لمبی عمر کے متمنی ہوتے ہیں جبکہ آخرت کے جملہ امور پر ایمان لانے والے لمبی عمر کی خواہش صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ دنیاوی زندگی میں قیمتی وقت اور موقع پاکر زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کرکے اپنے معبود برحق اللہ وحدہ لاشریک لہ کو راضی کرلیں اور اس کے احسانا ت کا حتی الامکان شکر بجا لائیں۔ ایسے لوگ مسلم معاشرے کے بہترین لوگ ہوتے ہیں۔

ایک موقعے پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: ’’ کیا میں تم لوگوں کے لیے تمہارے بہترین افراد کی نشاندھی نہ کر دوں؟ تم میں سے بہترین افراد وہ ہیں جن کی عمریں لمبی ہوں، بشرطیکہ وہ راہ راست پر چلتے رہیں‘‘۔ (سلسلہ احادیث صحیحہ، ترقيم الباني: 2498)

عمر کا طویل ہونا مومن کے لیے اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے بشرطیکہ اس لمبی عمر کو یوں ہی ضائع نہ کر دیا جائے بلکہ اس کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت و عبادت، دین کی خدمت اور اچھے کاموں میں صرف کیا جائے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی کتنی بڑی مہربانی ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو راہ راست پر چلنے کے طریقے سکھائے اور ساتھ ہی اس پر استقامت کے لیے دعا بھی سکھلا دی،جسے ہر مسلمان اپنی نماز میں مانگتاہے :

اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ‎ ۔ ۔ ۔ ’’(اے اللہ!) ہمیں صراط مستقیم دکھا دیجیے‘‘﴿٦﴾‏ سورة الفاتحة

جو شخص راہ راست پر چلتا ہو اور اپنی ہر نماز میں راہ راست پر چلنے کی دعا مانگتا ہو، بے شک اللہ تعالیٰ اسے راہ راست پر استقامت عطا فرماتے ہیں۔ لہذا ایسے شخص کی عمر جس قدر زیادہ ہوگی اسی قدر اس کے اعمال صالحہ بھی زیادہ ہوں گے اور اعمال صالحہ جتنے زیادہ ہوں گے اتنا ہی زیادہ اجر و ثواب بھی حاصل ہوگا، جس کی وجہ سے اسے جنت میں داخلے کا پروانہ بھی جلد ملے گا، جیسا کہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کے ہاں اس مومن سے افضل کوئی شخص نہیں جسے اسلام میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تکبیر اور تہلیل «لَا إِلَٰهَ إِلَّا اللَّهُ» کہنے کے لیے طویل عمر دی جائے‘‘ ۔ (سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 654)

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے ایسے افضل بندوں میں شامل فرمائے۔ آمین۔
(ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعادت بڑھاپا، مؤلف: محمد اجمل خان) ۔پرنٹیڈ کتابیں موجود ہیں جو مؤلف سے 03262366183 پر واٹس اپ کرکے حاصل کرسکتے ہیں۔
۔
 

محمد اجمل خان

وفقہ اللہ
رکن
لمبی عمر، بدترین لوگ

حضرت ابوبکرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول ﷺ! لوگوں میں سب سے بدتر شخص کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ جس کی عمر لمبی ہو اور عمل برا ہو ‘‘ ۔ (سنن ترمذي: 2330)

یعنی جو شخص لمبی عمر ملنے کے باوجود نیک اعمال نہیں کرتا بلکہ اپنے رب کی اطاعت و فرمانبرداری کے بجائے نافرمانی و سرکشی میں زندگی گزار دیتا ہے یعنی جس کا عمل برا ہوتا ہے وہ لوگوں میں سب سے بدتر شخص ہے۔ ایسے لوگوں کی لمبی عمر میں کوئی خیر نہیں ہوتی بلکہ یہ ان کی گناہوں اوران کے عذاب میں اضافے کا باعث بنتی ہے، جیسا کہ کوفروں کے بارے میں فرمایا گیا:

وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِّأَنفُسِهِمْ ۚ إِنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدَادُوا إِثْمًا ۚ وَلَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ ‎(١٧٨) سورة آل عمران
’’اور کافر یہ گمان ہرگز نہ کریں کہ ہم جو انہیں مہلت دے رہے ہیں (یہ) ان کی جانوں کے لیے بہتر ہے، ہم تو (یہ) مہلت انہیں صرف اس لیے دے رہے ہیں کہ وہ گناہ میں اور بڑھ جائیں، اور ان کے لیے (بالآخر) ذلّت انگیز عذاب ہے‘‘

اور یہودیوں کے بارے میں فرمایا:

وَلَتَجِدَنَّهُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلَىٰ حَيَاةٍ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا ۚ يَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ يُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَةٍ وَمَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذَابِ أَن يُعَمَّرَ ۗ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ ‎(٩٦) سورة البقرة
’’اور (اے نبی ﷺ) آپ انہیں (یہودیوں کو) یقیناً سب لوگوں سے زیادہ جینے کی ہوس میں مبتلا پائیں گے اور مشرکوں سے بھی زیادہ، ان میں سے ہر ایک چاہتا ہے کہ کاش اسے ہزار برس کی عمر مل جائے، گو یہ عمر دیا جانا بھی انہیں عذاب سے نہیں بچا سکتی ، اور اللہ ان کے اعمال کو خوب دیکھ رہا ہے‘‘۔

افسوس کہ آج کے بعض مسلمان بھی یہود کی طرح لمبی عمر کی تمنا تو کرتے ہیں لیکن نہ ہی اللہ و رسول اللہ ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری میں زندگی گزارتے ہیں، نہ ہی نیک اعمال کرتے ہیں اور نہ ہی اپنے اخلاق درست کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے ان کی لمبی عمر کل قیامت کے دن باعث یاس و حسرت ہوگی۔ کاش! لوگ سمجھتے اور اپنی لمبی عمر کو اپنے رب کی اطاعت و فرمانبرداری میں گزارتے اور نیک اعمال کرتے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھنے اورنیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
(ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعادت بڑھاپا، مؤلف: محمد اجمل خان) ۔پرنٹیڈ کتابیں موجود ہیں جو مؤلف سے 03262366183 پر واٹس اپ کرکے حاصل کرسکتے ہیں۔
 

محمد اجمل خان

وفقہ اللہ
رکن
لمبی عمر، اچھے عمل

سیدنا عبداللہ بن بسر بازنی بیان کرتے ہیں کہ دو بدو، رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، ان میں سے ایک نے کہا: کون سے لوگ بہتر ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’سعادت (‏‏‏‏اور خوشخبری) ہے اس آدمی کے لیے جس کی عمر لمبی ہو اور عمل اچھے ہوں ‘‘۔ (سلسلہ احادیث صحیحہ، ترقيم الباني: 1836)

اس حدیث میں رسول ﷺ نے لمبی عمر پانے والوں کو زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کرنے کی ترغیب دی ہے۔ لہذا زندگی اور بڑھاپے کو بابرکت و باسعادت بنانے کے لیے ضروری ہے کہ بندۂ مومن کو زندگی کے جو دن بھی میسر ہوں ان میں زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کرے اور اگر لمبی عمر ملے تو اسے اپنے رب کا بے حد شکر گزار ہونا چاہیےکہ اس کا رب اسے اچھے عمل کرنے کا موقع دے رہا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے ہم عصروں کے بعد دنیا سے رخصت ہونے کے باوجودنیک اعمال کی کثرت کرکے اُن سے پہلے جنت میں داخل ہوسکتا ہے۔(اس پر حدیث آگے آرہی ہے، مسند احمد: 1401، سلسلہ احاديث صحيحہ ترقیم البانی: 654)
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے ایسے نیک بندوں میں شامل فرمائے۔ آمین
(ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعادت بڑھاپا، مؤلف: محمد اجمل خان) ۔پرنٹیڈ کتابیں موجود ہیں جو مؤلف سے 03262366183 پر واٹس اپ کرکے حاصل کرسکتے ہیں۔
۔
 

