السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
آجکل شادی میں فائرنگ کرنے کی رسم عام ہوچکی ہے حتی کہ اس کو شادی کا ایک اہم جُز سمجھا جانے لگا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شادی میں فائرنگ کرنے کی مروجہ رسم سراسر ناجائز اور گناہ ہے، جس کی وجوہات درج ذیل ہیں:
شادی میں فائرنگ کی یہ رسم فضول خرچی میں داخل ہے جس کی ممانعت قرآن کریم سے ثابت ہے، حتی کہ فضول خرچی کرنے والوں کو شیطان کا بھائی قرار دیا گیا ہے۔
اس آیت سے یہ بات بھی معلوم ہوجاتی ہے کہ فضول خرچی مال کی ناشکری ہے، جس کی وجہ سے یہ فائرنگ بھی مال کی ناشکری میں داخل ہوجاتی ہے۔
جہاں یہ فائرنگ کرنا قانونًا بھی منع ہو وہاں قانون کی خلاف ورزی کا گناہ بھی لازم آتا ہے کیوں کہ مصلحتِ عامّہ پر مبنی ایسے قوانین کی پاسداری کرنا واجب ہوتا ہے۔
اس فائرنگ کی وجہ سے جانی نقصان کا ہوجانا بھی ایک عام مشاہدہ ہے، جس کی وجہ سے اس گناہ کی سنگینی میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔
شادی میں فائرنگ کی رسم عام طور پر فخر وتکبر اور نام ونمود کی نیت سے ادا کی جاتی ہے، اور ان امور کا سنگین گناہ ہونا بھی واضح سی بات ہے جن کی وجہ سے اس گناہ کی قباحت مزید بڑھ جاتی ہے۔
شادی میں فائرنگ کرنے کی رسم مسنون شادی کے بھی خلاف ہے، جس سے اس کی بے برکتی بھی واضح ہوجاتی ہے۔
مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ شادی میں فائرنگ کرنے کی مروّجہ رسم متعدد گناہوں اور خرابیوں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ترک کرنا واجب ہے۔
چنانچہ شیخ الاسلام حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دام ظلہم
ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ:
’’فائرنگ کی یہ رسم فضول خرچی بھی ہے اور متعدد منکرات پر مشتمل ہونے کی وجہ سے واجبُ التَّرک بھی ہے۔‘‘
(فتاویٰ عثمانی: 2/ 309)
آجکل شادی میں فائرنگ کرنے کی رسم عام ہوچکی ہے حتی کہ اس کو شادی کا ایک اہم جُز سمجھا جانے لگا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شادی میں فائرنگ کرنے کی مروجہ رسم سراسر ناجائز اور گناہ ہے، جس کی وجوہات درج ذیل ہیں:
شادی میں فائرنگ کی یہ رسم فضول خرچی میں داخل ہے جس کی ممانعت قرآن کریم سے ثابت ہے، حتی کہ فضول خرچی کرنے والوں کو شیطان کا بھائی قرار دیا گیا ہے۔
چنانچہ سورۃ الاسراء میں ارشاد ہے:
وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيْرًا (26) اِنَّ الْمُبَذِّرِيْنَ كَانُوْا اِخْوَانَ الشَّيٰطِيْنِ وَكَانَ الشَّيْطٰنُ لِرَبِّهِ كَفُوْرًا (27)
ترجمہ: ’’اور اپنے مال کو بے ہودہ کاموں میں نہ اڑاؤ۔ یقین جانو کہ جو لوگ مال کو بے ہودہ کاموں میں اڑاتے ہیں
وہ شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ناشکرا ہے۔‘‘
(آسان ترجمہ قرآن)
وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيْرًا (26) اِنَّ الْمُبَذِّرِيْنَ كَانُوْا اِخْوَانَ الشَّيٰطِيْنِ وَكَانَ الشَّيْطٰنُ لِرَبِّهِ كَفُوْرًا (27)
ترجمہ: ’’اور اپنے مال کو بے ہودہ کاموں میں نہ اڑاؤ۔ یقین جانو کہ جو لوگ مال کو بے ہودہ کاموں میں اڑاتے ہیں
وہ شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ناشکرا ہے۔‘‘
(آسان ترجمہ قرآن)
اس آیت سے یہ بات بھی معلوم ہوجاتی ہے کہ فضول خرچی مال کی ناشکری ہے، جس کی وجہ سے یہ فائرنگ بھی مال کی ناشکری میں داخل ہوجاتی ہے۔
جہاں یہ فائرنگ کرنا قانونًا بھی منع ہو وہاں قانون کی خلاف ورزی کا گناہ بھی لازم آتا ہے کیوں کہ مصلحتِ عامّہ پر مبنی ایسے قوانین کی پاسداری کرنا واجب ہوتا ہے۔
اس فائرنگ کی وجہ سے جانی نقصان کا ہوجانا بھی ایک عام مشاہدہ ہے، جس کی وجہ سے اس گناہ کی سنگینی میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔
شادی میں فائرنگ کی رسم عام طور پر فخر وتکبر اور نام ونمود کی نیت سے ادا کی جاتی ہے، اور ان امور کا سنگین گناہ ہونا بھی واضح سی بات ہے جن کی وجہ سے اس گناہ کی قباحت مزید بڑھ جاتی ہے۔
شادی میں فائرنگ کرنے کی رسم مسنون شادی کے بھی خلاف ہے، جس سے اس کی بے برکتی بھی واضح ہوجاتی ہے۔
مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ شادی میں فائرنگ کرنے کی مروّجہ رسم متعدد گناہوں اور خرابیوں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ترک کرنا واجب ہے۔
چنانچہ شیخ الاسلام حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دام ظلہم
ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ:
’’فائرنگ کی یہ رسم فضول خرچی بھی ہے اور متعدد منکرات پر مشتمل ہونے کی وجہ سے واجبُ التَّرک بھی ہے۔‘‘
(فتاویٰ عثمانی: 2/ 309)