شوہر پردیس میں برسوں سے تھا، بچہ پیدا ہوگیا، حرامی نہیںکہلائے گا

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
”سربکف “مجلہ۵(مارچ، اپریل ۲۰۱۶)
عبد الرشید قاسمی سدھارتھ نگری ﷾

غیر مقلدین کی طرف سے مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کی کتاب "بہشتی زیور" پر جہاں بہت سارے اعتراضات کئے جاتے ہیں، وہیں ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ مولانا اشرف علی تھانوی نے لکھا ہے کہ:
اعتراض: شوہر پردیس میں برسوں سے تھا، بیوی کو بچہ پیدا ہوگیا، قانون شرع سے حرامی نہیں اسی شوہر کا ہے۔
↩جواب: سب سے پہلے "بہشتی زیور" سے اصل مسئلہ نقل کیا جاتا ہے، اس کے بعد مولانا تھانوی ہی کی عبارت کی روشنی میں اس کی وضاحت کی جائے گی ـ

"بہشتی زیور مکمل عکسی، حصہ چہارم" صفحہ 227/ پر مسئلہ اس طرح لکھا ہوا ہے:
میاں پردیس میں ہے اور مدت ہوگئی،برسیں گذر گئیں کہ گھر نہیں آیا، اور یہاں لڑکا پیدا ہوگیا (اور شوہر اس کو اپنا ہی بتاتا ہے) تب بھی وہ از روئے قانون شرع حرامی نہیں، اسی شوہر کا ہے، البتہ اگر شوہر خبر پاکر انکار کرے تو لعان کا حکم ہوگا۔
(بہشتی زیور کامل چوتھا حصہ صفحہ 227)

اور یہ مسئلہ بالکل صحیح ہے، اس لئے کہ نسب اللہ تعالی کی عطا کردہ ایک نعمت ہے (الفرقان آیت 54)
بغیر کسی دلیل قطعی کے کسی کو حرام کار، حرامی، اور ولد الزناء کہنا بہت بڑی تہمت اور گناہ عظیم ہے، اس کا منھ سے نکالنا بھی جائز نہیں۔ لہذا جب تک بعید سے بعید احتمال بھی رہے گا، نسب ثابت کیا جائے گا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

" الولد للفراش وللعاھر الحجر " اور یہاں احتمال ہے، اس لئے کہ زوجیت باقی ہے، ممکن ہے کہ کرامت یا جن کی تسخیر سے دونوں کا اجتماع ہوگیا ہو، ہاں اگر شوہر انکار کرے اور بیوی پر بغیر کسی دلیل کے الزام لگائے، اور لعان کی دیگر شرائط بھی پائی جائیں تو لعان کا حکم ہوگا، بعدہ بچے کو حرامی قرار دے دیا جائے گا ـ یہ ہے اس مسئلہ کی حقیقت
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
واضح رہے کہ نکاحِ صحیح کے بعد اگر کوئی بچہ پیدا ہو تو اس کا نسب شوہر سے ہی ثابت ہوتا ہے، اگر کسی صورت میں یقین بھی ہو کہ بچہ شوہر کے نطفہ سے نہیں ہےبلکہ زنا سے پیدا شدہ ہےپھر بھی اس کا نسب شوہر سے ہی ثابت ہوگا؛ جیسا کہ حدیث میں ہے "بچہ صاحب فراش کی طرف منسوب ہوتا ہےاور زانی کے لیے (نسب و میراث سے) محرومی ہے"۔

البتہ اگر نکاح صحیح کے بعد پیدا ہونے والا بچہ شوہر کے نطفہ سے نہ ہواور شوہر اس کے نسب کا انکار کرے تو اس کا انکاراس وقت تک معتبر نہیں ہے جب تک کہ شوہر عدالت میں لعان کے ذریعہ نسب کی نفی کرے پھرقاضی لعان کی شرائط کے مطابق نسب کی نفی کا فیصلہ کردے، اس صورت میں بچہ کا نسب اس کی ماں سے ثابت کیا جاتا ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں جب دونوں کے درمیان نکاح برقرار تھا، اس دوران بچے کی ولادت ہوئی ہے،اورشوہر نے عدالت سے بچہ کے نسب کی نفی نہیں کروائی تو شرعاً مذکورہ بچے کی نسبت شوہر کی طرف ہی کی جائے گی۔

صحیح بخاری میں ہے:

"الولد للفراش وللعاهر الحجر"۔

(كتاب الفرائض، ص/999، ج/2، ط/قدیمی)

عمدۃ القاری میں ہے:

"وبعض أهل المدينة احتجوا بقوله " الولد الفراش " أن الرجل إذا نفى ولد امرأته لم ينتف به ولم يلاعن به قالوا لأن الفراش يوجب حق الولد في إثبات نسبه من الزوج والمرأة فليس لهما إخراجه منه بلعان ولا غيره وقال جماهير الفقهاء من التابعين ومن بعدهم منهم الأئمة الأربعة وأصحابهم إذا نفى الرجل ولد امرأته يلاعن وينتفى نسبه منه ويلزم أمه"۔

(باب تفسیر المشبھات، ص:170، ج:11، ط:دار احیاء التراث العربی)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"قال أصحابنا: لثبوت النسب ثلاث مراتب (الأولى) النكاح الصحيح وما هو في معناه من النكاح الفاسد: والحكم فيه أنه يثبت النسب من غير عودة ولا ينتفي بمجرد النفي وإنما ينتفي باللعان، فإن كانا ممن لا لعان بينهما لا ينتفي نسب الولد كذا في المحيط۔"

(الباب الخامس عشر فی ثبوت النسب، کتاب الطلاق، ص:536، ج:1، ط:رشیدیه)

فتاوی شامی میں ہے:

"و إن صدقته أربعًا لأنه ليس بإقرار قصدًا، و لاينتفي النسب لأنه حق الولد فلايصدقان في إبطاله.

(قوله: و لاينتفي النسب) لأنه إنما ينتفي باللعان ولم يوجد، وبه ظهر أن ما في شرحي الوقاية والنقاية - من أنها إذا صدقته ينتفي - غير صحيح كما نبه عليه في شرح الدرر والغرر بحر."

(باب اللعان، کتاب الطلاق، ص:486، ج:3، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم
 
Top