محمد اجمل خان

وفقہ اللہ
رکن
لمبی عمر کی دعا
اللہ تبارک و تعالیٰ نے بندۂ مومن کی لمبی عمر میں دنیا و آخرت کی بے شمار خیر و برکت رکھی ہے۔ یہ جاننے کے بعد ہمارے دلوں میں اپنے اور اپنے پیاروں کے لیے لمبی عمر کی دعا کرنے کی شدید خواہش کا پیدا ہونا لازمی ہے، جس کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ لمبی عمر کی دعا کرنا جائز ہے یا نہیں اور اگر جائز ہے تو یہ دعا کس طرح کرنی چاہیے؟
خود اپنی لمبی عمر کی دعا کرنا یا کسی کو، خاص کر اپنے پیاروں کو لمبی عمر کی دعا دینا جائز ہے لیکن مطلق لمبی عمر کی دعا کرنا یا دینا مناسب نہیں ہے ، کیونکہ لمبی عمر اچھی بھی ہوسکتی ہے اور بری بھی، اس لیے کہ ہماارے پیارے نبی کریم ﷺ فرمایا ہے کہ ’’لوگوں میں سب سے بدتر وہ شخص ہے جس کی عمر لمبی ہو اور عمل برا ہو‘‘۔ (سنن ترمذي: 2330)
چنانچہ لمبی عمر کی دعا کس طرح کی جائے، آئیے اسے میں نبی محترم ﷺ کی تعلیمات سے سمجھتے ہیں۔ قربان جائیے صحابہ کرام پر جنہوں نےہر چھوٹی بڑی بات آپ ﷺ سے دریافت کی اور محدیثین کرام رحمہم اللہ پر جنہوں نے ان باتوں کو ہم تک پہنچانے کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی۔
سیدنا انس بن مالک کہتے ہیں: میری ماں مجھے رسول اللہ ﷺ کے پاس لے گئیں اور کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ ! یہ آپ کا چھوٹا سا خادم ہے، اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا فرما دیں، تو آپ ﷺ نے یہ دعا دی: اے اللہ! اس کا مال اور اس کی اولاد زیادہ کر دے، اس کو لمبی عمر عطا فرما اور اسے بخش دے۔ سیدنا انس کہتے ہیں: میرا مال زیادہ ہو گیا، میر عمر اتنی لمبی ہو گئی کہ میں اپنے اہل و عیال سے شرماتا ہوں اور میرے پھل پک کر توڑنے کے قابل ہو گئے، اور چوتھی چیزمغفرت ہے، (‏‏‏‏اس کا آخرت میں پتہ چلے گا، اور ان شاء اللہ مغفرت بھی ہوگی)۔ (سلسلہ احادیث صحیحہ، ترقیم البانی: 2541)
ایک اور حدیث میں ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے حضرت انس کے لیے برکت کی جو دعا فرمائی وہ یہ تھی:
اللَّهُمَّ أَكْثِرْ مَالَهُ وَوَلَدَهُ وَبَارِكْ لَهُ فِيمَا أَعْطَيْتَهُ ۔ ۔ ۔ یا اللہ! اس کے مال و اولاد کو زیادہ کر اور جو کچھ تو نے اسے دیا ہے، اس میں اسے برکت عطا فرمائیو۔(صحيح البخاري: 6334)
یعنی نبی اکرم ﷺ نے اپنی دعا میں ہر چیز کو برکت کے ساتھ منسلک کر دیا تھا، اسی لیے حضرت انس کو زندگی کی وہ ساری برکات نصیب ہوئے جس کی ہر بندۂ مومن اس دنیا یں تمنا کرسکتا ہے۔
آج بھی عربوں میں اسی طرح دعا دینے کا رواج عام ہے چونکہ یہی اسلام کی تعلیم ہے، عرب ہم سے زیادہ قریب دین اسلام کے ہیں۔ لیکن افسوس کہ ہم برصغیر کے مسلمان دین سے دوری کی وجہ سے ان باتوں کو جانتے ہی نہیں اور اپنے پیاروں کو صرف لمبی عمر کی دعائیں دیتے ہیں یہ سمجھے بغیر کہ لمبی عمر میں ان کے اعمال اچھے ہوں گے یا برے، انہیں عافیت و راحت والی لمبی زندگی نصیب ہوگی یا دکھ، درد، بیماری، تنگ دستی اور بدنصیبی ان کا مقدر بنے گی۔
لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم بھی اپنے لیے اور اپنے پیاروں کے لیے لمبی عمر کی دعاؤں میں خیر و عافیت، برکت و مغفرت، اطاعت و فرمانبرداری، صحت و تندرستی اور نیک اعمال کی توفیق جیسے الفاظ ضرور شامل کیا کریں،
چنانچہ
 ہم اپنی لمبی عمر کی دعا اس طرح کریں کہ اے اللہ آپ اپنی اطاعت و فرمانبرداری پر مجھے لمبی عمر عطا فرما۔
 یا یہ دعا کہ اے اللہ خیر و برکت کے ساتھ میری عمر طویل کر دے اور مجھے نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرما۔
 یا یہ دعا کرے کہ اے اللہ مجھے صحت و عافیت، خیر و برکت اور نیک اعمال کرنے کی توفیق کے ساتھ لمبی عمر عطا فرما۔
اللہ تعالیٰ ہمیں صحت و عافیت، خیر و برکت اور اور ایمان و عمل میں استقامت کے ساتھ بابرکت و باسعادت لمبی عمر عطا فرمائے ۔ آمین
(ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعادت بڑھاپا، مؤلف: محمد اجمل خان) ۔پرنٹیڈ کتابیں موجود ہیں جوہدیتاً حاصل کی جاسکتی ہے۔
 

