توہُّمات سے متعلق شرعی اَحکام

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی

دینِ اسلام میں توہُّمات کو سختی سے رد کیا گیا ہے، قبل از اسلام بھی لوگ توہُّم پرستی کا شکار ہوتے تھے۔ عرب معاشرے کے لوگ بیٹی کی پیدائش کو منحوس سمجھتے تھے۔گھروں میں دروازے کے بجائے پچھلی دیوار توڑ کر داخل ہونے کو باعثِ برکت سمجھتے تھے۔


آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لختِ جگرحضرت ابراہیمؓ کی وفات کے دن سورج کو گرہن ہواتھا، کچھ لوگوں نے آپؓ کی وفات کی وجہ سورج گرہن کو سمجھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا خیال کرنے سے منع فرما دیا۔

غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ توہُّمات پر یقین رکھنا درحقیقت ’’تقدیر پر یقین ‘‘کا رد ہے۔ سوائے اللہ کے کوئی دن، پتھر، بشر، چرند پرند یا ستارے وغیرہ انسان کے نفع و نقصان کے خالق نہیں ہوسکتے ۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’مَـآ اَصَابَکَ مِنْ حَسَنَـۃٍ فَمِنَ اللّٰہِ وَمَآ اَصَابَکَ مِنْ سَیِّئَۃٍ فَمِنْ نَّفْسِکَ۔‘‘ (النساء:۷۹)
ترجمہ: ’’تجھے جو بھلائی (یا فائدہ) پہنچے وہ اللہ کی طرف سے ہے، اور تجھے جو برائی(یا نقصان) پہنچے وہ تیرے نفس کی طرف سے (یعنی: تیرے ہی شامتِ اعمال کے سبب)ہے۔‘‘

حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاـ:
’’مَنْ رَدَّتْہُ الطِّیَرَۃُ مِنْ حَاجَۃٍ فَقَدْ اَشْرَکَ، قَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللہِ! مَا کَفَّارَۃُ ذٰلِکَ؟، قَال:’’ اَنْ یَّقُوْلَ اَحَدُہُمْ: اَللّٰہُمَّ لاَ خَیْرَ إِلاَّ خَیْرُکَ وَلاَ طَیْرَ إِلَّا طَیْرُکَ، وَلاَ إِلٰہَ غَیْرُکَ۔‘‘ (مسند احمد بن حنبلؒ، الرقم: ۵۰۴۵)

یعنی:’’بدفالی لینا جس شخص کو اُس کے کسی کام سے روک دے تو اُس نے شرک کیا، لوگوں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! (اگر کوئی ایسا کر بیٹھا ہے) تو اس کا کفارہ کیا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا: اس کا کفارہ یہ ہے کہ وہ شخص اس طرح دعا کرے کہ اے اللہ! تیری طرف سے پہنچنے والی خیر ہی اصل خیر ہے، اور تیری طرف سے پہنچنے والی بُرائی ہی اصل بُراشگون ہے، اور اے اللہ! تیرے سوا ہمارا کوئی معبود نہیں ہے۔‘‘

’’طِیَرَۃ‘‘ بدشگونی اور بدفالی کو کہتے ہیں یعنی انسان کسی چیز کے بارے میں بد گمانی اختیار کرے اور اس بدفالی کاتصور لے لے، زمانۂ جاہلیت میں اِس کا بڑا رواج تھا،لوگ معمولی باتوں سے بد شگونی لیاکرتے تھے، اگر انہیں کہیں جانا ہوتا تو پرندہ کو اُڑاتے، اگر وہ دائیں جانب کو اُڑتا ہواجاتا تو اچھا سمجھتے اور اگر وہ بائیں رخ پر اُڑتا تو اپنے سفر کرنے کونامناسب تصور کرکے اُس سفر سے گریز کرتے، اسی طرح تیروں سے فال نکالتے اور خیر و شر کے فیصلے کرتے۔

حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہواکہ اگردل میں کوئی براشگون پیدا ہو تو مذکورہ دعا پڑھ لینی چاہیے۔ علاوہ ازیں ایسی صورت میں درج ذیل دعا بھی پڑھی جاسکتی ہے:

’’اللّٰہُمَّ لَا یَاْتِيْ بِالْحَسَنَاتِ إِلَّا اَنْتَ وَلاَ یَدْفَعُ السَّیِّئَاتِ إِلَّا اَنْتَ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِکَ۔‘‘ (سنن ابی داؤد، الرقم: ۳۹۱۹)
سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت ہی صاف اور واضح الفاظ میں اس مہینے اور اس مہینے کے علاوہ پائے جانے والے توہُّمات اور قیامت تک کے باطل نظریات کی تردیداور نفی فرما دی اور علی الاعلان ارشاد فرمادیا:

’’لَا عَدْوٰی، وَلَا طِیَرَۃَ، وَلَا ہَامَّۃَ، وَلَا صَفَرَ۔‘‘ (صحیح البخاری، الرقم: ۵۷۰۷)
’’ (اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر) ایک شخص کی بیماری کے دوسرے کو (خود بخود)لگ جانے(کا عقیدہ)، بدشگونی لینا، ایک مخصوص پرندے کی بدشگونی (کا عقیدہ)، اور ماہِ صفر (میں نحوست ہونے کا عقیدہ) سب بے حقیقت باتیں ہیں۔‘‘

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’الطِّیَرَۃُ شِرْکٌ، الطِّیَرَۃُ شرکٌ، الطِّیَرَۃُ شِرْکٌ، ومَا مِنَّا إِلَّا، وَلٰکِنَّ اللہَ یُذْہِبُہٗ بِالتَّوکُّلِ۔‘‘ (السنن لابی داؤد، الرقم: ۳۹۱۵)

یعنی: ’’بدشگونی شرک ہے، بدشگونی شرک ہے، بدشگونی شرک ہے۔ اور ہم میں سے ہر ایک کو (کوئی نا کوئی وہم) ہوجاتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ توکل کی برکت سے اسے دور کر دیتا ہے۔‘‘

بد شگونی کے معنی ہیں: بد فالی اور نحوست، اللہ کے علاوہ کسی چیز کو نفع اور نقصان میں مؤثر بالذات سمجھنا شرک ہے، چونکہ زمانۂ جاہلیت میں لوگ بعض چیزوں اور اعمال سے بد فالی لیتے تھے اور اس کو نحوست میں مؤثر سمجھتے تھے، اس لیے احادیث میں بد شگونی کو شرک قرار دیا گیا ہے۔

توہُّم پرستی جیسے برے خیالات سے بچنے والے کے لیے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے کہ: میری اُمت کے ۷۰ ہزار لوگ بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جو جھاڑ پھونک نہیں کرواتے، بدشگونی نہیں لیتے اور اپنے رب پر بھروسا کرتے ہیں،

جیسا کہ روایت میں ہے:

’’عن ابن عباسؓ اَنَّ رَسُولَ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ: یَدْخُلُ الجَنَّۃَ مِنْ اُمَّتِيْ سَبْعُوْنَ اَلْفًا بِغَیْرِ حِسَابٍ، ہُمُ الَّذِیْنَ لَا یَسْتَرْقُوْنَ، وَلَا یَتَطَیَّرُوْنَ، وَعَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ۔‘‘ (صحیح البخاری، الرقم: ۶۴۷۲)
 
Top