کیا یوںہی چھوڑ دیا جائے گا؟
آج جو لوگ پاکستان جیسے مسلم اکثریتی ملک میں رشوت لے کر، کرپشن کرکے، دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ ڈل کر مال بنانے میں لگے ہوئے ہیں ان کی سوچ کیا ہے؟ مسلم ملک میں مسلمان کہلانے والے یہ لوگ کیا ان باتوں سے آگاہ نہیں ہیں کہ انہیں اپنے ان کالے کرتوتوں کا حساب دینا ہوگا۔ ہرگز نہیں، ان میں یہ سوچ کہاں؟ ان لوگوں نے تو یہ سمجھ رکھا ہے کہ جس طرح ہزاروں کرپشن کے باوجود اس ملک میں یہ لوگ پکڑے نہیں جاتے، اسی طرح آخرت میں بھی انہیں یوں ہی چھوڑ دیا جائے گا، تو سن لیں:
أَيَحْسَبُ الْإِنسَانُ أَن يُتْرَكَ سُدًى ﴿٣٦﴾ سورة القيامة
*’’کیا انسان یہ گمان کرتا ہے کہ اسے یونہی چھوڑ دیا جائے گا؟‘‘*
لیکن یہ کرپٹ و بدعنوان لوگ قرآن مجید کب پڑھتے ہیں جو اس آیت پر غور کرتے اور ان کے دل آخرت میں حساب دینے خوف سے کانپتے۔ چیونکہ یہ کرپٹ لوگ اس ملک کی قانون کے شکنجے میں نہیں آتے اس لیے یہ سب اتنے بے خوف ہوگئے ہیں کہ آخرت اور آخرت میں حساب کتاب کو ہی بھلا بیٹھے ہیں۔
كَلَّا بَلْ تُكَذِّبُونَ بِالدِّينِ ﴿٩﴾ وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحَافِظِينَ ﴿١٠﴾ كِرَامًا كَاتِبِينَ ﴿١١﴾ يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ ﴿١٢﴾ سورة الإنفطار
*’’مگر (اصل بات یہ ہے کہ) تم لوگ جزا و سزا کو جھٹلاتے ہو، حالانکہ تم پر نگراں مقرر ہیں، ایسے معزز کاتب جو تمہارے ہر فعل کو جانتے ہیں‘‘۔*
لہذا ان ظالموں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کی ہر کرپشن کی ویڈیوز ریکارڈنگ ہورہی ہے۔ اور ایک دن آئے گا جب ان کی پکڑ ہوگی، جب ان سے پورا پورا حساب لیا جائے گا اور انہیں ان کی ہر کالے کرتوت کی سزا دی جائے گی۔
یہ کس قدر ظلم اور بے انصافی کی بات ہے کہ آج اس ملک میں جسے کوئی سرکاری عہدہ مل جاتا ہے تو وہ اپنے عہدے کا ناجائز فائدہ اٹھانے لگتا ہے۔ اسے جن کا خادم بنایا جاتا ہے وہ ان کا حاکم بن جاتا ہے، اور جن کے کام کرنے کی اسے ذمہ داری سونپی جاتی ہے، وہ ان کے کام نہیں کرتا بلکہ ان سے پہلے بھتہ لیتا ہے، پھر ان کے کام کرتا ہے ورنہ نہیں کرتا۔
لہذا ایسا شخص یہ جان لے کہ وہ کچھ اور نہیں بلکہ کرپشن و بدعنوانی اور رشوت خوری وغیرہ کے ذریعے جہنم کا ایندھن بننے کی تدبیر اور کوشش کر رہا ہے تو اللہ تعالیٰ کے عدل کا تقاضا یہی ہے کہ اس کی خواہش پوری کرتے ہوئے اسے جہنم میں جھونک دیاجائے۔
إِنَّهُ مَن يَأْتِ رَبَّهُ مُجْرِمًا فَإِنَّ لَهُ جَهَنَّمَ لَا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَحْيَىٰ ﴿٧٤﴾ سورة طه
*(اور) ’’بات یہی ہے کہ جو شخص اپنے رب کے پاس مجرم بن کر آئے گا تو اس کے لئے جہنم ہے، (اور وہ ایسا عذاب ہے کہ) وہ نہ مرے گا اور نہ جیئے گا ‘‘۔ *
اللہ کا فیصلہ انصاف پر مبنی ہے اور اٹل ہے۔ اب جو چاہے اس دنیاوی زندگی میں گناہ اور ظلم و زیادتی میں ملوث ہوکر جہنم میں جانے کی تدبیریں کرے اور جو چاہے نیک اعمال کے ذریعے اس جہنم سے بچنے کی سعی ک۔رے
ہر شخص اپنے اعمال کے ذریعے جہنم میں جانے یا جہنم سے بچنے کا فیصلہ خود کرتا ہے۔
اے اللہ ہمیں گناہ، ظلم و زیادتی سے بچنے اور نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرما تاکہ ہم جہنم سے بچ جائیں۔ آمین
تحریر: محمد اجمل خان
18 دسمبر، 2023
۔