محمد اجمل خان

وفقہ اللہ
رکن
لمبی عمر کی دعا
اللہ تبارک و تعالیٰ نے بندۂ مومن کی لمبی عمر میں دنیا و آخرت کی بے شمار خیر و برکت رکھی ہے۔ یہ جاننے کے بعد ہمارے دلوں میں اپنے اور اپنے پیاروں کے لیے لمبی عمر کی دعا کرنے کی شدید خواہش کا پیدا ہونا لازمی ہے، جس کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ لمبی عمر کی دعا کرنا جائز ہے یا نہیں اور اگر جائز ہے تو یہ دعا کس طرح کرنی چاہیے؟
خود اپنی لمبی عمر کی دعا کرنا یا کسی کو، خاص کر اپنے پیاروں کو لمبی عمر کی دعا دینا جائز ہے لیکن مطلق لمبی عمر کی دعا کرنا یا دینا مناسب نہیں ہے ، کیونکہ لمبی عمر اچھی بھی ہوسکتی ہے اور بری بھی، اس لیے کہ ہماارے پیارے نبی کریم ﷺ فرمایا ہے کہ ’’لوگوں میں سب سے بدتر وہ شخص ہے جس کی عمر لمبی ہو اور عمل برا ہو‘‘۔ (سنن ترمذي: 2330)
چنانچہ لمبی عمر کی دعا کس طرح کی جائے، آئیے اسے میں نبی محترم ﷺ کی تعلیمات سے سمجھتے ہیں۔ قربان جائیے صحابہ کرام پر جنہوں نےہر چھوٹی بڑی بات آپ ﷺ سے دریافت کی اور محدیثین کرام رحمہم اللہ پر جنہوں نے ان باتوں کو ہم تک پہنچانے کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی۔
سیدنا انس بن مالک کہتے ہیں: میری ماں مجھے رسول اللہ ﷺ کے پاس لے گئیں اور کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ ! یہ آپ کا چھوٹا سا خادم ہے، اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا فرما دیں، تو آپ ﷺ نے یہ دعا دی: اے اللہ! اس کا مال اور اس کی اولاد زیادہ کر دے، اس کو لمبی عمر عطا فرما اور اسے بخش دے۔ سیدنا انس کہتے ہیں: میرا مال زیادہ ہو گیا، میر عمر اتنی لمبی ہو گئی کہ میں اپنے اہل و عیال سے شرماتا ہوں اور میرے پھل پک کر توڑنے کے قابل ہو گئے، اور چوتھی چیزمغفرت ہے، (‏‏‏‏اس کا آخرت میں پتہ چلے گا، اور ان شاء اللہ مغفرت بھی ہوگی)۔ (سلسلہ احادیث صحیحہ، ترقیم البانی: 2541)
ایک اور حدیث میں ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے حضرت انس کے لیے برکت کی جو دعا فرمائی وہ یہ تھی:
اللَّهُمَّ أَكْثِرْ مَالَهُ وَوَلَدَهُ وَبَارِكْ لَهُ فِيمَا أَعْطَيْتَهُ ۔ ۔ ۔ یا اللہ! اس کے مال و اولاد کو زیادہ کر اور جو کچھ تو نے اسے دیا ہے، اس میں اسے برکت عطا فرمائیو۔(صحيح البخاري: 6334)
یعنی نبی اکرم ﷺ نے اپنی دعا میں ہر چیز کو برکت کے ساتھ منسلک کر دیا تھا، اسی لیے حضرت انس کو زندگی کی وہ ساری برکات نصیب ہوئے جس کی ہر بندۂ مومن اس دنیا یں تمنا کرسکتا ہے۔
آج بھی عربوں میں اسی طرح دعا دینے کا رواج عام ہے چونکہ یہی اسلام کی تعلیم ہے، عرب ہم سے زیادہ قریب دین اسلام کے ہیں۔ لیکن افسوس کہ ہم برصغیر کے مسلمان دین سے دوری کی وجہ سے ان باتوں کو جانتے ہی نہیں اور اپنے پیاروں کو صرف لمبی عمر کی دعائیں دیتے ہیں یہ سمجھے بغیر کہ لمبی عمر میں ان کے اعمال اچھے ہوں گے یا برے، انہیں عافیت و راحت والی لمبی زندگی نصیب ہوگی یا دکھ، درد، بیماری، تنگ دستی اور بدنصیبی ان کا مقدر بنے گی۔
لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم بھی اپنے لیے اور اپنے پیاروں کے لیے لمبی عمر کی دعاؤں میں خیر و عافیت، برکت و مغفرت، اطاعت و فرمانبرداری، صحت و تندرستی اور نیک اعمال کی توفیق جیسے الفاظ ضرور شامل کیا کریں، چنانچہ
 ہم اپنی لمبی عمر کی دعا اس طرح کریں کہ اے اللہ آپ اپنی اطاعت و فرمانبرداری پر مجھے لمبی عمر عطا فرما۔
 یا یہ دعا کہ اے اللہ خیر و برکت کے ساتھ میری عمر طویل کر دے اور مجھے نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرما۔
 یا یہ دعا کرے کہ اے اللہ مجھے صحت و عافیت، خیر و برکت اور نیک اعمال کرنے کی توفیق کے ساتھ لمبی عمر عطا فرما۔
اللہ تعالیٰ ہمیں صحت و عافیت، خیر و برکت اور اور ایمان و عمل میں استقامت کے ساتھ بابرکت و باسعادت لمبی عمر عطا فرمائے ۔ آمین
(ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعادت بڑھاپا، مؤلف: محمد اجمل خان) ۔پرنٹیڈ کتابیں موجود ہیں جوہدیتاً حاصل کی جاسکتی ہے۔ کتاب لینے کے لیے رابطہ کیجیے: 03262366183 پر
 

محمد اجمل خان

وفقہ اللہ
رکن
لمبی عمر کی بد دعا

جس طرح لمبی عمر کی دعا دی جاتی ہے اسی طرح لمبی عمر کی بد دعا بھی کی جاتی ہے۔ اکثر لوگ ظالم و جابر حکمران کے حق میں عمر درازی کی دعائیں کرتے ہیں تاکہ وہ عبرت کا نشان بنا لمبی عمر تک زندہ رہے۔ اگرچہ کسی مسلمان کا شیوہ نہیں کہ وہ کسی کے حق میں بد دعا کرے لیکن ظالم کے حق میں مظلوم بد دعا کر سکتا ہے اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مظلوم کی بد دعا سے بچو، یہ چنگاریوں کی طرح آسمان کی طرف اٹھتی ہے۔ (سلسلہ احاديث صحيحہ، ترقیم البانی: 871)
تاریخ اسلام میں حضرت سعد بن ابی وقاص ﷛ کا ایک کوفی کے لیے لمبی عمر کی بد دعا کرنے کا ذکر ملتا ہے ۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت سعد بن ابی وقاص ﷛ کو کوفہ کا گورنر بنا کر بھیجا۔ آپ ﷛ کوفہ میں اپنی فرائضِ منصبی بخیر و خوبی انجام دیتے رہے لیکن بد دیانت اہل کوفہ نے خلیفۃ المسلمین کی دربار میں آپ ﷛ کی شکایت کر دی۔ کوفہ والوں نے حضرت سعد ﷛ کے متعلق یہاں تک کہہ دیا کہ وہ تو اچھی طرح نماز بھی نہیں پڑھا سکتے۔ چنانچہ حضرت عمر ﷛ نے حضرت سعد ﷛کو معزول کر کے عمار ﷛ کو کوفہ کا حاکم بنایا اور حضرت سعد ﷛ کو اپنے دربار میں بلا بھیجا۔ جب حضرت سعد ﷛آئے تو ان سے پوچھا: اے ابواسحاق! ان کوفہ والوں کا خیال ہے کہ تم اچھی طرح نماز نہیں پڑھا سکتے ہو۔ (ابواسحاق حضرت سعد ﷛ کی کنیت تھی)
اس پر حضرت سعد ﷛ نے جواب دیا: اللہ کی قسم! میں تو انہیں نبی کریم ﷺ ہی کی طرح نماز پڑھاتا تھا، اس میں کوتاہی نہیں کرتا۔ عشاء کی نماز پڑھاتا تو اس کی پہلی دو رکعات میں (قراءت) لمبی کرتا اور دوسری دو رکعتیں ہلکی پڑھاتا۔
حضرت عمر ﷛ نے فرمایا: اے ابواسحاق! مجھ کو تم سے امید بھی یہی تھی۔ پھر حضرت عمر ﷛ نے حضرت سعد ﷛ کے ساتھ ایک یا کئی آدمیوں کو کوفہ بھیجا۔ قاصد نے ہر ہر مسجد میں جا کر ان کے متعلق پوچھا۔ سب نے آپ کی تعریف کی لیکن جب مسجد بنی عبس میں گئے۔ تو ایک شخص جس کا نام اسامہ بن قتادہ اور کنیت ابوسعدہ تھی کھڑا ہوا۔اس نے کہا کہ جب آپ نے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھا ہے تو (سنیے کہ) سعد
(1)- نہ فوج کے ساتھ خود جہاد کرتے تھے،
(2)- نہ مال غنیمت کی تقسیم صحیح کرتے تھے ،
(3)- اور نہ فیصلے میں عدل و انصاف کرتے تھے۔
حضرت سعد ﷛ نے (یہ سن کر) فرمایا کہ اللہ کی قسم! میں (تمہاری اس بات پر) تین دعائیں کرتا ہوں۔ اے اللہ! اگر تیرا یہ بندہ جھوٹا ہے اور صرف ریا و نمود کے لیے کھڑا ہوا ہے تو تُو
(1) اس کی عمردراز کر اور
(2) اسے خوب محتاج بنا
(3) اور اسے فتنوں میں مبتلا کر
اس کے بعد (وہ شخص اس درجہ بدحال ہوا کہ) جب اس سے پوچھا جاتا تو کہتا کہ میں ایک بوڑھا اور پریشان حال آدمی ہوں، مجھے سعد (﷛) کی بد دعا لگ گئی ہے۔ اور فتنوں نے اُسے ایسا گھِیرا کہ بڑھاپے میں بھی وہ لڑکیوں کو چھیڑتا تھا۔
عبدالملک نے بیان کیا کہ میں نے اسے دیکھا اس کی بھویں بڑھاپے کی وجہ سے آنکھوں پر آ گئی تھی لیکن پھر بھی راستوں میں وہ لڑکیوں کو چھیڑتا تھا۔( صحیح بخاری: 755)
سعد ﷛ مستجاب الدعوات تھے کیوں کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں دعا دی تھی: اللَّهُمَّ اسْتَجِبْ لِسَعْدٍ إِذَا دَعَاكَ ۔۔ ’’اے اللہ! سعد جب تجھ سے دعا کریں تو ان کی دعا قبول فرما‘‘۔ (سنن ترمذي: 3751)
لہذا حضرت سعد ﷛ کی دعا قبول ہوئی۔ اس کوفی نے اپنی ریا و نمود کے لیے ایک صحابیٔ رسول اللہ ﷺ حضرت سعد ﷛ کی شان میں گستاخی کی، آپ ﷛ پر تین الزامات لگائے اور آپ ﷛ پر بہتان باندھا، جس کی پاداش میں حضرت سعد ﷛ نے بھی اسے تین بد دعائیں دیں، جو کہ دنیا ہی میں اس پر پوری ہوئیں یعنی اس کی عمر لمبی ہوئی، وہ خوب بدحال ہوا اور وہ فتنوں میں مبتلا ہوا جبکہ اس کے آخرت کی عذاب کے بارے میں تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
اس واقعے سے معلوم ہوا کہ لمبی عمر کی بد دعا بھی کی جا سکتی ہے۔
ایک صاحب کی بیوی انہیں بہت ستاتی اور تنگ کرتی تھی۔ ایک دن عاجز ہو کر اپنی بیوی کو کہا کہ میں دعا کرتا ہوں کہ میرے بعد تم بیس (20) سال تک بیوگی کی زندگی گزارو۔ یہ دعا قبول ہوئی اور آج تقریباً بیس (20) سال ہو چکے ہیں وہ محترمہ بڑھاپے کے دکھ درد کے ساتھ بیوگی کی زندگی بسر کر رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے لیے آسانیاں پیدا فرمائے، آمین۔
میاں بیوی کو چاہیے کہ ایک دوسرے کا احترام کریں اور کسی کو اتنا نہ ستائیں کہ کوئی ایسی بد دعا دے دے۔ لہٰذا بابرکت و باسعات بڑھاپے کے لیے ہر میاں بیوی کو ایک دوسرے کو لمبی عمر کی بد دعا دینے سے گریز کرنا چاہیے اور اپنے یا کسی اور کے لیے مطلق لمبی عمر کی دعا بھی نہیں کرنی چاہیے۔
(ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعادت بڑھاپا، اس کتاب کی پرنٹیڈ ہارڈ کاپیاں موجود ہیں جولینا چاہتے ہوں وہ رجوع کرسکتے ہیں۔
 
Top